لالی وڈ کے ’’ دادا ‘‘۔۔۔۔ یادگار فلموں کے خالق نذرالاسلام
یوں تو پاکستانی فلمی صنعت میں کئی شاندار اور باصلاحیت ہدایت کاروں نے خدمات سرانجام دیں اور اس صنعت کی آبیاری میں ان کی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ان میں ریاض شاہد، مسعود پرویز، حسن عسکری، الطاف حسین، سید نور، یونس ملک، ایس اے بخاری، پرویز ملک اور کئی دیگر شامل ہیں لیکن ایک ہدایت کار ایسے تھے جنہوں نے ہدایت کاری کو نئے زاویوں سے آشنا کیا۔ ان کا اسلوب اور طریقہ کار سب سے مختلف تھا۔ وہ تھے نذرالاسلام۔ انہیں'' دادا‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔
نذرالاسلام1939 ء میں ڈھاکہ میں پیدا ہوئے ۔ وہ فلمساز بھی تھے اور ہدایت کار بھی۔ ان کی فلموں کی خاصیت یہ تھی کہ ان کی ٹیم بنگالی فنکاروں پر مشتمل ہوتی تھی۔ شبنم اور روبن گھوش ان کی فلموں کا لازمی جزو تھے۔ نغمہ نگاروں میں سرور بارہ بنکوی تھے جنہوں نے بڑے یادگار نغمات تخلیق کئے۔ گلوکاروں میں اخلاق احمد، مہدی حسن ، مہناز اور نیرہ نور نے ان کی فلموں کیلئے بڑے اچھے نغمات گائے۔ اگر ہم بنگالی ہدایت کاروں کی بات کریںتو اس حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتے کہ انہوں نے بڑی شاندار فلمیں بنائیں۔ بھارت میں بِمل رائے اور باسو چیٹر جی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اس کے علاوہ اور بھی نام ہیں ۔ نذرالاسلام بنگلا دیش کے قیام کے بعد پاکستان ہی میں رہے ۔ انہیں 1971 ء میں بننے والی فلم ''پیاسا‘‘ سے شہرت ملی۔ان کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے ایک پنجابی فلم ''کالے چور‘‘ بھی بنائی جو سپرہٹ ثابت ہوئی۔ انہوں نے ''آئینہ‘‘ جیسی معرکہ آراء فلم کی ہدایات دیں، یہ فلم کراچی میں 5سال نمائش پذیر رہی ۔ اس فلم کے تمام نغمات ہٹ ہوئے اور آج بھی ان کی مقبولیت برقرار ہے ۔ ان کی فلموں ''بندش‘‘ اور ''نہیں ابھی نہیں‘‘ بھی زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ اگرچہ یہ دونوں فلمیں انگریزی فلموں ''سمر آف 42‘‘ اور ''سن فلاور‘‘ سے متاثر ہوکر بنائی گئیں تھیں لیکن یہ بات ماننا پڑے گی کہ نذرالاسلام نے انتہائی مہارت سے ان فلموں کی ہدایات دیں۔ ''نہیں ابھی نہیں‘‘ میں انہوں نے فیصل اور ایاز کو متعارف کرایا۔ اور ان دونوں نے اپنی اداکاری سے سب کو چونکا دیا۔ اس فلم کے گیت سرور بارہ بنکوی نے تحریرکئے تھے اور سنگیت روبن گھوش کا تھا۔ یہ فلم 1980 ء میں ریلیز ہوئی اور اسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کے بعد فیصل اور ایاز کو کئی اور فلموں میں کاسٹ کرلیا گیا۔ ان کی ایک اور شاندار فلم ''لوسٹوری‘‘ تھی جو 1982ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی۔ اس فلم کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ اس میں فیصل کے علاوہ لیلیٰ اور آغاطالش نے بھی بہت اچھی اداکاری کی ۔ ''لوسٹوری‘‘ کی موسیقی بہت اچھی تھی اور اس کے نغمات بہت ہٹ ہوئے۔
