لوہے کا استعمال کب شروع ہوا؟
اسپیشل فیچر
لوہے کے زمانے سے مراد وہ زمانہ ہے جب انسان نے لوہے کے استعمال میں مہارت تامہ حاصل کی اور جب سے یہ نئی دھات جو تانبے اور اس کی بھرت، کانسی سے کہیں بہتر تھی، انسان کے استعمال میں آئی اسی زمانے میں انسان نے کانسی کی بجائے لوہے سے اشیائے ضرورت اور دیگر اوزار و ہتھیار بنانے شروع کیے۔ لوہے کا زمانہ علم الاثریات کی سہ زمانی ترتیب (پتھر، کانسی اور لوہے کے زمانے) میں آخری زمانہ ہے۔
اگرچہ لوہے، تانبے اور قلعی سے زیادہ ارزاں دھات ہے لیکن لوہے کو پگھلانے کی تکنیک یا عمل ان دونوں دھاتوں کو پگھلانے کی تکنیک سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس کے علاوہ لوہے سے دیگر کثافتیں صاف کرنے کے لیے مسلسل کوٹے جانے کا عمل (جب لوہا سرخ ہو) بھی ضروری ہے۔ لوہے کو پگھلانے یا ڈھالنے کا عمل دنیا میں سب سے پہلے کب اور کہاں وقوع پذیر ہوا؟ اس پر تاریخ خاموش ہے۔ البتہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 3 ہزار قبل مسیح میں بادشاہت رائج ہونے سے پہلے کے قدیم مصر اور مشرق وسطیٰ میں لوہا قدرے قلیل مقدار میں استعمال ہونے لگا تھا۔
لوہے کے زمانے کا آغاز دراصل حیتوں کے عہد سے ہوتا ہے۔ حتی ایک تندوتیز آریائی قوم تھی۔ تاریخ کے افق پر یہ قوم تقریباً 2 ہزار قبل مسیح میں نمودار ہوئی اور اپنے بادشاہ لیبرنس (Labarnas) کے جھنڈے کے نیچے متحد ہو کر اس قوم نے پہلے جزیرہ نما اناطولیہ (ترکی) فتح کیا، پھر یہ مزید کئی سمتوں میں آگے بڑھتی چلی گئی۔ مغرب میں بحیرہ ایجہ اور مشرق و جنوب میں یہ قوم شام کے وسیع میدانوں سے آگے تک نکل گئی۔ اپنی ان فتوحات کے باعث جلد ہی اس دور کی ایک ناقابل شکست قوم بن گئی۔ حتیوں کی ان فتوحات کے پس منظر میں خام لوہے سے صاف لوہے کی اشیا بنانے کا فن تھا، جس سے اس وقت دنیا کی دوسری قومیں پوری طرح واقف نہیں تھیں۔ اسی وجہ سے پتھر، کانسی اور تانبے کے ہتھیار رکھنے والی اقوام اس قوم کا مقابلہ نہ کر سکیں اور حتیوں کو عروج در عروج حاصل ہوتا چلا گیا۔ حتی لوہے کی کچ دھات کو پگھلا کر ہتھوڑے کی مدد سے ہتھیار اور دیگر مطلوبہ اشیا کی شکل دیتے تھے۔ اگرچہ ان کا طریقہ بھی ابھی خام ہی تھا لیکن اس طرح ناخالص لوہے سے بننے والی اشیا بھی کانسی اور تانبے کی اشیا سے کہیں مضبوط ہوتی تھیں۔ اس کی بڑی وجہ تانبے اور کانسی کا لوہے کے مقابلے میں نرم ہونا اور مڑ جانا تھا۔ دوسرے لفظوں میں حتیوں کی دیگر اقوام پر فتح دراصل لوہے کی تانبے اور کانسی پر فتح تھی۔
