تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا ؟ داغ دہلوی نے رومانوی شاعری کو نئی جہتیں دیں
اسپیشل فیچر
رومانوی شاعری کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے۔ اردو کے کلاسیکل اور جدید شعرا ء نے بڑی باکمال رومانوی شاعری کی ہے۔ میر تقی میر کی شاعری میں اگر سوزو گداز کی پرچھائیاں ملتی ہیں تو بڑے شاندار رومانوی شعر بھی ملتے ہیں۔ ان کا تو ایک رومانوی شعر ہی بڑے بڑے رومانوی شعروں پر بھاری ہے۔
ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر درد‘ مومن خان مومن‘ خواجہ حیدر علی آتش اور پھر مرزا اسداللہ غالب کی رومانوی شاعری کے بھی کیا کہنے۔پھر جگر مراد آبادی‘ اسرارالحق مجاز اور دیگر کئی شعراء نے رومانوی شاعری کے نئے امکانات تلاش کیے مجازکا یہ شعر ملاحظہ کیجئے جس کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس میدان میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔
موت کے بھی ہیں اس لیے عاشق
موت آتا نہیں ہے آتی ہے
جدید شعراء میں فیض احمد فیض‘ احمد فراز‘ ظہیر کاشمیری‘ اختر شیرانی‘ مصطفی زیدی نے رومانوی شاعری کے حوالے سے کیا زبردست مضمون آفرینی کی ہے۔کس کس کی تحسین کی جائے۔میر تقی میر یہ کہتے ہیں۔
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
20ویں صدی کے شاعر ظہیر کاشمیری نے کیا جہتیں تلاش کی ہیں۔ ذرا ان کا یہ شعر ملاحظہ کریں۔
اب اس سے بڑھ کے طلسم وصال کیا ہوگا
سمٹ گیا ہے زمانہ ترے بدن کی طرح
قتیل شفائی کہتے ہیں۔
رقص کرتی ہوئی آتی ہیں فضا سے بوندیں
کوئی بدلی تیری پازیب سے ٹکراتی ہے
19ویں صدی میں مرزا داغ دہلوی نے بھی رومانوی شاعری کے طلسم کو نئے زاوئیے دئیے۔ ان کا بنیادی وصف یہ تھا کہ انہوں نے سادہ اور سلیس زبان استعمال کی اور فارسی زبان کا کم سے کم استعمال کیا۔ انہوں نے اردو محاورے کو ترجیح دی۔ داغ دہلوی نے رومانوی شاعری میں نکتہ آفرینی سے بھی کام لیا۔ ایک مصرعے کے بعد جب قاری ان کے کسی شعر کا دوسرا مصرعہ پڑھتا ہے تو اس کے منہ سے واہ نکلتی ہے۔
نواب مرزا خان داغ دہلوی 25مئی 1831ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نواب شمس الدین احمد خان لوہارو اور فیروز پور جھرکہ کے حاکم تھے۔ ان پر ولیم فریزر کے قتل کی سازش کا الزام عائد کیا گیا ولیم فریزر برطانوی گورنر جنرل کا ایجنٹ اوردہلی کا کمشنر تھا۔ اسے 22مارچ 1935 کو ایک شخص کریم خان نے ہلاک کر دیا۔ کریم خان کو نواب شمس الدین خان نے ملازم رکھا تھا۔ برطانوی سرکار نے دونوں کو پھانسی دیدی۔ اس وقت داغ دہلوی کی عمر 4 برس تھی، ان کی والدہ نے مغل شہزادے مرزا محمد فخرو سے شادی کر لی۔ا س کا فائدہ داغ کو یہ ہوا کہ انہوں نے دہلی کے لال قلعے میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں انہیں استاد ابراہیم ذوق کی شاگردی کا موقع ملا پھر انہوں نے اردو شاعری پر مرزا غالب سے بھی قیمتی مشورے لیے۔ انہوں نے فن خطاطی اور گھڑ سواری میں بھی مہارت حاصل کی۔
داغ دہلوی دبستان دہلی سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے اپنی شاعری کو مغرب کے اثرات سے محفوظ رکھا۔ انہوں نے 10برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کیے اور ان کا میدان غزل تھا۔ غزل کے علاوہ انہوں نے قصیدہ بھی لکھا اور مخمص میں بھی کمالات دکھائے۔ انہوں نے غزل میں جس سادگی اور سلاست کو ملحوظ خاطر رکھا اس کی وجہ سے انہیں بہت شہرت ملی۔ ان کی شاعری کو عام آدمی بھی سمجھ لیتا تھا اور اشرافیہ بھی۔ مرزا فخرو کے انتقال کے بعدوہ اپنی والدہ کے ہمراہ رام پور چلے گئے انہیں نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ رامپور کے نواب یوسف علی خان تھے۔ داغ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی اور 24 برس تک پرسکون زندگی گزاری۔ پھر وہ حیدرآباد دکن آ گئے اور کئی ماہ تک یہاں مقیم رہے۔ انہیں دربار نہیں بلایا گیا اس لیے وہ حیدرآباد سے چلے گئے۔ اس پر انہیں فوری طور پر بلوایا گیا اور انہیں دربار میں شاعر مقرر کردیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں 1891 ء میں چھٹے نواب محبوب علی خان کا استاد بھی مقرر کر دیا گیا۔ ان کی شاعری پڑھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ بادہ نوش تھے۔ شروع شروع میں تو یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن بعد میں انہوں نے بادہ نوشی ترک کر دی۔ داغ دہلوی کے شاگردوں میں علامہ اقبال‘ جگر مرادآبادی اور سیماب اکبر آبادی بھی شامل تھے۔ ان کے شعری کلیات میں ''گلزار داغ‘ مثنوی فریاد داغ‘ آفتاب داغ‘ مہتاب داغ‘ یادگار داغ‘‘ اور'' دیوان داغ‘‘ شامل ہیں۔ ''یادگار داغ‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ داغ دہلوی کی غزلوں کو پاکستان اور بھارت کے نامور گلوکاروں اور گلوکارائوں نے گایا اور کیا خوب گایا۔ ان میں میڈم نورجہاں‘ مہدی حسن‘ جگجیت سنگھ‘ غلام علی‘ آدھیتہ سری نیو وسان‘ ملکہ پکھراج‘ عابدہ پروین‘ پنکج ادہاس اور فریدہ خانم شامل ہیں۔
