الجزائر کی جنگ آزادی فرانس نے بادشاہ کی مقبولیت میں اضافہ کیلئے الجزائر پر قبضہ کیا
دوسری جنگِ عظیم یکم ستمبر 1939ء کو شروع ہوئی جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا رد عمل کے طور پر 3ستمبر 1939ء کو فرانس نے جرمنی کیخلاف اعلانِ جنگ کر دیا ۔ ہٹلر نے اپریل 1940ء میں ڈنمارک اور ناروے پر قبضہ کر لیا ۔ اس کیساتھ ساتھ جرمنی نے بیلجیئم ، نیدرلینڈ (ہالینڈ ) اور لکسمبرگ میں بھی فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے 10مئی 1940ء کو ایڈ ولف ہٹلر نے فرانس پر بھی حملہ کر دیا ، فرانس پر جرمنی کا قبضہ 4 برس تک رہا ، 25اگست 1944ء کو فرانس کو آزادی ملی ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جرمنی نے فرانس پر قبضہ کیا تو فرانس نے خود الجزائر کو اپنی نو آبادی بنا رکھا تھا ۔ یہ ہے مہذب دنیا کے دہرے معیار ۔ فرانس کے عظیم فلسفی سارتر نے فرانس کے الجزائر پر قبضے کی مذمت کی ۔ سارتر امن اور آزادی کا حامی تھا اور اس نے ہمیشہ الجزائر کے عوام کی حمایت کی ۔ اسی طرح الجزائر میں پیدا ہونیوالے فلسفی اور ناول نگار البیر کامیو نے بھی فرانسیسی استعمار کی مخالفت کی ۔ جس وقت فرانس نے الجزائر پر قبضہ کیا اُس وقت فرانس پر چارلس Xکی حکومت تھی ۔ الجزائر پر قبضے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ فرانسیسی عوام میں چارلس کی مقبولیت میں اضافہ کیا جائے ۔ الجزائر کی جنگ آزادی کوانقلاب الجزائر بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ جنگ فرانس اور الجزائر کی قومی آزادی کے محاذ کے درمیان 1954ء سے 1962ء تک لڑی گئی ، یہ بڑی پُر تشدد جنگ تھی ۔ شمالی افریقہ کے ملک الجزائر پر 1830ء میں قبضہ کیا گیا ، اس جنگ میں وہ حربے بھی استعمال کئے گئے جو گوریلا جنگ میں اختیار کئے جاتے ہیں ۔ یہ تنازعہ خانہ جنگی کی صورت بھی اختیار کر گیا ۔ یہ جنگ زیادہ تر الجزائر کے علاقوں میں لڑی گئی لیکن فرانس کو بھی اس کے مضمرات کا سامنا کرنا پڑا ۔
اس جنگ کی ابتداء نیشنل لبریشن فرنٹ (NLF)کے ارکان کی طرف سے کی گئی اور اس کا آغازیکم نومبر 1954ء کو ہوا ۔ اس تنازعے کی وجہ سے فرانس میں شدید بحران پیدا ہو گیا اور اس سے ری پبلک فورتھ زوال سے دوچار ہو گئی اور اس کے بعد ففتھ ری پبلک کا آغاز ہوا ۔ اس سے فرانس میں مضبوط صدارت کی راہ ہموار ہو گئی ۔جس طرح فرانسیسی فوجوں نے الجزائر میں ستم کاریاں کیں اس سے الجزائر کے عوام میں ان کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی ۔ ظاہر ہے جبر و استبداد سے کیسے دل جیتے جا سکتے تھے اور آگ میں پھولوں کا کھلنا نا ممکن ہوتا ہے ۔ فرانس کے اندر بھی اس جبر و ستم کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ۔ فرانسیسی فوج کے اقدامات کی وجہ سے بیرونی دنیا میں بھی فرانس کے وقار کو شدید ٹھیس پہنچی ۔ جب جنگ طویل ہو گئی تو فرانسیسی عوام میں بھی اپنی حکومت کیخلاف غم و غصہ پیدا ہو گیا ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس کے بڑے اتحادی جن میں امریکہ بھی شامل تھا نے بھی فرانس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ۔ فرانس اقوام متحدہ میں الجزائر پر بحث رکوانے کا آرزو مند تھا لیکن اب وہ مصیبت میں پڑ گیا ۔ 19دسمبر 1962ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر الجزائر کے عوام کے حق خود ارادیت اور حق آزادی کو تسلیم کر لیا ۔ 1960ء میں الجزائر کے کئی شہروں میں آزادی کے حق میں زبردست مظاہرے کئے گئے ۔ ففتھ ری پبلک کے پہلے صدر چارلس ڈیگال (charles de gaulle) نے این ایل ایف کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے نتیجے میں مارچ 1962ء میں الوین معاہدوں پر دستخط ہوئے ۔
