الجزائر کی جنگ آزادی فرانس نے بادشاہ کی مقبولیت میں اضافہ کیلئے الجزائر پر قبضہ کیا

الجزائر کی جنگ آزادی  فرانس نے بادشاہ کی مقبولیت میں اضافہ کیلئے الجزائر پر قبضہ کیا

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


دوسری جنگِ عظیم یکم ستمبر 1939ء کو شروع ہوئی جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا رد عمل کے طور پر 3ستمبر 1939ء کو فرانس نے جرمنی کیخلاف اعلانِ جنگ کر دیا ۔ ہٹلر نے اپریل 1940ء میں ڈنمارک اور ناروے پر قبضہ کر لیا ۔ اس کیساتھ ساتھ جرمنی نے بیلجیئم ، نیدرلینڈ (ہالینڈ ) اور لکسمبرگ میں بھی فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے 10مئی 1940ء کو ایڈ ولف ہٹلر نے فرانس پر بھی حملہ کر دیا ، فرانس پر جرمنی کا قبضہ 4 برس تک رہا ، 25اگست 1944ء کو فرانس کو آزادی ملی ۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جرمنی نے فرانس پر قبضہ کیا تو فرانس نے خود الجزائر کو اپنی نو آبادی بنا رکھا تھا ۔ یہ ہے مہذب دنیا کے دہرے معیار ۔ فرانس کے عظیم فلسفی سارتر نے فرانس کے الجزائر پر قبضے کی مذمت کی ۔ سارتر امن اور آزادی کا حامی تھا اور اس نے ہمیشہ الجزائر کے عوام کی حمایت کی ۔ اسی طرح الجزائر میں پیدا ہونیوالے فلسفی اور ناول نگار البیر کامیو نے بھی فرانسیسی استعمار کی مخالفت کی ۔ جس وقت فرانس نے الجزائر پر قبضہ کیا اُس وقت فرانس پر چارلس Xکی حکومت تھی ۔ الجزائر پر قبضے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ فرانسیسی عوام میں چارلس کی مقبولیت میں اضافہ کیا جائے ۔ الجزائر کی جنگ آزادی کوانقلاب الجزائر بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ جنگ فرانس اور الجزائر کی قومی آزادی کے محاذ کے درمیان 1954ء سے 1962ء تک لڑی گئی ، یہ بڑی پُر تشدد جنگ تھی ۔ شمالی افریقہ کے ملک الجزائر پر 1830ء میں قبضہ کیا گیا ، اس جنگ میں وہ حربے بھی استعمال کئے گئے جو گوریلا جنگ میں اختیار کئے جاتے ہیں ۔ یہ تنازعہ خانہ جنگی کی صورت بھی اختیار کر گیا ۔ یہ جنگ زیادہ تر الجزائر کے علاقوں میں لڑی گئی لیکن فرانس کو بھی اس کے مضمرات کا سامنا کرنا پڑا ۔ 
اس جنگ کی ابتداء نیشنل لبریشن فرنٹ (NLF)کے ارکان کی طرف سے کی گئی اور اس کا آغازیکم نومبر 1954ء کو ہوا ۔ اس تنازعے کی وجہ سے فرانس میں شدید بحران پیدا ہو گیا اور اس سے ری پبلک فورتھ زوال سے دوچار ہو گئی اور اس کے بعد ففتھ ری پبلک کا آغاز ہوا ۔ اس سے فرانس میں مضبوط صدارت کی راہ ہموار ہو گئی ۔جس طرح فرانسیسی فوجوں نے الجزائر میں ستم کاریاں کیں اس سے الجزائر کے عوام میں ان کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی ۔ ظاہر ہے جبر و استبداد سے کیسے دل جیتے جا سکتے تھے اور آگ میں پھولوں کا کھلنا نا ممکن ہوتا ہے ۔ فرانس کے اندر بھی اس جبر و ستم کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ۔ فرانسیسی فوج کے اقدامات کی وجہ سے بیرونی دنیا میں بھی فرانس کے وقار کو شدید ٹھیس پہنچی ۔ جب جنگ طویل ہو گئی تو فرانسیسی عوام میں بھی اپنی حکومت کیخلاف غم و غصہ پیدا ہو گیا ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس کے بڑے اتحادی جن میں امریکہ بھی شامل تھا نے بھی فرانس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ۔ فرانس اقوام متحدہ میں الجزائر پر بحث رکوانے کا آرزو مند تھا لیکن اب وہ مصیبت میں پڑ گیا ۔ 19دسمبر 1962ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر الجزائر کے عوام کے حق خود ارادیت اور حق آزادی کو تسلیم کر لیا ۔ 1960ء میں الجزائر کے کئی شہروں میں آزادی کے حق میں زبردست مظاہرے کئے گئے ۔ ففتھ ری پبلک کے پہلے صدر چارلس ڈیگال (charles de gaulle) نے این ایل ایف کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے نتیجے میں مارچ 1962ء میں الوین معاہدوں پر دستخط ہوئے ۔ 
