علامہ اقبالؒ کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری
اسپیشل فیچر
علامہ اقبالؒ کی طنز اور ظرافت میں سطحیت نہیں ہے۔ اس میں موجود گہری فکر قاری کو دیر تک اپنے سحر میں گرفتار رکھتی ہے اور وہ اپنے گرد و پیش نگاہ دوڑانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ان کی طنز کا پہلا نشانہ تہذیبِ مغرب ہے۔ اس عہد میں برصغیر کے عام لوگوں کو معاشی تباہ حالی کا سامنا تھا۔ تعلیمی ترجیحات اچانک بدل گئیں اور لوگوں کو انگریزی کی جانب مائل کیا جانے لگا۔ لڑکیوں کی تعلیم پر ضرورت سے زیادہ زور دیا گیا اور انھیں مردوں کے ساتھ نشست و برخاست کے طریقے سکھانے کے لیے ترغیبات دی گئیں۔ مغربی معاشرت کی جھلکیاں گلی محلوں میں دکھائی دینے لگیں اور مقامی تہذیب و تمدن دقیانوسی کی علامت ٹھہرا۔ نئے طرزِ حکومت میں عوام کو حصہ دینے کے لیے کونسلیں بنائی گئیں جن میں الجھ کر لوگوں کی نگاہیں اصل مسائل سے ہٹ گئیں۔ الیکشن، ووٹ اور ممبری کے چکر نے آزادی کی سوچیں گم کر دیں :
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
الیکشن، ممبری، کونسل، صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے
میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
اقبالؒ کی طنز اور ظرافت کا دوسرا بڑا موضوع ان کی اپنی قوم ہے۔ اس وقت دو طبقے ابھر کر سامنے آ چکے تھے۔ ایک تو وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے آپ کو وقت کے ساتھ ڈھال لینے میں عافیت سمجھی اور انگریزی لبادہ اوڑھ لیا۔ دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے اپنے پرانے نظامِ زندگی کو برقرار رکھا اور اسی کو اپنے لیے فخر کا باعث جانا۔ ان دونوں طبقات نے ایک دوسرے کی ضد میں ان علوم کو بھی چھوڑ دیا جن سے ان کی زندگی میں انقلاب آ سکتا تھا۔ دونوں کے لباس، کھانے پینے کے طریقے، بات چیت کا انداز اور تعلیمی ادارے تک جدا جدا تھے۔ ایک گروہ ہر بات میں انگریزوں کی نقل کرتا اور دوسرا کھل کر اس کی مخالفت پر کمر کس لیتا۔
علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی طنزیہ و ظریفانہ شاعری میں مختلف حوالوں سے دونوں طبقات پر طبع آزمائی کی ہے۔ جہاں اوّل الذکر طبقے کی نام نہاد روشن خیالی پر ضربیں لگائیں وہاں طبقہ دوم کی دقیانوسیت کو بھی نشانہ بنایا۔ جب کوئی طاقت کسی ملک پر قابض ہوتی ہے تو اس کا پہلا نشانہ آنے والی نسلوں کے ذہن و فکر کو اپنی ضروریات کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے اور یہ کام تعلیمی اداروں کے سپرد کیا جاتا ہے۔ مغربی تعلیم نے معاشرے سے پرانی قدروں کو ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جدید تعلیم نے برصغیر کے باشندوں کے اذہان یک لخت بدل ڈالے جن کی وجہ سے بقول اکبر لڑکے، باپ کو خبطی سمجھنے لگے۔ لڑکیاں انگریزی تعلیم کے حصول کے بعد پردے کی پابندی سے آزاد ہوئیں اور بے حیائی کو فروغ ملا۔ اقبالؒ نے اس کا منظر کا خاکہ کچھ یوں اڑایا:
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مدّنظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
مغربی تعلیم سے بہرہ مند ہونے کے بعد جب خواتین سرِ بازار آ گئیں تو جدید خیالات کے حامی طلبا میں بھی نسوانیت نے رنگ دکھانے شروع کر دیے۔ لڑکوں کی میک اپ سے سنوری صورتیں دیکھ کر ان کی پہچان مشکل ہو گئی کہ یہ مرد ہیں یا زن۔ عبادت گاہیں ویران ہونے لگیں اور دین کا درس دینے والے بے کار بیٹھ رہے۔ اس روش پر علامہ کہتے ہیں :
شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بد ظن ہو گئے
وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف
''پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے‘‘
مشرقی اقدار کے بدل جانے اور مغربی تہذیب کی فعالیت سے اساتذہ اور طلبہ کے درمیان احترام اور تقدس کا سلسلہ بھی دم توڑنے لگا۔ جس معاشرے میں استاد کی خدمت فرض کا درجہ رکھتی تھی وہاں جو منظر بدلا تو علامہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے:
تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ؟
دفعِ مرض کے واسطے پِل پیش کیجیے!
تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیہ دل پیش کیجیے!
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ ''بل پیش کیجیے‘‘!
علامہ کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں ملاّ، شیخ اور واعظ خاص طور پر مطعون ٹھہرتا ہے۔ اس کردار کو پرانے خیالات کا حامی اور مشرقی تہذیب کا سب سے بڑا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔اس دور میں مولویوں کی بھی دو اقسام تھیں۔ ایک جدیدیت کے حامی تھے اور دوسرے اس کے خلاف۔ جدیدیت کے حامی اپنے فائدے کی چیزوں اور قوانین کو حلال قرار دیتے۔ اس مضحکہ خیز دو عملی پر اقبالؒ اس طرح طنز کرتے ہیں:
کچھ غم نہیں جو حضرتِ واعظ ہیں تنگ دست
تہذیبِ نو کے سامنے سر اپنا خم کریں
ردّ جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا
تردیدِ حج میں کوئی رسالہ رقم کریں
علامہ اقبالؒ نے مزاح کو مستقل طور پر اختیار نہیںکیا بلکہ اکبر الٰہ آبادی سے متاثر ہو کر اس میدان میں قدم رکھا۔ دونوں میں فنی مماثلتیں تو کم ہیں لیکن فکرو نظر کی وحدت اور مقاصد کا اشتراک انھیں قریب کر دیتا ہے۔ اقبالؒ نے جلد ہی ظرافت کی راہ کو خیر باد کہہ دیا لیکن ان کے کلام میں طنز کی کیفیت رچ بس گئی۔ کلامِ اقبال کا طنزیہ پہلو آج بھی جاندار ہے اور اقوامِ عالم اپنے اپنے انداز میں اس سے مستفید ہو رہی ہیں۔
اختصار کے پیش نظر آخر میں کلیاتِ اقبال میں شائع شدہ ظریفانہ کلام سے چند گوہر پارے نذر قارئین ہیں:
تعلیمِ مغربی ہے بہت جرأت آفریں
پہلا سبق ہے، بیٹھ کے کالج میں مار ڈِینگ
بستے ہیں ہند میں جو خریدار ہی فقط
آغا بھی لے کے آتے ہیں اپنے وطن سے ہِینگ
میرا یہ حال، بوٹ کی ٹو چاٹتا ہوں
ان کا یہ حکم، دیکھ! مرے فرش پر نہ رِینگ
کہنے لگے کہ اونٹ ہے بھدّا سا جانور
اچھی ہے گائے، رکھتی ہے کیا نوک دار سِینگ
ooo
مشرق میں اصولِ دین بن جاتے ہیں
مغرب میں مگر مشین بن جاتے ہیں
رہتا نہیں ایک بھی ہمارے پلّے
واں ایک کے تین تین بن جاتے ہیں
ooo
یہ کوئی دن کی بات ہے، اے مردِ ہوش مند!
غیرت نہ تجھ میں ہو گی، نہ زن اوٹ چاہے گی
آتا ہے اب وہ دور، کہ اولاد کے عوض
کونسل کی ممبری کے لیے ووٹ چاہے گی
ooo
انتہا بھی اس کی ہے آخر خریدیں کب تلک
چھتریاں، رومال، مفلر، پیرہن جاپان سے
اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غسّال کابل سے، کفن جاپان سے
ooo
''اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے‘‘
غالبؔ کا قول سچ ہے تو پھر ذکرِ غیر کیا؟
کیوں اے جنابِ شیخ سنا آپ نے بھی کچھ
کہتے تھے کعبہ والوں سے کل اہلِ دیر کیا؟
ہم پوچھتے ہیں مسلمِ عاشق مزاج سے
الفت بتوں سے ہے تو برہمن سے بیر کیا؟
ooo
ہاتھوں سے اپنے دامنِ دنیا نکل گیا
رخصت ہوا دلوں سے خیالِ معاد بھی
قانونِ وقف کے لیے لڑتے تھے شیخ جی
پوچھو تو وقف کے لیے ہے جائیداد بھی؟
ooo
(اقتباس: ''اردو شاعری میں طنزومزاح‘‘)