پہلی انسانی بستی کس ملک میں آباد ہوئی؟

پہلی انسانی بستی کس ملک میں آباد ہوئی؟

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد ندیم بھٹی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

سائنس دان اس امر پرتحقیق کررہے ہیں کہ تخلیق حضرت آدمؑ کے بعد دنیا میں انسان نے پہلی جدید بستی کہاں آباد کی ،اگرچہ بابل ،مصر اور روم میں قدیم ترین تہذیبوں کی دریافت جاری ہے لیکن یہ بستیاں چند ہزار برس قدیم ہیں۔ سائنس دان لاکھوں سال پہلے کا سوچ رہے ہیں۔اکثر سائنس دان متفق تھے کہ افریقہ ہی انسانوں کا اولین مسکن ہے۔ حضرت آدمؑ نے کس مقام پر قدم رنجا فرمایا ؟ اس سے تو ہم بے خبر ہیں لیکن ابتدائی نسلوں کی آباد کاری کاعمل سب سے پہلے افریقہ میں شروع ہوا۔
''ڈسکور‘‘ میگزین میں لیوک ٹیلر ک نے ''جدید انسانیت نے کہاں پرورش پائی‘‘؟ کے موضوع پر لکھا ہے کہ طویل عرصے سے ہم افریقہ کا نام ہی سن رہے ہیں ،لیکن اب ماہرین ان خطوں تک بھی پہنچ گئے ہیں جہاں دو لاکھ برس قبل اولین انسانوں نے سکونت اختیار کی تھی۔قبل ازیں کہا جاتا تھا کہ افریقہ سے ہی لوگ دنیا بھر میں منتقل ہوئے اور ان ہی لوگوں نے دنیا بھر کو آباد کیا۔مسلمان ان سے متفق نہ تھے ۔ اب سائنس دان مسلمانوں کے قریب تر پہنچ گئے ہیں ، جدید تحقیق میں اپنی ہی قدیم تحقیق کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے مان لیا ہے کہ دنیا بھر میں پائی جانے والی نسلیں شمالی افریقہ سے شروع نہیں ہوئیں بلکہ انسانیت نے بیک وقت کئی مقامات پر فروغ پانا شروع کیا۔ 
پانچ لاکھ برس قبل نیندر تھلز سے جدائی 
قبل ازیں یہ تصور تھا کہ انگریزوں کے ہمارے آباء اجداد''نیندر تھلز‘‘ (Neanderthals) لگ بھگ پانچ لاکھ برس قبل ایک دوسرے سے الگ ہو کر مختلف مقامات پر آباد ہونا شروع ہوئے تھے۔ان کی کوکھ سے جنم لینے والی بیشتر نسلوں کا نام و نشان بھی مٹ چکا ہے لیکن خال خال بستیاں مشرقی افریقی ممالک میں ان کی موجودگی کا پتہ دیتی ہیں ۔ بچے کھچے نیندر تھلز کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہ ہو گی۔ جن کے جتھے شمالی افریقہ میں مقیم ہیں۔ 2003ء میں مشرقی ایتھوپیا کے پسماندہ گائوں میں ملنے والی 1.60لاکھ برس پرانی کھوپڑی سے انسانیت کی ترقی کے بارے میں کچھ معلومات ملیں۔یہ سر عام انسانوں سے کافی بڑا تھا،ماتھا چپٹا اور کھوپڑی کی ہڈی نسبتاََ کمزور یا پتلی تھی۔ دو سال بعد، 2005میں ایتھوپیا میں ہی ''اومو کبیش ‘‘ (Omo-kabish) کے مقام پر دوران کھدائی دو کھوپڑیوں کی باقیات ملیں جن سے تحقیق کا دائرہ مزید 35ہزار برس پیچھے چلا گیا۔ جینیات ، تاریخ اور جغرافیہ کے ماہرین و سائنس دان متفق ہو گئے کہ شمالی افریقہ ہی ان کا مسکن رہا ہے۔ یہیں سے انسانیت کا سفر شروع ہواتھا۔