8اپریل 1962ء کو ریفرینڈم کا انعقاد کیا گیا اور فرانس کے ووٹروں نے الوین معاہدوں کی منظوری دیدی ۔ 91فیصد ووٹروں نے ان معاہدوں کی توثیق کے حق میں فیصلہ دیا اور پھر یکم جولائی کو ان معاہدوں کو الجزائر میں دوسرے ریفرینڈم سے مشروط کر دیا گیا جہاں 99.72فی صد لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا جبکہ صرف 0.28فی صد لوگوں نے آزادی کی مخالفت کی ۔ فرانس نے الجزائر سے فوجیں نکالنے کی جو منصوبہ بندی کی تھی اس کی وجہ سے بحران پیدا ہو گیا ۔ اس وجہ سے صدر ڈیگال پر کئی ناکام قاتلانہ حملے کئے گئے ۔ اس کے علاوہ فوجی بغاوت کی بھی کوشش کی گئی ۔ جس تنظیم نے صدر ڈیگال پر ناکام قاتلانہ حملے کئے وہ زیر زمین اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ الجزائر فرانس کی نو آبادی بنا رہے اس تنظیم کو فرانسیسی فوجیوں کا ایک گروپ چلا رہا تھا ، وہ فرانسیسی زبان میں جو نعرہ لگاتے تھے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو وہ کچھ یوں بنتا ہے (We want Algerian France )ہم فرانس کا الجزائر چاہتے ہیں ۔ اس تنظیم نے الجزائر پر بہت بمباری کی اور شہریوں کا قتل عام کیا ۔ اس کا صرف اور صرف مقصد یہ تھا کہ الجزائر کو آزادی کی نعمت سے محروم رکھا جائے۔ 1962ء میں الجزائر کی آزادی کے چند ماہ کے اندر ہی الجزائر میں بسنے والے 9لاکھ یورپی باشندے فرانس بھاگ گئے ۔ انہیں خدشہ تھا کہیں این ایل ایف انہیں انتقام کا نشانہ نہ بنائے ۔ فرانسیسی حکومت مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھی کیونکہ حکومت نے یہ تو سوچا ہی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے فرانس شدید بحران کا شکار ہو گیا ۔ الجزائر کے مسلمانوں کی اکثریت جنہوں نے فرانسیسیوں کیلئے کام کیا تھا ، غیر مسلح تھی کیونکہ فرانس اور الجزائر کے حکام کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی ۔ البتہ حرکیوں (Harkis)کو این ایل ایف نے غدار قرار دیتے ہوئے ہلاک کر دیا ۔ حرکیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے الجزائر کے شہریوں کیخلاف فرانسیسی فوجوں کی حمایت کی تھی ۔ 
اب ہم 1830ء کی طرف چلتے ہیں جب فرانس نے الجزائر پر حملہ کیا تھا جس کی وجوہات اوپر بیان کی جا چکی ہیں ۔ مارشل بوگاڈ الجزائر کا پہلا گورنر جنرل بن گیا ۔ الجزائر کی فتح پر امن طریقے سے نہیں ہوئی ۔ الجزائر کے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ، بے شمار لوگوں کو قتل کیا گیا اور ان گنت عورتوں کی آبروریزی کی گئی ۔ ایک اندازے کے مطابق الجزائر کے قریباً 30لاکھ لوگوں کو موت کی وادی میں اتار دیا گیا ۔جہاں تک فرانسیسیوں کے جانی نقصان کا تعلق ہے تو1830ء سے 1851ء تک 3,336فرانسیسی ہلاک ہوئے جبکہ 92,329فرانسیسی فوجیوں نے ہسپتالوں میں دم توڑا 1834ء میں الجزائر فرانس کی فوجی کالونی بن گیا ۔ 1848ء کے آئین میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ الجزائر فرانس کا لازمی حصہ ہے اور اسے 3 شعبوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ ایک الجیرا ، دوسرا اورن اور تیسرا کنسٹائن ۔ بعد میں کئی فرانسیسی ، ہسپانوی ، اطالوی اور یورپ کے دوسرے شہروں کے لوگ الجزائر میں آباد ہو گئے ۔ 
ہم اپنے قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ الجزائر کے لوگوں نے آزادی کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں، ان کی آزادی میں صدر ڈیگال نے بھی اہم کردار ادا کیا فرانس کے مشہور امن پسند فلاسفروں نے کبھی الجزائر پر ہونیوالے مظالم کی حمایت نہیں کی ۔ فرانز فینن کا کردار بہت اہم رہا ، اس نے الجزائر کی تحریک آزادی کیلئے کام کیا ۔ فرانس کے وہ دانشور جو اس بات کا ماتم کرتے ہیں کہ ایڈولف ہٹلر نے 1940ء میں فرانس پر ناجائز قبضہ کیا ، کیا انہیں فرانس کا الجزائر پر قبضہ یاد نہیں ؟

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

دنیا جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، اسی رفتار سے انسان ایک دوسرے سے دور بھی ہوتا جا رہا ہے۔ مفادات، تعصبات اور خود غرضی نے انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں نفرت، بے حسی اور ناانصافی فروغ پا رہی ہے۔ ایسے پُرآشوب دور میں انسانی یکجہتی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انسانی یکجہتی وہ احساس ہے جو انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا حوصلہ دیتا ہے اور معاشرے میں امن، برداشت اور باہمی احترام کی فضا قائم کرتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو بکھرتی ہوئی انسانیت کو ایک مضبوط رشتے میں پرو سکتی ہے اور دنیا کو ایک بہتر اور محفوظ مقام بنا سکتی ہے۔انسانی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرے، مشکلات میں ساتھ دے اور اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی بھلائی کیلئے کام کرے۔ یہ تصور ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا میں امن، ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب مضبوط افراد کمزوروںکا سہارا بنیں اور خوشحال اقوام پسماندہ معاشروں کیلئے تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن ہر سال 20 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے انسانوں میں باہمی ہمدردی، تعاون، مساوات اور مشترکہ ذمہ داری کے شعور کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن دسمبر 2002ء سے منایا جا رہا ہے، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی فنڈ قائم کیا۔ یہ فنڈ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کو فنڈ دینے کیلئے فروری 2003ء میں قائم کیا گیا تھا ، جس نے غربت کے خاتمے کیلئے کام کیا۔ 22 دسمبر 2005ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی کے طور پر یکجہتی کی نشاندہی کی۔اقوام متحدہ کے اعلامیے کے مطابق یکجہتی ان بنیادی اقدار میں سے ایک ہے جو صحت مند بین الاقوامی تعلقات کیلئے ضروری ہے۔ اس طرح، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی یقین دہانی کرائی کہ غربت کا مقابلہ کرنے کیلئے یکجہتی کی ثقافت اور مشترکہ جذبے کو فروغ دینا ضروری ہے ۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عالمی یوم یکجہتی ایک ایسا دن ہے جو حکومتوں کو بین الاقوامی معاہدوں کو یاد دلا نے اور ان کا احترام کرنے کی حوصلہ افزائی کراتا ہے۔ انسانی یکجہتی کا عالمی دن ایک ایسا دن ہے جو غربت کے خاتمے اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والی عوام کے درپیش مسائل کا مل کر مقابلہ کے اور ان مسائل کیخلاف اقدامات اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔آج کی دنیا جنگوں، غربت، بھوک، ماحولیاتی تبدیلی، مہاجرین کے بحران اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے حالات میں انسانی یکجہتی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ عالمی وبائیں ہوں یا قدرتی آفات، یہ حقیقت بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ اگر قومیں مل کر کام کریں تو بڑے سے بڑا بحران بھی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا تاکہ دنیا بھر میں تعاون اور اشتراکِ عمل کو فروغ دیا جا سکے۔دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یکجہتی کا درس دین اسلام نے دیا ہے ۔اسلام انسانی یکجہتی کا سب سے مضبوط درس دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں بارہا انسانوں کے درمیان بھائی چارے، عدل، ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد پر زور دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تمام انسان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے‘‘۔ یہ تعلیمات ہمیں عملی طور پر انسانی یکجہتی اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔پاکستانی معاشرہ فطری طور پر ہمدردی اور ایثار کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے یا کسی قومی سانحے کے موقع پر عوام کا ایک دوسرے کیلئے کھڑا ہونا انسانی یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جذبہ صرف ہنگامی حالات تک محدود نہ رہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی انصاف، برداشت اور تعاون کی صورت میں نظر آئے۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری پیغام ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر دنیا کو پرامن، محفوظ اور خوشحال بنانا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کیلئے جینا سیکھنا ہوگا۔ جب تک انسان انسان کا درد نہیں سمجھے گا، ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے رہیں گے۔ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اختلافات کے باوجود متحد رہیں اور ایک بہتر عالمی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو شر و فساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری دنیاجنت کا منظر پیش کرنے لگے۔ محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ''ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جائواور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ''جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا‘‘انسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے عملی تقاضےانسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ:٭...غربت اور ناانصافی کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔٭...تعلیم اور صحت کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔٭...نفرت، تعصب اور انتہا پسندی کے خلاف اجتماعی شعور اجاگر کیا جائے۔٭...انسان دوستی اور خدمت خلق کو قومی و سماجی اقدار کا حصہ بنایا جائے۔  

