’’انٹرنیٹ گیمنگ ڈس آرڈر ‘‘: ایک بڑھتا ہوا مرض

 ’’انٹرنیٹ گیمنگ ڈس آرڈر ‘‘: ایک بڑھتا ہوا مرض

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر سید فیصل عثمان


بدلتے زمانے میں لوگوں کی عادات بھی بدلتی جا رہی ہیں، کسی کو وڈیو گیمز کی عادت پڑگئی تو اسے نہیں پتہ چلتا کہ کب صبح ہوتی ہے اور کب شام ، نیند بھی وڈیو مشین کے ساتھ آتی ہے ، اسی کے ساتھ آنکھ کھلتی ہے، کوئی کھیل کود میں اس قدرمشغول رہتاہے کہ پڑھائی کی جانب دھیان ہی نہیں جاتا۔ کسی کو سگریٹ نوشی کی عادت پڑ جاتی ہے اور باوجود کوشش کے وہ اس سے بچ نہیں پاتا، اس کے برعکس کچھ لوگ آسانی سے سگریٹ نوشی ترک کردیتے ہیں۔کسی کو ہر وقت کھانے پینے کی عادت پڑ جاتی ہے ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے کو مانگتے رہتے ہیں، شاپنگ کے شوقین کو پاس کے شاپنگ مالزکے چکر لگانے کیلئے کبھی وقت کی کمی نہیں ہوتی، جواری، جوئے کے اڈے میںزندگی برباد کرنے کے بعد ہی گھر لوٹتے ہیں۔ ہوس لت بھی بن سکتی ہے۔ 
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کوئی بچہ یا بڑا بہت جلدی کسی عادت میں مبتلا ہو جاتا ہے کچھ لوگ اپنے ساتھیوں کو دیکھتے ہوئے بھی اس عادت سے بچے رہتے ہیں ؟ بہت سے بچوں کی اپنی اپنی عادات ہیں جن سے والدین بھی تنگ ہوتے ہیں اور تعلیمی ادارے بھی ،لیکن کچھ نہیں کرپاتے۔ کچھ بڑے اور بچے بھی، ان عادات میں جلدی کیوں مبتلا ہوجاتے ہیں ،وہ دور کرنے کی کوشش کے باوجود بھی اس عادت سے بچ نہیں پاتے۔
نشہ یا لت کیا ہوتی ہے ؟ 
حال ہی میں بیرون ملک ایک نئی تحقیق شروع کی گئی ہے، تحقیق کا مقصد یہ جاننا ہے کہ انسانی جینز میں ایسی کوئی خرابی تو نہیں پائی جاتی تو آگے چل کر فرد کو کسی بھی کام، چیز یا نشے کا عادی بنا دیتی ہے یعنی 'لت‘ کی ذمہ داری جینز پر ڈالنے کی تحقیق شروع کر دی گئی ہے ۔اسی موضوع پر منظر عام پرآنے والے ایک مضمون ''The Fault in Our Genes: Understanding Addiction as a Disease‘‘ میں روشینہ زہرہ لکھتی ہیں کہ ''جس طرح کارڈیو ویسکلر بیماریاں دل کو، ذیابیطس لبلبے کو بیمار کر دیتا ہے، عین اسی طرح نشہ بھی دماغ کو ہائی جیک کرلیتا ہے۔لیکن اگر کسی فرد میں پہلے سے ہی کوئی جینیاتی پائی جاتی ہو تو اس صورت میں فرد کا رجحان نشے کی جانب تیزی سے بڑھتا ہے یعنی جیناتی خرابی انسان کو نشے کا عادی بننے میں مدددیتی ہے۔یہ نشہ یا عادت کسی بھی چیز کی ہو سکتی ہے جیسا کہ کسی کو وڈیو گیمز کی عادت پڑ جاتی ہے تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔اب کہا جا رہا ہے کہ منشیات میں مبتلا ہونے کا 40سے 60فیصد تک تعلق جینیاتی عوا مل سے ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر یوسف مرچنٹ کے نزدیک لت دراصل کردار کی خامی ہے۔ان کے نزدیک یہ جینز کی خرابی کی ایک علامت ہے بذات خود خرابی نہیں ہے۔ انہوں نے کسی بھی چیزکی لت کو دماغی مرض قرارد یا ہے ۔ تاہم ان کے نزدیک اگر کردار میں کوئی خامی ہے تو اس کا حل بھی ہونا چاہئے؟ایسے افراد کو سب سے پہلے گھر،دفتر، محلے یا شہر بدر کرنے کا سوچاجاتا ہے۔ کیا واقعی ایسے لوگوں کو معاشرے سے الگ کر دیا جائے؟ الگ تھلگ رہ کر وہ سنبھل جائیں گے یا مزید برائی کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے؟ماہرین نے اس کا جواب نفی میں دیا ہے ،ان کے نزدیک ان بیماروں کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے ۔
اس بارے میں ''ہارورڈ یونیورسٹی ‘‘میں بھی کافی تحقیق کی گئی ہے۔ ایک مقالے کا موضوع ہے '' کیا لت دماغی مرض ہے‘‘ (Is addiction a "brain disease"?)
ڈاکٹر برائر مائیکل لکھتے ہیں کہ ''اس حوالے سے کئی نکات زیر غور لائے جا سکتے ہیںیہ ایک طرح کا بائیولوجیکل ڈس آرڈر ہے، دوسرے جسمانی عوارض کی طرح ان امراض کے تدارک کی تحقیق کے لئے بھی اضافی فندز مخصوص کئے جانا چاہئیں۔شخصیت پر داغ یا شرم سے بھی اس کاگہرا تعلق ہے۔ کیونکہ ان عادات میں مبتلا اشخاص کو کمزور اخلاقیات کا مالک یا دوسروں کے پیسوں پر موج کرنے کا الزام بھی دھرا جاتا ہے‘‘۔ ایک رائے کے مطابق دماغی خلیوں میں پیدا ہونے والی خرابی کو دور کرنے سے بری عادت سے سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ لیکن فی الحال اس کا علاج دریافت نہیں کیا جا سکا۔ 
