اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کے فری کورسز ، اہم شعبوں میں ایک سے زیادہ کورسز بھی دستیاب ہیں

اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کے فری کورسز ، اہم شعبوں میں ایک سے زیادہ کورسز بھی دستیاب ہیں

اسپیشل فیچر

تحریر : انجینئر رحمیٰ فیصل


دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں سکالر شپس دئیے جاتے ہیں مگر پاکستا نیوں کاحصہ ان میں نہایت کم ہے اس لئے نہیں کہ انہیں انکار کیا جاتا ہے بلکہ ا س لئے کہ علم نہ ہونے کے باعث وہ درخواست ہی نہیں دے پاتے ، اسی سال کے آغاز میں ایک جگہ 17سو اور دوسری جگہ ڈھائی ہزار آن لائن کورسز کا اعلان کیا گیا تھا، آپ میں سے کتنوں نے اپلائی کیا؟
گزشتہ برس دسمبر میں اقوام متحدہ نے غیر معینہ مدت کیلئے متعدد شعبوں میں فری آن لائن کورسز کا اجراء کیا ،ان کے لئے کوئی ڈیڈ لائن مقرر ہے نہ ہی تعلیمی قابلیت۔ ایف اے پاس سے پی ایچ ڈی تک، کوئی بھی حصہ لے سکتا ہے۔
آن لائن کورسز کا اعلان کرتے وقت اقوام متحدہ نے لکھا کہ '' ہمارے نام سے تو ہر کوئی واقف ہے،اسی لئے ہمارے کورسز کے دروازے بھی ہر کسی پر کھلے ہیں، کسی بھی ملک کاکوئی بھی شہری حصہ لے سکتا ہے‘‘۔
ایک انتہائی اہم پروگرام ''انٹرنیشنل وولنٹیئر پروگرام ‘‘ 2021ء میں جاری کیا گیا تھا۔اگرچہ ا س کی معیاد نکل گئی ہے لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں ،ایسے پروگرام ہر سال میں جاری ہوتے رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اعلان کیاہے کہ وہ سرٹیفکیٹ بھی فری جاری کرے گا۔ وہ جانتا ہے کہ ہاروڈیونیورسٹی اور آکسفورڈ جیسے ادارے بھی فری آن لائن کورسز کروا رہے ہیں۔ کورسز تو مفت ہیں لیکن سرٹیفکیٹ کی فیسیں وصول کی جا رہی ہیں جو اگرچہ معمولی ہیں لیکن ہیں تو۔ اقوام متحدہ تو یہ قیمت بھی نہیں لے رہا۔اس ادارے کے ساتھ اس کے ذیلی ادرے جیسا کہ یونیسیف، ڈبلیو ایچ او، آئی ایم ایف اور عالمی بینک بھی کچھ کورسز میں شریک ہیں اور ان اداروں نے الگ سے بھی فری آن لائن کورسز جاری کر رکھے ہیں۔
اقوام متحدہ کے شعبوں میں زراعت،بچے ، یوتھ، جمہوریت، گورننس، اسلحہ کا عدم پھیلائو، تعلیم، ماحولیات، کلائمنٹ چینج،معاشی و سماجی ترقی، نیوٹریشن، صحت، انسانی حقوق،انسانی بہبود، انٹرنیشنل لاء، عالمی نظام انصاف ،عالمی تجارت، و معیشت، مہاجرین وامیگریشن، قدرتی وسائل، پانی ،توانائی،امن کی بحالی، سلامتی، بہبودآبادی، ڈیمو گرافی، ہاتھوں کی صفائی، وویمن، جینڈرگیپ اور لسانیات بھی شامل ہیں۔
