نوبیل انعام کے سکینڈلز

نوبیل انعام کے سکینڈلز

اسپیشل فیچر

تحریر : ایمی ٹکانن


نوبیل انعام پہلی مرتبہ 1901ء میں دیا گیا اور تب سے دنیا کے اعلیٰ ترین انعامات میں سے ایک ہے۔ تمام تر شہرت کے باوجودیہ سکینڈلز سے محفوظ نہیں رہا۔ اسے سبکی کا سامنا ہوا اور جیتنے والوں پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ ذیل میں کچھ ایسی ہی اہم داستانیں بیان کی جا رہی ہیں۔ ’’موت کا سوداگر‘‘:نوبیل انعام پر تنازع اس کے بانی الفریڈ برنہارڈ نوبیل سے شروع ہوتا ہے۔ ڈائنامائٹ اور اور دیگر دھماکا خیز اشیاء کے موجد ہونے کی بناء پر اس کی شہرت اچھی نہیں تھی۔ دراصل ایک فرانسیسی اخبار نے ابہام کی وجہ سے قبل از مرگ یہ شہ جما دی ’’موت کا سوداگر مر گیا‘‘۔ پھر لکھا گیا کہ الفریڈ نوبیل ماضی کی نسبت لوگوں کو تیزی سے مارنے کے طریقے تلاش کر کے امیر بنا‘‘۔ غالباً قبل از وقت اعلانِ وفات نے اسے اپنے نام پر انعام کی تخلیق کی تحریک دی۔ 5 فیصد:2014ء تک 864 افراد اور 25 تنظیموں کو نوبیل انعام دیے جا چکے تھے۔ جیتنے والوں میں صرف 47 عورتیں تھیں، جس کی وجہ سے بعض لوگوں نے دعویٰ کیا کہ انعام کا تعین کرنے والی کمیٹیاں عورتوں کو نظرانداز کرتی ہیں۔ اس کی حوالے سے ایک مبینہ سبکی کا تعلق جوسلین بیل برنل سے ہے جس نے 1967ء میں پلسارز (pulsars) دریافت کیے اور بعد ازاں اپنے ایک مشیر انٹونی ہیوش کے ساتھ تحقیقی مقالہ لکھا۔ البتہ صرف ہیوش اور ایک اور ساتھی مارٹن ریل کو 1974ء میں پلسارز کی دریافت پر فزکس کا نوبیل انعام دے دیا گیا۔ امن انعام : شاید سب سے زیادہ متنازع امن کا نوبیل انعام ہے۔ اسے پانے والے بہت سے افراد کو امن مخالف رویے کے سبب تنقید کا سامنا رہا۔ بطور مذاق: کون ہے؟ ایڈولف ہٹلر۔ ایڈولف ہٹلر کون؟ ایڈولف ہٹلر جسے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ اس منظرنامے پر آپ کو ہنسی تو نہیں آئی؟ شائدنہیں آئی ہوگی۔ درحقیقت اس انعام کی فہرست میں ہٹلر کا نام 1939ء میںشامل کیا گیا تھا۔ ایک سویڈش قانون ساز نے یہ نام بطور مذاق شامل کیا، لیکن یہ کسی کو مذاق لگا نہیں۔ اس کے بجائے اس پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور نامزدگی کو فوراً واپس لے لیا گیا۔ البتہ 1945ء اور 1948ء میں سوویت یونین کے رہنما جوزف سٹالن کا نام سنجیدگی سے شامل کیا گیا تھا۔ شکریہ، مگر نہیں چاہیے:بیشتر افراد نوبیل انعام کو اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتے ہیں، لیکن اسے جیتنے والوں میں سے2 نے اسے لینے سے رضاکارانہ طور پر انکار کیا۔ یاں پال سارترنے 1964ء میں ادب کا انعام نہ لیا۔ 1974ء میں لی ڈوک تھو نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کیا کہ ’’ابھی امن قائم نہیں ہوا۔‘‘ اسے ہنری کسنجر کے ساتھ جنگ ویت نام کے خاتمے کے لیے کام کرنے پر امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔(ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا) بشکریہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
انٹرنیٹ،فائروال اور وی پی این

