2025ء میں ٹیکنالوجی کا عالمی لیڈر؟
ٹیکنالوجی کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ اسی نقطے کو لے کر سب ہی ممالک سافٹ وئیر ٹیکنالوجی میں ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ بڑے ممالک ’دانشورانہ قوانین ‘‘کو اپنے مفاد میںاستعمال کرتے ہیں۔ ان قوانین کے ذریعے سے وہ کمزور ممالک کی مارکیٹوں اور ٹیکنالوجی پر بھی قبضہ کر رہے ہیں ،وہ دوسرے ممالک کی کمپنیوں کو اپنی مارکیٹوں میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں ۔ امریکہ خاص طور پر چین سمیت کئی ممالک کے راستے کی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ایک چینی کمپنی پر حالیہ پابندیاں اس بات کا ثبوت ہیں۔ مگر اب وقت بدل گیا ہے۔امریکہ کے خیال میں چین ٹیکنالوجی کی چوری کے حوالے مناسب اقدامات نہیں اٹھا رہا۔ جہاں ضرورت پڑتی ہے وہ عالمی قوانین کو مان لیتا ہے اور جہاں ضرورت نہیں پڑتی وہاں وہ اس کی حمایت نہیں کرتا۔ کاپی رائٹ اور ٹریڈ مارک کے قوانین وہ اپنے طریقے سے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ حاالانکہ ماضی میں امریکہ نے سٹیم انجن بنائے تو اس انجن کے نمونے انہوں نے دوسرے ممالک سے چوری کیے۔ صنعتی انقلاب کے زمانے میں سیموفلیٹر کے نام سے کون واقف نہیں۔ عالمی میڈیا میں اس کا بڑا چرچا تھا۔ اسے امریکی صنعتی انقلاب کا بانی کہا جاتا ہے لیکن 17 ویں صدی میں یہی شخص برطانیہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ڈیزائن چوری کر کے امریکہ لایا تھا۔اب اسی لئے چین 2025ء میں ٹیکنالوجی کا عالمی لیڈر بننا چاہتا ہے۔ عالمی روبوٹیک اور میڈیکل ٹیکنالوجی کے شعبے میں وہ بے پایاں ترقی کر رہا ہے۔ اسی لیے ’’میڈان چائنہ 2025ء ‘‘ کے انعقاد تک چین ٹیکنالوجی کے شعبے میں دوسرے ممالک سے بہت آگے نکل چکا ہوگا۔چینی رہنمائوں کا کہنا ہے۔۔۔’’ اب کوئی ہمیں گردن سے دبوچ کر ہماری ترقی کا راستہ نہیں روک سکتا‘‘۔بڑی بڑی امریکی کمپنیاں اب چین کے ساتھ مشترکہ منصوبے بنانے پر آمادہ ہیں۔ اس لیے کاپی رائٹس کا معاملہ پیچھے رہ گیا ہے۔ وہ اچھے معاہدوں کے ذریعے دنیا کی لیڈر شپ حاصل کر سکتے ہیں۔ اب دنیا بھر میںدانشورانہ قوانین اور پیٹنٹ کے قوانین ٹھوس بنیادوں پر استوار کیے جا رہے ہیں اور اس کے لیے مخصوص عدالتیں تشکیل دے دی گئی ہیں ۔ 2015ء میں دانشورانہ حقوق اور سبسڈی کے حوالے سے صرف چین میں5لاکھ درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ بہت سی چینی کمپنیاں پیٹنٹ قوانین پر غور کر رہی ہیں۔اگر ہم بھی ایسا کرتے ہیں تو ہمیں بھی بیرون ملک اچھا معاوضہ مل سکتا ہے۔ 2025ء میں چین روبوٹس، برقی کاریں اور مصنوعی ذہانت میں یورپ اور امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یورپ اور امریکہ چین کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔٭…٭…٭