عالمی بینک الگ سے بھی کورسز اکا اجراء کرتا رہتا ہے ۔اس ضمن میں اس کا ایک بڑ اپروگرام ''اوپن لرننگ کیمپس‘‘ کے زیر عنوان پہلے سے ہی چل رہا ہے۔ یہ تمام پروگرام 20 زبانوں میں کرائے جارہے ہیں۔ جبکہ یونیسیف کے فری پروگراموں کی تعداد276ہے۔ یہ بھی کئی شعبوں او رمختلف زبانوں میں دستیاب ہیں۔عالمی مالیاتی فنڈبھی ترقی سے متعلقہ شعبوں میں فری کورسز کا اجراء کرتا رہتا ہے، اس کے پروگراموں میں ہر سال 60ہزار طلبا ء شرکت کرتے ہیں۔ کووڈ ۔19کے بارے میں عالمی ادارہ صحت نے بھی چھوٹے چھوٹے کورسزکرائے ہیں۔درجنوں ویب سائٹس پر بے شمار کورسز کی تفصیلات دستیاب ہیں ۔عالمی ادارہ محنت بھی لیبر کی صورتحال میں اصلاح کے لئے کئی کورسز جاری کر رکھے ہیں،یہ بھی مختلف مہینوں میں کرائے جاتے رہتے ہیں۔بعض اداروں نے کمپیوٹر ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ ، ڈیٹا انالسٹ، گرافک ڈیزائنر ،سیلزاور نیٹ ورکنگ کے شعبوں میں بھی کورسز جاری کر رکھے ہیں، جن کی تعدا دکم نہیں ہے،وقت کے ساتھ ساتھ ان کورسز کی مانگ بھی بڑھتی جائیگی۔ہاورڈ یونیورسٹی بھی کمپیوٹر اور کورونا کے حوالے سے کئی کورسز کروا چکی ہے مزید کابھی اعلان ہوگا۔ایم آئی ٹی بھی اس ضمن میں اپنے منصوبے پیش کرتی رہتی ہے۔
بزنس مینجمنٹ، تعمیرات،کسٹمر سروس، ایونٹ مینجمنٹ، فیشن ڈیزائننگ،ہوٹل مینجمنٹ،ہیومن ریسورسز، انٹر نیٹ مارکیٹنگ، پبلک ریلیشنز، سپلائی چین، رسک مینجمنٹ، ٹریول، اکائونٹنگ اینڈ فنانس ، ڈائٹ، نیوٹریشن، سوشل میڈیا مینجمنٹ،سائبر سکیورٹی،لائف کوچنگ کورس، انتظامی امور کی تربیت ،فراڈ سے بچائو، نظام انہضام،خوارک کے مسائل، وزن میں کمی،مینی کیور، پیڈی کیور،روم ڈیزائننگ،بزنس ایتھکس،آٹزم اور سٹریٹیجک پلاننگ کے کورسز بھی مل سکتے ہیں۔ آپ کو صرف تیار رہنے کی ضرورت ہے۔
دیگر اداروں میں گوگل، برٹش کونسل، ڈیکن یونیورسٹی (Deakin University)،گریفن یونیورسٹی، کونوینٹری یونیورسٹی، کنگس کالج، یونیورسٹی آف مشی گن، ہیلتھ ایجوکیشن انگلینڈ، ڈبلیو ایچ او، یونیورسٹی آف لیڈز،یونیورسٹی آف اینڈنبرا، ویلکم جینوم کیمپس ایڈوانسڈ کورسز ،یونیورسٹی آف ملبورن،یونیورسٹی آف ریڈنگ، بزنس سکول لندن ،سکول آف ہائجین اور یو کے ہیلتھ ریپڈ سپورٹ ٹیم جیسے مایہ ناز ادارے اور یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
مصنوعی ذہانتvsہیومن سائیکالوجی