انٹرنیٹ،فائروال اور وی پی این

کون نہیں جانتا کہ انٹر نیٹ کا استعمال دور حاضر میں ایک طالب علم سے لے کر معمولی بزنس مین، صنعتکار غرض کہ ہر شعبہ ہائے زندگی کی ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔آپ کی یاداشت کو تازہ کرتے چلیں کہ ''کمپیوٹر سائنس‘‘ نے باقاعدہ طور پر 1950ء کے آس پاس خودآپ کو نئے علوم کی فہرست میں شامل کرا لیا تھا، جبکہ 1989ء کے آخر میں سوئٹزرلینڈ کے ایک برطانوی کمپیوٹر سائنس دان ٹم برنرزلی کی تحقیق کے نتیجے میں ورلڈ وائیڈ ویب نے ہائپر ٹیکسٹ دستاویزات کو انفارمیشن سسٹم سے جوڑ دیا تھا ۔جس کے نتیجے میں 1990ء کی دہائی کے وسط میں انٹر نیٹ نے تجارت، ثقافت، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ ہائے علوم میں انقلابی اثرات مرتب کرنا شروع کر دئیے تھے۔ جس میں ای میل ، فوری پیغام رسانی، وائس اوور ، انٹرنیٹ پروٹوکول، ٹیلی فون کالز ، ویڈیو کالز ، ورلڈ وائیڈ ویب ، سوشل نیٹ ورکنگ اور آن لائن شاپنگ جیسی سہولیات نے انٹر نیٹ کی اہمیت کو انسانی روزمرہ زندگی کا اتنا عادی بنا دیا کہ کسی بھی تکنیکی خرابی یا انٹر نیٹ کی روانی میں معمولی سی کمی بھی انسانی معمولات زندگی کو معطل کر کے رکھ دیتی ہے۔ پاکستان میں انٹر نیٹ تک عام صارفین کی دسترس 1993ء کے آس پاس شروع ہوئی تھی۔ اس وقت یہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام ''یو این ڈی پی‘‘ کی معاونت سے ایک پراجیکٹ کے طور پر متعارف ہوا تھا جسے ''سسٹینیبل ڈویلپمنٹ نیٹ ورکنگ پروگرام‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ابتدا میں صرف چند بڑی کارپوریشنز، بنکوں، اہم سرکاری دفاتر کو ہی اس تک رسائی دی گئی۔ بعد ازاں 1995 میں ''ڈیجی کام‘‘ نامی ایک نجی کمپنی نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے اپنی ڈائل اپ انٹرنیٹ سروس کا آغاز کیا، جس کی سپیڈ محظ 64 کے بی پی ایس تھی۔ پھر اسی سال پاکستانی قومی ادارے ''پی ٹی سی ایل‘‘ نے بھی اپنی ایک ذیلی کمپنی '' پاک نیٹ‘‘ کے ذریعے ڈائل اپ سروس کا آغاز کیا تھا۔ مارچ 2000ء میں پاکستان میں پہلی مرتبہ انٹر نیٹ ٹریفک کو ''بیک بون ‘‘یعنی مرکزی کنیکشن لنک کے ذریعے جوڑ دیا گیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر سیٹلائٹ سے فائبر پر منتقل ہونے کا زیر سمندر کیبل بچھانے کا منصوبہ تھا۔اس منصوبے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے ذریعے سیٹلائٹ کے مقابلے میں ڈیٹا برق رفتاری سے فوری طرف پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتا تھا۔ بنیادی طور پر پاکستان میں تیز ترین انٹرنیٹ کی تاریخ کا یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ اچانک کیا ہوا ؟حالیہ چند مہینوں سے اچانک انٹر نیٹ سروس کی بعض علاقوں میں بندش جبکہ متعدد علاقوں میں اس کی سست رفتاری کی شکایات نے پورے ملک میں معمولات زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ اگرچہ سرکاری طور پر متعلقہ ادارے اس کی اصل وجوہات کا تعین کرنے میں ابھی تک خاموش ہیں تاہم بعض سرکاری حکام غیر مبہم انداز میں اسے قومی سلامتی معاملات سے جوڑتے ہیںجبکہ کچھ حکومتی ارکان نجی محفلوں میں برملا کہتے دیکھے گئے ہیں کہ '' سوشل میڈیا ایک ایسا شتر بے مہار ہے جسے لگام دینا وقت کی ضرورت ہے۔ یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ انٹرنیٹ کی بندش یا سست رفتاری کا مسئلہ پاکستان میں پہلی دفعہ پیش نہیں آرہا بلکہ مختلف مواقع پر اس کی بندش ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ ایسا اکثر سکیورٹی خدشات کے دوران ہوتا ہے جیسے محرم الحرام یا اسی طرح کے دیگر حساس ایام کے دوران۔ اسی طرح فروری میں حالیہ انتخابات کے دوران بھی سکیورٹی وجوہات کے پیش نظر ٹوئٹر ، جسے اب''ایکس‘‘ کا نام دیا گیا ہے پر ملک بھر میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ لیکن اس مرتبہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور وٹس ایپ کے استعمال میں حکومتی سطح پر مداخلت کی وجہ سے اندرونی بالخصوص بیرون ملک کمپنیوں کے ساتھ پاکستان میں بیٹھ کر کام کرنے والے انفرادی اور کلائنٹس کے ساتھ مل کر فری لانسنگ کرنے والوں کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انٹرنیٹ کی سست رفتاری اور اس کی بندش کے سبب لوگوں نے متعدد ''چور راستے‘‘ تلاش کرنا شروع کئے تو ملک بھر میں ''وی پی این ‘‘ انٹرنیٹ کی سست رفتاری کو دور کرنے والا ایک اہم ذریعہ بن کر سامنے آیا۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سال مارچ میں وی پی این سروسز مہیا کرنے والی سوئس کمپنی ''پروٹون‘‘ کے اس بیان سے کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے اندر وی پی این کے استعمال میں 600گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وی پی این سروسز مہیا کرنے والی دوسری کمپنیوں کا موقف بھی کچھ ایسا ہی ہے۔