انقلابی لیڈر چی گویرا, انگلیاں کاٹ کر ارجنٹائن کیوں بھجوائی گئیں؟
اسپیشل فیچر
ارنسٹوچی گویرا (14جون 1928تا 9اکتوبر1967) کا شمار معروف انقلابی لیڈروں میں ہوتا ہے۔ اس کی سوچ انقلابی تھی لیکن وہ اس اعتبار سے بدقسمت ثابت ہوا کہ کوئی انقلاب لانے کی کوشش میں ایک جنگل میں مارا گیا۔ امریکی ایجنسیاں سائے کی طرح اس کے تعاقب میں تھیں ، امریکہ چی گویرا سے اس قدر کیوں خائف تھا کہ اس کی انگلیاں کاٹ کر کینیا بھجوا دی گئی تھیں تاکہ یقین ہو سکے کہ مارا جانے والا کوئی اور نہیں وہی ہے۔؟ امریکہ کو ہر صورت میں گویرا کی لاش چاہئے تھی۔ وہ اسے نشان عبرت بنا کر اپنی نظر یاتی سرحدوں کا تحفظ چاہتا تھا ۔چی گویرا امریکی سرحدوں کے قریب ، بلکہ امریکہ کی ناک کے نیچے کمیونسٹ انقلاب کی دستک دے رہا تھا۔ امریکہ کو یہ کیسے گوارہ تھا۔
امریکہ کیوں خوف زدہ تھا؟
یہ اس زمانے کی بات ہے جب دنیا دوحصوں میں تقسیم تھی،ایک جانب روس کا ابھرتا ہوا کمیونزم تھا تو دوسری جانب امریکہ کا سامراجی نظام، آپ اسے امپیرئل ازم بھی کہہ سکتے ہیں ۔ کارپوریٹ کلچر نے اسی نظام کی کوکھ سے جنم لیا ، اگر روسی نظام کامیاب ہو جاتاتو شائد دنیا سے کارپوریٹ کلچر کا نام و نشان مٹ جاتا ۔اسی لئے دنیا بھر کے امراء اکٹھے ہو گئے تھے، وہ ہر صورت میں روسی نظام کا خاتمہ چاہتے تھے۔ ایسے میں ارجنٹائن میں جنم لینے والے چی گویرا نے کیوبا کو اپنا مسکن بنایا ،وہ گوریلا سرگرمیوں کا ماہر مانا جانے لگا تھا کیونکہ کیوبا میں زیر زمیں سرگرمیوں کی وجہ سے ہی امریکہ اس سے خوف کھانے لگا تھا، وہ گوریلا لیڈر ہی نہیں تھا بلکہ بلا کاجوشیلا مقرر اور زبردست مصنف بھی تھا، وہ ایک اچھا ڈائری نویس بھی تھا ، وہ موٹر سائیکل پر چند ممالک کے سفر پر روانہ ہوا، عالمی سفر کی داستان لکھی جو نوجوانوں میں بے حد مقبول ہوئی۔اس نے موٹر سائیکل پر ارجنٹائن، چلی، پیرو،پاناما، کولمبیا، اایکواڈور، میامی سمیت کئی علاقوں کا سفر کر کے سب کو حیران کر دیا۔وہ اس قدر طلسماتی شخصیت بن چکا تھا کہ اس پر کئی فلمیں بنائی گئیں ،ڈرامے لکھے گئے اور شاعری کا اہم موضوع بنا۔اس کی جاندار تحریر اور تقریر دل میں اترنے والی ہوتی تھی ،جو سنتا اسی کا گرویدہ ہو جاتا۔وہ سفارت کار بھی تھا اور فوجی حکمت عملی کا ماہر بھی۔ان تما م خوبیوں نے اسے ایسا لیڈر بنا دیا تھا کہ کوئی بھی ملک اس سے خوف کھا سکتا تھا۔ اسی لئے اس دور میں وہ گوریلا جنگ کی علامت بھی سمجھا جانے لگا تھا اس کا نام ذہن میں آتے ہی ایک ایسے لیڈر کا خاکہ ابھرتاجو اپنے نظام کے قیام کیلئے کوئی بھی قربانی دے سکتا تھا اور بہترین حکمت عملی بھی بنا سکتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ ٹائم میگزین نے تمام تر مخالفت کے باوجود اسے دنیا کی ایک سو اہم ترین شخصیات میں شامل کر لیا تھا۔
فیڈل کاسترو سے رابطے
وہ میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا لیکن تعلیم سے بے پرواہ ہو کر جنوبی امریکہ کے دورے پرنکل کھڑا ہوا۔ جہاں اس نے غربت، بے روزگاری اور بھوک کو بنیاد بنا کر انقلاب کے بیج بو دیئے۔وہ کہتا تھا کہ اگر امریکہ ان کا استحصال نہ کرے تو خوشحالی وہاں بھی ڈیرے ڈال سکتی ہے ۔ اس نے جنوبی امریکہ کی غربت کا ذمہ دار امریکیوں کو ٹھہرایااسی لئے امریکہ ڈرتا تھا کہ یہ انقلاب کہیں اسے بہا نہ لے جائے۔؟