مصنوعی ذہانتvsہیومن سائیکالوجی

جیسے جیسے انسان ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے ویسے ہی کئی ایسے سوالات بھی انسانیت کے سامنے سراٹھارہے ہیں جن کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ سب سے اہم سوال جس نے ماہرین اور سائنسدانوں کو بھی دو گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے وہ یہ کہ کیا مصنوعی ذہانت انسانی بقاء کیلئے خطرہ ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور اب بھی اس پر تحقیق جاری ہے۔حال ہی میں ''چیٹ جی پی ٹی 4‘‘کے لانچ نے اس بحث کو مزید تقویت بخشی ہے کہ مصنوعی ذہانت، بائیولوجیکل ذہانت یعنی انسانی عقل کے برابر پہنچنے کے بہت قریب ہے۔ تکنیکی زبان میں اس مقام کو ''سنگولیریٹی‘‘ (Singularity)بھی کہا جاتا ہے جہا ں انسان اور مصنوعی ذہانت ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں۔مصنوعی ذہانت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اس لئے بھی قابل تشویش ہے کہ مستقبل میں یہ انسانوںکی ایک بہت بڑی تعداد کو نوکریوں سے محروم کر سکتی ہے۔اس سلسلے میں جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک ماہرنفسیات ڈاکٹر گیرڈ گیگررینزر کی کتاب ''ہائو ٹو سٹے سمارٹ ان اے سمارٹ ورلڈ‘‘ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو انسان کی ذہانت تک پہنچنے کیلئے ابھی بہت زیادہ ترقی کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر گرڈ کے مطابق مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والے الگورتھم وہاں بہترین کارکردگی فراہم کرتے ہیں جہاں واقعات میں کسی قسم کی تبدیلی رونما نہ ہو، یعنی اگر ایک واقعہ جو آج رونما ہوا ہے ویسا ہی روزانہ کی بنیاد پر ہو تو مصنوعی ذہانت بغیر کسی غلطی کے تمام ذمہ داریاں سرانجام دے دی گی۔مثلاً کسی ادارے میں ملازمین کی حاضری کیلئے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جاتا ہے تو یہاں اس کی کارکردگی یقینا مثالی ہو گی کیونکہ ملازمین کے دفتر آنے کا ایک مخصوص وقت ہوگا اور وہ روزانہ کی بنیا د پر اسی مخصوص وقت پر حاضری لگائیں گے۔ لیکن جہاں واقعات میں تبدیلی ہو گی اور روزانہ کی بنیا د پر روٹین تبدیل کی جائے گی، وہاں مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر اس کے مقابلے میں انسانی ذہانت کو دیکھا جائے تو اس کا زیادہ تر تعلق تبدیلی اور سرپرائز سے ہی ہے۔ ایک عام آدمی کی زندگی میں بھی روزانہ کی بنیا د پر کئی ایسے واقعات ہوتے ہیں جو اس کیلئے اور اس کی ذہانت کیلئے بالکل نئے ہوں۔انسان اپنی روٹین میں تبدیلی کی صورت میں بھی ضروری اور صحیح فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن مصنوعی ذہانت فی الحال اس طرح کے فیصلے لینے سے قاصر ہے۔مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والے موجودہ دور کے بہترین الگورتھم جن میں ''ایلفا گو‘‘(Alpha Go)اور ''ایلفا زیرو‘‘ (Alpha Zero)شامل ہیںنے بھی انسانوں کو GOگیم میں اس لئے شکست دے دی کیونکہ اس گیم کے اصول پہلے سے طے شدہ تھے۔اگر اس میں کوئی نئی چال شامل کی جاتی تو یقینا وہاں بھی مصنوعی ذہانت کو مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا کیونکہ وہ نئی چال اس کے ڈیٹا بیس میں موجود نہ ہوتی۔ ڈاکٹر گرڈ نے اس صورتحال کو ''سٹیبل ورلڈ پرنسپل ‘‘ کے نام سے بیان کیا ہے۔ڈاکٹر گر ڈ کے مطابق مصنوعی ذہانت کو فیصلے لینے کے قابل بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اسے سائیکالوجی جیسی صلاحیت فراہم کی جائے۔ مثلاً اگر کسی انسان کو سنسان سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے کوئی اجنبی یا مشکوک شخص رکنے کا اشارہ کرے تو گاڑی چلانے والا شخص خطرے کو محسوس کرتے ہوئے گاڑی نہیں روکے گا ۔ اگر مصنوعی ذہانت پر چلنے والی بنا ڈرائیور کے گاڑی کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ جب کوئی انسان گاڑی روکنے کا اشارہ کرے تو رک جانا ہے ،ایسی صورت میں مصنوعی ذہانت یہ فیصلہ نہیں کر پائے گی کہ اسے گاڑی روکنے والے شخص سے کسی قسم کا خطرہ ہے یا نہیں۔اسے Heuristic Approachکہا جاتا ہے۔ جس کے تحت انسان خطرے کو بھانپتے ہوئے موقع کی مناسبت سے فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مصنوعی ذہانت کی شروعات بھی Heuristic Approach سے ہوئی تھی۔مصنوعی ذہات کی بنیا د رکھنے والے دو امریکی ماہرین Allan NewellاورHerber Simonنے بھی مصنوعی ذہانت کو اسی قانون کے تحت ڈیزائن کیا تھا جس میں موجود ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت موقع کے مطابق فیصلے لے سکے لیکن مشین لرننگ کی آمد نے مصنوعی ذہانت کو ترقی کے ساتھ ساتھ ایک نئی سمت بھی فراہم کی جس کی وجہ سے اس کی کارکردگی میں تو بہتری آئی لیکن یہ بنیادی اصول سے دور ہوتی چلی گئی۔ڈاکٹر گرڈ کے مطابق مصنوعی ذہانت کو سائیکالوجی جیسی صلاحیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ موقع کے مطابق فیصلہ لینے کے قابل بن سکے اور اسی صورت میں مصنوعی ذہانت اصل معنی میں انسانی عقل کا مقاملہ کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔

اشکالون،5ہزار سال پرانی تاریخ کا مدفن

اشکالون،5ہزار سال پرانی تاریخ کا مدفن

پانچ ہزار قبل ''اشکالون‘‘ بحیرہ روم کی بڑی بندرگاہوں میں سے ایک تھی۔ اس کے گردو نواح کے علاقے پر اس کا دبدبہ ہمیشہ سے قائم تھا۔ بڑی جنگیں اس کی تباہی کا باعث بنیں اور اس بڑے شہر کو دنیا کے نقشے سے ختم کرنے کیلئے کافی بڑے پیمانے پر تباہی مچائی گئی۔ ''اشکالون‘‘ اب موجودہ اسرائیل کا حصہ ہے۔ کچھ انتہا پسند یہودیوں کے گروپ اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ مرے ہوئے لوگوں کا خاص مقام ہوتا ہے اور ان کے جسموں بلکہ ڈھانچوں کو بالکل بھی تنگ نہیں کرنا چاہئے۔اس لئے وہ نہیں چاہتے کہ ان کی پچھلی نسلوں کو ان کی قبروں سے نکال کر ان پر کسی قسم کی تحقیق کی جائے۔3500قبل مسیح میں ''اشکالون‘‘ ایک بڑی بندرگاہ تھا اور ترکی اور شام سے مصر تک کے تجارتی راستے میں واقع تھا۔ یہ شہر بہت سی تہذیبوں کے عروج و زوال کا گواہ بھی تھا۔یہاں کے لوگوں نے دنیا کے بہت سے واقعات اور اتار چڑھائو کو اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن وقت کی دھول نے اس پر ایسا پردہ ڈالا کہ وہ لوگ اور شہر دنیا کے نقشے سے غائب ہو گئے۔ سب سے پہلے 604قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ نے اس شہر پر چڑھائی کی اور اسے کافی نقصان پہنچایا۔ آخری دفعہ 1270ء میں مسلم دور کے مملوک حکمرانوں نے جو کہ اس دور میں مصر پر حکمران تھے نے اس پر حملہ کیا۔ صدیوں تک زمین میں دفن رہنے والا شہر جو کہ ملبے کے ڈھیر تلے دبا رہا، یہ شہر تقریباً 150ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔1985ء میں ایک ٹیم جو کہ ماہرین آثار قدیمہ پر مشتمل تھی یہاں آئی۔ ہاورڈیونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی اس ٹیم کے سربراہ کا نام لارنس سیگرتھا۔ کافی تحقیق اور جستجو کے بعد انہوں نے ''اشکالون‘‘ کے لوگوں کے رہن سہن ، تہذیب و تمدن اور دفن کرنے کی رسومات کا پتہ چلا لیا۔کنعانی وہ لوگ تھے جو کہ شاید مشرقی شام سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے بحیرہ روم کے ساحل کی طرف ہجرت کی۔ یہ شاید کشتیوں کی مدد سے گروپوں کی صورت میں یہاں داخل ہوئے اور پھر یہیں بس گئے۔ یہ لوگ فن صنعت و حرفت میں ماہر تھے اور بہتر طور پر جانتے تھے کہ اپنے شہر کے گرد حصار بندی کرنی ہے۔ انہی لوگوں نے اس شہر کے گرد ایک بہت بڑی اور مضبوط دیوار تعمیر کی۔ اس دیوار میں بڑے بڑے دروازے بھی رکھے گئے تاکہ شہر کے اندر آمدورفت میں مسئلہ نہ آئے۔ اس دیوار کو مٹی، اینٹوں اور مضبوط دھاتوں کی مدد سے بنایا گیا جس کی اونچائی 50فٹ تک تھی۔ اس دیوار نے شہر کو چاروں طرف سے اپنے حلقہ میں لے رکھا تھا اور یہ قوس کی طرح بنائی ہوئی تھی۔ کنعانیوں کی طاقت اس وقت تک قائم رہی جب 1550ء قبل مسیح میں مصریوں نے ان پر حملہ کیا۔'' اشکالون‘‘ اپنے دور کا ایک خوشحال اور زرخیز خطہ تھا۔ دفاعی اعتبار سے بھی خاص اہمیت کا حامل تھا۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ تقریباً 1650 قبل مسیح میں ایک پراسرار جنگی گروہ ''ہائیکسوس‘‘(Hyksos) نے نیل کے ڈیلٹا پر قبضہ کر لیا اور کئی سال تک یہاں حکومت کرتا رہا۔ یہ کوئی نہیں جانتا کہ ''ہائیکسوس‘‘ جس کا مطلب مصری زبانوں میں ''بیرونی حملہ آور‘‘ ہے کہاں سے آئے تھے۔13ویں صدی عیسوی میں بیرونی حملہ آوروں کے مختلف گروہوں نے ''اشکالون‘‘ پر حملہ کیا۔1175ء میں بیرونی حملہ آوروں کے گروپ جن کا نام فلسطین تھا انہوں نے حملہ کر کے ''اشکالون‘‘ اور اس کے قریبی علاقوں کو فتح کر لیا اور مستقل طور پر یہیں آباد ہو گئے ۔ برتنوں اور عمارت پر کندہ نقش و نگار ظاہر کرتے ہیں کہ فلسطینی یونان سے تعلق رکھتے تھے اور وہاںسے ہجرت کرکے ''اشکالون‘‘ میں آکر آباد ہو گئے۔ ''اشکالون‘‘ میں کھدائی کے دوران ایک برتن ملا جس کے اندر ہڈیاں تھیں۔ یہ اس دور میں عمارت کو محفوظ رکھنے کا ٹوٹکا تھا۔ ''اشکالون‘‘ کے افراد سکے استعمال کرتے تھے۔ سکوں کا اجراء تقریباً چوتھی صدی قبل از مسیح سے ہوا اور 12ویں صدی عیسوی تک فلسطین میں یہی سکے چلتے رہے اور آج بھی اسرائیلی میوزیم میں 31چھوٹے سکے محفوظ ہیں جس کا نام اوبولس ہے اور ان پر 400قبل مسیح کی تاریخ لکھی ہے۔ رومی سلطنت کے زیر اثر ''اشکالون‘‘ نے بہت ترقی کی۔ رومیوں نے یہاں پر اپنی تہذیب و ثقافت کے گہرے اثرات مرتب کئے۔ عظیم عمارتیں، تھیڑ اور سبزہ زار تعمیر کئے۔ تاریخ دانوں کے مطابق عظیم بادشاہ ہیراڈ یہاں پیدا ہوا۔ ایک یہودی تاریخ دان جوزف کے مطابق ہیراڈ نے عوام کیلئے غسل خانے، فوارے اوربڑی کالونیاں تعمیر کروائیں اور شہنشاہ آگسٹن کیلئے ایک محل بھی تعمیر کروایا۔ رومی دور میں ''اشکالون‘‘ کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہو گئی اور اسے زراعت یعنی زیتون کے تیل، کھجور اور پیاز کی برآمد سے خطیر منافع ملتا تھا۔ تقریباً 640ء میں اشکالون کو اسلامی حکمرانوں نے فتح کر لیا۔ اس شہر کی کھدائی کے دوران اسلامی حکومت کے نشانات و علامات بھی ملی ہیں۔ مسلم حکمرانوں نے ''اشکالون‘‘ میں دوبارہ تعمیر شروع کی اور اس شہر کو نئے انداز سے تعمیر کروایا۔ عمارتوں پر سونے اور دوسرے جواہرات سے مینا کاری اور کاشی کا کام کروایا۔ تقریباً50سال سے زیادہ عرصہ تک ''اشکالون ‘‘اسلامی حکومت کے زیر اثر رہا۔12ویں صدی میں فاطمی خاندان کے حکمرانوں نے اس کی دیواریں دوبارہ مرمت کروائیں اور 50 کے قریب واچ ٹاور تعمیر کروائے گئے۔ آج اشکالونی مردوں کے شہر کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ پہلے مردوں کا شہر نہیں تھا۔ یہاں بہت سی تہذیبیں پروان چڑھیں اور ہر تہذیب کے آثار اس کی بنیادوں سے ملتے ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