محققین کے مطابق سن بلوغت کو پہنچنے والے نوجوانوں کا دماغ پوری طرح تیار نہیں ہوتا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی پلاسٹک کی مانند ،اور کمزور ہوتا ہے۔بیرونی مداخلت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔اس عمر میں کسی بھی قسم کا ٹرامایا منشیات کی جانب جھکائو دیرپا خرابی کاباعث بن سکتا ہے۔
''دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن ‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق (brain science)میںڈاکٹر نورا والکو ف کے مطابق پہلے کہا جاتا تھا کہ اس کا تعلق کافی حد تک طرز عمل سے بھی ہوتا ہے ۔جن لوگوں کے frontal cortices زیادہ بہتر طور پرڈویلپ ہو جاتے ہیں ان میں کسی بھی مختلف طرز عمل ظاہر کرنے کی طاقت دوسروں کی بہ نسبت قدرے زیادہ ہوتی ہے۔یہاں طوطے کی مثال دینابھی غلط نہ ہوگا،اچھے اور برے کی تمیز کسی حد تک طوطے میں بھی ہوتی ہے وہ جانتا ہے کہ کس کام پر انعام ملے گا اور کس حرکت پر اس کی یا ا س کے سامنے کسی شخص کی مرمت ہو سکتی ہے۔لت میں مبتلا اشخاص اپنی آزادی کھو بیٹھتے ہیں۔کئی طرح کی معاشی اور سماجی پابندیوں کے بعد وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے کے حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ہم پری فرنٹل کارٹیکس (انتظامی کام کرنے والا دماغ کاحصہ )کی خامیوں کو دور کرکے بیماری کی شدت میں کمی لاسکتے ہیں۔ سیلف مانیٹرنگ سمت کئی دیگر اہم امور کی انجام دہی میں اسی کا دخل ہوتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ نشہ نہ ملنے کی صورت میں پیدا ہونے ولا کھچائو کیسے دور کیا جائے؟ یہ تحقیق تاحال کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکی۔ شدید مایوسی پیدا ہونے کا امکان رد نہیں کیاجا سکتا‘‘۔
کچھ نشیئوں کو بدبوئوں کی لت لگ جاتی ہے جیسا کہ پالش ، جوڑنے والے کیمیکلز۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کچھ لوگ نشئی اس جگہ کو ہی گھورتے رہتے ہیں جہاں سے نشہ ملتا ہے۔
نشہ استعمال کرنے کے دوران دماغ میں نشہ پیدا کرنے والے کیمیکلز (intoxicating brain chemicals) جن میں ڈوپامین اہم ہے،یہ کیمیکلز نیورو ٹرانسمیٹرز پر اثر انداز ہوکر غمی اور خوشی کی وجوہات یا اسباب کو بدل دیتے ہیں۔ یعنی ایک عام آدمی جن باتوں سے خوش ہوتا ہے ،نشئی کو ان باتوں سے زیادہ سروکار نہیں ہوتا۔جیسا کہ دوستوں کی محفل ،سوئمنگ، کھیل یا غروب آفتاب کا دل کش نظارہ۔ نشئی ان باتوں میں صحت مند شخص کی بہ نسبت زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا ۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے ڈرگز اینڈ کرائم کی رپورٹ میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ نشئی سب سے بڑی جمہوریت میں پائے گئے تھے۔ 2001ء میں 7.32کرور افراد نشئی تھے۔جن میں سے ساڑھے چھ ہزار ہلاک ہو گئے۔
انٹرنیٹ گیمنگ ڈس آرڈر
اسلام آباد کے ایک تعلیمی ا دارے نسٹ کی تحقیق کے مطابق ''انٹر نیٹ گیمنگ ڈس آرڈر‘‘ تیزی سے بڑھتا ہوامرض ہے۔صدف زہرہ، صدف ضیاء، شعیب کیانی اور کنول شہباز کی تحقیق نے بتایا کہ انٹرنیٹ کئی اہم مصروفیات پر حاوی ہو گیا ہے،بچے انٹر نیٹ گیمز میں کھوئے رہتے ہیں ،کرنے کے کئی کام رہ جاتے ہیں۔جنگ سے متعلق گیمز مقبول ترین ہیں،والدین ان کے اثرات سے ناواقف ہیں، وہ نہیں جانتے کہ بچوں کا مستقبل کس بری طرح جکڑا جا چکاہے، وہ اب خود کے کنٹرول میں بھی نہیں رہے ،ان جنگی قسم کی گیمز نے دل و دماغ کو مسخر کر لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے وڈیو گیمز کو عالمی بیماری اور مینٹل ڈس آرڈرقرار دے چکا ہے۔اس کا علاج نہایت ضروری ہے۔ڈبلیو ایچ او کے نزدیک وڈیو گیمزکوضرورت سے زیادہ وقت دینے والا ذہنی مریض ہو سکتا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Next-Gen Al Innovations