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

٭... یکم جنوری 1948ء کو وادی ہنزہ میں پیدا ہوئے، گوجرانوالہ میں پلے بڑھے،اصل نام فخر الدین حیدر راٹھورتھا۔٭...گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ایف اے کرنے کے بعد ٹی اینڈ ٹی میں ملازم ہوئے۔ اداکاری کے میدان میں داخل ہونے سے قبل پہلوانی بھی کی۔٭... فنی کریئر کا آغاز تھیڑ سے کیا اور بعدازاں انہوں نے ریڈیو، ٹی وی اور فلم میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ہر قسم کے کردار کو بخوبی نبھایا تاہم ہیجڑے، بوڑھے اور مجذوب شخص کے کرداروں پر انہیں دسترس تھی۔ ٭... کریئرکے پہلے ٹی وی ڈرامہ ''آپ بیتی‘‘ میں عبدالشکور کریک کا کردار نبھایا اور ''پاکستانی کوجک‘‘ کے طور پر مشہور ہوئے۔دوسرا کھیل ''لازوال‘‘ بھی بہت مقبول ہوا، جس میں ان کا ڈائیلاگ''میں کھویا کھائوںگا‘‘ زبان زدعام ہوا۔٭...ان کے شہرہ آفاق ڈرامہ ''بشیرا ان ٹربل‘‘کوپاکستان کے پہلے سپرہٹ کمرشل ڈرامہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دیگر مشہور ٹی وی ڈراموں میں ''شب دیگ‘‘، ''سونا چاندی‘‘، ''ریزہ‘‘ اور'' ایندھن‘‘ شامل تھے۔٭...فخری احمد نے فلموں میں بھی لازوال اداکاری کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں بطور کریکٹر ایکٹر اور ولن جلوہ ہوئے۔ یاد گار فلموں میں '' مس قلو پطرہ‘‘،'' مہربانی‘‘ اور ''شکرا‘‘شامل ہیں۔ ٭...اپنے کریئر میں سب سے زیادہ تھیڑ میں خدمات پیش کیں، ان کے کریڈٹ میں پانچ سو کے قریب ڈرامے ہیں۔ جن میں ''کتکتاڑیاں، سلوک سوکناں دا، تماشا ہائوس، گھر گھر بشیرا، بول نی گڈو، نہ چھیڑ ملنگا نوں، گنجے فرشتے، سسرال چلو، چاندنی راتیں، منڈا آیا سسرال، منڈا پٹواری دا، منڈا آیا ولائتوں، ٹبر ویلیاں دا، ساڈی وی سنو، کمبل نہیں چھڈدا‘‘ شامل ہیں۔٭...انہیں ان کے جونیئر اور سینئر ''تایا‘‘ کہا کرتے تھے اور یوں وہ لاہور کے ثقافتی حلقوں میں تایا فخری احمد کے نام سے مشہور ہوئے۔٭... 20دسمبر 1995ء کو تماثیل تھیڑ میں ڈرامہ ''جنم جنم کی میلی چادر‘‘ میں پرفارم کرتے ہوئے انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ عالم جاودانی کو سدھار گئے۔  

2025ء : حیران کن ریکارڈز کا سال

2025ء : حیران کن ریکارڈز کا سال

2025ء میں انسانی دلچسپی، حیرت اور تفریح سے بھرپور ایسے منفرد لمحات سامنے آئے جنہوں نے دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ کہیں طاقت کے ناقابلِ یقین مظاہرے دیکھنے کو ملے تو کہیں دیوقامت کھانوں نے ریکارڈز کی فہرست میں جگہ بنائی۔ 2025ء کے یہ منفرد ریکارڈز اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا میں حیران کرنے والی کہانیاں آج بھی جنم لے رہی ہیں۔چار ٹانگوں والے لیجنڈزاپریل میں دنیا کے سب سے لمبے کتے ''ریجی‘‘ اور سب سے چھوٹے کتے ''چیہوا ہوا پرل‘‘ کی پہلی ملاقات ہوئی۔ اگرچہ ریجی کی اونچائی کندھوں تک 3 فٹ 3 انچ ہے اور پرل کی اونچائی محض 3.59 انچ (9.14 سینٹی میٹر) ہے، مگر اپنی ملاقات کے دوران یہ دونوں جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔اکتوبر میں ہماری ملاقات دو ریکارڈ ساز گدھوں سے ہوئی۔ ڈائنامک ڈیرک دنیا کا سب سے لمبا زندہ گدھا ہے، جس کی اونچائی 5 فٹ 5 انچ ہے، جبکہ بامبو کے پاس دنیا کے سب سے لمبے کانوں کا ریکارڈ ہے، جن کی لمبائی 1 فٹ 1 انچ (35 سینٹی میٹر) ہے۔فروری میں دنیا کا سب سے لمبابھینسا منظر عام پر آیا۔اس کی اونچائی 6 فٹ 0.8 انچ (185 سینٹی میٹر) ہے۔مشہور شخصیاتاگست میں کنٹری میوزک کی لیجنڈ ڈولی پارٹن کو گنیز ورلڈ ریکارڈز آئیکون قرار دیا گیا۔ انہوں نے موسیقی کی تاریخ کے چند سب سے یادگار گیت تخلیق کیے ہیں۔جون میں کھیلوں کے سپرسٹار اوسین بولٹ کو گنیز ورلڈ ریکارڈز آئیکون کا اعزاز دیا گیا۔ اسپرنٹر نے اپنی 100 میٹر ریکارڈز کی معلومات کا امتحان دیا، جو کتاب کے ایڈیٹر ان چیف کریگ گلینڈے کی طرف سے تیار کیے گئے ایک کوئز میں لیا گیا۔