احمد راہی کی اردو شاعری
احمد راہی کا شمار ان شعرا ء میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کی ان کی پنجابی شاعری کے حوالے سے تو بات کی جاتی ہے لیکن اردو شاعری کو نظرانداز کر دیا جاتاہے، یہ بہت افسوسناک رویہ ہے۔ احمد راہی نے پنجابی میں بہت خوبصورت نظمیں لکھیں اور ان کا مجموعہ ''ترنجن‘‘ ابھی تک مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پنجابی فلمی گیتوں کا بھی کوئی جواب نہیں۔ حزیں قادری کے بعد جس پنجابی گیت نگار کے نغمات سب سے زیادہ مقبول ہوئے اس کا نام احمد راہی ہے۔ ویسے تو وارث لدھیانوی نے بھی پنجابی نغمہ نگاری میں بڑا نام کمایا لیکن حزیں قادری اور احمد راہی نے جو مقام و مرتبہ حاصل کیا وہ کسی اور کا نہیں۔
اس خاکسار کی احمد راہی مرحوم سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔ ان دنوں وہ ریواز گارڈن لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ وہ اس بات پر بہت رنجیدہ تھے کہ ان کی اردو غزلوں اور فلمی گیتوں کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے جل کر کہا ''جو آتا ہے وہ مجھے ''ترنجن‘‘ کی نظمیں اور ''ہیر رانجھا‘‘ کے نغمات سنانے لگتا ہے۔کیا میں نے عمر بھر یہی دو کام کیے ہیں۔ میں نے فلموں کے سکرپٹ بھی لکھے ''ہیر رانجھا‘‘ کے علاوہ اور بھی کئی پنجابی فلمیں ہیں جن میں میرے گیت شامل ہیں اور ان گیتوں کو بھی بڑی شہرت ملی۔ کیا ''مرزا جٹ‘‘ کے گیتوں کو کوئی بھول سکتاہے۔ اسی طرح جو میں نے اردو فلموں کیلئے نغمات لکھے ہیں ان کے معیاری ہونے میں کیا کسی کو شک ہے؟ میں نے فلم ''باجی‘‘ کی جو گیت لکھے وہ لافانی ہیں۔ ایسے گیت کوئی لکھ کر دکھائے اور پھر میری غزلوں پر کوئی لب کشائی کیوں نہیں کرتا‘‘۔
راہی صاحب کی باتیں مبنی برحقیقت تھیں ایک تو وہ ویسے ہی سخت گیر آدمی تھے اورپھر اس ناانصافی نے ان کے لہجے میں تلخیوں کا زہر بھر دیا تھا۔ بہرحال اس کا گلہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کچھ اور بھی بڑی تلخ باتیں کیں جو اس مضمون میں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ انہوں نے غالب کی طرح یہ بھی نہیں کہا۔
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
اگر زندگی نے وفا کی تو احمد راہی کے اردو نغمات پر یہ خاکسار پھر کبھی خامہ فرسائی کرے گا لیکن اس مضمون میں مرحوم کی اردو شاعری پر اپنے خیالات ضرور پیش کرے گا۔
احمد راہی کی اردو شاعری سادگی اور سلاست سے بھرپور ہے۔ انہوں نے چھوٹی بحر میں جو غزلیں لکھیں وہ بھی تاثریت سے خالی نہیں۔ ان کی غزلوں میں رومانویت بھی ملتی ہے اور غم دوراں کی پرچھائیاں بھی۔ انہوں نے کلاسیکل شاعری کی روایت کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور جدید طرز احساس کو بھی رد نہیں کیا۔ وہ ترقی پسند سوچ رکھتے تھے اس لئے ان کی شاعری میں حیات افروز رجائیت بھی ملتی ہے۔ اگرچہ کبھی کبھی وہ مایوسی کی تاریکیوں میں بھی ڈوب جاتے ہیں لیکن پھر امید کی گھنگھور گھٹائیں برستی ہیں۔ جمالیاتی طرز احساس کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ یہ بات کبھی کبھی محسوس ہوتی ہے کہ ان کی شاعری میں تاثریت کی کمی ہے لیکن مجموعی طور پر ایسا نہیں۔ چونکہ انہوں نے اردو میں کم شاعری کی اور گیت بھی کم لکھے اس لئے شاید ان کو وہ شہرت نہیں ملی جو ان کی پنجابی شاعری کا مقدر بنی لیکن اگر یہ سمجھا جائے کہ ان کی اردو شاعری معمولی سطح کی ہے تو یہ درست نہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ عمدہ شاعری کے تمام لوازمات احمدراہی کی اردو غزلوں میں موجود ہیں تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی اردو شاعری کا معیار کسی بھی حوالے سے پست ہے۔