Next-Gen Al Innovations

بائیونک ہاتھ اور الیکٹرانک جلدبائیونک ہاتھ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے، جو انسانی ہاتھ کی حرکات اور صلاحیتوں کی نقل کیلئے بنائے گئے ہیں۔ یہ بڑی مہارت کے ساتھ اشیاء کو پکڑنے، سنبھالنے اور قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے انسان اپنے ہاتھ استعمال کرتے ہیں۔ دریں اثناء اعلیٰ کارکردگی والی لچکدار الیکٹرانک مصنوعی جلد جو اصل جلد کی طرح لچکدرا ہے ، یہ پھیلنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے ۔یہ چھونے، دباؤ، درجہ حرارت اور دیگر خارجی محرکات کو محسوس کر کے انہیں برقی سگنلز میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اگر یہ ٹیکنالوجی روبوٹکس مصنوعات میں استعمال ہو تو یہ روبوٹ کو زیادہ حساس اور حقیقی جیسا بنا سکتی ہے۔یونٹری جی 1''26واں چائنہ ہائی ٹیک فیئر ‘‘ایک ہفتہ تک چائنہ کے شہر شنگھائی میں جاری رہا، جس میں 4300 سے زائد نئی ٹیکنالوجیز اور مصنوعات پیش کی گئیں۔روبوٹک ٹیکنالوجیز کے علاوہ، میلے نے چین میں تعلیم، سائنسی تحقیق، اور صنعت کے درمیان گہرے انضمام کو بھی نمایاں کیا گیا۔چائنہ کی معروف کمپنی ہانگژو یوشو ٹیکنالوجی نے اپنے روبوٹک کتے ''یونٹری گو 2‘‘ کے ساتھ اپنا ہیومینائیڈ روبوٹ ''یونٹری جی 1‘‘ بھی پیش کیا ہے۔ ''یونٹری جی 1‘‘ کی قیمت 99ہزار یوآن (تقریباً13,699 ڈالر) سے شروع ہوتی ہے۔ یہ 3ڈی لائیڈار سسٹم سے لیس ہے جو 360 ڈگری ماحولیاتی آگاہی فراہم کرتا ہے اور اپنی شاندار استحکام کے ساتھ، پیچھے سے دھکا دینے پر بھی سیدھے کھڑے رہنے اور نارمل چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔شنگھائی: خواتین ٹیکنالوجی فیئر میں رکھے گئے سرجری روبوٹ کی آزمائش کر رہی ہیں جو ہر قسم کے آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بائیں جانب روبوٹ شرکاء سے مصافحہ کر رہا ہے۔ای ویٹول''الیکٹرک ورٹیکل ٹیک آف اور لینڈنگ‘‘ (eVTOL) ہوائی جہاز ہوا بازی کی ٹیکنالوجی میں ایک انقلابی تبدیلی ہے ۔ یہ شہری نقل و حمل میں انقلاب لانے، ٹریفک کے رش کو کم کرنے اور روایتی ہوائی جہازوں کے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔یہ جدید ہوائی جہاز اس طرح ڈیزائن کیے گئے ہیں کہ وہ الیکٹرک پروپلشن کی کارکردگی کو عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ کی صلاحیتوں کی ہم آہنگی کے ساتھ یکجا کرتے ہیں، جس سے انہیں شہری ماحول میں کام کرنے کی صلاحیت ملتی ہے جہاں جگہ محدود ہوتی ہے اور روایتی رن وے عملی نہیں ہوتے۔Exoskeleton Humanoidایکسو سکیلٹن روبوٹکس کے شعبے میں نمایاں پیش رفت کی علامت ہے۔ بالخصوص انسانوں کی جسمانی قوت بڑھانے، توانائی کی بچت اور صنعتی یا طبی مقاصد کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔صفائی کرنے والا روبوٹروبوٹکس ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیشرفت نے صفائی کے روبوٹس کو زیادہ ذہین اور ورسٹائل بنا دیا ہے۔ اب یہ نہ صرف مختلف سطحوں کو صاف کر سکتے ہیں بلکہ پیچیدہ صفائی کے کام بھی انجام دے سکتے ہیں۔بیرونی دیواروں کی صفائی کرنے والا روبوٹ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ایک خودکار مشین ہے۔ جو عمارتوں کے بیرونی حصے، جیسے شیشے کے پینلز، دھات یا دیگر سطحوں کو صاف کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ خاص طور پر بلند و بالا عمارتوں کی صفائی کیلئے کارآمد ہے، جہاں انسانی رسائی مشکل اور خطرناک ہو سکتی ہے۔جدید سینسرز اور AI ٹیکنالوجی سے لیس یہ روبوٹ خودکار طور پر سطح کی صفائی کرتا ہے اور رکاوٹوں کو پہچان کر ان سے بچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 

دولے شاہ کے چوہے!

دولے شاہ کے چوہے!