پرانی تحقیق چیلنج ہو گئی
لیکن حال ہی میں دیگر دریافتوں نے ان پرانی سوچ کو چیلنج کر دیا ہے،نئی دریافتوں کا زمانہ بھی کم و بیش وہی ہے جو شمالی افریقہ سے ملنے والی باقیات کا ہے۔2017ء میں ژاں جیکوئس ہبلن (Jean Jacques Hublin) نے انسانیت کی کہانی کو نئے رخ پر موڑ دیا تھا۔انہوں نے شمالی ایتھوپیا سے انسانیت کو فروغ دینے کااعزاز چھین لیا ۔کئی عشروں پر محیط تحقیق کے بعد انہوں نے بتایا کہ '' مراکش میں بھی قدیم ترین انسانوں کے آثار ملے ہیں ، عین ممکن ہے کہ مراکش اور ایتھوپیا میں بیک وقت انسانیت نے فروغ پایا ہو۔ کیونکہ دونوں کھوپڑیوں اور باقیات کا زمانہ کم و پیش ایک جیسا ہے۔مراکش ایتھوپیا کے شمال بعید میں واقع ہے، وہاں تک نقل مکانی ممکن نہ تھی۔غاروں میں 1.50لاکھ برس سے لے کر 2لاکھ برس قدیم انسانی باقیات پرانی تحقیقات سے کوئی میل نہیں کھاتیں۔ اس کہانی کے تانے بانے بننا قدرے مشکل ہے، یہ لوگ وہاں تک کیسے اور کب پہنچے ،اس سرے تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ آسان بات یہی لگتی ہے کہ مان لیا جائے کہ دونوں مقامات پر انسانیت نے بیک وقت فروغ حاصل کیا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ''یہ ماننا ہمارے لئے مشکل ہے کہ ایک ہی وقت میں دو مختلف دور افتادہ مقامات پر ایک جیسی نسلوں کو فروغ ملا۔یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی‘‘۔ ہبلن کو بعد ازاں مراکش میں ہی مزید آثار بھی ملے۔ لگ بگ 3لاکھ برس قدیم۔ اسی سے وہ ساری تحقیق الٹ ثابت ہو ئی کہ ابتدائی نسلوں نے مشرقی افریقہ میں فروغ پایا۔ ڈی این اے سے معلوم ہوا کہ دونوں نسلوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے ،ان کی آپس میں رشتے داری ثابت نہیں ہوئی۔ ان دریافتوں نے پرانی تحقیق پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
انسان 60لاکھ برس قبل آباء و اجداد سے بچھڑا 
اب کہا جا رہاہے کہ انسان60لاکھ برس قبل اپنے آباء و اجداد سے بچھڑ گیا اور جگہ جگہ پھیل گیا۔ابتدائی ترین انسان کو H. sapiens کہا جاتا ہے،جدید انسانوں کے غول کے غول لگ بھگ 40ہزار برس قبل نیندر تھلز سے الگ ہوکر بیک وقت کئی مقامات پر پرورش پانے لگے ۔نئی دریافتوں سے انسانیت کے ارتقاء کا نظریہ بدل گیا ہے ۔ لیکن یہ لوگ افریقہ میں ہی گھومتے رہے ۔ شمالی افریقہ سے مراکش چلے گئے یا کسی افریقی ملک میں گھومتے رہے، افریقہ سے باہر نکلنے کے آثار نہیں ملے ۔
تمام انسانوں کا رشتے دارکون؟
