’’خلائی مخلوق کا سیارچہ امریکہ میں دیکھا گیا‘‘، ہاروڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ابراہام لیوب کا دعویٰ
اسپیشل فیچر
2019ء کا نوبل انعام آسمانی مخلوق لے اڑی تھی!
گزشتہ دو تین عشروں کی سب سے بڑی کہانی دو سوئس سائنسدانوں مائیکل میئر اور ددیئر شولوز (Didier Queloz)کی تحقیق تھی ۔دونوں سائنس دانوں نے مشترکہ تحقیق میں لکھا ، ''ہم 2 دہائیوں سے آسما ن پر کسی ہمسائے کی تلاش میں ہیں ۔ہمیں کچھ کچھ سراغ مل گیاہے ،لگتا ہے کہ اگلی 3 دہائیوں میں کسی آسمانی مخلوق سے رابطہ ہو جائے گا اورممکن ہے یہ زندگی ہمارے جیسی نہ ہو بلکہ منہنی سی ہو ۔جراثیم یا بیکٹیریا سے مشابہہ بھی ہو سکتی ہے‘‘۔ فلمی مخلوق جیسی عجیب الخلقت بھی ہوسکتی ہے۔
اس تحقیق کامرکزی نکتہ یہی تھا کہ یہ مخلوق بھی ہم سے رابطے کی کوشش میں ہے۔کبھی زمین پر آئی یا نہیں؟ وہ نہیں جانتے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ''ہماری زمین سے لگ بھگ 50لائٹ ایئرز کی دوری پر ایک سیارچے کا ماحول اور فضاء ہماری زمین جیسی ہو سکتی ہے۔''1995ء سے اب تک سائنس دان مزید 4100 چھوٹے سیارے یا سیارچے دریافت کر چکے ہیں۔ ان میں سے ہر پانچویں سیارچے کا ماحول ہماری زمین جیسا ہے‘‘۔انہوں نے سگنلز ملنے کی تصدیق کی لیکن وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ سگنلز کہاں سے آ رہے تھے۔
اسی بحث کو ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹر ابراہام لویب (Dr Abraham Loeb) نے آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ ''2017ء میں خلائی مخلوق کا سیارچہ امریکہ میں دیکھا گیا ہے ۔اس وقت پراسرار دمدار ستارہ امریکہ میں نظر آیا تھا ۔ماہرین نے اسے '' اومواموا‘‘ (Oumuaumua) ستارہ قرار دیا۔یہ کیوں زمین کے قریب آیا ،کیسے واپس چلا گیا، ''خالی‘‘ تھا یا ''مسافر‘‘ تھا؟ کچھ نہیں بتا یا جا سکا۔ڈاکٹر ابراہام لیوب نے ہارورڈ یونیورسٹی سے حاصل شدہ مواد کی روشنی میں 2جنوری 2021ء کو ''کامک میگزین‘‘ میں لکھا کہ ''یہ خلائی مخلوق کا سیارہ تھا، وہی اسے دنیا کے قریب لائی اور وہی واپس لے گئی ۔ وثوق سے کہتا ہوں ، دوسری دنیاکے باشندے ہم سے رابطے کی کوشش میں ہیں لیکن یہ آغاز تھا ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے ۔ دوسری دنیاکی مخلوق سے ہاتھ ملانے کے لئے تیار رہیے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ'' مذکورہ سیارچے کی آمد خلائی زندگی کی جانب پہلا اشارہ ہے۔ آسمان میں زندگی موجود ہے جس سے ہم انکار نہیں کر سکتے۔یہ دمدار ستارہ محض پتھر نہیں تھا بلکہ ''غیر ملکیوں ‘‘کی آمد کی پہلی نشانی تھا اگلا دورہ نہایت ہی فعال ہو گا‘‘۔ ڈاکٹر ابراہام نے کہا ''یہ دمدار ستارہ اچانک خلاء میں نمودار ہوا۔ آس پاس کچھ بھی نہ تھا اورکہاں سے آیا سائنس دان اب تک کوئی ایک وضاحت نہیں کر سکے ۔اس کی حرکت بھی عجیب تھی۔خلاء میں کسی اور ستارے کو '' اومواموا‘‘ (Oumuaumua) کی طرح گردش کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ، یہ منفرد تھا‘‘۔