آج کل کی نسل تو شاید ''دولے شاہ کے چوہوں‘‘ کے نام سے بھی لا علم ہو گی لیکن دو اڑھائی عشرے قبل تک پاکستان کے بیشتر شہروں میں مخصوص وضع قطع کے سروں والے، سبز رنگ کا لمبا سا چولا پہنے، گلے میں رنگ برنگے منکوں (موتیوں ) کا بڑا سا ہار لٹکائے ، طرح طرح کے نعرے لگاتے ہاتھ میں کشکول تھامے ، بھیک مانگتے یہ معصوم اور قابل رحم بچے اکثر نظر آجایا کرتے تھے۔ان بچوں کی اکثریت چند مخصوص الفاظ سے بڑھ کر بولنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوا کرتی تھی۔حیران کن حد تک ان مظلوموں کے چہروں پر کبھی ناگواری یا اکتاہٹ کی جھلک تک نظر نہ آتی تھی۔ شاید یہ سب ان کی ''تربیت‘‘ کا شاخسانہ ہو۔ اس معصوم اور مظلوم مخلوق کو ہی ''دولے شاہ کے چوہے‘‘ کہا جاتا تھا۔ ان کو دیکھ کر اکثر ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ ایک جیسی ہئیت اور وضع قطع کے لوگ کون ہیں ، کہاں سے آتے ہیں، ان کی وضع قطع مخصوص کیوں ہے، سب بڑھ کر یہ سوال کہ انہیں دولے شاہ کے ''چوہے‘‘ کا غیر مہذب لقب کس نے اور کیوں دیا ؟۔بدقسمتی سے پاکستان یا برصغیر کے محققین یا مورخین نے اس معصوم مخلوق بارے نہ تو جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی کوئی تحقیق کی ہے۔ ان بارے زیادہ تر معلومات کا دارومدار قدیم روایات تک ہی محدود ہے ۔ اس سے پہلے کہ اس مخلوق کی زندگی پر تفصیل سے روشنی ڈالیں پہلے ان کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔دولے شاہ کے چوہے کون ہیں؟ پنجاب کے شہر گجرات کے قریب 16ویں صدی کے آخری عشروں میں سید کبیر الدین دولے شاہ نامی ایک بزرگ آن بسے جن کی نسبت سہروردی سلسلے سے بتائی جاتی ہے ۔یہ مغل بادشاہ اکبر کا دور تھا۔ان کے یہاں منتقل ہونے کا مقصد یہاں کے لوگوں کو دینی تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ رفتہ رفتہ لوگ اپنی من مرادوں کیلئے ان کے پاس آکر دعا کراتے جن میں کثیر تعداد دوردراز سے آئی بانجھ عورتوں کی ہوتی ۔ روایات میں آیا ہے کہ بیشتر بانجھ عورتوں کی دعائیں قبول ہوئیں،جس کے پیش نظر بیشتر والدین اپنا پہلا بچہ دولے شاہ کے نام وقف کر کے آستانے پر چھوڑ جاتے تھے۔کچھ حکایات یہ بھی ہیں کہ اگر کوئی والدین اپنے پہلے بچے کو اس آستانے کیلئے وقف کرنے سے گریز کرتے تو ان کی باقی اولاد چھوٹے سروں والی ہی پیدا ہوتی تھی۔کچھ روایات تو یہ بھی ہیں کہ جو والدین اپنے پہلے بچے کو اس آستانے کے حوالے نہیں کرتے تھے، بڑے ہوتے ہی ان کے بچے خود بخود اس آستانے جا پہنچتے تھے۔کچھ عرصہ بعد دولے شاہ کا انتقال ہوا تو عقیدت مندوں نے اس آستانے کو ایک مزار میں بدل دیااور عقیدت مندوں اور دعا کے طالبوں کی آمد کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ ان کے مخصوص چھوٹے سروں کی ساخت کے بارے میں طرح طرح کی زیرگردش کہانیاں کئی سالوں سے سننے کو ملتی رہی ہیں۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ یہاں لائے گئے بچوں کو سب سے پہلے مخصوص شکل میں ڈھالنے کیلئے ان کے سروں پر لوہے کے کنٹوپ چڑھا دئیے جاتے ہیں ، جس کے باعث ان کے سر معمول سے چھوٹے رہ جاتے ہیں، پھر ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔ یہ غیر اخلاقی نام کیسے شہرت پا گیا ؟ تاریخی حوالوں سے پتہ چلا ہے کہ 1839ء میں پشاور کے کرنل کلاڈ مارٹن کے مشن سیکرٹری شہامت علی، شاہ دولہ کے مزار دورے پر آئے ، کہتے ہیں یہ اس منفرد مخلوق کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور بے اختیار ان کے منہ سے نکلا '' یہ تو دولے شاہ کے چوہے ہیں‘‘۔ روایتوں میں ہے اس کے بعد اس معصوم اور بے ضرر مخلوق کی شناخت اسی نام سے کی جانے لگی۔ محققین اور مورخین کیاکہتے ہیںڈاکٹر جانسٹن وہ پہلے سائنسدان تھے جو 1866ء میں یہاں آئے۔ان کی ملاقات مزار میں موجود نو بچوں سے ہوئی۔جانسٹن کا دعویٰ تھا کہ ان بچوں کے سروں کو مکینیکل طریقے سے چھوٹا کیا گیا ہے ۔1879ء میں ایک برطانوی محقق اور مصنف ، ہیری ریوٹ نے یہاں کا دورہ کیا ان کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق کے مطابق ان بچوں کے سروں کو مٹی کی ہنڈیا یا دھات کے کسی برتن کو سر پر چڑھا کر چھوٹا کر کے '' چوہوں‘‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ کیپٹن ایونز بھی ایک محقق گزرے ہیں، نے 1902ء میں ان بچوں بارے بہت تحقیق کی۔ ان کا کہنا تھا کی یہاں مجھے 600 کے لگ بھگ بچے نظر آئے جن میں بیشتر چھوٹے سروں والے تھے۔ میں اس سوچ کو یکسر مسترد کرتا ہوں کہ ان کے سروں کو مصنوعی طریقے سے چھوٹا کیا جاتا ہے۔میری تحقیق کے مطابق یہ کسی بیماری کا نتیجہ ہے کیونکہ میں نے برطانیہ میں بھی ایسے ہی بچے دیکھے ہیں۔ آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں کہ 1902ء میں ان بچوں کو یومیہ کرائے پر دینے کی روائت عام تھی جن سے بھیک منگوانے کا کام لیا جاتا تھا۔ کیپٹن ایونز کے بقول دولے شاہ کا مزار اس مہلک اور عجیب و غریب بیماری سے متاثرہ بچوں کی ایک سماجی پناہ گاہ کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ 1969ء میں پاکستان کے محکمہ اوقاف نے اس مزار کو اپنی تحویل میں لے کر بچوں کے سر چھوٹے کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن کسی نہ کسی حد تک یہ دھندہ آج بھی جاری ہے۔ جدید تحقیق کیا کہتی ہے ان بچوں بارے جدید تحقیق، قدیم روایات اور افواہوں کو یکسر مسترد کرتی ہے۔اس بارے سب سے پہلے 1884ء میں '' برٹش میڈیکل جرنل‘‘ اور ''انڈین میڈیکل گزٹ‘‘ میں شائع ایک تحقیق کا ذکر ملتا ہے جس کے مطابق اس قسم کے بچوں کی ہئیت کو ایک بیماری قرار دیا گیا تھا۔ 1928ء میں ہندوستان کے شعبہ صحت نے 1868ء ے لے کر 1903ء تک کی میڈیکل رپورٹوں کا جائزہ لیا اور اس نتیجے تک پہنچے کہ یہ ''مائیکرو سیفلی‘‘ نامی ایک بیماری ہے جو پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ماہرین نے بھی مائیکرو سیفلی کی تصدیق کی ہے جس میں بچوں کا سر اس کی عمر کے تناسب سے چھوٹا ہوتا ہے۔   