سڈنی یونیورسٹی آف آسٹریلیا کے میڈیکل سنٹر سے منسلک وینیسا ہئس (Vanessa Hayes) کی قیادت میں بھی ایک بڑا گروپ کئی برس سے انسانیت کی ابتدا ء کی کھوج میں ہے۔ کہاجاتا ہے کہ تمام سوالوں کاجواب ان کے پاس ہے ۔اس گروپ میں ڈی این اے، ماحولیات، اور کمپیوٹر کے ماہرین بھی شامل ہیں۔جب انہوںنے طاقت ور کمپیوٹروں کی مدد سے دور حاضر کے انسانوں کے ڈی این ایز کا تقابلی جائزہ قدیم ترین ڈی این ایز سے کرنا شروع کیاتویہ بات سامنے آئی کہ کئی گروپوں کا ایتھوپیا سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انہوں نے مختلف گروپوں کے 200افراد کے ڈی این ایز کا ایک ہزار افریقیوں کے ڈی این ایز سے تقابلی جائزہ لیا۔ ایتھوپیا اور دیگر ممالک کے ایک ہزار ڈی این ایز کا آپس میں تعلق نہیں ملا۔ پھر جب انہوں نے جنوبی افریقہ اور نمیبیا کی قدیم بولی ''Khoisan‘ ‘ بولنے والوں کے ایک ہزار ڈی این ایز کاجنوبی افریقی ممالک کے قدیم ترین ڈی این ایز کی روشنی میں جائزہ لیا تو ان تمام کا آپس میں تعلق نکلا ۔جس پر انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ '' جنوبی افریقہ میں رہنے والے لوگ تمام انسانوں کے رشتے دار ہیں‘‘۔ 
بوٹسوانہ، انسانیت کا قدیم ترین مرکز 
محققین کا کہنا ہے کہ شمالی بوٹسوانہ میں واقع دریائے زمبیزی (Zambezi River) کا جنوبی حصہ کسی زمانے میں انتہائی زرخیز ہوا کرتاتھا، سرسبز و شاداب۔چاروں اطراف سے چشموں میں گھرا ہوا۔ اس میں مغرب کو اس کے سال کا جواب بھی مل گیا ہے کہ ان کے آباء اجداد کہاں سے آئے تھے ! بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے یونیورسٹی آف پنسلوینیا کی سارا تسکوف (Sarah Tiskoff) کا کہنا ہے کہ '' لیکن ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ آج سے 50 ہزار برس یہ لوگ کہاں تھے؟‘‘ ان کی تحقیق کا موضوع ہر دور میں ہونے والی ہجرت ہے ،یعنی انسان کب کہاں پہنچا ؟وہ یہی جاننا چاہتی ہیں ،اس کام میں ابھی برس ہا برس لگ سکتے ہیں ۔
ٹورنٹو یونیورسٹی کی تحقیق 
تورنٹو یونیورسٹی کی بینس ویلا (Bence Viola)نے مندرجہ بالا تحقیق سے قدرے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ '' یہ درست ہے کہ انسانیت کا ارتقاء بیک وقت کئی ممالک میں ہوا ہے ۔یعنی مغربی باشندے کسی ایک ملک کی نسل سے نہیں ہیں ،مختلف ممالک میں مختلف گروپ تھے، تاہم ان میں سے اکثر کا تعلق افریقہ کے جنوبی یا شمالی حصوں سے ہے۔ لیکن افریقہ کے کئی حصوں سے سراسر کوئی باقیات نہیں ملیں۔ خرا ب موس نے تمام باقیات برباد کر دیں ۔
ہائی برڈ غیر ملکی
2018ء میں اس کا زمانہ 90ہزار برس قدیم ڈینی نامی ایک عورت کی باقیات کے جینیاتی تجزیے سے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ وہ آدھی نیندر تھلز اور آدھی ڈینی سوان (Denisovan) تھی۔ 40ہزار برس پرانے ایک اور ڈھانچے سے بھی یہی نتیجہ نکالا گیا تھا۔نیندر تھلز کے جینز یورپ اور آسٹریلیا میں بھی پائے گئے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
دنیا کی چند خوبصورت مسجدیں

