اداکار اسماعیل شاہ پاکستان کے پہلے ڈانسنگ ہیرو نے صرف 30 برس عمر پائی
1984ء میں انور مقصود نے سرکاری ٹی وی پر اپنے مشہور پروگرام میں اداکار محمد علی مرحوم سے یہ استفسار کیا تھا کہ ٹی وی سے جو فنکار فلموں میں آئے ہیں وہ ان سے کتنے مثاثر ہیں؟ اس پر محمد علی نے کہا تھا کہ وہ ٹی وی سے فلموں کی طرف آنے والے اداکاروں سے اتنے متاثر نہیں ہوئے اور نہ ہی چھوٹی سکرین کے اداکار بڑی سکرین پر زیادہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ بڑی حیران کن بات تھی۔ محمد علی جیسے اداکار سے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔ 1984ء تک ٹی وی کے جو فنکار فلموں میں اپنے فن کا سکہ جما چکے تھے ان میں محمد قوی خان، منور سعید، مسعود اختر، علی اعجاز، ننھا اور شجاعت ہاشمی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اگرچہ کئی اور ٹی وی اداکاروں نے بھی فلموں میں قسمت آزمائی کی لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ مذکورہ بالا ٹی وی فنکاروں نے فلم میں کامیابی کے لیے بہت محنت کی۔ محمد قوی خان اکثر کہا کرتے ہیں کہ بڑی سکرین والے چھوٹی سکرین کے اداکاروں کو کچھ سمجھتے ہی نہیں۔
انور مقصود کے جس پروگرام کا ذکر کیا گیا ہے اس میں سینئر اداکار شکیل بھی موجود تھے۔ انہوںنے محمد علی سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی نے فلم والوں کو بڑے اچھے اداکار دیئے۔ یہاں اس دلچسپ حقیقت کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ خود شکیل پہلے فلم میں آئے اور بعد میں ٹی وی ڈراموں میں۔ پھر اس کے بعد وہ دوبارہ فلموں میں آئے۔ 80ء کی دہائی میں ایک وجیہہ نوجوان سرکاری ٹی وی کے ڈراموں میں نمودار ہوا۔ اس کا نام تھا اسماعیل شاہ۔ ان کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔ انہوں نے ٹی وی ڈراموں ''جنگل‘‘ اور ''شاہین‘‘ سے شہرت حاصل کی۔ فلم والوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اور پھر 1986ء میں ان کی پہلی اردو فلم ''باغی قیدی‘‘ ریلیز ہوئی جو کامیاب ثابت ہوئی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ لبنیٰ خٹک تھیں۔ پہلی فلم کی کامیابی کے بعد ہی انہیں اردو اور پنجابی فلموں میں کاسٹ کر لیا گیا۔ انہوں نے ریما، نیلی، نادرہ، مدیحہ شاہ اور دیگر ہیروئنوں کے ساتھ کام کیا۔ اداکاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے رقص میں بھی کمالات دکھائے اور انہیں پاکستان کا پہلا ڈانسنگ ہیرو تسلیم کر لیا گیا۔
اسماعیل شاہ کی یہ خوبی تھی کہ وہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ اپنے رقص سے بھی شائقین کو متاثر کرتے تھے۔ نادرہ کے ساتھ ان کی فلم ''ناچے ناگن‘‘ میں انہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ شاندار رقص بھی کیے جو شائقین فلم کو بہت بھائے۔ ان کی مصروفیات میں بہت اضافہ ہو گیا۔ اس زمانے میں بھارتی فلموں میں متھن چکرورتی اور گووندا نے اپنے ڈانسز کی وجہ سے دھوم مچائی ہوئی تھی۔ انیل کپور بھی اچھے رقاص تھے۔ ادھر پاکستانی فلموں میں صرف اسماعیل شاہ ہی ایسے تھے جن کا طوطی بول رہا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ اسماعیل شاہ کو ایکشن فلموں میں بھی کاسٹ کیا جانے لگا اور وہ شان، اظہار قاضی، ادیب، نصراللہ بٹ، الطاف خان اور ہمایوں قریشی کے ساتھ کاسٹ کیے جانے لگے۔ پھر ان کی ایک فلم ''تین یکے تین چھکے‘‘ بڑی کامیاب ہوئی۔ اس میں مصطفی قریشی نے ان کے باپ کا کردار ادا کیا تھا۔ ان کی فلمیں ''دشمن دادا‘‘ اور منیلا کے جانباز‘‘ بھی کامیاب ہوئیں۔
اسماعیل شاہ نے مجموعی طور پر 74 فلموں میں کام کیا جن میں 19 اردو، 27 پنجابی اور 9 پشتو زبان کی فلمیں تھیں۔ ان کی دیگر قابل ذکر فلموں میں ''لو اِن لندن، برداشت، تحفہ، بادشاہ، خطرناک، کالے چور، عشق زندہ باد، اللہ وارث، چن بدمعاش، مکھڑا، وطن کے رکھوالے، درندگی، جمیلہ، وردی، میری جنگ اور گاڈ فادر‘‘ شامل ہیں۔ وہ ایک اچھے اداکار تھے لیکن اس سے بھی اچھے ڈانسر تھے۔ پرویز رانا کی سپرہٹ فلم ''گاڈ فادر‘‘ میں انہوں نے ریما کے ساتھ جو رقص کیے وہ آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ یہ اداکار کامیابیوں کے پھول سمیٹ رہا تھا کہ فرشتہ اجل آن پہنچا اور 29 اکتوبر 1992ء کو صرف 30 برس کی عمر میں یہ خوبصورت فنکار موت کی وادی میں اتر گیا۔ فلمی صنعت سوگ میں ڈوب گئی۔ اسماعیل شاہ کی ناگہانی وفات سے کچھ روز قبل ہی پاکستانی فلمی صنعت کی نامور فنکارہ نیر سلطانہ بھی اس جہان فانی سے کوچ کر چکی تھیں۔ جس وقت اسماعیل شاہ کا انتقال ہوا اس وقت ان کی فلم ''گاڈ فادر‘‘ نمائش پذیر تھی اور اس فلم نیر سلطانہ نے اسماعیل شاہ کی ماں کا کردار ادا کیا تھا۔ اخبارات نے سرخی جمائی‘‘ ماں کے بعد بیٹا بھی چلا گیا۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر عمر وفا کرتی تو اسماعیل شاہ کے فن میں مزید نکھار آتا اور وہ مزید کامیابیاں حاصل کرتے۔ لیکن موت کے آگے کس کا بس چلتا ہے۔ یہ جواں سال فنکار بے شمار لوگوں کو رلا گیا۔ آج بھی جب کبھی اس ڈانسنگ ہیرو کی یاد آتی ہے تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