وی پی این کیا ہے؟بنیادی طور پر وی پی این ''ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک‘‘ کا مخفف ہے جو عام طور پر انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال یا راز داری کو ئقینی بنانے کیلئے ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ استعمال کرنے والے کی شناخت اور مقام کو بھی خفیہ رکھتا ہے۔ اس طرح اس کے استعمال کرنے والے ایسی ویب سائٹس تک بھی رسائی کو ممکن بنا لیتے ہیں جن پر کسی ملک میں پابندی ہوتی ہے۔اس کا سب سے زیادہ فائدہ پرائیویٹ انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کو اس طرح ہوتا ہے کہ جہاں مختلف سائبرحملوں کا سامنا ہو سکتا ہے وی پی این کے استعمال سے ہر قسم کے خطروں سے نجات مل جاتی ہے۔اسکے ساتھ ساتھ وی پی این کے استعمال سے ایسی ویب سائٹس کے مواد تک رسائی ہو جاتی ہے جو عام طور پر ممکن نہیں ہوتی۔وی پی این کے استعمال میں اس وقت اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا جب رواں برس فروری میں پاکستان میں انٹرنیٹ پر پابندی اور ایکس تک رسائی محدود کر دی گئی۔ اس بارے حکومتی موقف میں ایکس پر پابندی کو ملکی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا گیا تھا ۔ مزید براں چونکہ ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے اور ایکس چونکہ ایک غیر ملکی کمپنی ہے جس کیلئے ملکی سلامتی کے تناظر میں یہ خطرہ مول نہیں لیا جا سکتا۔ البتہ پی ٹی اے کے سربراہ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کے پاس وی پی این کو رجسٹرڈ کرنے کے علاوہ اب کوئی اور راستہ نہیں ہے۔اس کے تحت ایسی پالیسی وضع کی جارہی ہے جس کے تحت صرف رجسٹرڈ وی پی این کمپنیاں ہی پاکستان میں کام کر سکیں گی۔مسئلہ اتنا آسان نہیں !ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں غیر قانونی یا غیر رجسٹرڈ شدہ وی پی این پر پابندی رازداری کے حق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔یہ شہریوں کی معلومات تک رسائی اور آزادی رائے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ وزارت داخلہ نے رواں سال جولائی میں انٹرنیٹ کی بندش بارے سندھ ہائی کورٹ میں جو رپورٹ جمع کرائی اس کے مطابق ایکس کو ملکی سالمیت کیلئے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایکس پر ملکی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد اپ لوڈ کیا جاتا ہے، ایکس چونکہ ایک غیر ملکی کمپنی ہے جسے متعدد بار تنبیہ کی گئی کہ وہ قانون پر عمل کرے ۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا کی آزادی نے بذریعہ انٹرنیٹ پاکستان جیسے ملک کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف انٹر نیٹ کا استعمال ہماری روزمرہ زندگی میں جزو لاینفک کی صورت اختیار کر گیا ہے ، وہیں دوسری طرف یہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق ملک بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 19 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ملکی معیشت میں آئی ٹی برآمدات 25 ارب ڈالر سالانہ پر پہنچ چکی ہیں۔چنانچہ اسی تناظر میں پی ٹی اے کے چیئرمین کو سینیٹ کہ قائمہ کمیٹی میں برملا یہ اعتراف کرنا پڑا کہ آئی ٹی کی صنعت وی پی این کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اب حکومت کے تمام متعلقہ اداروں اور آئی ٹی ماہرین کو مل کر اس مسئلے کا قابل قبول حل نکالنا چاہئے۔فائر وال ایک حربہ حکومت نے جہاں انٹرنیٹ کے''منہ زور گھوڑے‘‘کو قابو میں لانے کیلئے وی پی این اور دیگر حربے استعمال کئے ہیں وہیں خیال کیا جاتا ہے کہ' انٹر نیٹ فائر وال‘‘ بھی ایک حربے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ فائر وال بنیادی طور پر کسی بھی ملک کے مرکزی انٹر نیٹ گیٹ وے پرلگایا جانے والا ایک طرح کا ''سیفٹی والو‘‘ ہے جہاں سے انٹرنیٹ ، اپ اور ڈاؤن لنک کیا جاتا ہے۔اس نظام کی تنصیب کا بنیادی مقصد انٹر نیٹ ٹریفک کی فلٹریشن اور نگرانی ہوتا ہے۔     