کول کڈزمئی میں چار بہت ہی خاص بچوں نے اپنی پہلی سالگرہ منائی۔لینی، کالی، لینن اور کوئن برائنٹ دنیا کے قبل از وقت پیدا ہونے والے چار جڑواں بچے ہیں جو 23 ہفتے اور 4 دن کی حمل کی مدت میں پیدا ہوئے اور ان کا وزن 577 گرام (1 پاؤنڈ 4.4 اونس) سے 647 گرام (1 پاؤنڈ 6.8 اونس) کے درمیان تھا۔فروری میں، آٹھ سالہ جمناسٹ کِنلی ہیمن، جنہیں ''Kynlee the Great‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے گنیز بک میں جگہ بنائی۔ انہوں نے 30 سیکنڈ میں سب سے زیادہ جمناسٹک بار ٹوٹوہینڈ موومنٹس (18) انجام دیے۔لیگو بلاکس پر دوڑنے کا مظاہرہستمبر میںنیوزی لینڈکی گیبریل وال نے لیگو بلاکس پر ننگے پاؤں 100 میٹر کی سب سے تیز دوڑ لگائی۔انہوں نے یہ کارنامہ محض 24.76 سیکنڈز میں مکمل کیا۔مئی میں چار ٹانگوں والے روبوٹ ڈاگ ''Whiterhino‘‘ نے 100 میٹر کی سب سے تیز دوڑ محض 16.33 سیکنڈز میں مکمل کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ایک دھماکہ خیز لمحہبرطانیہ میں اگست میں ایک انتہائی متاثر کن ریکارڈ توڑنے والی تقریب کا انعقاد کیا گیاجس میں آٹھ کولنگ ٹاورز کو ایک ساتھ دھماکہ خیز مواد کے ذریعے منہدم کیاگیا۔اس کارروائی نے سب سے زیادہ کولنگ ٹاورز کو کنٹرول شدہ دھماکوں سے بیک وقت منہدم کرنے کا ریکارڈ توڑ دیا۔طاقت کا مظاہرہوسپی جمی خراڈی(Vispy Jimmy Kharadi) نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہیویسٹ ویٹ ہولڈنگ ہرکولیس پلرز کا ریکارڈ توڑا۔ انہوں نے اگست میں اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے 261 کلوگرام وزن اٹھایا۔مارچ میں، اولیویا ونسن (آسٹریلیا) نے فٹنس کی دنیا کو حیران کر دیا جب انہوں نے 24 گھنٹوں میں سب سے زیادہ پل اپس (خواتین) لگانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ان کی کل تعداد 7,079 تھی، جو پچھلے ریکارڈ کے تقریباً دوگنا تھی۔جنوری میں، سارہ بلیک مین (امریکہ) نے ابڈومینل پلینک (خواتین) کرنے کی سب سے بڑی عمر کی خاتون بن کر تاریخ رقم کی، جب ان کی عمر 82 سال اور 229 دن تھی۔اسی طرح، مردوں کا ریکارڈ بھی دو بار ٹوٹا، مائنارڈ ولیمز (نیوزی لینڈ) نے 78 سال 135 دن کی عمر میںاور رابرٹ شوارٹز (امریکہ) نے 81 سال 16 دن کی عمر میں یہ ریکارڈ قائم کیا۔ ستمبر میں بھارت میں ایک گروپ نے تاریخ کی سب سے لمبی انسانی ہرم قائم کی، جسے پہلی بار 10ویں منزل تک پہنچایا گیا۔دلچسپ مجموعےفروری میں، یوٹیوبر کرچی (امریکہ) نے ہمیں اپنے سب سے بڑے ''Polly Pocket ‘‘ کے مجموعے کے بارے میں بتایا۔ ان کے پاس اپنے بچپن کے محبوب کھلونے کی 534 منفرد اقسام موجود ہیں۔جولائی میں ''The Legend of Zelda ‘‘ کے سپر فین کونستانٹائن ایڈمز (امریکہ) نے ہمیں اپنا ریکارڈ توڑنے والا یادگار مجموعہ دکھایا۔ان کے پاس 3,918 اشیاء موجود ہیں۔شاندار کھانے جون میں فینکس راس اور اولی پیٹر سن (برطانیہ) نے مل کر سب سے بڑا اسکاچ انڈہ بنایا۔ یہ دیوقامت ناشتہ 7.81 کلوگرام (17 پاؤنڈ 3.48 آونس) وزنی تھا اور بنیادی طور پر یہ دونوں دوست کئی ہفتوں تک کھاتے رہے۔ستمبر میں، نائجیریا کی ہلڈا باچی جو اپنی ککنگ میراتھن کی شہرت رکھتی ہیں، نے جینو کے ساتھ مل کر سب سے بڑی نائجیریائی طرز کی جولوف رائس ڈش تیار کی۔ یہ دیوقامت ڈش 8,780 کلوگرام وزنی تھی ۔حیرت انگیز انسانمارچ میں ''St David's Day 2025‘‘ کی تقریبات کے دوران برطانوی سپر ماڈل مارملیڈنے لباس پر سب سے زیادہ پھول لگانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ انہوں نے 1,862 پھول اپنے گاؤن پر چسپاں کیے۔جون میں، ویٹومیر ماریچک (کروشیا) نے ایک ایسا ریکارڈ توڑا جسے بہت سے لوگ ناقابلِ شکست سمجھتے تھے۔انہوں نے 29 منٹ 3 سیکنڈ تک سانس روک کر سب سے طویل وقت تک زیر آب سانس روکنے (مرد) کا اعزاز حاصل کیا۔ستمبر میں جان فرگوسن (کینیڈا) نے آسمان کی بلندیوں میں جا کر سب سے چھوٹے قد والے شخص کے طور پر ونگ واک کرنے (مرد) کا ریکارڈ قائم کیا، جس کا قد 4 فٹ 1.12 انچ (1.24 میٹر) تھا۔یہ سب محض ایک چھوٹی سی جھلک ہے اُن بے شمار حیرت انگیز ریکارڈز کی جو اس سال ٹوٹے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ایڈولف ہٹلر کو سزا1923ء میں ایڈولف ہٹلر اور اس کے ساتھیوں نے جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی، جسے تاریخ میں ''میونخ بغاوت‘‘ کہا جاتا ہے۔