سوشل میڈیا کتنا مفید،کتنا نقصان دہ!

سوشل میڈیا کتنا مفید،کتنا نقصان دہ!

سوشل میڈیا کے بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہیں۔ کوئی بھی آلہ بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا، اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ البتہ کسی بھی شے کا فائدہ اٹھانے کیلئے انسان کا باشعور اور پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے۔سوشل میڈیا کے فوائدسوشل میڈیا تربیت گاہ: یوں تو بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے، اور سوشل میڈیا کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ اسے تربیت گاہ میں بدل سکتے ہیں۔ اس بارے میں کسی کا قول تھا کہ کمپیوٹر آنے والی نسلوں کو تربیت دے گا۔ اس بات سے کوئی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا۔ موبائل فون کے مختلف ایپس کے ذریعے بچوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ کمائی کا بہترین ذریعہ: اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ سوشل میڈیا کمائی کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔ یوٹیوب پر کافی عرصہ سے لوگ اپنے چینلز کے ذریعہ آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ خرید و فروخت کے بہت سارے مسائل بھی اس کے ذریعہ آسان ہوچکے ہیں۔معلومات کا اشتراک: سوشل میڈیا کسی بھی موضوع پر بر وقت معلومات جیسے، صحت، اسپورٹس اور دیگر موضوعات کی اپ ڈیٹس فراہم کرتا ہے۔ذریعہ حصول تعلیم و تعلم: نوجوان سوشل میڈیا کو تعلیم حاصل کرنے کا ذریعہ بنا کر اس سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ سیکھنے اور معلومات حاصل کرنے والوں کیلئے بہترین پلیٹ فارم ہے، یہاں سے آپ اپنی معلومات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔سوشل میڈیا کے نقصاناتخودنمائی: جب سے اسمارٹ فون میں فرنٹ کیمرہ کا آپشن آیا ہے سیلفی لینے کا رجحان ایک مرض کی طرح نوجوانوں میں پھیل گیا ہے۔ موقع بہ موقع تصویریں لی جاتی ہیں اور انہیں سوشل میڈیا سائٹس پر پوسٹ کیا جاتا ہے۔ سیلفی لینے کے دوران بہت سے نوجوان خطرات سے دوچار ہو کر موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اسی طرح اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کے ذریعے ہر اہم جگہ پر اپنی موجودگی کو ظاہر کرنا بھی بہت مقبول ہے۔ آپ کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے ہیں تو فوراً اپنے دوستوں کو یہ بتانا ضروری ہے۔ آپ بیرون ملک سفر کیلئے روانہ ہورہے ہیں تو اس کی اطلاع سب کو ہونی چاہئے۔ ان تمام کا مقصد اپنی ذات کو نمایاں کرنا اور دوسروں کے ذہنوں میں اپنی شخصیت کا خاص تاثر پیدا کرنا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں معاشرے میں غیر محسوس انداز میں مسابقت کی غیر صحتمند دوڑ شروع ہوگئی ہے۔ جس سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا رجحان پرورش پا رہا ہے۔مطالعے سے دوری: اس ڈیجیٹل دور میں ہمیں جتنی آسانیاں فراہم ہو رہی ہیں ہم اتنے ہی کاہل، سست اور ناکارہ ہوتے جا رہے ہیں۔ دراصل ہم اپنے مواد کو آسانی کے ساتھ ڈھونڈ کر اسی پر منحصر ہو جاتے ہیں اور اس سے آگے نہیں سوچتے جس سے ہماری صلاحیتیں محدود ہوتی جارہی ہیں۔ اتنی آسانیاں فراہم ہونے کے باوجود بھی اب ہمارا دھیان مطالعے کی طرف سے ہٹتا جا رہا ہے۔ معلومات میں اضافہ کرنے والی کتابوں کو سرچ کرنے کے بجائے ہمارا زیادہ تر وقت وٹس ایپ، انسٹاگرام اور فیس بک کی نذر ہو رہا ہے۔ بچے اردو کے رسالے اور کہانیاں پڑھنے سے زیادہ موبائل فون پرکہانیاں دیکھنے میںبچوں کی دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔جھوٹ کا بازار: سوشل میڈیا نے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات کا ایک سمندر تخلیق کر دیا ہے جو کہ کسی حکومتی کنٹرول سے ماورا ہونے کے سبب نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے۔وقت کا ضیاع: سوشل میڈیا نے ہماری نوجوانوں نسل کو اپنے سحر میں ایسا گرفتار کیا ہے کہ ہر وقت اسمارٹ فون کے ذریعے وہ کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف نظر آتے ہیں، وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا اور انسان ضروری کاموں کی انجام دہی سے محروم رہ جاتا ہے۔ نوجوانوں کی زندگی اسی طرح گزر رہی ہے۔سوشل میڈیا اور برقی آلات کا استعمال جتنا مفید اور وقت کو بچانے والا ہے اس سے کہیں زیادہ وقت کو ضائع کرنے والا اور نہایت ہی مضر ہے۔ اس لئے سوشل میڈیا کا ضرورت کے مطابق ہی استعمال کریں اور اس کے غلط استعمال سے بھی بچیں ورنہ یہ آپ کا وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی بھی برباد کرسکتا ہے۔ غرض اپنے اوپر قابو رکھتے ہوئے اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وقت کا ضیاع ہمارا مقصد نہیں ہے، اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کریں اور خود احتسابی کا جذبہ پیدا کریں کہ 24 گھنٹے میں میرا کتنا وقت یوں ہی ضائع ہو رہا ہے اور کوشش کریں کہ اپنوں کے درمیان وقت گزاریں، تنہا نہ رہیں، دینی تعلیم حاصل کرنے اور اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔ ان تمام اقدامات سے معاشرہ تباہی سے بچ سکتا ہے۔ 

