سیالکوٹ اور ٹیکسلا،علم کے قدیم گہوارے
اسپیشل فیچر
پنجاب کی تہذیب و تمدن کے حوالے سے جب ہم یہاں کے علم و اَدب کے پہلو تلاش کرتے ہیں تو کئی شہر اپنے عروج کے زمانے میں نہ صرف یہ کہ سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے خطے کے اہم مراکز میں شمار ہوتے تھے بلکہ علم و اَدب کے میدان میں بھی ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ان قدیم شہروں میں اولین حیثیت کا شہر ٹیکسلا تھا جو آج سے اڑھائی ہزار برس پہلے گندھارا تہذیب کا مرکز تھا۔ اس زمانے میں ٹیکسلا اعلیٰ تعلیم کا مرکز بن چکاتھا۔ شہر میں بہت سی ایسی درسگاہیں تھیں جو صرف اعلیٰ اور تخصیص تعلیم دیتی تھیں۔ ہر درسگاہ کا سربراہ نہایت بلند پایہ علم اور تجربے کا مالک مدرس ہوتا تھا۔ ایک یونیورسٹی شاہی خاندانوں کے لیے وقف تھی۔ ایک وقت میں یہاں 103شہزادے زیرِ تعلیم تھے اور پھر ایک زمانے میں یہاں کے طالب علموں کی تعداد پانچ سو تک پہنچ گئی تھی۔ اس یونیورسٹی میں داخلہ اس قدر مشکل تھا کہ مگدھ کے بادشاہ بمبئی سار نے شاہی طبیب جیوک کمار کے داخلہ کے لیے ٹیکسلا کے بادشاہ پکوساتی کے نام ذاتی خط لکھ کر سفارش کی تھی۔ جیوک نے میڈیسن اور سرجری دونوں شعبوں میں تعلیم حاصل کی تھی اور اپنے وقت کا نامور جراح بنا تھا۔ یہ بھی روایت ہے کہ وہ مہاتما بدھ کا بھی معالج تھا۔ اس شاہی یونیورسٹی کے مقابلے پر اعلیٰ تعلیم کی دوسری بھی متعدد درسگاہیں تھیں۔ جن میں عام لوگوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔سکندرِ اعظم کے حملہ کے وقت بھی ٹیکسلا پنجاب بلکہ پورے برصغیر پاک و ہند کا بڑا علمی مرکز تھا اس لیے اس میں عالموں، دانشوروں اور تارک الدنیا مفکروں کی بھاری تعداد بھی آباد تھی۔ یہاں کے دانشوروں نے ٹیکسلا کے راجہ امبھی کی طرف سے سکندرِ اعظم کی اطاعت اور مہمان نوازی کو غلط قرار دیا تھا۔ سکندر نے دو مشہور فلسفیوں سے بحث بھی کی۔ ہندوستان کے مشہور بادشاہ چندرگپت موریہ نے بھی ٹیکسلا سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہ کوتلیہ چانکیہ کا شاگردتھا۔ اس کے دَور میں بھی ٹیکسلا میں قانون، طب و عسکری فنون کے لیے مشہور درسگاہیں قائم تھیں جن میں ہندوستان اور وسط ایشیا سے طالبِ علم حصول تعلیم کے لیے آتے تھے۔ چندر گپت موریہ کا بیٹا بندوسار جو اس کے بعد اس کا جانشین بنا و ہ علم و اَدب کا دلدادہ تھا۔ ایک مرتبہ اس نے سوریہ کے بادشاہ انٹیوکس سوٹر اول (۳۱۲ق م۔ ۲۸۰ق م) سے کچھ اشیا اور ایک سو معلم طلب کیے تھے۔ اس کے جواب میں انیٹوکس نے اشیا تو بھجوا دیں لیکن مُعلّموں کو بھیجنے سے انکار کردیا اور کہا کہ یونانی قانون کے مطابق مُعلّموں کی فروخت ممنوع ہے۔بندوسار کے دربار میں ہُومر کی شاعری شوق سے سُنی جاتی تھی۔ اس کے مقامی زبانوں میں تراجم بھی ہوتے تھے اور گائی بھی جاتی تھی۔ چندرگپت موریا کا پوتا اور بندوسار کا بیٹا اشوک بھی اس علاقے کا عظیم بادشاہ تھا۔ اس نے پنجاب اور گندھارا کے دیگر علاقوں میں بدھ مذہب کی اشاعت وترویج کے لیے کئی اقدامات کئے تھے۔ اس نے ان تعلیمات کو عام کرنے کے لیے متعدد مقامات پر مذہبی عبارات پر مبنی کتبے نصب کروائے۔ یہ کل36 فرامین تھے۔ تقریباً یہ سارے فرامین ٹیکسلا کے کندہ نویسوں نے لکھے تھے اور سارے یک سنگی ستون ٹیکسلا کے ماہر سنگتراشوں نے پہاڑ کی چٹانوں سے تراشے تھے۔سیالکوٹ بھی ماضی قدیم سے ہی علم واَدب کی پہچان رہا ہے۔ قبل مسیح دَور میں پنجاب کے انڈو یونانی بادشاہوں میں مہاراجہ ملندہ یا منیا نڈر سب سے اہم تھا۔ اس نے سکالہ یعنی سیالکوٹ کو اپنا پایۂ تخت بنایا تھا۔ اس زمانے میں سیالکوٹ نہ صرف ایک خوشحال شہر تھا بلکہ عالموں سے بھرا پڑا تھا۔ ملندہ خود ایک عالم تھا۔ وہ اکثر عالموں سے بحث کرتا مگران سب بحثوں سے غیر مطمئن رہا اور اس نے آخر میں کہا سارا انڈیا ایک خالی چیز ہے۔ یہ بالکل بھوسے کی طرح ہے۔ کوئی راہب یا برہمن ایسا نہیں ہے جو میرے شکوک کو دُور کر سکے۔ چنانچہ اس نے سیالکوٹ سے سب عالموں اور دانشوروں کو نکال دیا اور بارہ سال یہ شہر علماء سے خالی رہا جو شہر میں رہ گئے انہیں خاموش کر دیا گیا۔ بارہ سال بعد مشہور بدھ راہب، ناگ سینااپنے ہمراہیوں کے ساتھ سیالکوٹ وارد ہوا۔ بادشاہ ملندہ نے ناگ سینا سے بہت سے سوالات وجوابات کے بعد خود بدھ مذہب اختیار کرلیا۔ مغل دورِ حکومت میں سیالکوٹ علم و اَدب کا ایک اہم مرکز تھا۔ عبدالحکیم سیالکوٹی کا مدرسہ پورے پنجاب میں شہرت رکھتا تھا۔ اس مدرسہ سے حضرت مجدد الف ثانیؒ اور شاہجہان کے وزیراعظم نواب سعد اللہ خاں چنیوٹی بھی فیض یاب ہوئے تھے۔ انگریزی عہد میں یہاں مرے کالج جیسی درسگاہ قائم ہوئی۔ آج بھی یہاں تعلیم کے بہت سے اہم ادارے قائم ہیں۔ فلسفی اور شاعر علامہ محمد اقبالؔ ، فیض احمد فیضؔ، اثر صہبائی، مختار مسعود اور اصغر سودائی بھی اس شہر کے سپوت ہیں۔