یادرفتگاں: اے دل کسی کی یاد میں گلو کار سلیم رضا

یادرفتگاں: اے دل کسی کی یاد میں گلو کار سلیم رضا

پرسوز اور سحر انگیز آواز کے مالک گلوکار سلیم رضا کو مداحوں سے بچھڑے 41 برس بیت گئے، آج ان کی برسی منائی جا رہی ہے۔ ان کے گائے گیت آج بھی زبان زد عام ہیں۔ 50ء کی دہائی کے مقبول گلوکار سلیم رضا 1955ء سے 1971ء تک پاکستان کے فلمی افق پر اپنے مقبول گیتوں کے ذریعے چھائے رہے۔ سلیم رضا، پاکستان کی اردو فلموں کے پہلے عظیم گلوکار تھے جنھیں ایک ایسے وقت میں فلمی گائیکی پر اجارہ داری حاصل تھی جب پاکستان میں عنایت حسین بھٹی، مہدی حسن، احمدرشدی اور منیر حسین جیسے بڑے بڑے نام موجود تھے۔ ہندوستانی پنجاب کے شہر امرتسر کے عیسائی خاندان میں پیدا ہونے والے سلیم رضا کا پیدائشی نام ڈیاس نوئیل تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے اور نام بدل کرکے سلیم رضا رکھ لیا۔ انہوں نے گلوکاری کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا جبکہ فلمی دنیا میں قدم 1955ء میں فلم ''نوکر‘‘ سے رکھا اور اسی سال ریلیز ہونیوالی فلم ''قاتل‘‘ کے گیتوں سے انہیں بے پناہ مقبولیت ملی۔ 1957ء کا سال سلیم رضا کیلئے بہت خوش قسمت ثابت ہوااور انہوں نے بلندی کی طرف اڑان بھرنا شروع کی۔ ان کی پڑھی ہوئی نعت ''شاہ مدینہ، یثرب کے والی‘‘ پاکستان کی تاریخ کی سب سے مقبول ترین فلمی نعت ثابت ہوئی جسے جتنا بھی سنیں ، اتنا ہی لطف آتا ہے۔ یہ نعت موسیقار حسن لطیف نے فلم ''نوراسلام‘‘ کیلئے تیار کی تھی۔اسی سال فلم ''بیداری‘‘ کے ترانے ''آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی‘‘ اور ''ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘‘گا کر انھوں نے اپنے آل راؤنڈ ہونے کا ثبوت دیا تھا۔1962ء کو سلیم رضا کے انتہائی عروج کا سال قرار دیا جاتا ہے ۔ اس برس ان کی 18 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں انھوں نے 31 گیت گائے تھے۔ اس سال انھوں نے فلم ''اولاد ‘‘کی مشہور زمانہ قوالی ''لا الہ الا اللہ، فرما دیا کملی والے نے‘‘ ریکارڈ کروائی تھی۔ یہ اپنے وقت کی سب سے مشہور فلمی قوالی تھی۔ اس سال فلم ''عذرا‘‘کا شاہکار گیت ''جان بہاراں، رشک چمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن‘‘ بھی منظر عام پر آیاجسے ماسٹر عنایت حسین نے کمپوز کیا تھا۔ 1963ء میں سلیم رضا کی فلموں کی تعداد 15تھی جن میں کل 32 گیت گائے تھے۔ اس سال کا سب سے سپرہٹ گیت ''اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘‘ تھا جو فلم ''اک تیرا سہارا‘‘ میں شامل تھا۔ اسی فلم میں یہ دوگانا ''بادلوں میں چھپ رہا ہے چاند کیوں‘‘بھی سپرہٹ تھا۔ دیگر گیتوں میں ''صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ (باجی) ،''آجا ، دل گبھرائے‘‘ (فانوس) ،''جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ (جب سے دیکھا ہے تمہیں)اور ''شام غم پھر آ گئی‘‘ (سیما) قابل ذکر تھے۔ انہوں نے سب سے زیادہ گیت موسیقارماسٹرعنایت حسین، رشید عطرے اور بابا چشتی کی دھنوں میں گائے۔ موسیقاروں نے سلیم رضا سے ہر طرح کے گیت گوانے کی کوشش کی تھی حالانکہ وہ ایک مخصوص آواز کے مالک تھے جو اردو فلموں میں سنجیدہ اور نیم کلاسیکل گیتوں کیلئے تو ایک بہترین آواز تھی لیکن ٹائٹل اور تھیم سانگز ، پنجابی فلموں ، اونچی سروں یا شوخ اور مزاحیہ گیتوں کیلئے موزوں نہ تھی۔اس وقت موسیقاروں کی مجبوری ہوتی تھی کہ کوئی اور انتخاب تھا بھی نہیں۔ ان کی آواز سنتوش اور درپن پربہت سوٹ کرتی تھی۔ان کے گائے ہوئے گیتوں کی بدولت کئی فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔وہ المیہ گیت گانے میں مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے ملی نغموں کو بھی اپنی آواز دی، جوآج بھی لوگوں میں مقبول ہیں۔1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ریڈیو پاکستان لاہور سے جو پہلا ترانہ گونجا تھا وہ سلیم رضا اور ساتھیوں کا گایا ہوا تھا، جس کے بول ''ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان‘‘ تھے۔بطور گلوکار فلموں میں زوال کے بعد وہ کچھ عرصہ ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہے۔ اس دوران انہوں نے ایک فلم ''انداز‘‘ کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی لیکن وہ فلم مکمل ہونے کے باوجود کبھی ریلیز نہ ہو سکی۔70ء کی دہائی کے وسط میں وہ پاکستان کو خیرآباد کہہ کر کینیڈا چلے گئے، جہاں 1983ء میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں دفن ہیں۔عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کا آغاز 25 نومبر 1960ء کو ہوا تھا جب ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹر یامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کردیا گیا تھا۔میرابل بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 ء سے عورتوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کیخلاف دن کی حیثیت سے منا رہے ہیں۔17 دسمبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبرکو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس دن کے منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔عالمی دن منانے کا مقصد خواتین پر گھریلو و جسمانی تشدد اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک میںبھی خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اکثر خواتین تو خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاسکتیں۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ضرور بنتی ہے۔پاکستان سمیت جنوبی ایشائی ممالک میں خواتین پر زیادہ گھریلو تشدد کیا جاتا ہے ۔ ایک رپورٹ میں پاکستان کو خواتین کیلئے بدترین ملک قراردیاگیا ہے جہاں غیرت کے نام پر عورتوں پر تشدد اور ان کا قتل، تیزاب سے حملوں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے حالیہ برسوں میں قانون سازی بھی ہوئی ہے تاہم پاکستان میں خواتین کی بہبود اور ترقی کیلئے کام کرنے والے ادارے اسے کافی نہیں مانتے ۔ا ن کا کہناہے کہ ملک میں قانون کے نفاذ کا عمل کمزور ہے انتظامیہ عدلیہ اور پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور خواتین پر تشدد کے بارے میں حساسیت لانے سے ہی کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔خواتین پر تشدد کی بہت سی اقسام ہیں ۔ یہ تشدد گھروں میں، گلیوں میں، کام کی جگہوں پر، سکولوں میںہوتا ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو تشدد ہے ۔ نوعمری کی شادیاں، کاروکاری،غیرت کے نام پر قتل بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ مارناپیٹنا،زخمی کرنا،درد پہنچانا، تیزاب پھینکنا، لفظوں سے چوٹ پہنچانا، ذہنی ٹارچر کرنا،عزتِ نفس اور خودداری سے کھیلنا، حقیر سمجھنا،دوسروں کے سامنے بے عزتی کرنا، آزادی سلب کرنا، ہتک آمیز الفاظ کا استعمال ، زیادتی کرنا،ہراساں کرنااورچھیڑ چھاڑ کرناوغیرہ شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرگھنٹے میں دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان خواتین کیلئے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ پاکستان میں ہر روز 6 خواتین کو اغوا اور قتل، 4خواتین کے ساتھ زیادتی اور تین خواتین کی خودکشی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔پاکستان میں 2010ء اور 2011ء میں عورتوں کیلئے قانون سازی کی گئی جن میں ''کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون ‘‘قابل ذکر ہے۔ قانوں سازی کا فائدہ تب ہے، جب اس کا نفاذ ممکن بنایا جائے۔ خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں سب سے زیادہ خواتین پر تشدد کے7 ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے ۔ خواتین کو اغوا کرنے کے1707کیس جبکہ زیادتی کے 1408 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔وطن عزیز میں خواتین کے بنیادی انسانی حقوق ہمیشہ سے نظر اندا زکیے جا تے رہے ہیں۔ اکثر دیہاتی اور قبائلی نظام میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے مثلاًونی ، کاروکاری، جبری مشقت، مار پیٹ، بچیوں کی مرضی کے خلاف شادی، وراثت سے محرومی،جہیز کی رسم،قرآن سے شادی اور 32 روپے حق مہر وغیرہ ان سب کا شریعت اسلامیہ، پاکستانی قانون سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ سب کچھ شعائر اسلامی کے سراسر خلاف ہے بلکہ اسلام میں تو عورتوں کو اتنے حقوق دیئے گئے ہیں کہ کوئی اور مذہب ،معاشرہ پیش نہیں کر سکتا۔ مثلاًجنت ماں کے قدموں کے نیچے ،بیوی شوہر کا اور شوہر بیوی کا لباس قرار دیا، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیوی کے متعلق فرمایا کہ ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو۔اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘(النسا:19)۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہواور میں ،تم میں سے سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہوں‘‘ (الترمذی:1828)۔ کامل ترین ایمان والا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر ہے اور تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں (الترمذی: 1161) ۔بہرحال آہستہ آہستہ عورتیں بااختیار ہورہی ہیں، یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے ، بلکہ وہ نمایا ں پوزیشنز حاصل کر رہی ہیں۔ دوسری طرف دیہی علاقوں میں بھی لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔والدین میں بھی شعور آ رہا ہے وہ اپنی بچیوں کے اچھے مستقبل کیلئے ان کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں ۔اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اندھیرا چھٹ رہا ہے ۔ خواتین والے باکس میں ایرر ہے اس کو سب سے آخر میں ٹچ کیجئے گا ٭...''لا الہ الا اللہ ، فرما دیا کملی والے نے‘‘(فلم اولاد)٭...''شاہ مدینہ ‘‘(فلم ''نور اسلام‘‘،1957ء)ترانے٭...''آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی‘‘( بیداری)٭...''ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘‘( بیداری)جنگی ترانہ(1965ء)٭...''ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان‘‘٭...''اے وطن ، اسلام کی امید گاہ آخری ، تجھ پر سلام‘‘1959ء میں سلیم رضا کے حصے میں 13 فلمیں آئی تھیں جن میں ان کے کل 34 گیت تھے جو ایک سال میں سب سے زیادہ گیتوں کا ریکارڈ تھا۔ اس سال کی فلم ''آج کل‘‘ میں انھوں نے سات گیت گائے تھے لیکن کوئی ایک بھی مقبول نہیں تھا۔ فلم ''شمع ‘‘ میں بھی ان کے پانچ گیت تھے جن میں سے گیت ''اے نازنین ، تجھ سا حسین ، ہم نے کہیں دیکھا نہیں‘‘بڑا مقبول ہوا تھا۔ فلم ''نغمہ دل‘‘ کا گیت ''تیر پہ تیر چلاؤ، تمہیں ڈر کس کا ہے‘‘اور فلم ''ناگن‘‘ کا گیت ''پل پل رنگ بدلتا میلہ‘‘ بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔مقبول قوالی و نعت٭...''لا الہ الا اللہ ، فرما دیا کملی والے نے‘‘(فلم اولاد)٭...''شاہ مدینہ ‘‘(فلم ''نور اسلام‘‘،1957ء)ترانے٭...''آؤ بچو سیر کرائیں ، تم کو پاکستان کی‘‘( بیداری)٭...''ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے‘‘( بیداری)جنگی ترانہ(1965ء)٭...''ہمارے پاک وطن کی شان ، ہمارے شیر دلیر جوان‘‘٭...''اے وطن ، اسلام کی امید گاہ آخری ، تجھ پر سلام‘‘مشہور فلمی نغمات ٭...یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں (سات لاکھ)،٭... زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ(ہم سفر)،٭... جاں بہاراں رشک چمن (عذرا)، ٭...کہیں دو دل جو مل جاتے (سہیلی)، ٭...حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں (پائل کی جھنکار)، ٭...یہ ناز، یہ انداز، یہ جادو ،یہ نگاہیں (گلفام)،٭... تجھ کو معلوم نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم (جب سے دیکھا ہے تمہیں)، ٭...میرے دل کی انجمن میں (قیدی) ؎٭...گول گپے والا آیا(مہتاب)1959ء: سب سے زیادہ گیت گانے کا ریکارڈ1959ء میں سلیم رضا کے حصے میں 13 فلمیں آئی تھیں جن میں ان کے کل 34 گیت تھے جو ایک سال میں سب سے زیادہ گیتوں کا ریکارڈ تھا۔ اس سال کی فلم ''آج کل‘‘ میں انھوں نے سات گیت گائے تھے لیکن کوئی ایک بھی مقبول نہیں تھا۔ فلم ''شمع ‘‘ میں بھی ان کے پانچ گیت تھے جن میں سے گیت ''اے نازنین ، تجھ سا حسین ، ہم نے کہیں دیکھا نہیں‘‘بڑا مقبول ہوا تھا۔ فلم ''نغمہ دل‘‘ کا گیت ''تیر پہ تیر چلاؤ، تمہیں ڈر کس کا ہے‘‘اور فلم ''ناگن‘‘ کا گیت ''پل پل رنگ بدلتا میلہ‘‘ بھی بڑے مقبول ہوئے تھے۔ 

خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن

خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن

عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کا آغاز 25 نومبر 1960ء کو ہوا تھا جب ڈومینکن ری پبلک کے آمر حکمران رافیل ٹروجیلو کے حکم پر تین بہنوں پیٹریامر سیڈیز میرابل، ماریا اجنٹینا منروا میرابل اور انتونیا ماریا ٹیریسا میرابل کو قتل کر دیا گیا تھا۔ میرابل بہنیں ٹروجیلو کی آمریت کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ 1981 ء سے عورتوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے افراد ان کی برسی کو عورتوں پر تشدد کیخلاف دن کی حیثیت سے منا تے ہیں۔17 دسمبر 1999ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 25 نومبرکو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن قرار دیا اور اب دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی 25 نومبر کو عورتوں پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس دن کے منانے کا مقصد خواتین پر ذہنی، جسمانی تشدد اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔عالمی دن منانے کا مقصد خواتین پر گھریلو و جسمانی تشدد اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک میںبھی خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اکثر خواتین تو خود پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاسکتیں۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ضرور بنتی ہے۔ پاکستان سمیت جنوبی ایشائی ممالک میں خواتین پر زیادہ گھریلو تشدد کیا جاتا ہے ۔ ایک رپورٹ میں پاکستان کو خواتین کیلئے بدترین ملک قراردیاگیا ہے جہاں غیرت کے نام پر عورتوں پر تشدد اور ان کا قتل، تیزاب سے حملوں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے حالیہ برسوں میں قانون سازی بھی ہوئی ہے تاہم پاکستان میں خواتین کی بہبود اور ترقی کیلئے کام کرنے والے ادارے اسے کافی نہیں مانتے۔ ان کا کہناہے کہ ملک میں قانون کے نفاذ کا عمل کمزور ہے انتظامیہ عدلیہ اور پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات اور خواتین پر تشدد کے بارے میں حساسیت لانے سے ہی کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔خواتین پر تشدد کی بہت سی اقسام ہیں ۔ یہ تشدد گھروں میں، گلیوں میں، کام کی جگہوں پر، سکولوں میںہوتا ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ عام شکل گھریلو تشدد ہے ۔ نوعمری کی شادیاں، کارو کاری، غیرت کے نام پر قتل بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ مارناپیٹنا،زخمی کرنا،درد پہنچانا، تیزاب پھینکنا، لفظوں سے چوٹ پہنچانا، ذہنی ٹارچر کرنا،عزتِ نفس اور خودداری سے کھیلنا، حقیر سمجھنا،دوسروں کے سامنے بے عزتی کرنا، آزادی سلب کرنا، ہتک آمیز الفاظ کا استعمال ، زیادتی کرنا،ہراساں کرنااورچھیڑ چھاڑ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرگھنٹے میں دو خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان خواتین کیلئے تیسرا خطرناک ترین ملک ہے۔ پاکستان میں ہر روز 6 خواتین کو اغوا اور قتل، 4خواتین کے ساتھ زیادتی اور تین خواتین کی خودکشی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میں 2010ء اور 2011ء میں عورتوں کیلئے قانون سازی کی گئی جن میں ''کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون‘‘ قابل ذکر ہے۔ قانوں سازی کا فائدہ تب ہے، جب اس کا نفاذ ممکن بنایا جائے۔ خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں سب سے زیادہ خواتین پر تشدد کے7 ہزار سے زائد کیس رپورٹ ہوئے۔ خواتین کو اغوا کرنے کے1707کیس جبکہ زیادتی کے 1408 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