مندرجہ ذیل تین اشعار ملاحظہ کریں۔
بات چھوٹی سی کبھی پھیل کے افسانہ بنے
کوئی دیوانہ بنائے‘ کوئی دیوانہ بنے
حال دل کہتے ہوئے ان سے خیال آتا ہے
کہیں اظہار تمنا بھی تماشا نہ بنے
آگے کچھ لوگ ہمیں دیکھ کے ہنس دیتے تھے
اب یہ عالم ہے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں
رومانوی شاعری کو نئے زاوئیے دینے والے بھی کئی شاعر ہیں جن میں داغ دہلوی‘ اختر شیرانی اور قتیل شفائی کے نام سر فہرست ہیں لیکن اس حوالے سے ذرا احمد راہی کے ان اشعار پر غور کیجئے۔
تری وفا تری مجبوریاں بجا لیکن
یہ سوزش غم ہجراں یہ سرد تنہائی
غم حیات میں کوئی کمی نہیں آئی
نظر فریب تھی تیری جمال آرائی
مرے حبیب میری مسکراہٹوں پہ نہ جا
خدا گواہ مجھے آج بھی ترا غم ہے
اگر سہل متمنع (Deceptive Simplicity) کی بات کی جائے تو مندرجہ ذیل اشعار دیکھئے۔
لمحہ لمحہ شمار کون کرے
عمر بھر انتظار کون کرے
دوستی ایک لفظ بے معنی
کس پہ اب انحصار کون کرے
کوئی بتلائو کہ کیا ہیں یارو
ہم بگولے کہ ہوا ہیں یارو
جن کے قدموں سے ہیں گلزار یہ دشت
ہم وہی آبلہ پا ہیں یارو
اب ذرا ندرت خیال دیکھئے
ہم جو کرتے ہیں کہیں مصر کے بازار کی بات
لوگ پا لیتے ہیں یوسف کے خریدار کی بات
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ا حمد راہی نے سادگی اور سلاست پر توجہ دی ہے اور براہ راست ابلاغ کی شاعری کی ہے۔ انہوں نے تراکیب کا استعمال کم سے کم کیا ہے۔ شاعری کے سب رنگ ان کے ہاں موجودہیں۔ جہاں تک قوت متخیلہ کا تعلق ہے تو وہ بھی ان کے اکثر اشعار میں بلندیوں پر نظر آتی ہے۔ ذرا ان دو اشعار پر غور کیجئے۔
گلہ نہیں تجھ سے زندگی کے وہ نظریے بدل گئے ہیں
مری وفا‘ وہ تیرے تغافل کی نوحہ خواں تھک کے سو گئی ہے
دل کے سنسان جزیروں کی خبر لائے گا
درد پہلو سے جدا ہو کے کہاں جائے گا
رجائیت پسند ہونے کے باوجود جب شاعر ناامیدی کے صحرا میں بھٹکنے لگتا ہے تو قاری کو حیرت تو ہوتی ہے لیکن اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ناامیدی اور مایوسی کی دھوپ بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ احمد راہی کہتے ہیں۔
سحر سے رشتہ امید باندھنے والے
چراغ زیست کی لو شام ہی سے مدھم ہے
احمد راہی کی غزلیں پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ اہل ادب سے ان کا گلہ جائز تھا۔ اس خاکسار کی رائے سے اختلاف کرنے کا سب کو حق ہے لیکن غیر جانبدار ہو کے ان کی اردو شاعری کا تجزیہ کیا ہے۔ راہی صاحب کے کچھ اور اشعار پیش خدمت ہیں۔
دن گزرتا ہے کہاں رات کہاں ہوتی ہے
درد کے ماروں کی اب بات کہاں ہوتی ہے
زندگی کے وہ کسی موڑ پہ گاہے گاہے
مل تو جاتے ہیں ملاقات کہاںہوتی ہے
تمہارے ہاتھ سہی فیصلہ مگر پھر بھی
ذرا اسیر کی روداد بھی سنی جائے
اب اس سے بڑھ کے بھلا اور کیا ستم ہوگا
زبان کھل نہ سکے آنکھ دیکھتی جائے
اس مضمون کا ہر گزیہ مطلب نہیں کہ احمد راہی کی پنجابی اور اردو شاعری کا تقابلی جائزہ لیا جائے صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ راہی صاحب کو محض پنجابی زبان کے شاعر کی حیثیت سے یاد نہ رکھا جائے وہ اردو کے بھی بہت عمدہ شاعر تھے۔