لوہے کو پگھلا کر اشیا بنانے کی تکنیک نے حتیوں کے زوال (1200 قبل مسیح) کے زمانے تک مزید پختگی حاصل کر لی اور اب لوہے کو پگھلانے کا علم مشرق وسطیٰ سے نکل کر بحیرہ روم کے ساحلوں تک پھیل گیا۔ تقریباً ایک ہزار قبل مسیح میں بنی اسرائیل کے پیغمبر اور بادشاہ حضرت داؤدؑ کے عہد میں لوہے سے اوزار اور جنگی ہتھیار بنائے جاتے تھے۔ اس بات کا ذکر دنیا کی آخری الہامی کتاب قرآن مجید میں موجود ہے۔
لوہے کی اشیا سازی میں اسی پیش رفت نے مشرق وسطیٰ میں کانسی کا زمانہ اختتام کو پہنچا دیا۔ اگرچہ کانسی کی اشیا یہاں ابھی بھی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں مستعمل تھیں۔ 900 قبل مسیح کے بعد لوہے کی اشیا وسیع پیمانے پر بننے لگیں اور اسی وجہ سے براعظم ایشیا اور یورپ میں انسانوں کی وسیع پیمانے پر ہجرت کے عمل کا آغاز ہوا۔ اس ہجرت سے جب بہت سے ایسے افراد جو لوہے کی اشیا بنانے کا فن جانتے تھے، یورپ پہنچے تو یورپ میں بھی لوہے کے زمانے کا آغاز ہوا۔ مگر یورپ میں لوہے کے زمانے کی ابتدا ہر جگہ الگ الگ زمانے میں ہوئی۔ 750-800 قبل مسیح میں یورپ میں اہل یونان کے علاوہ سب سے زیادہ لوہے کا استعمال وسطی یورپ اور شمالی اطالیہ میں رن فیلڈ (Urnfield) نامی تہذیب کے لوگوں نے کیا۔ ارن فیلڈ کے بعد لوہے کے زمانے کا آغاز یورپ کے کئی حصوں میں ہال سٹٹ دور (Hallstatt Period) سے ہوتا ہے جو 700 قبل مسیح سے 450 قبل مسیح تک محیط ہے۔ 500 قبل مسیح کے بعد یورپ میں لوہے کی اشیا سازی میں جو تکنیک اپنائی گئی وہ بغیر کسی تبدیلی کے ازمنہ وسطیٰ تک جاری رہی۔
450 قبل مسیح میں کیلٹی النسل لوگوں (Celt) کی ہجرت سے یورپ میں لوہے کا زمانہ دو ادوار، اولین عہد اور عہد متاخرین میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ قبل از تاریخ کے لوہے کے زمانے کے اولین عہد سلطنت روم کے دریائے ڈینیوب اور الپائن کے دَروں تک وسیع ہو جانے پر 15 قبل مسیح میں ختم ہو جاتا ہے۔
چینی قوم کا لوہے کا زمانہ 600 قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ چین میں لوہے کی اشیا کا استعمال چین کی قدیم ریاستوں کی باہمی جنگ میں 222-403 قبل مسیح کے زمانے میں پھیلا۔ اسی زمانے میں چین کے ماہرین نے لوہا پگھلانے کے لیے ایسی بھٹیاں بنائیں اور اس صنعت میں مستعمل دیگر اپنے اوزار تیار کیے جن سے لوہے کی اشیا سازی بہت آسان ہو گئی۔ اسی قسم کے اوزار کی بھٹیاں یورپ میں کہیں جا کر ازمنہ وسطیٰ میں تیار ہو سکیں۔ قرون وسطیٰ کے ابتدائی دور میں عربوں نے بھی لوہے کی ڈھلائی اور اس سے فولاد بنانے کے فن میں بہت زیادہ ترقی کی تھی۔ ان کے شام اور اندلس میں موجود لوہے کی ڈھلائی کے کارخانے دنیا بھر میں مشہور ہو گئے تھے۔ حتیٰ کہ دمشقی فولاد اور طلیطہ (Toledo) کا نفیس فولاد آج بھی مشہور ہے۔ پندرہویں صدی عیسوی میں مغربی یورپ میں دھات کاری کے میدان میں ایک نئے موڑ نے جنم لیا۔ لیکن اس پر بھی زیادہ اثر مسلمان عربوں ہی کا تھا۔ اس دور میں برطانیہ، جرمنی اور فرانس میں لوہے کی ڈھلائی کے لیے بڑی بڑی بھٹیاں بنائی گئیں جن سے کم سے کم خرچ پر زیادہ مقدار میں ڈھلا ہوا لوہا حاصل ہونے لگا۔