8اپریل 1962ء کو ریفرینڈم کا انعقاد کیا گیا اور فرانس کے ووٹروں نے الوین معاہدوں کی منظوری دیدی ۔ 91فیصد ووٹروں نے ان معاہدوں کی توثیق کے حق میں فیصلہ دیا اور پھر یکم جولائی کو ان معاہدوں کو الجزائر میں دوسرے ریفرینڈم سے مشروط کر دیا گیا جہاں 99.72فی صد لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا جبکہ صرف 0.28فی صد لوگوں نے آزادی کی مخالفت کی ۔ فرانس نے الجزائر سے فوجیں نکالنے کی جو منصوبہ بندی کی تھی اس کی وجہ سے بحران پیدا ہو گیا ۔ اس وجہ سے صدر ڈیگال پر کئی ناکام قاتلانہ حملے کئے گئے ۔ اس کے علاوہ فوجی بغاوت کی بھی کوشش کی گئی ۔ جس تنظیم نے صدر ڈیگال پر ناکام قاتلانہ حملے کئے وہ زیر زمین اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ الجزائر فرانس کی نو آبادی بنا رہے اس تنظیم کو فرانسیسی فوجیوں کا ایک گروپ چلا رہا تھا ، وہ فرانسیسی زبان میں جو نعرہ لگاتے تھے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو وہ کچھ یوں بنتا ہے (We want Algerian France )ہم فرانس کا الجزائر چاہتے ہیں ۔ اس تنظیم نے الجزائر پر بہت بمباری کی اور شہریوں کا قتل عام کیا ۔ اس کا صرف اور صرف مقصد یہ تھا کہ الجزائر کو آزادی کی نعمت سے محروم رکھا جائے۔ 1962ء میں الجزائر کی آزادی کے چند ماہ کے اندر ہی الجزائر میں بسنے والے 9لاکھ یورپی باشندے فرانس بھاگ گئے ۔ انہیں خدشہ تھا کہیں این ایل ایف انہیں انتقام کا نشانہ نہ بنائے ۔ فرانسیسی حکومت مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھی کیونکہ حکومت نے یہ تو سوچا ہی نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے فرانس شدید بحران کا شکار ہو گیا ۔ الجزائر کے مسلمانوں کی اکثریت جنہوں نے فرانسیسیوں کیلئے کام کیا تھا ، غیر مسلح تھی کیونکہ فرانس اور الجزائر کے حکام کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی ۔ البتہ حرکیوں (Harkis)کو این ایل ایف نے غدار قرار دیتے ہوئے ہلاک کر دیا ۔ حرکیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے الجزائر کے شہریوں کیخلاف فرانسیسی فوجوں کی حمایت کی تھی ۔
اب ہم 1830ء کی طرف چلتے ہیں جب فرانس نے الجزائر پر حملہ کیا تھا جس کی وجوہات اوپر بیان کی جا چکی ہیں ۔ مارشل بوگاڈ الجزائر کا پہلا گورنر جنرل بن گیا ۔ الجزائر کی فتح پر امن طریقے سے نہیں ہوئی ۔ الجزائر کے عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ، بے شمار لوگوں کو قتل کیا گیا اور ان گنت عورتوں کی آبروریزی کی گئی ۔ ایک اندازے کے مطابق الجزائر کے قریباً 30لاکھ لوگوں کو موت کی وادی میں اتار دیا گیا ۔جہاں تک فرانسیسیوں کے جانی نقصان کا تعلق ہے تو1830ء سے 1851ء تک 3,336فرانسیسی ہلاک ہوئے جبکہ 92,329فرانسیسی فوجیوں نے ہسپتالوں میں دم توڑا 1834ء میں الجزائر فرانس کی فوجی کالونی بن گیا ۔ 1848ء کے آئین میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ الجزائر فرانس کا لازمی حصہ ہے اور اسے 3 شعبوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ ایک الجیرا ، دوسرا اورن اور تیسرا کنسٹائن ۔ بعد میں کئی فرانسیسی ، ہسپانوی ، اطالوی اور یورپ کے دوسرے شہروں کے لوگ الجزائر میں آباد ہو گئے ۔
ہم اپنے قارئین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ الجزائر کے لوگوں نے آزادی کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں، ان کی آزادی میں صدر ڈیگال نے بھی اہم کردار ادا کیا فرانس کے مشہور امن پسند فلاسفروں نے کبھی الجزائر پر ہونیوالے مظالم کی حمایت نہیں کی ۔ فرانز فینن کا کردار بہت اہم رہا ، اس نے الجزائر کی تحریک آزادی کیلئے کام کیا ۔ فرانس کے وہ دانشور جو اس بات کا ماتم کرتے ہیں کہ ایڈولف ہٹلر نے 1940ء میں فرانس پر ناجائز قبضہ کیا ، کیا انہیں فرانس کا الجزائر پر قبضہ یاد نہیں ؟