دنیا کی چند خوبصورت مسجدیں

الصالح مسجد صنعاء یمنالصالح مسجد صنعاء میں رمضان کے مبارک مہینے (ستمبر2008ء میں کھول دی گئی تھی۔ یہ مسجد صنعاء شہر میں اسلامی تعمیرات کا ایک بہت بڑا شاہکار ہے۔ یمن کے سابق صدر عبداللہ صالح نے اپنے ذاتی خرچ سے یہ مسجد تعمیر کروائی۔ یہ مسجد اپنے عالیشان چھ میناروں اور پانچ گنبدوں کی وجہ سے بہت شہرت کی حامل ہے۔ اس مسجد کے دو بڑے مینار328فٹ اور چار چھوٹے مینار67فٹ بلند ہیں۔مرکزی گنبد 130فٹ بلند ہے۔ مسجد کا کل رقبہ 27300مربع میٹر ہے جبکہ بڑے مرکزی ہال کا رقبہ13596مربع میٹر ہے۔ ہال کی چھت 24میٹر بلند ہے۔ مرکزی ہال میں 44 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ خواتین کیلئے علیحدہ انتظام کیا گیا ہے۔ مسجد کی تعمیر میں مقامی یمن کا پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے ڈیزائن کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یمن کے روایتی فن تعمیر اور جدید فن تعمیر کو اس طرح یک جا کردیا گیا ہے کہ مسجد کے حسن میں گرانقدر اضافہ ہو گیا ہے۔سلطان عمر علی سیف الدین مسجد برونائی شاہی مسجد سلطنت برونائی کے دارالحکومت بندرسری بیگوان میں واقع ہے۔ یہ ایشیائی بحرالکاہل کے خطے کی ایک خوبصورت مسجد شمار کی جاتی ہے اور برونائی کے 28ویں حکمران سلطان عمر علی سیف الدین سوم کے نام سے موسوم ہے۔ دنیائے اسلام کی یہ قابل دید مسجد 1958ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر میں مغل اور اطالوی فن تعمیر کا عکس نمایاں ہے۔یہ مسجد ایک مصنوعی جھیل میں تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کے مرمریں مینار، نہری گنبد، سرسبز درخت، رنگ برنگ پھولوں سے لدے لان اور ان کے درمیان اٹھیلیاں کرتے ہوئے سینکڑوں فوارے، جنت اراضی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ پاس ہی دریا کے اوپر مسجد میں داخل ہونے کیلئے ایک خوبصورت طویل پل بنایا گیا ہے۔ مسجد کے ایک طرف جھیل ہی میں ایک خوبصورت پل بحری جہاز کے مشابہ بنایا گیا ہے جس میں قرأت کے مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ مسجد کے مینار 171 فٹ بلند ہیں۔ لفٹ کے ذریعے ان کے اوپر چڑھ کر شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ مسجد کا بڑا گنبد خالص سونے سے مزین ہے۔ اس میں استعمال ہونیوالا سنگ مر مر اٹلی سے، سنگ خارا شنگھائی سے، فانونس برطانیہ سے اور ہال میں بچھانے کیلئے قالین سعودی عرب سے منگوائے گئے تھے۔مسجد الکبیر کویتمسجد الکبیر ملک کی ایک خوبصورت اور سب سے بڑی مسجد ہے اس کو سرکاری مسجد کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ اسلامی فن تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔ اس کا کل رقبہ 45ہزار مربع میٹر ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد 1979ء میں رکھا گیا اور یہ 1986ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر پر 14ملین کویتی دینار خرچ ہوئے۔ مسجد کا مرکزی ہال 236میٹر لمبا اور اتنا ہی چوڑا ہے۔ ہال میں قدرتی روشنی کیلئے 144کھڑکیاں نصب کی گئی ہیں۔21 دروازے ساگوان کی لکڑی کے ہیں۔ مسجد کے گنبد 141فٹ اونچا ہے جس کے اندر اسماء الحسنیٰ نہایت خوبصورتی سے تحریر کئے گئے ہیں۔ مسجد کا واحد مینار243فٹ اونچا ہے۔اس مسجد میں دس ہزار حضرات اور ایک ہزار خواتین بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد سے ملحقہ ایک لائبریری بھی بنائی گئی ہے، نیز صحن کے سامنے چھ سو کاروں کی پارکنگ کا انتظام بھی موجود ہے۔الا مین مسجد، بیروت لبنان یہ مسجد بیروت شہر کے مرکز میں واقع میدان شہداء میں تعمیر کی گئی ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق جریری کے ہاتھوں 2002ء میں رکھا گیا تھا ۔ مسجد کا افتتاح رفیق حریری کے صاحبزادے سعد حریری نے 17اکتوبر 2008ء کو کیا یہ مسجد 2007ء میں مکمل ہو چکی تھی۔ اس کا ڈیزائن استبول کی سلطان احمد مسجد سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا تھا۔ مسجد کے گنبد اور مینار ہو بہو سلطان احمد مسجد کی نقل ہیں۔ اس کا کل رقبہ 115178مربع فٹ ہے۔ یہ مسجد یوں تو استنبول کی نیلی مسجد( سلطان احمد مسجد) کی عکاسی کرتی ہے لیکن اس کی تعمیر میں ڈیزائنر نے لبنانی فن تعمیر کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔مسجد کے چاروں مینار 236 فٹ بلند ہیں جو مسجد الحرام کے میناروں کے ڈیزائن سے متاثر ہو کر بنائے گئے ہیں جبکہ ان میں استعمال ہونے والا پتھر بھی سعودی عرب سے منگوایا گیا ہے۔مسجد کے مرکزی ہال میں اتنے شاندار فانوس لٹک رہے ہیں کہ جب وہ جلتے ہیں تو ہال بقعۂ نور بن جاتا ہے۔  