ا پنے طویل انٹرویو میں ڈاکٹر ابراہام نے استفسار کیا '' اگر آج غاروں میں رہنے والے لوگ موبائل فون دیکھ لیں توکیا کہیں گے؟ یہی نا کہ یہ ناممکن ہے یہ ہم نہیں مانتے۔ہماری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ہم نہیں مانتے، کچھ سائنس دان اس موضوع پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں کہ دوسری دنیا میں بھی کہیں زندگی ہے ،پھر سائنس دان خود کو سپیشل گردانتے ہیں ۔میری رائے میں اس تعصب سے ہمیں جان چھڑا لینی چاہیے ۔ہم یہ تو سوچ سکتے ہیں کہ اگر کائنات میں ہم اکیلے نہیں ہیں تو کیا ہم ہی خاص ''بچے ‘‘ ہیں ۔ لیکن کیا یہ سمجھداری ہے کہ ہم نے لڑنے بھڑنے میں اپنے وسائل برباد کر دیئے ہیں زمین پر تباہی مچا دی ہے، ہماری منفی ذہنیت بربادی کا بڑا سبب ہے‘‘۔
سیارچہ '' اومواموا‘‘کیاتھا؟:یہ سیارچہ امریکی ماہر فلکیات رابرٹ ورک نے 19اکتوبر 2017ء کو ریاست ہوائی میں نصب دوربین کی مدد سے دریافت کیا تھا، انہوں نے ہی اس کا نام '' اومواموا‘‘ تجویز کیا۔ ریاست ہوائی میں یہ لفظ ''سکائوٹ ‘‘کے ہم معنی ہے۔ کئی حوالوں سے یہ نظام شمسی کے دیگر سیارچوں سے مختلف تھا ۔ یہ پتھر جیسا سیاہ نہ تھا، اس میں چمک تھی، بیرونی سطح سورج کی مانند سرخ تھی۔یہ سیارچہ کسی خاص ایکسس پرحرکت کرنے کی بجائے ا دھر ادھر ''لڑھک‘‘ رہا تھالیکن رفتار تیز تھی۔نظام شمسی میں ایسا نا ممکن ہے، اس نکتے کی کوئی وضاحت نہیں کی جا سکی۔ روٹیشن کی رفتار کم و بیش نظام شمسی میں دیگر سیارچوں جیسی تھی اور حجم زیادہ نہ تھا۔ 100 سے 1 ہزار میٹر تک لمبا اور 35سے 167میٹر تک چوڑاہو گا ۔ سائنس دانوں اور ماہرین فلکیات نے اسے نظام شمسی سے الگ کوئی شے قرار دیا۔شاید وہ نظام شمسی سے الگ ہو کر ستاروں کے درمیان میں ہی کہیں گردش کر رہا ہے اس کے ماخذ کا بھی سائنس دانوں کو علم نہیں۔
ہائیڈروجن آئس تھیوری!:سائنس دانوں نے پراسرار اوموا موا پر ''ہائیڈروجن آئس‘‘ کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے۔ شاید خلاء میں موجود ''مالیکیولر کلائوڈ ‘‘ (گیسوں اور کیمیکلز کے بادل)سے اس کی تشکیل ہوئی ہو۔سورج کی حرارت سے ہائیڈروجن گیس کی ہیت بدل گئی ۔ مزید تحقیق کی غرض سے ''پراجیکٹ لائرا‘‘ (Project Lyra)نامی خلائی پر کام جاری ہے ۔