پنجابی فلموں کی مشہور’’ بڑھکیں‘‘ مظہر شاہ نے بنیاد رکھی، سب سے زیادہ بڑھکیں بھی انہی کی مقبول ہوئیں
اسپیشل فیچر
پاکستانی فلمی صنعت نے بڑا عروج کا دور دیکھا ہے ۔ اس صنعت میں پنجابی زبان میں زیادہ فلمیں بنائی گئیں اس کے بعد اردو، پشتو، سندھی اور سرائیکی کا نمبر آتا ہے ۔ پاکستان کی پہلی سپرہٹ پنجابی فلم ''پھیرے‘‘ تھی جو اداکارو فلمساز نذیر نے بنائی تھی۔ پنجابی زبان میں بڑی معیاری فلمیں بنائی گئیں ان فلموں کی تعداد سینکٹروں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے ان میں بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین دونوں قسم کی فلمیں شامل ہیں۔1960ء کی دہائی میں پنجابی فلموں میں بڑھک کا رواج شروع ہوااور پھر یہ پنجابی فلموں کا لازمی حصہ بن گئی۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تکیہ کلام اور بڑھک میں نمایاں فرق ہے ۔ تکیہ کلام بھی مشہور ہوجاتا ہے اور یہ صرف پنجابی فلموں تک محدود نہیں تھا بلکہ اردو فلموں میں بولے جانیوالے تکیہ کلام بھی بہت مشہور ہوئے۔لیکن یہاں ہم ان پنجابی بڑھکوں کے بارے میں بات کریں گے جو اب بھی مشہور ہیںیہ بڑھکیں پنجابی فلموں کے مختلف ادارکاروں نے لگائیں۔
مظہر شاہ:ایک دور تھا جب پنجابی فلموں میں اکمل اور مظہر شاہ کی مشہور جوڑی نے شائقین کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ اس میںکوئی دو رائے نہیں کہ مظہر شاہ وہ اداکار تھے جنہوں نے پنجابی فلموں میں بڑھک کی بنیاد رکھی۔ ان کی پہلی بڑھک جس نے زبردست شہرت حاصل کی فلم''موج میلہ‘‘ کے حوالے سے تھی۔اس بڑھک کے الفاظ تھے۔ ''تیری لاش نوں مچھیاں ای کھان گیاں‘‘(تیر ی نعش کو مچھلیاں ہی کھائیں گی)۔
اور پھر ایک اور بڑھک''جنہیں ساڈے نال متھا لایا، اوہدی ماں نے وین ای پائے نیں‘‘(جس نے ہمارے ساتھ ٹکر لی، اس کی ماں نے بین ہی کئے ہیں)۔ان کی دیگر مشہور بڑھکیں ملاحظہ فرمائیں۔ فلموں کے نام بھی دیئے جارہے ہیں۔
''اوئے میں نتھ پادیاں گا‘‘(میں ناک میں نکیل ڈال دوں گا)، فلم ''مکھڑا چن ورگا‘‘
''اوئے میں پٹھیاں پن دیا ں گا‘‘(میں لکڑیاں توڑ دوں گا)
''میں سانواں وچ ساںپاکے روح کھچ لا ں گا‘‘( میں سانسوں میں سانسیں ڈال کر روح نکال لوں گا)فلم ''جند جان‘‘
''اوئے میں پھوڑیاں پا دیاں گا‘‘(میں صف ماتم بچھا دوں گا) فلم''شیراں دی جوڑی‘‘
''بندہ بنا دیساں‘‘(بندہ بنا دوں گا) فلم ''لنگوٹیا‘‘
''ٹبر کھا جاواں ڈکار نہ ماراں‘‘(میں خاندان کا خاندان کھاجائوں اور ڈکار نہ لوں)
اسد بخاری:اسد بخاری کی بڑھکیں بھی بڑی دلچسپ ہوتی تھیں اور شائقین میں بہت مقبول ہوئیں۔اسد بخاری کے بارے میں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ انہوں نے شروع شروع میں اردو فلموں میں کام کیا پھر وہ پنجابی فلموں میں ولن کا کردار ادا کرنے لگے۔ انہوں نے خود بھی فلمیں بھی بنائیں جن میں ''آسوبلا، دلاں دے سودے، بلا چیمپئن اور بلا ببر شیر‘‘قابل ذکر ہیں۔ ان میں آسو بلا اور دلاں دے سودے نے شاندار کامیابی حاصل کی، ان فلموں میں مثبت کردار بھی ادا کئے لیکن ان کی شہرت کی وجہ ان کے منفی کردار تھے۔ ذیل میں ان کی مشہور بڑھکیں ملاحظہ فرمائیں جن کو سن کر بسا اوقات شائقین قہقہے لگانے پر بھی مجبور ہوجاتے تھے۔
''میں جدوں گجنا اوہدوں وسنا‘‘(میں جب گرجتا ہوں اسی وقت برستا بھی ہوں) فلم''یار بادشاہ‘‘
''میں اک باں بن کے ماراں گا‘‘(میں ایک بازو باندھ کر ماروں گا) فلم ''جند جان‘‘
''میں جتھے پیر رکھ دیاں اوتھے پچال آجائے‘‘(میں جہاں پائوں رکھ دوں وہاں بھونچال آجائے)فلم ''مستانہ ماہی‘‘
''چوداں سال تے میں تلی تے لئی پھرناں‘‘(چودہ سال تو میں ہتھیلی پر لئے پھرتا ہوں) فلم''سجن ملدے کدی کدی‘‘