7ممالک کی نیٹو میں شمولیت2004ء کوبلغاریہ، ایسٹونیا، لٹویا، لیتھوانیا، رومانیہ، سلوواکیہ اور سلووینیا نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی۔ نیٹوکو مغربی فوجی اتحاد بھی کہا جاتا ہے اور اس اتحاد میں شامل ممالک ایک دوسرے کاکسی بھی مشکل صورتحال میں دفاع کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔موجودہ روس یوکرین جنگ بھی نیٹو میں شمولیت کے معاملے پر ہی شروع کی گئی تھی ۔ نیٹو میں شامل ممالک اس کے قوائد و ضوابط کے بھی پابند ہوتے ہیں۔عالمی جنگ میں جرمنی کو شکست1945ء کو جرمنی کی فوج کو سوویت یونین کی سرخ فوج نے شکست سے دوچار کیا۔عالمی جنگ کے دوران سوویت یونین نے پیش قدمی کرتے ہوئے جرمن افواج کو یرغمال بنایا اورآخر کار جرمنی کی فوج کو شکست کھانا پڑی۔یہ دوسری عالمی جنگ کا وہ موقع تھا جب جرمنی کو مختلف مقامات پر پسپائی کا سامنا تھا۔ہپناٹائز قتل1951ء میںکوپن ہیگن میں دو افراد کو ہپناٹائز کر کے قتل کیا گیا،جو ناکام بینک ڈکیتی کے ملزم تھے۔قاتلوں کو بھی گرفتار کرلیاگیا۔تحقیقات کے بعد دونوں افراد کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔اس مقدمے میں عدالت نے ماہر نفسیات کی معاونت بھی حاصل کی جواس نتیجے پر پہنچے کہ اس قتل کیلئے ملزمان نے ہپناٹزم کا استعمال کیا ۔ مرینر10کی مریخ پر لینڈنگمرینر10ایک امریکی روبوٹک خلائی تحقیقاتی جہاز تھا۔اسے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی جانب سے 3 نومبر 1973ء کووینس اور مرکری کے قریب پرواز کرنے کے لئے لانچ کیا گیا تھا۔ مرینر 10 کو مرینر 9کے تقریباًدو سال بعد لانچ کیا گیا اور یہ مرینر پروگرام کا آخری خلائی جہاز تھا۔مرینر 10نے اپنے مشن کے دوران29مارچ1974ء کو مریخ پر لینڈنگ کی اور یہ مریخ پر اترنے والا پہلا خلائی جہاز تھا۔اس خلائی جہاز کا اصل مقصد وینس اور مرکری کے ماحول اور سطح کا جائزہ لینا تھا۔ 