داغ دہلوی کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ روزمرہ کی گفتگو میں اکثر ان کے اشعار کا ذکر ہوتا ہے۔ اگر پورا شعر نہ بھی ہو تو ایک مصرعے کا ذکر تو ضرور کیا جاتا ہے۔ ویسے تو روزمرہ کی گفتگو میں غالب‘ فیض‘ اقبال‘ فراز‘ ناصر کاظمی‘ قتیل شفائی اور دیگر کئی شعرا ء کی شاعری کا ذکر بھی ہوتا ہے لیکن نواب مرزا داغ کے اشعار یا مصرعے بہت کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ ہم ذیل میں داغ کے کچھ مصرعوںکا ذکر کرر ہے ہیں جو عام فہم ہونے کی وجہ سے اب تک اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
1- بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
2- حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے‘بیٹھ گئے
3- آپ کا اعتبار کون کرے
4- تمام رات قیامت کا انتظار کیا
5- صاف چھپتے نہیں‘ سامنے آتے بھی نہیں
6- جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
7- نہ تجھے قرار ہوتا‘ نہ مجھے قرار ہوتا
8- جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
9- اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
10- کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
داغ دہلوی کو اردو زبان پر بڑا ناز تھا۔ ان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ ا ردو زبان پر دسترس حاصل کرنا آسان کام نہیں۔ انہوں نے ببانگ دہل پہ کہا تھا۔
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ
ہندوستان میں دھوم ہماری زباں کی ہے
دیگر کلاسیکل شعراء کی طرح انہوں نے بھی شیخ صاحب اور حضرت خضر کو نہیں بخشا۔ ایک ہی غزل کے دو اشعار میں فرماتے ہیں۔
کب کسی در کی جبہ سائی کی
شیخ صاحب نماز کیا جانیں
حضرت خضر جب شہید نہ ہوں
لطف عمر دراز کیا جانیں
ان دونوں اشعار سے ان کی نکتہ آفرینی اور بے باکی عروج پر نظر آتی ہے۔ کبھی کبھی ان کی شاعری میں خود پسندی اور انانیت بھی ملتی ہے اور وہ اپنی خودداری کو بھی قائم دائم رکھتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجئے۔
کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں
اگر نہ آگ لگا دوں تو داغ نام نہیں
دبائو کیا ہے سنتے جو آپ کی باتیں
رئیس زادہ ہے داغ آپ کا غلام نہیں
ان کے دیگر اشعار بھی ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں جو ان کی فنی عظمت کا بین ثبوت ہیں۔
زیست سے تنگ ہوئے داغ تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں‘ جان سے جاتے بھی نہیں
٭٭
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
٭٭
جواں ہوئے تو قیامت ہوئی خدا کی پناہ
وہ جب ہی فتنہ تھے جب عالم شباب نہ تھا
٭٭
راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دوچار ملاقاتوں میں
٭٭
یہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
٭٭
دیکھ کر جنس دل وہ کہتے ہیں
کیوں کرے کوئی اپنے دام خراب
٭٭
سبق ایسا پڑھا دیا تو نے
دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے
٭٭
وہ مصیبت سنی نہیں جاتی
جس مصیبت کو دیکھتا ہوں میں
٭٭
موت سے پہلے مجھ کو قتل کرو
اس کا احسان ہوا جاتا ہے
٭٭
کرتے ہیں قتل وہ طلب مغفرت کے بعد
جو تھے دعا کے ساتھ وہی امتحاں کے ہیں
٭٭
یہ مزا تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا‘ نہ مجھے قرار ہوتا
٭٭
غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
٭٭
تمہارے خط میں لکھا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کا تھا
٭٭
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے‘ یہ کام کس کا تھا
٭٭
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں‘ سامنے آتے بھی نہیں
٭٭
خداکا ملنا بہت ہے آساں‘بتوں کا ملنا ہے سخت مشکل
یقیں نہیں گر کسی کو ہمدم تو کوئی لائے اسے منا کر
داغ دہلوی 1905 ء کو 74برس کی عمر میں حیدرآباد دکن میں انتقال کر گئے۔