فاطمہ الفہریہ دنیا کی پہلی یونیورسٹی بنانے والی مسلمان عورت
اسپیشل فیچر
حال ہی میں مغربی میڈیا نے تعلیم، صحت اور سماجی شعبوں میںانقلاب لانے والی 9 مسلمان خواتین پر تفصیلی بحث کی ہے۔ان میں فاطمۃ بنت محمد الفہریہ القرشیہ (Fatima Al-Fihri) کا نام بھی شامل تھا۔ مراکش کے شہر فیض میں محمد بن عبداللہ الفہریہ نامی ایک امیر گھرانے میں 800ء میںپیدا ہوئی ۔یہ ادریس الاظہر بن ادریس بن عبداللہ الکامل(Idris Al-Azhar Ben Idris Ben Abdellah Al-Kamel ) کا زمانہ تھا، بادشاہ کو ادریس IIبھی کہا جاتا ہے۔ فاطمہ الفہریہ نے ابتدائی تعلیم و تربیت فیض میں ہی حاصل کی ۔ تعلیمی ادارے بہت کم ،بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے جس پر دوران تعلیم ہی فاطمۃ الفہریہ نے لڑکیوں کیلئے ایک یونیورسٹی قائم کرنے کا عزم کیا۔
اسے والد کی طرف سے ورثے میں بے پناہ دولت ملی تھی۔لیکن وہ تن آسانی کی قائل نہ تھی، عیش و عشرت سے کوسوں دور تھی اسی لئے اس کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔محنت اور جدوجہد نے اسے مسلمانوں کیلئے ہی نہیں غیر مسلموں کیلئے بھی مشعل راہ بنا دیا تھا۔ تمام دولت کو تعلیم کیلئے وقف کرنے کا عزم لے کر آگے بڑھی۔
کسی بھی مسلمان کی طرح فاطمہ الفہریہ کا اللہ تعالیٰ پر اعتقاد غیر متزلزل تھا، حضرت رسول کریمﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس نے مسجد کو درس و تدریس ، سماجی اور معاشی ترقی کا مرکز بنایا۔وہ اسی راہ پر چلتی رہی کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے تعلیم کو اسلامی نظام حیات میں کلیدی حیثیت عطا فرمائی تھی۔ پہلے مرحلے میں فاطمہ الفہریہ نے 1157ء برس قبل قدامت پرست قبیلہ حوارا(Hawaara) سے بھاری معاوضے پر زمین خریدی اور 254ھ (859ء) میں رمضان کے مبارک مہینے میں مدرسے کی بنیادرکھی۔اس روز فاطمہ الفہریہ روزے سے تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے یونیورسٹی کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعامانگی تھی اور مسلسل کئی برس روزے رکھے۔ تعلیمی مرکز سے اس کی محبت کا اندازہ لگانے کے لئے اتنا بتا دینا ہی کافی ہے کہ وہ خود بھی تعمیر میں شریک رہی۔ یہ مدرسہ آج دنیا بھر میں '' جامعہ القرویین یونیورسٹی (Al- Qarawiyyin University) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نامور تاریخ دانوں کے نزدیک یہ دنیا کی پہلی یونیورسٹی ہے۔
ہزاروں ''بچوں کی ماں‘‘
اس کی خواہش تھی کہ ہر بچہ بڑا ہو کر دنیا اور آخرت،دونوں میں نام کمائے اسی لئے درس و تدریس کے لئے اعلیٰ ترین نصاب تیار کروایا۔ دوسرے شہروں سے بھی تعلیمی اور سائنسی ماہرین کو آنے کی دعوت دی۔محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ تعلیم کی دستاویزات کی روشنی میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ فاطمہ الفہریہ نے شروع ہی سے مدرسے کے لئے اعلیٰ ماہرین کی خدمات حاصل کیں اور یونیورسٹی میں ڈھلتے وقت تک انتہائی تعلیم یافتہ ماہرین بھی اس سے منسلک تھے۔ ریکارڈ کے مطابق یونیورسٹی میں ایک نہیں بلکہ متعدد لائبریریاں تھیں۔ ہر شعبے کی الگ لائبریری تھی۔ یونیورسٹی اب لڑکوںاور لڑکیوں میں یکسا ں مقبول ہے ،دنیا بھر میں اس کی ڈگری کی اہمیت ہے۔
ابن خلدون ، ابن رشد اور ایک
پوپ بھی یہیں داخل ہوئے !