قیلولے سے ملتی ہے توانائی

قیلولے سے ملتی ہے توانائی

یوں تو ہر شخص کا کھانے پینے سے لے کر سونے اور آرام کرنے کا وقت الگ الگ ہوتا ہے،اس کے باوجود زیادہ تر لوگ دوپہر کے کھانے کے بعد آفس میں نیند آنے کی شکایت کرتے ہیں۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ نیند کی وجہ سے ان کا کام متاثر ہوتا ہے، اگر آپ بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں، جو اس بات کی شکایت دوستوں سے کرتے ہیں تو امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے پاس آپ کی پریشانی کا حل موجود ہے۔پورے دن میں ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب ہر شخص انتہائی تھکا ہوا محسوس کرتا ہے، ایسے میں خود کو ایک بار پھر تازہ محسوس کرنے کیلئے یا تو وہ جھپکی لیتا ہے یا پھر چائے یا کافی کا سہارا لیتا ہے۔ آپ خود کو 24 گھنٹے متحرک نہیں رکھ سکتے ہیں اور جب آپ کچھ کر ہی نہیں سکتے ہیں تو کیوں نہ ایک جھپکی ہی لے لی جائے، لیکن نیند بھگاکر آپ کی تروتازہ ہونے والی یہ جھپکی کتنی دیر کی ہونی چاہئے، 10 منٹ، 20 منٹ یا پھر ایک گھنٹہ۔ ناسا نے آپ کے اس سوال کا جواب ڈھونڈ نکالا ہے۔مسلسل سات سے آٹھ گھنٹے کام کرنے کے بعد کچھ دیر کیلئے لی گئی ایک پاور نیپ (جھپکی)آپ دوبارہ گھنٹوں کیلئے ریچارج کر دیتی ہے اور آپ بہتر طریقے سے کام کر پاتے ہیں۔ انسان کوسارے دن میں دو بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے نیند آ رہی ہے، یہ انسانی جسم کی ایک قدرتی فعل ہے۔ آپ چاہیں بھی تو اسے روک نہیں سکتے، ایسے میں ناسا کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں بتایا ہے کہ دن میں لی گئی ایک جھپکی واقعی پوری رات کی نیند کے برابر آپ کو توانائی دیتی ہے۔26 منٹ تک کاک پٹ میں سونے والا پائلٹ باقی پائلٹوں کے مقابلے میں 54 فیصد محتاط اور کام کی کارکردگی میں 34 فیصد زیادہ بہتر نظر آئے گا۔ ناسا میں نیند کے ماہرین نے نیپ کے اثرات پر تحقیق کرتے ہوئے پایا کہ نیپ لینے سے شخص کے موڈ اور کارکردگی بہت بہتری ہوتی ہے۔براک یونیورسٹی کے پروفیسر کمبرلیے کوٹے کے مطابق طویل جھپکی آپ کو گہری نیند میں ڈال سکتی ہے لہٰذا ناسا نے مشورہ دیا کہ 10 سے 20 منٹ کے درمیان پاور نیپ اٹھائیں۔ ناسا کے اس تجویز میں بتایا گیا کہ دس منٹ کی جھپکی آپ کو پوری رات کی نیند جیسا تازہ محسوس کروا سکتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ 10 منٹ کی جھپکی لینے سے پٹھوں کے بننے سے لے کر یادداشت مضبوط ہونے میں مدد ملتی ہے۔ 