بدگمانی سے بچیں

بدگمانی سے بچیں

خاموشی اور گفتار میں اگر کوئی موازنہ کیا جائے تو لازمی طور پر خاموشی کے حق میں زیادہ ووٹ ہوں گے۔ ایک چپ ہزار سکھ کا محاورہ ہم سب نے سن رکھا ہے اور اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر اس سے مستفید بھی ہوئے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بات کرنے سے بات زیادہ بگڑ جاتی ہے اور اس کے بالکل برعکس کبھی یوں بھی ہوتا ہے ایک خاموشی بگڑی ہوئی بات بنا دیتی ہے۔ اب اس سارے متضاد منظرنامے میں اہم اور قابل توجہ یہ چیز ہے کہ ہمیں علم و احساس ہو کہ کب خاموش رہنا ہے اور کب گفتگو کرنی ہے؟ کیونکہ سکوت و گفتار دونوں ہی مخصوص مواقع پر اپنی اپنی جگہ پر اہم ہیں۔یوں تو ہر وقت کا بولنا اچھا نہیں سمجھا جاتا مگر زندگی میں ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب نہ بولنا اور خاموش رہ جانا نقصان کا باعث ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کبھی ہمارے رشتوں یا تعلقات میں کوئی معمولی سا اختلاف، چھوٹی سی بدگمانی یا غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے اور فریقین اس غلط فہمی کو خاموشی سے نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً یہ خاموشی تعلقات میں بڑی سی دراڑ ڈال دیتی ہے۔ اگر ہم بروقت اس درز کو بھرنے کی کوشش نہیں کرتے تو رشتوں کے بیچ کی یہ خلیج وقت کے ساتھ اور گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ دونوں فریق اپنی انا اور ہٹ دھرمی کو گلے لگائے ہوئے طویل عرصے تک ایک دوسرے سے ناراض اور بدگمان رہتے ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی صورت تک دیکھنے کے روادار نہیں رہتے۔ بطور مسلمان ہم جنہیں آپس میں تین روز سے زیادہ قطع تعلق کی اجازت ہی نہیں برسوں گزار دیتے ہیں کہ سگے بھائی بہن اور قریب ترین رشتے بھی آپسی دشمنی یا بدگمانی کو نہ صرف ساری عمر پالتے رہتے ہیں بلکہ کچھ تو اپنی اولاد کے ذہن و دل میں بھی ان نفرتوں اور بیگانگی کی فصل بو جاتے ہیں۔ نتیجتاً خوبصورت ترین رشتوں اور اچھے بھلے متحد خاندانوں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ دلوں کی تنگی، عدم برداشت، ناچاقی اور قطع تعلقی کے بد اثرات اور بے برکتی آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوتی رہتی ہے۔ دراصل بدگمانیوں کا معاملہ بھی ایک گرداب کی طرح ہوتا ہے جو نقطے سے شروع ہو کر طویل دائروں میں پھیلتا چلا جاتا ہے اور پھر وہ بھنور اپنے قریب آنے والی ہر شے کو غرقاب کردیتا ہے۔اگر کبھی ایمانداری اور غیر جانبداری سے اپنا جائزہ لیں تو پتہ چل جائے گا کہ اس ساری خرابی کا مرکز و منبع ہماری انا اور احساس برتری کی تہوں میں چھپا ہوا ہے۔ ہم اپنی خود ساختہ شان و بڑائی کے زعم میں مبتلا ہو کر خیر کی جانب پہل کرنے سے اعراض کرتے ہیں۔ ہر کسی کی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ معاملات کو سدھارنے اور اختلافات کو ختم کرنے کیلئے دوسرا فریق پہل کرے۔ اس کے علاوہ کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں بدخواہ اور شر پسند افراد اپنی سازش کے ذریعے آپسی رشتوں میں پھوٹ ڈالتے اور منافرت پھیلاتے ہیں اور لوگوں کے بیچ مفاہمت اور سمجھوتہ ہونے نہیں دیتے۔ ایسے بد فطرت عناصر کی سازش سے باخبر رہنا اور بچنا بھی ضروری ہے۔بدگمانی اور غلط فہمیاں ہماری انفرادی اور سماجی زندگی کیلئے زہر کا کام کرتی ہیں۔ اس کے خسارے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ ہماری غیر مناسب و غیر وقتی خاموشی بھی معاملات کے زیادہ بگاڑ کا باعث ہوتی ہے۔ اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم آج سے اس بات کا عہدکریں کہ اپنے بزرگوں کی مانند ہم نے ساری عمر اختلافات اور رنجشیں نہیں پالنی بلکہ وسیع قلبی اور فراخدلی کے ساتھ فریقین نے ایک دوسرے کی کوتاہیوں کو معاف کرکے اور ناانصافی و زیادتیوں کی تلافی کرکے اپنے کشیدہ تعلقات کو بحال کرنے کی ہر ممکن تدبیر کرنی ہے۔ اور حکمت و ادب کے ساتھ اپنے بزرگوں کو بھی اپنی پرانی رنجشیں دور کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرنی ہے تاکہ ہماری آئندہ نسل کو مخلص رشتوں اور باہمی انس و محبت سے بھرپور ایک خوشگوار ماحول میسر آسکے۔ 