''اوئے جنھے ساڈے نال لڑنا اے او پہلاں کفن دا ناپ دے کے آوے‘‘ (جس نے ہمارے ساتھ لڑنا ہے وہ پہلے اپنے کفن کا ماپ دے کر آئے)
جگی ملک:پنجابی فلموں کے یہ اداکار بی کلاس ولن تھے لیکن انہوں نے سیکڑوں پنجابی فلموں میں اداکاری کی۔ انہوں نے اے کلاس ولن بننے کی پوری کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے البتہ ان کی کچھ بڑھکیں ضرور مشہور ہوئیں جن کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے
''روح کچھ لاں گا‘‘(روح کھینچ لوں گا) فلم ''بابل دا ویہڑہ‘‘
''اوئے میں شیرنی ماں دا دودھ پیتا اے‘‘(میں نے شیرنی ماں کا دودھ پیا ہے) فلم ''شیراں دے پتر شیر‘‘
''اک ادھا قتل تے شوکے دا ناشتہ اے‘‘(ایک آدھ قتل تو شوکے کا ناشتہ ہے)
کچھ اور بڑھکیں بھی انہوں نے ماریں لیکن مذکورہ بالا بڑھکیں زیادہ مشہور ہوئیں۔انہوں نے ایک فلم ''میں نالائق آں‘‘ میں مرکزی کردار ادا کیا لیکن یہ فلم کامیاب نہ ہوسکی۔
الیاس کشمیری:فلمی صنعت کے تایا جی تقسیم ہند سے پہلے بھی فلموں میں اداکاری کرتے تھے ۔ وہ شروع شروع میں ہیرو کے طور پر آئے انہوں نے اردو فلموں میں اداکاری کی اور ان کی سب سے مشہور فلم ''عشق ہر روز نہیں‘‘تھی۔ان کی دیگر قابل ذکر فلموں میں ''دوسری شادی، وحشی، صورت اور سیرت کے نام لئے جاسکتے ہیں۔بعد میں وہ پنجابی فلموں کے ولن کی حیثیت سے ایک طویل عرصے تک چھائے رہے انہوں نے کیریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ کیرئیرکے آخری حصے میں وہ چھوٹے موٹے کردار ادا کرنے لگے ان کی فلموں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ بڑھکیں تو انہوں نے بھی بہت ماریں لیکن ان کی ایک بڑھک بہت مشہور ہوئی۔
''اوئے میں کشت کٹ کے آیاں، نشت مار دیاں گا‘‘(میں جیل کی سختیاں برداشت کرکے آیا ہوں، اب برباد کردوں گا) فلم ''ضدی‘‘
فلم ضدی کے ہدایتکار اقبال کاشمیری تھے ان کے مطابق الیاس کاشمیری ہی ان کو فلموں میں لائے تھے۔ اقبال کاشمیری کی اکثر فلموں میں الیاس کاشمیری ولن کا کردار ادا کرتے نظر آئے جن میں سب سے زیادہ مشہور فلمیں''ضدی، بنارسی ٹھگ اور ٹیکسی ڈرائیور‘‘ تھیں۔ ٹیکسی ڈرائیور میں ان کا تکیہ کلام بھی بڑا مشہور ہوا۔
''اسی آپ نئیںلڑے، ساڈی سیاست لڑ دی اے‘‘(ہم خود نہیں لڑتے، ہماری سیاست لڑتی ہے)
کچھ لوگ اس کو بڑھک سمجھتے ہیں لیکن یہ بڑھک نہیں تکیہ کلام تھا۔
سلطان راہی مرحوم نے بھی چند پنجابی فلموں میں ولن کا کردار ادا کیا تھا اور بڑھکیں بھی ماری تھیں لیکن اسے اتفاق کہیے کہ ان کی بڑھک مشہور نہ ہوئی۔ ادیب اور مصطفی قریشی نے اردو فلموں کے ساتھ ساتھ بے شمار پنجابی فلموں میں کام کیا۔ لیکن انہوں نے بڑھکیں نہیں ماریں بلکہ ان کے تکیہ کلام خاصے مشہور ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں اداکاروں کو پنجابی نہیں آتی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے سینکڑوں پنجابی فلموں میں کام کیا۔ پنجابی فلموں کے کچھ اداکار ایسے تھے جن کی صرف ایک ایک بڑھک مشہور ہوئی۔ اقبال حسن نے فلم ''مرزاجٹ‘‘ میں بڑھک ماری''تھاں مار دیا ں گا‘‘(موقع پر ہی ماردوں گا)۔ اس کے علاوہ ایک اور بی کلاس ولن انور خان کی فلم ''اچھا شوکر والا‘‘ میں یہ بڑھک بہت مشہور ہوئی تھی۔''مین سوئچ آف کردیاں گا‘‘(مین سوئچ آف کردوں گا)۔
اس مضمون میں اداکاروں کی مشہور بڑھکوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ان بڑھکوں کے علاوہ کئی اور فلموں میں بھی انہوں نے بڑھکیں لگائیں لیکن وہ اتنی شہرت حاصل نہ کرسکیں۔اب ایسی بڑھکیں کہاں اور کہاں کے تکیہ کلام۔۔سب کچھ قصۂ پارینہ بن چکا ہے ۔