صحت حکمت اور انسانیت

صحت حکمت اور انسانیت

انسانی صحت اللہ تعالیٰ کی سب سے عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، اور دین اسلام نے بھی صحت کی حفاظت کو خاص اہمیت دی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے متعدد مواقع پر صحت کی قدر کرنے اور بیماری سے بچنے کیلئے تدابیر اپنانے کی ہدایت دی۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: ''دو نعمتیں ایسی ہیں، جن کی لوگ قدر نہیں کرتے، ایک صحت اور دوسری فرصت‘‘۔ صحت کی حفاظت انسان کی بنیادی ذمہ داری ہے اور انسان کو اپنی جسمانی و ذہنی حالت کی حفاظت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔بدلتے موسم، خصوصاً موسم سرما کی آمد کے ساتھ، صحت کے حوالے سے مزید احتیاط کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سردی کے موسم میں جسم کو گرم رکھنے کیلئے مناسب لباس، خوراک، اور حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق، موسم کے لحاظ سے خوراک میں تبدیلی کرنا اور خود کو بیماریوں سے بچانے کیلئے حفاظتی تدابیر اپنانا ضروری ہے۔ سرما کے موسم میں گرم مشروبات، یخنی اور خشک میوہ جات کھانا بھی عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے، جو جسم کو اندرونی طور پر طاقت بخشتے ہیں۔ جسم کی خشکی دور کرنے کیلئے زیتون کے تیل کا استعمال بھی فائدہ مند ہے۔قدیم زمانے میں بھی لوگ صحت کی اہمیت کو سمجھتے تھے، اور یونانی حکماء نے اس موضوع پر بہت کام کیا۔ ان کی تحقیقات اور تجربات نے انسانیت کو صحت کے بارے میں نئی بصیرت فراہم کی، اور ان کی خدمات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ یہ حکماء نہ صرف طبی علوم میں ماہر تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیوں کو دوسروں کی خدمت کیلئے وقف کیا، جو کہ ایک مثالی رویہ ہے۔ یہ اقدار ہمیں سکھاتی ہیں کہ صحت کی حفاظت اور خدمت کا جذبہ انسانیت کیلئے کتنا اہم ہے، اور اسی جذبے کو اپنی زندگیوں میں اپنانا ہمارا فرض ہے۔ ان کی تحقیق اور بے لوث خدمات نے انسانیت کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں ایک عظیم کردار ادا کی۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔ بقراط: بقراط علمِ طب کے بانی کہلاتے ہیں، جنہوں نے بیماریوں کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ''بقراطی حلف‘‘ متعارف کروایا، جسے آج بھی دنیا بھر کے طبیب اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی بنیاد مانتے ہیں۔ بقراط کا نظریہ یہ تھا کہ انسانی جسم قدرتی توازن کے تحت صحت مند رہتا ہے، اور اس توازن میں بگاڑ بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ انہوں نے مریضوں کے ساتھ ہمدردی اور شفقت کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دی اور علاج کیلے ہمیشہ قدرتی اور سادہ طریقے اختیار کیے۔جالینوس: جالینوس طبِ یونانی کے عظیم معالج اور محقق تھے، جنہوں نے انسانی جسم کی تشریح اور اس کے مختلف افعال کی تفصیل بیان کی۔ ان کے نظریات نے طب کی دنیا کو ایک نئی راہ دکھائی، اور ان کی کتابیں صدیوں تک طبیبوں کیلے رہنمائی کا ذریعہ رہیں۔ جالینوس نے اپنے علم کو انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کیا اور بغیر معاوضے کے مریضوں کا علاج کیا۔ارسطو (Aristotle): ارسطو نہ صرف فلسفی تھے بلکہ علمِ حیاتیات کے بانی بھی سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے انسانی جسم کے مختلف حصوں کا تجزیہ کیا اور اس کے افعال کا جائزہ لیا۔ ارسطو نے جسمانی صحت کو انسانی فلاح و بہبود کا بنیادی حصہ قرار دیا۔ہیروفیلوس (Herophilus) اور ایراسیسٹریٹس (Erasistratus): یہ یونانی طبیب انسانی جسم کی تشریح کے ماہر تھے۔ ہیروفیلوس نے اعصابی نظام کا تفصیلی مطالعہ کیا، جبکہ ایراسیسٹریٹس نے دورانِ خون اور جسمانی رطوبتوں پر تحقیق کی۔ ان کے اصولوں نے طب کی بنیادیں مضبوط کیں اور علاج کو مزید موثر بنایا۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مندرجہ بالا یونانی حکماء انسانیت کی خدمت کے عظیم علمبردار تھے، جنہوں نے اپنی زندگیاں دوسروں کی بھلائی کیلئے وقف کیں۔ ان کا نظریہ تھا کہ صحت کی خدمت سب سے اعلیٰ خدمت ہے، اور اسی جذبے نے انہیں بے لوث علاج کے اصول اپنانے پر مجبور کیا۔قریب ماضی میں، حکیم محمد سعید شہید نے پاکستان میں طبِ یونانی کے فروغ اور انسانیت کی خدمت کیلئے اپنی زندگی وقف کی۔ ان کا مشن اسلام کے ان اصولوں پر مبنی تھا، جن میں دوسروں کی بھلائی کو اوّلین ترجیح دی گئی ہے۔ 1948ء میں انہوں نے ہمدرد فاؤنڈیشن قائم کی، جس کا مقصد صحت، تعلیم، اور فلاح و بہبود کے میدان میں خدمات فراہم کرنا تھا۔وہ ایک عظیم طبیب، محقق، اور روحانی رہنما تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کر دی اور ہمیشہ بے لوث طریقے سے دوسروں کی مدد کی۔ ان کی خدمات نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی ہیں۔ ہمدرد فاؤنڈیشن نے طبِ یونانی کی تحقیق اور تعلیم کے فروغ کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے ہسپتالوں میںہزاروں مریضوں کا مفت یا نہایت کم معاوضے پر علاج کیا جاتا ہے۔ حکیم محمد سعید کا نظریہ تھا کہ صحت کی خدمت سب سے بڑی خدمت ہے اور ان کا یہی فلسفہ ہمدرد فاؤنڈیشن کی بنیاد بنا۔ہمدرد ہسپتال اور ہمدرد یونیورسٹی کے قیام نے ہزاروں طلبہ اور مریضوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا۔ مدرستہ الحکمت جیسے ادارے یتیم اور بے سہارا بچوں کو معیاری تعلیم اور تربیت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ادارے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بچوں کی شخصیت سازی پر بھی زور دیتے ہیں۔ حکیم محمد سعید کی شہادت کے بعد بھی ان کی وراثت مختلف فلاحی منصوبوں کے ذریعے جاری ہے، جو بے لوث خدمت کی مثال ہے۔یقیناً اسلامی تعلیمات ہمیں انسانیت کی خدمت کا درس دیتی ہیں، اور جدید دور کے طبی ماہرین کو اس مشن کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ میڈیکل سائنس نے بے پناہ ترقی کی ہے، لیکن اس کے باوجود، خدمت کا جذبہ آج بھی سب سے زیادہ اہم ہے۔ ڈاکٹرز اور طبیبوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو اسلامی اخلاقیات کے مطابق انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کریں۔ اگر جدید تحقیق اور روایتی حکمت کو ایک ساتھ استعمال کیا جائے، تو صحت کی سہولیات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ 