حکایت سعدیؒ :باپ اور بیٹی

حکایت سعدیؒ :باپ اور بیٹی

ایک رات میں (شیخ سعدیؒ) اس ارادے سے سو گیا کہ صبح سویرے قافلے کے ساتھ مل کر سفر کروں گا۔ اچانک رات کو ایسا بگولا آیا کہ اندھیرا ہی اندھیرا ہو گیا۔ میں نے راستے میں دیکھا ایک چھوٹی سی بچی اپنے دوپٹے کے ساتھ باپ کے چہرے سے گرد صاف کر رہی تھی اور باپ اپنی بیٹی کو پیار کرتے ہوئے دیکھ کر رو پڑا اور کہنے لگا! بیٹی ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ان آنکھوں میں اس قدر مٹی بھر جائے گی کہ جو اوڑھنیوں سے صاف نہ ہوسکے گی۔ سعدیؒ فرماتے ہیں ہر شخص کی روح قبر کی طرف سرکش گھوڑے کی طرح بھاگ رہی ہے جس کو روکا نہیں جاسکتا۔ موت آکر جسم کی رکاب توڑ دے گی جس سے جسم کا تعلق روح سے ٹوٹے گا اور بالآخر جسم گڑھے میں گر جائے گا۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے دنیا میں انسان اپنے آپ کو جتنا بھی مٹی سے بچاتا پھرے لیکن قبر میں جا کر اس کا جسم مٹی سے ضرور بھر جائے گا لہٰذا اس وقت کی تیاری کرنی چاہیے۔ بادشاہ اور پہرے دارایک بادشاہ سخت سردی کی ایک رات میں کسی پہرے دار کے پاس سے گزرا جو سردی کی وجہ سے بہت زیادہ کپکپا رہا تھا ۔ بادشاہ نے رحم کرتے ہو اپنی پوستین کی قبا اس کو دینے کا ارادہ کیا اور کہا ذرا انتظار کر میں اتار کر بھیجتا ہوں۔ بادشاہ محل میں گھس گیا اور ایسا مگن ہواکہ چوکیداربے چارے کو بھول ہی گیا۔ چوکیدار نے قبائے پوستینی کا ذکر کان سے سن تو لیا مگر بدنصیب کے کندھے پہ قبا نہ آ سکی۔ پہلے صرف سردی کی تکلیف تھی اب ساتھ قبا کے انتظار کا عذاب۔ بادشاہ صبح اٹھا تو درباری نے کہا! اے بادشاہ شاید آپ محل کی رنگینیوں میں مبتلا ہو کر اس بدنصیب چوکیدار کو بھول گئے۔ تیری رات تو خوب گزری ہوگی مگر اس کی رات کیسے گزری یہ وہی جانتا ہے۔ جس قافلہ سالار کو سب کچھ میسر ہو اسے ریگستان کے بھولے ہوئے مسافر کی تکلیف کا کیا اندازہ؟ اے دریا میں کشتی کا کھیل کھیلنے والے ذرا رک جا اور ڈوبنے والوں کو بچا کر لے جا (تاکہ تیرا شوق بھی پورا ہو جائے اور ان بے چاروں کی جان بھی بچ جائے ) اے چست و چالاک جو ان ذرا آہستہ چل کہ قافلے میں سست بوڑھے بھی ہیں۔ توتو قافلے کے اندر آرام فرما ہے اور اونٹ کی مہار تو شتر بان کے ہاتھ میں ہے تجھے کیا؟ جو اپنے گھر میں خوشدلی سے سو رہا ہے وہ اس کا غم کیا جانے جو بے چارہ خالی پیٹ بھوکا رو رہا ہے۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے کہ خوشحال لوگوں کو چاہیے کہ تنگدست اور کمزوروں کا بھی خیال رکھیں اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ اپنی عیش پرستی میں پڑ کر ان کو بھلا دینا انسانیت نہیں۔ ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے

آج کا دن

آج کا دن

تباہ کن زلزلےآج کی تاریخ میں دنیاکو دو تباہ کن زلزلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 1759ء میں دمشق اور بیروت میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں 30 سے 40 ہزار افرادہلاک ہوئے۔ 2000ء میں آذربائیجان کے شہر باکو میں تاریخ کا تباہ کن زلزلہ آیا، جس کی ریکٹر شدت 7.0 تھی۔ اس زلزلہ میں 26 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اربوں روپے مالیت کا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا۔ اس زلزلے کو 158 سالہ تاریخ میں خطے کا سب سے خطرناک زلزلہ قرار دیا گیا ہے۔سمندری طوفان 3لاکھ افراد کو ''نگل‘‘ گیا1839ء میں آج کے روز ہندوستان کے ساحلی شہر کورنگا سے ہولناک سمندری طوفان ٹکرایا۔ جس کے نتیجے میں یہ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ بلند و بالا سمندری لہریں 20ہزار بحری جہازوں اور ہزاروں افراد کو اپنے ساتھ بہا کر سمندر کے اندر لے گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً تین لاکھ افراد اس طوفان کی زد میں آ کر جاںبحق ہوئے۔بندرگاہی شہر کورنگا کو دوبارہ کبھی مکمل طور پربحال نہیں کیا جا سکا۔سانحہ بحری جہازایس ایس سارڈینیا ایک مسافر بردار بحری جہاز تھا جس میں 25 نومبر 1908ء کو مالٹا کے گرینڈ ہاربر پر آگ لگ گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں 118 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ جہاز مراکشی عازمین کو لے کر مکہ جا رہا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ڈیک پر کھانا پکانے والی آگ نے غلطی سے جہاز کے کارگو ہولڈز میں سے ایک میں نائٹریٹ کو بھڑکا دیا، جس کے نتیجے میں متعدد دھماکے ہوئے اور جہاز سمندر برد ہو گیا۔سلجوقی حکمران سلطان الپ ارسلان کا قتل25نومبر 1072ء کو سلجوقی حکمران سلطان الپ ارسلان ثمرقند کے سفر کے دوران اپنے ہی ایک سپہ سالار کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ الپ ارسلان جو انتہائی ذہین اور بہادر بادشاہ تھے اپنے چچا طغرل بیگ کے بعد تخت پر بیٹھے۔ الپ ارسلان نے 1063ء سے 1072ء تک حکمرانی کی اور ان کے عہد میں سلجوقی سلطنت کی حدود بہت وسیع ہوئیں۔ فاطمی حکمران کو شکست دے کر مکہ اور مدینہ کو اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ اس سے اسلامی دنیا میں سلجوقیوں کا اثر و اقتدار بڑھ گیا۔