اس نے گوئٹے مال میں بھی انقلاب کے بیج بو دیئے، بلکہ اسی کے دبائو میں آکر سابق صدر جیکبو آربنیز نے اصلاحات بھی نافذ کر دی تھیں ۔ اسی لئے سی آئی اے کو وہاں بھی کارروائیاں کرنا پڑیں ۔ اسی دوران وہ میکسیکو چلا گیا اب اس کی وہاں زیادہ ضرورت تھی۔ اسی عرصے میں اس کی ملاقاتیں فیڈل کاسترو اور رال سے ہوئیں، جس کے بعد اس نے 26جولائی کو کیوبا کا رخ کیا جہاں ان کا مقصد امریکہ کے حمایت یافتہ آمر فولگنشیو بتیستا (Fulgencio Batista) کا تختہ الٹنا تھا۔اور وہ اس مشن میں کامیاب رہے۔
جنگی جرائم کی عدالت
کا سربراہ
یہاں وہ جنگی جرائم کے مقدموں سماعت کرنے والا جج بن بیٹھا۔اور دوران بغاوت طاقت کے استعمال کے ٹریبونل کے سربراہ کے طور پر فیصلے صادر کرنے گا۔ وزیر صنعت کے طور پر اس نے زرعی اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے تمام جاگیر داروں کی زمینیں سرکاری کنٹرول میں لینے کا اعلان کر دیا۔ایک طرف تو وہ قومی بینک کا سربراہ بھی بن گیا اور دوسری طرف فوج کو مشورے دینے کاعہدہ بھی سنبھال لیا۔ وہ روسی میزائل سسٹم کیوبا لے آیایہ وہی میزائل ہیں کو 1962ء میں ''کیوبن میزائل بحران‘‘ کا سبب بن گئے تھے ۔اس مرحلہ پر ایک خوفناک جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔مارکسزم کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تو وہ ایک نیا چی گویرا بن چکا تھا، اسے اجارہ داری، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور نیو نوآبادیاتی نظام سے نفرت سی ہو گئی تھی۔ دنیا کو بدلنے کا مقصد لے کر وہ 1965ء میں کیوبا سے نکل پڑا۔اس نے بولیویا میں بھی مزاحمتی تحریک کی بنیاد رکھ دی۔ وہ اس قدرطاقت ور ہو گیا تھا کہ سی آئی اے کے پیدا کردہ جوانوں کو بھی حراست میں لے کر مقدمے چلائے اور سرسری سماعت کے بعد انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔
گوریلے بھرتی کرنے میں ناکامی
ان دنوں اس کی سرگرمیاں بولیویا کے جنگل میں جاری تھیں، وہ وہاں انقلابیوں کی ایک فوج بھرتی کرنے گیاتھا لیکن یہ مشن پورا نہ ہو سکا۔ باوجود کوشش کے، اسے ساتھی نہ مل سکے۔ لوگ تبدیلی چاہتے تھے لیکن تبدیلی کے لئے آگے آنے اور قربانی دینے کو کوئی تیار نہ تھایہ اس کی پہلی اور آخری ناکامی تھی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔سی آئی اے نے صدر بولیویا کو اس کے ٹھکانے سے آگاہ کرتے ہوئے اسے زندہ پکڑنے کی ہدایت کی لیکن بولیویاکی حکومت مزید کوئی خطرہ مول لینے پر تیار نہ تھی اسے ہر قیمت پر وہ مردہ چاہئے تھا۔انہوں نے 9اکتوبر کوقتل کا حکم جاری کر دیا۔لہٰذا جنگل میں اسے گرفتار کر لیا گیا جہاں ہلاک کرنے کے بعد اس کے ہاتھ کاٹ کر بیونس آئرس بھجوا دیئے گئے تاکہ فنگر پرنٹس کی مدد سے یہ چیک کیا جاسکے کہ مرنے والا اصلی چی گویرا ہے یا کوئی اور ہے۔تاہم تصدیق ہونے کے بعد یہ ہاتھ کیوبا بھجوا دیئے گئے تھے۔ اس کی لاش کی بھی کافی بے حرمتی کی گئی ، کہا جاتا ہے کہ اسے شہر لانے کے لئے ہیلی کاپٹر ضرور بھیجا گیاتھا لیکن لاش کو ہیلی کاپٹر میں رکھنے کی بجائے نچلے حصے میں باندھ دیا گیاتھا۔سارے راستے ہیلی کاپٹر نے اسی طرح پرواز کی۔ اس کا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ اب سرخ انقلاب کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی اگر کسی نے ہمت کی تو وہ چی گویرا کی موت سے سبق لے لے۔