آئرن کی کمی کی صورت میں کیا ہو سکتاہے؟
آئرن ( فولاد) کی کمی بہت ہی عام ہوتی جا رہی ہے۔ ایک امریکی ادارے کی تحقیق کے مطابق 50 فیصد حاملہ خواتین اور 20فیصد غیر حاملہ خواتین میں اس اہم عنصر کی کمی پائی گئی ہے۔پاکستان کے کئی علاقوں میں کمی کا تناسب اس سے کہیں زیادہ ہے۔کئی وجوہات کی بناء پر آئرن کی کمی ہو سکتی ہے، زیادہ سبزی خور بھی اس کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
آئرن کیوں ضروری ہے؟:سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ جسم کو فولاد کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ ہیموگلوبن کے سب سے اہم حصے کے طور پر فولاد جسم میں آکسیجن کی فراہمی کو متوازن رکھنے میں مددگار ہوتا ہے، یہ آکسیجن کی منتقلی میں خون کے سرخ خلیوں کامعاون بنتا ہے ۔ہیمو گلوبن آرٹریز میں سفر کے دوران ہر خلیے تک آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ہم جو کچھ کھاتے ہیں، یہ اس سے توانائی حاصل کرنے میں بھی معاون بنتا ہے۔ یہVeins میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ وصول کرتا ہے یعنی جذب کرتا ہے اور اسے پھیپھڑوں میں پہنچا دیتا ہے تاکہ اس کا اخراج ممکن ہو سکے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق ہر بالغ مرد کے جسم میں آئرن ہوتا ہے جس کی زیادہ تر مقدارہیمو گلوبن میں پائی جاتی ہے۔ ''نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ‘‘ کے مطابق '' جس کسی میں فولاد کی کمی ہو گی، اس کا اعصابی نظام اور پٹھوں کی جسمانی نشو و نما متاثر ہو سکتی ہے‘‘۔کمی کے باعث کچھ ضروری ہارمونز کی پیداوار پر بھی فرق پڑ سکتا ہے۔
کتنا آئرن ضروری ہے؟: عام حالات میں ایک بالغ مرد اور عورت کو 8ملی گرام یومیہ، بریسٹ فیڈنگ کرنے والی مائوں کو9ملی گرام اور حاملہ عورت کو 27ملی گرام فولاد یومیہ درکار ہوتا ہے۔
دل اور پھیپڑوں پر دبائو : آئرن ہیمو گلوبن کے ہر مالیکیول کا مرکز ہوتا ہے ، اس کی کمی سے جسم میں کئی اہم سرگرمیاں رک جاتی ہیں۔ ہیمو گلوبن کی مقدار میں کمی ہوسکتی ہے جسے انیمیا کہاجاتا ہے۔ایسے شخص کو شدید چکر بھی آ سکتے ہیں۔دوسری جانب خلیوں کو پوری مقدار میں آکسیجن نہیں ملتی تاکہ وہ اپنا کام کر سکیں ۔ یوں انرجی کی مقدار میں بھی کمی آنا شروع ہو جاتی ہے، اس کا لازمی نتیجہ تھکن اور کمزوری کی صورت میں برآمدہوتا ہے۔سانس رک رک کر آسکتی ہے، اسے ''شارٹنس آف بریتھ‘‘ بھی کہا جاتا ہے یعنی فرد گھٹن محسوس کر سکتا ہے۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے جو زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہ جب کسی کے جسم میں آئرن کی کمی ہو جاتی ہے تو آکسیجن کی فراہمی کو پورا کرنے کے لئے دل اور پھیپڑوںپر دبائو پڑ سکتا ہے،کمی کو پورا کرنے کے لئے ان کا کام بڑھ جاتا ہے ۔اگرچہ ڈاکٹر صاحبان اینیمیا کے لئے ہیمو گلوبن کا ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے۔''میو کلینک ‘‘کے مطابق ڈاکٹرز اس کے لئے خون کے سرخ خلیوں کا سائز اور نگ کا معائنہ بھی کرتے ہیں۔ اینیمک افراد میں خون کے سرخ خلیے نسبتاََچھوٹے اور زردی مائل بھی ہو سکتے ہیں۔بعض دیگ ٹیسٹوں کے علاوہ کمزور پٹھے بھی آئرن کی کمی کی علامت ہو سکتے ہیں۔ آئرن ایک اور قسم کی پروٹین ''مایوگلوبن ‘‘ کا بھی اہم جزو ہے۔یہ اس اعتبار سے ہیمو گلوبن سے مشابہت رکھتا ہے کہ اس کے مالیکیول کے مرکز میں بھی آئرن ایک رنگ کی مانند پایا جاتاہے۔یہ بھی آکسیجن کی منتقلی میں معاون ہے۔لیکن ہیمو گلوبن کے برعکس یہ جسم کے ہر خلیے تک نہیں پہنچتا بلکہ صرف عضلات کے ٹشوز میں ہی پایا جاتا ہے۔ یہ کارڈک مسلزاور سکیلیٹن مسلز میں بھی موجود ہوتا ہے۔ ورزش اورزیادہ آکسیجن والے مواقعوں پر یہ مایوگلوبن ہی اضافی آکسیجن مہیا کرتا ہے ۔ کم مقدار میں مایوگلوبن آنتوں میں بھی موجود ہوتے ہیں۔
سردی کی برداشت میں کمی :آ پ کو معلوم ہونا چاہئے کہ پٹھوں میں نائٹرک آکسائیڈ نامی فاضل مادہ بھی پیدا ہوتا رہتا ہے، مایو گلوبن اسے ذیلی اجزاء میں تقسیم کر کے نقصانات کو ختم کر دیتا ہے۔''ہیلتھ ڈائجسٹ‘‘ نے اپنی تازہ ترین اشاعت میں لکھا ہے کہ ''دل کا مسئلہ یا سردی کا بہت زیادہ لگنا بھی آئرن کی کمی کی علامت ہو سکتا ہے‘‘۔کیونکہ آئرن کی کمی کے باعث فرد ''فرجڈ‘‘ جیسی کیفیت کا شکار ہو سکتا ہے۔''امریکن جرنل آف سائیکو لوجی‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق شائد اسی لئے اینیمک افراد میں سردی کی برداشت کم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جب آئرن کم ہو جائے تو جسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے والے ہارمونز جیسا کہ T3اور T4۔ ان ہارمونز کی کمی سے فرد میں درجہ حرارت پر کنڑول کمزور پڑ جاتا ہے۔ ہیمو گلوبن کی کمی پچوٹری گلینڈز کو بھی پوری آکسیجن نہیں ملتی۔ اس سے بھی درجہ حرارت پر قابو پانے والے T3 اور T4کی مناسب مقدار پیدا نہیں ہوتی۔آئرن کی کمی سے میگرین میں بھی شدت پیدا ہو سکتی ہے۔ جبکہ مدافعتی نظام بھی کمزور پڑ سکتا ہے۔پنڈلیوں میں درد ،ڈپریشن، بالوں کا گرنا، جلد کی پیلاہٹ، زبان پر چھالے بھی اس کی کمی کی علامات ہیں۔برف یا ایسی دری نان فوڈ آئٹمز میں دل چسپی کا مطالب یہ بھی ہو سکتا ہے کی فرد میں آئرن کی کمی ہے۔ آئرن کی کمی کئی حوالوں سے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔اس سے بچنا چاہئے۔