دادا نذرالاسلام کی فلم ''زندگی‘‘ نے بھی بڑی کامیابی حاصل کی۔ اس میں ندیم، بابراشریف، ننھا اور مصطفی قریشی نے بہت اچھی اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ 1978 ء میں ریلیز ہونے والی فلم میں روحی بانو اور طارق عزیزنے بھی مہمان اداکار کے طور پر کام کیا تھا۔ لیکن ان کرداروں میں بھی انہوں نے چونکا دینے والی اداکاری کی ، ویسے تو جاگیرداری کے خلاف بے شمار پنجابی فلمیں بنائی گئیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری پنجابی فلموں نے جاگیرداری کے خلاف عوام کو جو شعور دیا اس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ فلم ''زندگی‘‘ نے اے نیئر کو بھی بہت شہرت دی۔ ان کا یہ گیت ''سالگرہ کا دن آیا ہے ‘‘ بہت پسند کیا گیا اور یہ گیت آج بھی ان کے بہترین گیتوں میں شمار ہوتا ہے سالگرہ کی تقاریب میں کافی عرصہ یہ گیت چلتا رہا۔ اس فلم کا سنگیت بھی روبن گھوش نے مرتب کیا تھا۔ نذرالاسلام کی خوبی یہ تھی کہ ان کی فلم دیکھ کر فلم بین یہ سمجھ جاتے تھے کہ اس فلم کا ٹریٹمنٹ صرف دادا ہی دے سکتے ہیں ۔ دوسری خاصیت یہ تھی کہ ان کی فلم کی سنیماٹوگرافی بڑے کمال کی ہوتی تھی ۔ اور تیسری خاصیت ان کی فلموں کا سنگیت ہوتا تھا۔ اس حوالے سے ان کی فلم ''امبر‘‘ کا ذکر بہت ضروری ہے یہ ایک رومانوی اور سوشل فلم تھی جس میں محمد علی اور ندیم نے مرکزی کردار ادا کئے تھے۔ ''امبر‘‘ کا کردار ممتاز نے ادا کیا تھا ۔ اس وقت ممتاز پنجابی فلموں میں کام کررہی تھیں۔ ''امبر‘‘ کا مرکزی کردار ممتاز کو دینے کا فیصلہ بھی حیران کن تھا۔ یہ کردار شبنم کو بھی دیا جاسکتا تھا لیکن انہوں نے ممتاز کو کاسٹ کیا، یہ فلم بھی سپرہٹ ثابت ہوئی اس کے گیت بہت مقبول ہوئے خاص طور پر مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت ''ٹھہرا ہے سماں‘‘اور اے نیئر اور ناہید اختر کا یہ دوگانا''ملے دوساتھی‘‘بہت مقبول ہوئے۔
نذرالاسلام کی فلم ''آئینہ‘‘ ایک ایسی فلم ہے جس کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی۔ اس فلم کے اداکاروں میں شبنم، ندیم، ریحان اور بہار نے بے مثال کا م کیا۔ روبن گھوش کی موسیقی آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے ۔ مہدی حسن ، مہناز، عالمگیر اور نیئر ہ نور نے جو گیت گائے ان کی خوشبو آج بھی پھیلی ہوئی ہے ۔ نذرالاسلام نے کبھی موسیقی پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ''آئینہ ‘‘ اتنی شاندار فلم تھی کہ اس کا چربہ بھارت میں بھی بنایا گیا۔ یہ فلم تھی ''پیار جھکتا نہیں ‘‘ اور یہ فلم بھی ہٹ ہوئی ۔
جب نذرالاسلام نے پنجابی فلم ''کالے چور‘‘ کی ہدایات دینے کا فیصلہ کیا تو فلم بینوں کو بڑی حیرت ہوئی ۔ لیکن انہوں نے اس فلم کی ہدایت کاری کرکے سب کے اندازے غلط ثابت کردیئے جن کی یہ رائے تھی کہ دادا پنجابی فلموں کی ہدایت کاری نہیں کرسکتے۔ انہوں نے سلطان راہی،ہمایوں قریشی اور نیلی کی صلاحیتیوں کو بڑے احسن طریقے سے پردۂ سکرین پر استعمال کیا اس فلم میں بھی انہوں نے یہ ثابت کیا کہ اگرسکرپٹ اچھا ہو تو ایک ہدایت کار کیلئے معیاری فلم بنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔ ان کی دیگر فلموں میں'' خواہش، میڈیم باوری‘‘ اور'' نرگس‘‘ کے نام لئے جاسکتے ہیں ۔ اگر ایک اور فلم کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ ناانصافی ہوگی۔ یہ فلم تھی ''احساس‘‘ ۔یہ بھی ہٹ ثابت ہوئی اور اس کے نغمات بھی بڑے مقبول ہوئے۔ خاص طور پر رونا لیلیٰ کا گایا یہ گیت''ہمیں کھوکر بہت پچھتائو گے ‘‘ آج بھی بڑے شوق سے سنا جاتا ہے ۔
اگرچہ دادا نذرالاسلام کی کچھ فلمیں ناکام بھی ہوئیں لیکن ان کی کامیاب فلموں کی تعداد زیادہ ہے ۔ 1991ء میں یہ بے مثال ہدایت کار اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