دنیا کے قدیم ترین شہر
اسپیشل فیچر
آج ہم ترقی یافتہ دور میں رہ رہے ہیں لیکن پرانے زمانے میں بھی تہذیبوں نے کم ترقی نہیں کی تھی، انہوں نے بھی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ترقی کی ، ترقی سے اپنی زندگی کوآسان بنایا، اور دولت کمانے کے نت نئے طریقے تلاش کئے۔ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی تہذبیوں کا بغور جائزہ لینے والے ماہرین آثار قدیمہ نے حال ہی میں بتایا ہے کہ ''قدیم لوگ سماجی اور معاشرتی ترقی میں کم نہ تھے ‘‘۔ گریگ وولف نے بھی اپنی تحقیق میں اس نکتے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ ماضی بعید میں ہونے والی ترقی سے ہم واقف نہیں ہیں ، ان کی تعمیر کردہ عمارات عظیم الشان تھیں۔ وہ اپنی تحقیق ''قدیم شہروں کا عروج و زوال:نیچرل ہسٹری ‘‘ کے عنوان سے حال ہی میں منظر عام پر لائے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں،
''ہمیں قدیم شہریوں کا ممنون احسان ہونا چاہیے کہ انہوں نے علم و عمل میں بھی ترقی کی اور معاشی طاقت بھی بنے۔ ان کی یہ طاقت کئی صدیوں تک قائم رہی۔لیکن دور حاضر کی طرح وہ بھی معاشی اونچ نیچ ، غربت اور بھوک سے نہ بچ سکے۔بیماریاں ، تشدد اور جنگیں اس دور کابھی خاصہ تھیں۔ کورونا وباء کاہم آج سامنا کر رہے ہیں، اس طرح کئی وبائیں ان کے دور میں بھی عام تھیںجیسا کہ انتونین طاعون (Antonine) کی وباء سے 165تا 180کے درمیان رومی سلطنت کے شہری علاقوں میں 50لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کہیں وبائیں دیہات کی با نسبت شہروں کو زیادہ متاثر تو نہیں کرتیں؟ شائد ایسا ہی ہوا ہوگا۔ماضی بعید میں بھی اگر وبائیں اور جنگیں نہ ہوتی تو وہ قومیں بہت آگے ہوتیں ۔لیکن وائرس اور بیماریوں نے ان قوموں کو اپنی ترقی قائم رکھنے کی مہلت ہی نہ دی ،اور وہ ناپید ہو گئیں۔ آج خیال کیا جاتا ہے کہ اگر کورونا وائرس نہ پھیلتا تو 21ویں صدی میں تین چوتھائی دنیا شہروں میں رہ رہی ہوتی۔‘‘
گریگ وولف نے قدیم روم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، '' لگ بھگ 2000ہزار برس قبل رومی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔''میں یہ لکھتے ہوئے حیرت زدہ ہوں کہ بادشاہ آگسٹس کے دور میں روم کی شہری آبادی 10 لاکھ تھی۔دنیا کی کل آبادی کا 0.3فیصد شہر روم میں تمام سہولتوں کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔سکندریہ، ایتھنز ،موہنجوداڑو اور بازنطیم شہر میں اربنائزیشن کا بھی یہی عالم تھا ۔معاشرت کے علاوہ شہریوں نے سوشل سائنسز، بائیولوجی،موسمیات اورجیالوجی سمیت کئی علوم میں کافی ترقی کر لی تھی‘‘۔ انہوں نے تاریخی حقائق اور شواہد کی مد د سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ برٹش میوزیم سمیت بڑے عجائب گھروں میں رکھی گئی اشیاء سے قدیم ادوار میں ہونے والی ترقی کی صحیح عکاسی نہیں ہوتی۔ عجائب گھر مٹ جانے والی تہذیبوں کے جاہ و جلال کی عکاسی نہیں کرتے۔