عظیم مسلم سائنسدان علم ہندسہ کے ماہرحجاج بن یوسف مطر

عظیم مسلم سائنسدان علم ہندسہ کے ماہرحجاج بن یوسف مطر

حجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ میں کمال رکھتے تھے، انہوں نے دوبڑے کام کئے۔ ''مقدمات اقلیدس‘‘ کے نام سے ایک جامع کتاب علم ریاضی میں مرتب کی۔ دوسرا کام اس کا قدیم دور کی مشہور کتاب ''المجسطی‘‘ کو اصلاح اور نظرثانی کے بعد (ایڈٹ کر کے) مرتب کیا۔ابتدائی زندگیحجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ کے ماہر تھے۔ اس فن میں انہوں نے کمال پیدا کیا۔ حجاج بن یوسف دیہات کے باشندہ تھے، والدین تو کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن حجاج نے اپنے شوق اور اپنی محنت سے اچھی تعلیم حاصل کی، پھر دیہات کے تنگ دائرے سے نکل کر786ء میں بغداد آ گئے اور یہیں بس گئے۔حجاج نے بغداد کے علمی ماحول سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور بغداد کی علمی صحبتوں سے مستفید ہو کر اپنی قابلیت اور استعداد میں اچھا اضافہ کر لیا۔ حجاج نے ہارون الرشید اور مامون الرشید دونوں کا روشن دور دیکھا تھا، مگر وہ خاموش علمی کام کرتا رہا۔علمی خدمات اور کارنامےحجاج ایک بلند پایہ ریاضی دان تھے۔ اس نے دو بنیادی کام کئے، ایک تو علم ہندسہ یعنی جیومیٹری کا کام تھا اور دوسرا علم ہیئت سے متعلق تھا۔ انہوں نے ان دونوں علوم کو نئے ڈھنگ سے فروغ دیا۔ جیومیٹری میں انہوں نے نئے نئے انکشاف کئے اور اپنا ایک حلقہ بنا لیا۔ اس وقت علم ہندسہ میں اس کا کوئی ہمسر نہ تھا۔علم ہندسہ میں ایک جامع کتاب ''مقدمات اقلیدس‘‘ کے نام سے اس ریاضی دان نے مرتب کی۔ یہ ریاضی دانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔دوسرا کارنامہ اس کا علم ہیئت سے متعلق ہے۔ قدیم زمانے کی مشہور کتاب ''المحسبعیٰ‘‘ کو اصلاح اور تصحیح کے ساتھ نئی ترتیب سے اس نے مرتب کیا اور اس علم کو نئے انداز سے فروغ دیا۔ اہل یورپ نے حجاج کی دونوں کتابوں سے فائدہ اٹھایا۔ ''مقدمات اقلیدس‘‘ کا ترجمہ ملک ڈنمارک سے 1893ء میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کی کتابیں بیسویں صدی تک مدارس کی زینت بنی رہیں۔ حجاج نے اور بھی بہت سی کتابیں ریاضی پر لکھی ہیں۔ 

رمضان کے پکوان:ہمت میلو

رمضان کے پکوان:ہمت میلو

اجزاء:بکری کا گوشت ،بغیرہڈی کاڈیڑھ کلو ،کالی مرچ کٹی ہوئی آدھا کھانے کا چمچ،نمک حسب ذائقہ،برائون سرکہ آدھی پیالی،سویا ساس دوکھانے کے چمچ،ادرک کچلی ہوئی ایک چائے کا چمچ،چینی ایک کھانے کا چمچ،کارن فلور ایک کھانے کا چمچ،لیموں دوعدد،سویٹ کارن ایک ٹن، اخروٹ باریک کٹے ہوئے ایک کھانے کا چمچ،کشمش ایک کھانے کا چمچ،بادام باریک کٹے ہوئے ڈھائی کھانے کے چمچ، کوکنگ آئل دوکھانے کے چمچ،مارجرین ایک کھانے کا چمچ ترکیب :سب سے پہلے گوشت میں نمک، کالی مرچ ادرک سویا سا، سرکہ، چینی، لیموں اچھی طرح لگاکر کانٹے کے ساتھ گودلیں تاکہ مصالحہ اندر تک چلا جائے۔ چارپانچ گھنٹے کیلئے مصالحہ لگاکر رکھ لیں۔ ایک بڑی دیگچی میں اتنا پانی ڈالیں کہ گوشت گل جائے، پھر ہلکی آنچ میں پکنے کیلئے رکھ دیں، جب پانی سوکھ جائے تو پھر کوکنگ آئل اور ایک پیالی پانی میں کارن فلور ملاکر دیگچی میں ڈال دیں تاکہ گاڑھی گاڑھی ساس بن جائے۔ سارا میوہ اور کارن ایک فرائنگ پین میں بلوبینڈ مارجرین کے ساتھ ہلکا ہلکا تل لیں۔ دیگچی میں ڈال کر ہلکی آنچ میں دم پر رکھ دیں۔ مقدار:یہ ڈش چھ افراد کے لیے کافی ہے۔  