براعظم افریقہ میں لوہے کا زمانہ ان اشیا کی تیاری سے شروع ہوتا ہے جو یہاں کے ان قدیم بادشاہوں کے مقبروں سے ملی ہیں جنہیں میروئی (Meroe) کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق چھٹی صدی قبل مسیح سے ہے تاہم افریقہ میں وسیع پیمانے پر لوہے کی اشیا چوتھی صدی قبل مسیح سے پہلے تیار نہیں ہوئیں۔ دوسری صدی میں لوہے کی اشیا ساز کا فن جھیل چاڈ کے علاقے میں پھیلا اور پھر اس کا دائرہ سارے افریقہ تک وسیع ہو گیا۔
نئی دنیا یا براعظم امریکا میں لوہے کا استعمال یورپی لوگوں کی آمد سے پہلے مفقود تھا۔ یہاں کی قدیم تہذیوں سے تعلق رکھنے والی اقوام لوہے کے ابتدائی استعمال کو بھی جانتی تھیں۔برصغیرپاک و ہند میں لوہے کے زمانے کا آغاز تقریباً ایک ہزار قبل مسیح میں بتایا جاتا ہے کیونکہ ہندوؤں کی مقدس کتاب رگ وید 1500 قبل مسیح میں صرف دو دھاتوںکا ذکر ملتا ہے، پہلی تو سونا ہے اور دوسری ''تامرا آپاس‘‘ یعنی تانبا۔ رگ وید کے بعد تصنیف ہونے والی دیگر ویدوں میں ایک تیسری دھات ''کرشنا آیاس‘‘ (کالی دھات یعنی سونا) کا ذکر بھی آیا ہے۔ اس کے علاوہ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے دیگر مقامات سے بھی لوہے کے استعمال کے کوئی اثریاتی ثبوت نہیں ملے۔ اس لیے مؤرخین کا خیال ہے کہ یہاں لوہا تقریباً ایک ہزار قبل مسیح میں ہی مروج ہوا۔
رگ وید ہی کے مطابق آریاؤں کے ایک بڑے دیوتا اندر کے پاس، جو فضا کا دیوتا تسلیم کیا جاتا ہے، ''وجر‘‘ نامی ہتھیار تھا۔ ''وجر‘‘ سے مراد عموماً برق لی جاتی ہے مگر اس ہتھیار کو بعض مؤرخین نے کلہاڑا یا بسولہ بھی کہا ہے۔ رگ وید میں اس ہتھیار کو تیز دھار والا بہت سخت ہتھیار بیان کیا گیا ہے، جسے بار بار تیز کرنا پڑتا تھا۔ اسی ہتھیار کی مدد سے آریاؤں نے وادی سندھ کے جنگل صاف کیے تھے۔ بعض مؤرخین کے خیال کے مطابق یہ ہتھیار لوہے کا بنا ہوا تھا۔ بہرحال ان دیومالائی حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے ماہرین نے ایک ہزار قبل مسیح کو برصغیر میں لوہے کے زمانے کا نقطۂ آغاز قرار دیا ہے۔ اسی زمانے میں یہاں لوہے کا ہل ایجاد ہوا اور یہاں کھیتی باڑی میں ترقی ہوئی اور ایک قسم کا سبز انقلاب آ گیا۔
بہرحال ایک ہزار قبل مسیح کے بعد لوہے کے اوزار اور ہتھیار معلوم دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گئے اور اپنی افادیت کی وجہ سے کانسی اور پیتل کی اشیا کی جگہ لینے لگے۔ اس نئی دھات کے استعمال سے انسان کی معاشرتی زندگی میں ایک انقلاب آ گیا۔
(''تاریخ عالم‘‘ سے اقتباس)