20 دسمبر 1924ء کو اس مقدمے میں اسے قید کی سزا سنائی گئی، تاہم وہ صرف تقریباً نو ماہ ہی جیل میں رہا۔ بوئنگ707کی پہلی پرواز20دسمبر1957ء کو ''بوئنگ 707‘‘ نے پہلی اڑان بھری۔''بوئنگ 707‘‘ ایک امریکی، طویل فاصلے تک سفر کرنے والا جہازہے جسے بوئنگ 387-80کے پروٹوٹائپ سے تیار کیا گیاجو پہلی مرتبہ1954ء میں اڑایا گیا تھا۔ پین امریکن ورلڈ ائیر ویز نے26اکتوبر1958ء کو باقاعدہ 707 سروس شروع کی ۔ناردرن بینک چوری20دسمبر2004ء کو شمالی آئرلینڈ کے ناردرن بینک کے ہیڈ کوارٹر سے 2 کروڑ 65 لاکھ پاؤنڈ کی چوری ہوئی۔چوروں نے بینک کے دو اہلکاروں کے اہل خانہ کو یرغمال بناکر انہیں چوری میں مدد کرنے پر مجبور کیا۔چوری کی گئی رقم کو دو گاڑیوں میں بینک سے نکالاگیا۔اسے برطانیہ کی تاریخ کی سب سے بڑی بینک ڈکیتیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ایم وی ڈونا پاز حادثہایم وی ڈونا پاز ایک جاپانی ساختہ مسافر فیری تھی جو 20 دسمبر 1987ء کو آئل ٹینکر سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گئی۔اس جہاز کو 608 مسافروں کی گنجائش کے ساتھ 25 اپریل 1963ء کو '' ہیمیموری مارو‘‘ کے نام سے لانچ کیا گیا تھا۔ جون 1979 ء میں جہاز میں آگ لگنے کے بعد، اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور اس کا نام ڈونا پاز رکھا گیا۔امریکن ائیر لائنز حادثہامریکن ایئر لائنز کی پرواز 965 میامی، فلوریڈا کے میامی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کالی، کولمبیا کے الفانسو بونیلا آراگون انٹرنیشنل ایئرپورٹ کیلئے شیڈول پرواز تھی۔ 20 دسمبر 1995ء کو، بوئنگ 757 بوگا، کولمبیا میں ایک پہاڑ سے ٹکرا گیا، جس میں سوار 155 مسافروں سمیت عملے کے آٹھ ارکان ہلاک ہو گئے۔یہ حادثہ امریکہ اور کولمبیا میں پیش آنے والا سب سے مہلک ایوی ایشن حادثہ تھا۔ یہ اس وقت بوئنگ 757 کے ساتھ ہونے والا سب سے مہلک حادثہ بھی تھا۔کولمبیا کے سول ایروناٹکس کے خصوصی انتظامی یونٹ نے حادثے کی تحقیقات کیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پرواز کے عملے کی غلطیوں کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔  

 سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

رواں ماہ کی ایک صبح جب آسٹریلوی نوجوانوں نے اپنے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک کے نوٹیفیکیشن کھولے تو انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا کہ شاید آن لائن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ حقیقت یہی ہے ۔آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس رکھنے اور نئے اکاؤنٹس بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قانون جسےThe Online Safety Amendment (Social Media Minimum Age) Act 2024 کہا جاتا ہے، نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور اس سال 10 دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا۔ اس کے تحت میٹا، ٹک ٹاک، یوٹیوب، سنیپ چیٹ، ریڈیٹ، ٹویچ اور دیگر بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کریں یا انہیں حذف کردیں ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم بچوں کی کمزور نفسیات، خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجائے والدین کے کمپنیوں کو اس نقصان دہ ماحول سے بچوں کو بچانے کا حکم دیا جائے۔ سوشل میڈیا سکرین ایڈکشن، تنقیدی سوچ میں کمی اور آن لائن ہراسانی جیسی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔چھوٹے بچے غلط معلومات، غیر اخلاقی مواد اور پرائیویسی خطرات کے سامنے بے بس ہوتے ہیں جبکہ والدین تکنیکی اور ثقافتی دباؤ کے سامنے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کی دنیا کے پیٹرن تبدیل کردے گا۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام دنیا بھر میں سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک نے اس کے متوازی یا مختلف ماڈل پر غور شروع کر دیا ہے جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کی حمایت کی ہے، کیو نکہ کمپنیاں الگورتھمز کے ذریعے بچوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ایک پارلیمانی کمیٹی رپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اسی موضوع پر قانون سازی کے لیے سفارشات دے گی۔ ملائیشیا 2026ء میں اسی طرح کی پابندی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سپین نے سوشل میڈیا کے لیے عمر کی حد 14 سے بڑھا کر 16 کرنے یا والدین کی رضا مندی کے ساتھ رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس اور ناروے بھی مختلف مدتوں اور حدود کے ساتھ اسی معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمی تحریک اب بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے شروع ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اس موضوع پر غور کریں گی ہر ملک کے اپنے ثقافتی اور سیاسی پیمانے سامنے آئیں گے۔تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ ملک نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا، جہاں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کی بجائے کلاس رومز میں موبائل فونز کی پابندی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں خلل نہ آئے اور جاپان کے ایک شہر نے سب کے لیے دن میں دو گھنٹے انٹر نٹ استعمال کی حد متعارف کرائی ہے، جسے ڈیجیٹل وقت کا متوازن استعمالکہا جارہاہے۔ ڈنمارک نے سب سے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے ، وہاں 15 سال سے کم عمر صارفین کو سوشل میڈیا تک محدود رسائی دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، مگر والدین کو 13،14 سال کے بچوں کو اجازت دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اور سماج کے لیے ایک ہی حل نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر سختی ہے، بعض جگہوں پر لچک اور بعض میں تعلیمی انداز اپنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کی پابندی نے شدید ردعمل بھی پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، حقوقِ اظہار کے حامیوں اور نوجوانوں نے حکومت کی اس حد تک مداخلت پر سوالات اٹھائے ہیں مثال کے طور پر،یہ آزادی اظہار کا حق چھیننے جیسا تو نہیں؟ بچے دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز یا وی پی این کے ذریعے پابندی کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا اس سے نوجوانوں کی سماجی تعاملات اور تعلیمی صلاحیتوں کو نقصان نہیں ہوگا؟انہی نکات کو لے کر آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالت میں اس قانون کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں 15 سال کے دو بچوں نے کہا ہے کہ ان کا آزادانہ اظہار اور سیاسی معلومات تک رسائی کا حق محدود ہوا ہے۔ آج کا ڈیجیٹل منظرنامہ وہ نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تھا۔ سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ تعلیم، معلومات اور معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے کوئی بھی پابندی اپنے آپ میں اچھی بری نہیں ہے ۔آسٹریلیا نے اپنی پالیسی کے ذریعے دنیا کو ایک چیلنج دیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور آزادی کے درمیان توازن کہاں ہے؟یہ سوال نہ صرف قانون سازوں کو درپیش ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ کیا دنیا آسٹریلیا کے نقش قدم پر چلتی ہے؟ کیا ہم ایک نئے ڈیجیٹل سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں گے؟وقت ہی بتائے گا کہ یہ قدم محفوظ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے یا نئی حدود کی کنجی۔

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے شمال مغرب میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہالیجی جھیل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ماحولیاتی اہمیت کی حامل ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، میٹھے پانی کے ذخیرے اور بالخصوص آبی پرندوں کے مسکن کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔یہاں تقریباً 200 سے زائد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔کسی زمانے میں مہمان پرندوں کی 500 سے زائد اقسام ہوتی تھی تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پرندوں کی تعداد اور اقسام کم ہوتی چلی گئیں۔اس کی ایک بڑی وجہ جھیل کے پانی کی آلودگی بھی ہے۔ اس جھیل سے کراچی شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن جب پانی کی یہ سپلائی یہاں سے بند کر کے کینجھرجھیل سے شروع ہوئی تو ہالیجی جھیل کا پانی آلودہ ہونے لگا اور آبی حیات کے لیے یہ مسکن ناقابلِ رہائش ہو گیا اور افزائش نسل کے لیے بھی مناسب نہ رہا۔