مثال کے طور پر ایتھنز میں بھی اسمبلیاں قائم تھیں لیکن دور حاضر کے برعکس ان کے اجلاس بند کمروں کی بجائے کھلی فضاء میں ،عوام کے سامنے ہوتے تھے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوا کہ آپ شہر کس کو کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ''آج نکارا گوا میں ہر بجلی اور سٹریٹس لائیٹس والے علاقوں کو شہر کہا جاتا ہے۔جاپان میں 50 ہزار سے کم آبادی والی بستی کو شہر کہا ہی نہیں جا سکتا‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ''کچھ لوگوں کے نزدیک دنیا کا پہلا شہر کہلانے کا حقدار'جریکو ‘ ہے ، یہ اب فلسطین میں شامل ہے۔جس کی بنیاد 9000برس قبل از مسیح میں رکھی گئی۔ لگ بھگ ایک ہزار برس بعد جریکو شہر کے گرد دیوار تعمیر کر دی گئی۔اس سے قدیم اس قسم کی دیوار کسی اور شہر میں دریافت نہیں ہوئی۔ اگرچہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا لیکن شائد اس وقت جریکو کی آبادی چند سو سے 3ہزار تک ہو گی۔ ریکارڈ کی عدم دستیابی کے باعث آبادی کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا قدرے ناممکن ہے البتہ پانی کی سپلائی سے اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ وہاں کتنے لوگ رہتے ہوں گے ۔ جریکو شہر میں فاوئنٹین اور عوام باتھ روم بھی قائم تھے۔ میری رائے میں دنیا کا پہلا شہر میسوپوٹونیا میں واقع 'یوروک‘(Uruk) کو کہا جا سکتا ہے۔4000قبل از مسیح میں اس کی آبادی 10ہزار سے 20ہزار تک ہو گی۔ 2900قبل از مسیح میں بادشاہ گل گمیش (King Gilgamesh) کے دور میں آبادی 60ہزار سے تجاوز کر گئی۔اسی دور میں شہر کے گرد حفاظتی دیوار کی تعمیر بھی مکمل ہوئی ۔بعد ازاں مٹی کی تختیوں پر 'بیوروکریٹک فیصلوں ‘ کے آثار بھی ملے ہیں۔ ان تختیوں پر شہر کی معاشی معلومات بھی درج تھیں۔ایک تختی پر لکھی گئی ریاضی کو دنیا کا قدیم ترین 'حساب کتاب‘ مانا جاتا ہے۔ ایتھنز، روم اور سکندریہ بھی قدیم ترین شہر ہیں ۔روم 8ویں صدی قبل از مسیح اور سکندریہ 332قبل از مسیح میں قائم ہوا۔ جبکہ قدیم عرب علاقوں کے لوگ کئی صدیوں تک دیہات میں مقیم رہے،بارشوں اور پانی کی کمی زرعی ترقی کے آڑے آئی۔ دریائے فرات اور دجلہ کا پانی بھی ان کے کسی کام نہ آیا۔حتیٰ کہ سیلاب کا پانی بھی ان تک نہ پہنچتا تھا۔پانی کی کمی اربنائزیشن میں رکاوٹ بنی‘‘۔
اپنی تحقیق کی بنیاد پر انہوں نے نتیجہ نکالا کہ ''دنیا میں کوئی ایک شہر بھی ایسا نہیںجو ہمیشہ قائم و دائم رہے، عمارات کی بنیادیں خواہ کتنی ہی فولادی اور مضبوط کیوں نہ ہوں ،زوال ہر شہر کام مقدر بنے گا‘‘۔اپنی اس بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے وہ ہمارے ہڑپہ اور موہنجو داڑو کا ذکر کرتا ہے۔ کیونکہ وادی سندھ کی تہذیب ان تمام تہذیوں سے آگے تھی۔ وہ لکھتا ہے ،''ہڑپہ اور موہنجو داڑو میںپکی اینٹوں سے بنائے گئے مکانا ت کے آثار ملے ہیں۔ نکاسی آب اور غسل خانوں کا نظام بہترین تھا،لیکن 1900 قبل از مسیح میں یہ تہذیب پراسرار طور پر مٹ گئی۔کئی دوسری تہذیبیں بھی اسی طرح کھنڈر بن گئیں۔آج بنائے جانے والے کسی ایک شہر کو بھی دوام حاصل نہیں‘‘۔