حکایت سعدیؒ: درددل کے واسطے

حکایت سعدیؒ: درددل کے واسطے

حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں، ایک بار دمشق میں بہت سخت قحط پڑا۔ حالت یہ ہو گئی کہ ٹڈیوں نے سبزے کو اور انسان نے ٹڈیوں کو کھانا شروع کر دیا۔ مخلوق خدا بھوک سے ہلاک ہونے لگی۔ ایک دن میری ملاقات ایک ایسے دوست سے ہوئی جو بہت مالدار تھا لیکن میں نے دیکھا وہ ویسا ہی پریشان حال اور کمزور نظر آ رہا تھا جیسے شہر کے غریب غرباء۔ میں اس کی یہ حالت دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اس سے پوچھا کہ بھائی! یہ میں تمہیں کس حالت میں دیکھ رہا ہوں؟وہ بولا، اے سعدی! کیا تم اس بات سے بے خبر ہو کہ قحط کے باعث مخلوقِ خدا تباہ ہو گئی ہے؟ میں نے کہا میں جانتا ہوں لیکن قحط کا تم پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ خدا کے فضل سے غنی ہو۔ بے شمار مال و متاع تمہارے پاس موجود ہے۔ میری یہ بات سن کر میرے دوست نے آہ بھری اور کہا اے سعدی! کسی حساس آدمی کیلئے یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ وہ ارد گرد کے لوگوں کو بھول جائے اور صرف اپنی ذات پر نظر رکھے۔ کوئی شریف آدمی کسی کو دریا میں ڈوبتے ہوئے دیکھ کر اطمینان سے کھڑا نہیں رہ سکتا۔ بے شک میں بھوک پیاس سے محفوظ ہوں لیکن دوسروں کے غم نے مجھے ہلاک کر دیا ہے۔ اگر کسی کے عزیز قید کر دیئے گئے ہوں تو وہ باغ و بہار میں مصروف نہیں رہ سکتا۔ حضرت سعدیؒ نے اس میں ایک بہت ہی اہم اصول بیان فرمایا ہے اور وہ ہے دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنا اور دور کرنے کی کوششوں میں بھرپور حصہ لینا۔ غور کیا جائے تو روئے زمین کا سب سے بڑا فساد خود غرضی اور نفس پرستی ہے۔ انسانوں میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو دوسروں کے نفع نقصان سے بے خبر ہو کر زندگی گزارتے ہیں اور یہاں تک دلیر ہو جاتے ہیں کہ اپنے ادنیٰ سے فائدے کیلئے دوسروں کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ اگر ہر شخص حضرت سعدیؒ کے اس حساس دوست جیسا بن جائے تو دنیا جنت کا نمونہ بن جائے۔