صرف طالب علم ہی نہیں بلکہ دنیا کے نامور سائنسدانوں نے بھی یونیورسٹی کا حصول علم کے لئے رخ کیا اور زیور تعلیم سے آراستہ کرنے بھی پہنچے۔وہاں ریاضیات ، فلکیات، قانون و فقہ اورلسانیات کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ نامور مورخین ، ڈاکٹر ، مفکرین اور حتیٰ کہ پوپ بھی اسی اسلامی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ غیر ملکی جریدے کے مطابق '' مورخ عبدالرحمن ابن خلدون، مفکر ابو ولید ابن رشد، مفکر اور ڈاکٹر موسیٰ ابن مامون ،مفکر میمونید یس (Maimonides) اور گربٹ آف آریلیک (Gerbet of Aurillac) بھی یہیں کے فارغ التحصیل تھے۔ آخر الذکر پوپ بنے ا ور ''سلویسٹر دوئم‘‘ کے نام سے دنیا بھر میں معروف ہوئے۔ مسلمانوں نے کبھی طالب علم کو اس کے مذہب سے دور نہیں کیا۔ فاطمہ الفہریہ نے ایسا بندوبست کیا کہ سبھی مذاہب کے لوگوں نے حصول علم کی پیاس بجھائی، اپنی مرضی کا فیض حاصل کیا اور نام کمایا۔جلد ہی یہ مدرسہ ایک اعلیٰ تعلیمی مرکز کا روپ دھار گیا ۔
ایک لڑکی مغرب سے کہیں آگے تھی:مورخین کی رائے
محققین کے مطابق ''اپنے خاندان کی وہ پہلی عورت تھی جس نے یونیورسٹی تک کی تعلیم حاصل کی کیونکہ اس زمانے میں مسلمانوں میں خواتین کے حصول علم پر پابندی تو نہ تھی لیکن 12جماعتیں پڑھنے والی بچی کے ہاتھ پیلے کر دئیے جاتے تھے۔ فاطمہ الفہریہ نے اسلام کے سنہری دور میں جنم لیا۔ اس کی بنائی گئی یونیورسٹی آج بھی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ یورپ میںیونیورسٹیاں بہت بعد میں کھلنا شروع ہوئیں ، یوں مراکش کی فاطمہ الفہریہ ذہنی نشوونما میں یورپی ماہرین تعلیم سے کہیں آگے تھی‘‘۔ مصنفہ حمیرا اپنے مضمون (Fatima al-Fihri: Founder of the world's first university) میں لکھتی ہیں کہ یونیسکو اور گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ''جامعہ القرویین کا آغاز ایک مدرسے سے ہوا۔اور یہ دنیا کی پہلی یونیورسٹی ہے‘‘۔ ہاں درس و تدریس کا سلسلہ سنکور مدرسہ (Sankore Mosque) یا سنکور یونیورسٹی سے بہت پہلے شروع ہوا۔ ٹمبکٹو میں یہ مدرسہ 989ء میں بنا،دوسری یونیورسٹی دو صدیوں بعد 1088ء میں قائم ہوئی۔غیر ملکی جریدے کے مطابق ''یہ دور اسلام کا تھا جبکہ یورپی ممالک ڈارک ایجز کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔ وہاں خواتین تو درکنار مردوں کیلئے بھی کوئی یونیورسٹی موجود نہ تھی۔باہمت فاطمہ نے یہ کام یورپی ممالک سے پہلے کر دکھایا۔ صرف ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں جامعۃ القرویین شمالی افریقہ میں عربوں کی سب سے بڑی یونیورسٹی بن چکی تھی۔یونیورسٹی بننے کے بعد باقاعدگی سے ہونے والے سمپوزیم اور سیمینارز ، بحث و مباحثے یونیورسٹی کی روح تھے۔
تربیت اور پروفیشنز کے شعبوں میں خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کیلئے 2017ء میں تیونس نے ان کے نام پر ایک اعلیٰ انعام جاری کیا۔ یہ سکالر شپ یورپ اور شمالی افریقہ کی خواتین کو دیا جاتا ہے۔ 1956ء میں آزادی حاصل کرنے کے بعد مراکش نے بچیوں کی تعلیم لازمی قرار دے دی۔ فرانس نے خواتین کو پسماندگی کی دلدل میں دھکیلنے کیلئے ان پر علم و عمل کے دروازے بند کر رکھے تھے، صرف 17فیصد خواتین تعلیم یافتہ تھیں۔ اب خواتین کی شرح خواندگی 85فیصد ہے۔