حکایت سعدیؒ :شکر

حکایت سعدیؒ :شکر

بیان کیا جاتا ہے، ایک درویش سمندر کے کنارے اس حالت میں زندگی گزار رہا تھا کہ اس کے جسم پر چیتے کے ناخنوں کا لگا ہوا ایک زخم ناسور بن چکا تھا۔ اس ناسور کی وجہ سے درویش بہت تکلیف میں مبتلا تھا مگر اس حالت میں بھی وہ اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔اس سے سوال کیا گیا کہ اے مرد خدا! یہ شکر کرنے کا کون سا موقع ہے؟ درویش نے جواب دیا، میں اس بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مصیبت میں مبتلا ہوں معصیت میں نہیں۔ تو نے سنا نہیں کہ اللہ والے گناہ کے مقابلے میں مصائب کو پسند کرتے ہیں۔ جب عزیز مصر کی بیوی زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانے میں ڈلوا دینے کی دھمکی دی تو انھوں نے فرمایا تھا کہ اے اللہ، مجھے قید کی مصیبت اس گناہ کے مقابلے میں قبول ہے جس کی طرف مجھے بلایا جا رہا ہے۔ درویش نے مزید کہ اللہ والوں کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے رب کو راضی رکھنے کی تمنا کرتے ہیں۔مجھے قتل کرنے کا دیں حکم اگرنہ ہو گا مجھے اپنی جاں کا ملالمیں سوچوں گا کیوں مجھ سے ناراض ہیں ستائے گا ہر وقت بس یہ خیالاس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے انسان کے اس بلند مرتبے کا حال بیان کیا ہے جب وہ ہر بات کو من جانب اللہ خیال کرتا ہے اور ہر وقت اس خیال میں رہتا ہے کہ میرا خدا مجھ سے کس طرح راضی ہو گا۔ یہی وہ روحانی منزل ہے جب انسان کو سچا اطمینان اور سچی راحت حاصل ہوتی ہے اور وہ خوف اور غم سے پاک ہو جاتا ہے۔٭...٭...٭

آج کا دن

آج کا دن

''ایکسپلورر3‘‘لانچ کیا گیا1958ء میں امریکہ نے''ایکسپلورر3‘‘ سیٹلائٹ لانچ کیاتھا۔یہ ''ایکسپلورر‘‘ پروگرام کا دوسرا کامیاب لانچ تھا۔''ایکسپلورر 3‘‘کی ساخت اس سے پہلے خلا میں بھیجے جانے والے سیٹلائٹ ''ایکسپلورر1‘‘سے بہت زیادہ مشابہ تھی۔''ایکسپلورر 3‘‘کا مقصد فوجی آپریشن یا جنگ کے دوران فوجی ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنایا جا سکے۔اس سیٹلائٹ کو امریکی بحریہ کیلئے بھی استعمال کیا گیا تاکہ سمندر میں موجود جہازوں کے ساتھ زمینی رابطہ برقرار رکھا جا سکے۔ وینزویلا میں شدیدزلزلہ 1812ء میں وینز ویلا میں26مارچ کو 4 بج کر37منٹ پر 7.7شدت کا زلزلہ آیا۔اس کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ جس جگہ یہ زلزلہ آیا وہا ں ایک نئی جھیل وجود میں آ گئی۔ اس زلزلے کے نتیجے میں تقریباً 20ہزار افراد ہلاک ہوئے ۔اس حادثے کے فوراً بعد امریکہ کی جانب سے وینزویلا کیلئے امدادی سامان سے لیس جہاز پہنچے، جن میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ امریکہ کی جانب سے 50ہزار امریکی ڈالر کی مالی امداد بھی کی گئی۔ سکاٹ لینڈ:سگریٹ نوشی پر پابندی 2006ء کو آج کے دن سکاٹ لینڈ میں عوامی مقامات اور ریسٹورنٹس میں سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کی گئی۔ اس نئے قانون اور پابندی کے مطابق کوئی بھی شخص کسی عوامی مقام، ہوٹل یا پارک میں سگریٹ نہیں پی سکے گا۔ اپنے گھر میں یا خصوصاً تمباکو نوشی کیلئے بنائے گئے سموکنگ ایریا میں سگریٹ پینے کی کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ اگر کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ نیوزی لینڈ: بدترین حادثہ نیوزی لینڈ کے جنوبی آئی لینڈ کے علاقے گرے ماؤتھ میں موجود کوئلے کی کان میں دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں کان میں کام کرنے والے65مزدور لقمہ اجل بنے۔ یہ واقعہ1896ء میں آج کے دن پیش آیا۔ نیوزی لینڈ ایک پر امن ترقی یافتہ ملک ہے اور وہاں اس طرح کے حادثا ت معمول کی بات نہیں۔ اس حادثے کو نیوزی لینڈ کا بدترین انڈسٹریل سانحہ قرار دیا جاتا ہے۔ 