ہالیجی جھیل کے قیام کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی کثیر تعداد کراچی میں قیام پذیر ہوئی اور پانی کی ضرورت کے پیشِ نظر ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی جو کہ 1943ء میں مکمل ہوئی۔ جھیل کے انسپکٹر کی رہائش گاہ پر آج بھی 1943ء کی تختی لگی ہوئی ہے۔جھیل تقریباً 18 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی گہرائی مختلف مقامات پر 17 سے 30 فٹ تک ہے۔ اس جھیل کے دلدلی حصے میں مگر مچھوں کی ایک کثیر تعداد ہوا کرتی تھی جوبتدریج کم ہوتے جارہے ہیں ۔ہالیجی جھیل کو رامسر کنونشن کے تحت عالمی اہمیت کی حامل آب گاہ (Wetlands of International Importance) قرار دیا گیا، جو اس کی ماحولیاتی قدر و قیمت کا واضح ثبوت ہے۔رامسر کنونشن عالمی معاہدہ ہے جو دو فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس دوران طے پایااور 76-1975ء میں مکمل طور پر نافذ کیاگیا ۔ اُس وقت پاکستان میں آٹھ رامسر آب گاہیں تھیں اور اس وقت ان کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔ہالیجی بنیادی طور پر بارشوں اور قریبی ندی نالوں کے پانی سے وجود میں آئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جھیل ایک متوازن ماحولیاتی نظام میں تبدیل ہو گئی جہاں پانی، نباتات، مچھلیاں اور پرندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جھیل کے اردگرد پائے جانے والے آبی پودے، سرکنڈے اور گھاس پرندوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ اور افزائشِ نسل کا ذریعہ فراہم کرتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالیجی جھیل کو آبی اورمہاجر پرندوں کے لیے ایک محفوظ مسکن سمجھا جاتا ہے۔ہالیجی جھیل انڈس فلائی وے زون کے راستے میں ہونے کے باعث ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا مسکن بنتی ہے ۔ ان میں فلیمنگو، پیلیکن، بطخوں کی مختلف اقسام، ہیرون، ایگریٹ اور کوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندے یہاں نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ خوراک حاصل کرتے اور بعض اقسام افزائشِ نسل بھی کرتی ہیں۔ ہالیجی جھیل کا پرامن ماحول اور وافر خوراک ان پرندوں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔رامسر کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آب گاہوں کا تحفظ، ان کا دانشمندانہ استعمال اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ہالیجی جھیل اس کنونشن کے اصولوں کی عملی مثال ہے کیونکہ یہ جھیل پرندوں کے مسکن کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں، نباتات اور آبی حیات کے لیے بھی ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ہالیجی جھیل کو درپیش خطرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، غیر قانونی شکار، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل اس جھیل کے قدرتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پرندوں کے غیر قانونی شکار نے ماضی میں اس مسکن کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ جنگلی حیات نے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن مؤثر عمل درآمد اور عوامی آگاہی کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ہالیجی جھیل کی حفاظت دراصل پرندوں ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت ہے۔ یہ جھیل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آب گاہیں قدرت کا وہ نازک تحفہ ہیں جو انسانی غفلت کی صورت میں تیزی سے تباہ ہو سکتی ہیں۔ رامسر کنونشن کے تحت ہالیجی جھیل کی حیثیت ہمیں یہ ذمہ داری سونپتی ہے کہ ہم اس قدرتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ ہالیجی جھیل پاکستان کے ماحولیاتی خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کی سطح پر تیرتے رنگ برنگے پرندے اور قدرتی خاموشی اس جھیل کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ اگر ہالیجی جھیل کا تحفظ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ نہ صرف پرندوں کا محفوظ مسکن بنی رہے گی بلکہ رامسر کنونشن کے مقاصد کی تکمیل میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے گی۔