ابابیل عجیب و غریب اور منفرد پرندہ

ابابیل عجیب و غریب اور منفرد پرندہ

کائنات جس قدر خوبصورت ہے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور حیران کن بھی ہے۔ اگر بات اس کائنات کی مخلوق کی، کی جائے تو اس کا صحیح شمار انسان کی بساط سے باہر ہے۔ اس روئے زمین پر رینگنے والے کیڑوں سے لے کر ، چرند پرند ، آسمانوں پر اڑتے پرندوں سے لے کر سمندر کی تہوں میں حرکت کرتی مخلوق کا صحیح شمار انسان کے بس سے باہر ہے۔ عقل، انسان کیلئے اگرچہ رب کی عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جو اسے دیگر تمام مخلوقات سے افضل کرتی ہے لیکن دور جدید میں انسان ''ستاروں پہ کمند‘‘ ڈالنے کے باوجود بھی ابھی رب کی بنائی کائنات کے لاتعداد رازوں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ ابابیل کے بارے تو سوچتے ہوئے انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ دس ماہ تک باآسانی لگاتار پرواز کر سکتا ہے۔یہ اور ایسے ہی لاکھوں اور محیر العقول جانداروں بارے سائنس دان کھوج لگانے میں لگے ہوئے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سائنس دان اس عجیب و غریب پرندے ''ابابیل‘‘ پراب تک کیا تحقیق کر سکے ہیں جس کا تذکرہ قرآن شریف میں بھی ملتا ہے۔ ابابیل ، چڑیا کی طرح کا ایک چھوٹی جسامت کا نازک سا پرندہ ہے لیکن چڑیا اور اس قبیل کے دیگر جانوروں کے برعکس اس کے پر زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔ شاید ان پروں کے پیچھے قدرت کا یہ راز پوشیدہ ہے کہ یہ دیگر پرندوں کی نسبت طویل اور انتہائی بلندی پر سفر کرنے والا پرندہ ہے۔ قدرت نے اس پرندے کے پروں کی ساخت کچھ اس طرز پر بنائی ہے کہ ہلکی سی ہوابھی اسے خودبخود آگے دھکیلتی رہتی ہے۔اس پرندے کی عمومی لمبائی 18 سے 20 سنٹی میٹر کے قریب ہوتی ہے۔ اس کے پر سیاہ اور سینے کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے پنجے نہایت نازک اور کمزور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ زمین پر زیادہ آسانی سے نہیں بھاگ سکتا لیکن اس کے پس پردہ بھی شاید قدرت کی یہ مصلحت کارفرما ہے کہ یہ درختوں کی ٹہنیوں اور بجلی کی تاروں پر زیادہ آسانی سے بیٹھ سکتا ہے۔ابابیل فطرتاً پرانے گنبدوں ، کھنڈرات، پہاڑوں کی چٹانوں ، درختوں کے تنوں کے اندر اور اکثر ویران جگہوں پر اپنا مٹی کا گھونسلا بنا کر رہنے کی عادی ہے۔ یہ زیادہ تر اپنے گھونسلے گیلی مٹی اور گھاس کو باقاعدہ لیپ دے کر بناتے ہیں۔ ان کے بارے مشہور ہے کہ یہ ستر اسی سال تک اپنا گھونسلا نہیں چھوڑتے اور یہ جہاں بھی ہوں ہر دفعہ اپنے ہی گھونسلے میں آکر انڈے دیتے ہیں۔ابابیل کو باقی پرندوں کے مقابلے میں جو انفرادیت حاصل ہے وہ یہ کہ ابابیل شاید واحد پرندہ ہے جو متواتر اپنی اڑان جاری رکھنے کے سبب دوران پرواز نہ صرف اپنی نیند پوری کر لیتا ہے بلکہ دوران پرواز ہی اپنی خوراک بھی کھاتا رہتا ہے۔ چونکہ دوران پروازیہ اپنی چونچ کو کھلا رکھتا ہے جس کی وجہ سے فضا میں اڑتے کیڑے مکوڑے خود بخود اس کے منہ کے اندر اس کی خوراک کا سبب بنتے رہتے ہیں۔ اس کی عمومی غذا کیڑے مکوڑے ہی ہوتے ہیں۔یہ پرندہ بھی نر اور مادہ دونوں شکلوں میں پایا جاتا ہے۔عمومی طور پر یہ دونوں (نراور مادہ )ایک ساتھ اپنی پرواز جاری رکھتے ہیں۔ شاذ ہی یہ اکیلے پرواز کرتے ہیں ۔ لیکن یہ پرندہ زیادہ تر جھنڈ کی شکل میں پرواز کرتا ہے۔ عربی میں ابابیل کو '' خطاف‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ عربی زبان میں ابابیل کے معنی جھنڈ یا گروہ کے ہی ہیں۔ یہ پرندہ سب سے زیادہ ہجرت کرنے والا پرندہ ہے۔ یہ لیبیا، شام اور ایران کے علاقوں سے پورپی ممالک، سوڈان سے جنوبی افریقہ اور عراق کے شہر موصل میں ہجرت کرتے ہیں۔ گئے زمانوں میں تو جس علاقے کے اوپر سے آواز نکالتا یہ پرندہ گزر جاتا اسے بارش کی پیش گوئی سے تعبیر کیا جاتا۔ اکثر واقفان حال اس بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں کہ ایسا اکثر و بیشتر صحیح ہی ہوا کرتا تھا۔ ابابیل اور جدید تحقیق ابابیل کو سوئفٹ بھی کہتے ہیں ، جبکہ اس کی ایک نسل کو ''الپائن سوئفٹ‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ عام ابابیل کو '' ایپس ایپس‘‘ کہا جاتا ہے۔ سوئفٹ اور الپائن نسل کے ابابیلوں کی اوسط عمر بیس سال بتائی جاتی ہے۔آج سے چند سال پہلے سویڈن یونیورسٹی نے اپنی ایک طویل تحقیق کے بعد بتایا تھا کہ ابابیل مسلسل حالت سفر میں رہتا ہے ماسوائے اپنے انڈے دینے کے عرصے کے۔ ابابیل گلائیڈنگ کرتے وقت اکثر اپنی نیند پوری کر لیتے ہیں یہ زمین سے اتنی بلندی پر چلے جاتے ہیں کہ سوتے وقت اچانک زمین سے ٹکرانے کا خطرہ انہیں نہیں رہتا۔ ابابیل پرواز کرتے وقت اپنی توانائی بچانے کے لئے گلائیڈنگ کرتا ہے یعنی کچھ دیر پر ہلانے کے بعد انہیں کھلا چھوڑ دیتا ہے اور یوں ہوا میں اڑتا چلا جاتا ہے۔یونیورسٹی آف لندن کی ایک تحقیق کے مطابق ابابیل دس ماہ سے بھی زیادہ عرصہ بغیر زمین پر اترے ہوا میں مسلسل پرواز کر سکتا ہے۔ ایک اور جدید تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ابابیل بغیر رکے 14 ہزار کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔عمومی طور پر اس پرندہ کی عمر بیس برس تک ہوتی ہے۔ابابیل سے جڑی قدیم اور دلچسپ روایات یوں تو زمانۂ قدیم میں لاتعداد روایات سننے کو ملتی تھیں لیکن سب سے زیادہ روایات کا تعلق خطۂ عرب سے ملتا ہے۔روایات میں آیا ہے کہ ابابیل اپنے گھونسلوں میں سرخ اور سفید دو طرح کے پتھر رکھتے ہیں۔جنہیں ''حجرالصنوبر‘‘ کہتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ اکثر سنیاسی ان ہر دو پتھروں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ جبکہ بیشتر طبیب ان پتھروں کے لاتعداد طبی فوائد بھی بتاتے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ قدیم دور میں اکثر بوڑھے سنیاسی کہا کرتے تھے کہ ابابیل کے گھونسلے کا سفید پتھر مرگی کے مریض کے گلے میں لٹکانے سے شفا ملتی ہے ، چشم بد کو دور کرتا ہے، اکثر بچے جو سوتے میں ڈر جاتے ہیں ان کے سرہانے سرخ پتھر رکھنے سے بچے سکوں کی نیند سوئے ہیں (واللہ اعلم )۔ایک اور روایت ہے کہ ہر ابابیل کے گھونسلے میں پتھر نہیں ہوتا بلکہ یہ پتھر حاصل کرنے کیلئے ابابیل کے بچے کو زرد رنگ میں رنگ کر کے گھونسلے میں چپکے سے رکھ دیا جاتا ہے۔مادہ ابابیل بچے کو بیمار سمجھ کر خدا جانے کہاں سے پتھر ڈھونڈ لاتی ہے تاکہ اس کے بچوں کا پیلیا (یرقان) جاتا رہے۔( واللہ اعلم)۔کچھ پرانے سنیاسیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ پتھر دراصل ابابیلوں کے پوٹے میں پایا جاتا ہے ، ابابیل کو مار کر اس کے پوٹے کو کاٹا جائے تو یہ پتھر وہاں سے نکلتا ہے۔ ( واللہ اعلم)۔اب دور جدید میں لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ گئے زمانوں میں یرقان ، مرگی اور ایسی ہی دیگر متعدد بیماریوں کا علاج ابھی دریافت نہیں ہوا تھا اس لئے اکثر ضعیف العقیدہ لوگ ان ٹوٹکوں پر یقین کر لیا کرتے تھے جبکہ دور جدید میں ہر مرض کا علاج دریافت ہو چکا ہے اس لئے اب ایسی تمام روایات مضحکہ خیز لگتی ہیں۔