فوڈ سکیورٹی ! دنیا میں 8کروڑ افراد بھوک کا شکار

فوڈ سکیورٹی ! دنیا میں 8کروڑ افراد بھوک کا شکار

برق رفتار سے ترقی کرتی دنیا میں جہاں مصنوعی ذہانت انڈسٹریل استعمال سے ہوتی ہوئی آہستہ آہستہ انسانی معاشرے پر اثرانداز ہونے لگی ہے ،وہیں ایک ایسا مسئلہ بھی ہے جس نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ مسئلہ خوراک کی موجودگی اور فراہمی ہے۔ جدید الفاظ میں اسے '' فوڈ سکیورٹی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے ڈیم، عمارتیں،جہاز اورسوفٹ وئیر تو بنائے جا سکتے ہیں لیکن مصنوعی ذہانت خوراک پیدا کرنے یا اسے مساوی انداز میں تقسیم کرنے سے فی الحال قاصر نظر آتی ہے۔ دنیا''فوڈ سکیورٹی‘‘ کے لفظ سے اس وقت متعارف ہوئی جب ماہرین نے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو دنیا کے لئے ایک ''ٹائم بم‘‘ قرار دیا کیونکہ آبادی میں اضافہ سب سے پہلے خوراک اور اس کی فراہمی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جتنے زیادہ لوگ موجود ہوں گے اتنی زیادہ خوراک کی ضرورت محسوس ہوگی۔1950ء میںپاکستان کی آبادی پونے چار کروڑ تھی لیکن آج یہی آبادی 22کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق2050ء تک پاکستان کی آبادی تقریباً34کروڑ تک پہنچ جائے گی۔بڑھتی ہوئی آبادی سے نہ صرف پاکستان جیسا زرعی ملک مشکلات کا شکار ہو رہا ہے بلکہ اس مسئلے نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ 1950ء میں دنیا کی آبادی 2ارب کے قریب تھی جو بڑھتی ہوئی تقریباً8ارب ہو چکی ہے جبکہ2050ء تک یہ آبادی12ارب تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق12ارب آبادی کیلئے ہمارا یہ سیارہ بہت چھوٹا ہے، اس پر کاشت کی جانے والی اجناس کو 12 ارب افراد میں تقسیم کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ خوراک کی عدم موجودگی عالمی جنگ کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اگر ایسی صورتحال رہی تو ''فوڈ سکیورٹی‘‘ نیشنل سکیورٹی کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت دنیا میں 8 کروڑ سے زائد افراد بھوک کا شکار ہیں۔ 2005ء کے بعد اس تعداد میں کمی واقع ہوئی تھی لیکن کورونا اور اس کے '' آفٹر شاکس‘‘ کی وجہ سے بھوک کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔''ہنگر انڈکس‘‘ (Hunger Index) پر نظر ڈالی جائے تو بدقسمتی سے پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جو شدید بھوک کا شکار ہیں۔ ''ہنگر انڈکس‘‘ کے مطابق پاکستان 121 ممالک میں سے 99نمبر پر ہے ۔ ماہرین کے مطابق اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔ کرۂ ار ض کا 29فیصد حصہ خشکی جبکہ 71 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ خشک حصے کا صرف 71فیصد قابل کاشت ہے جبکہ دیگر 10 فیصد حصے پر گلیشیئرز موجود ہیں اور19فیصد حصہ ناقابل کاشت یعنی بنجر ہے۔اعدادو شمار کے مطابق خشکی کا جو 71 فیصد حصہ قابل کاشت ہے اس میں سے 50فیصد پر کاشت کی جارہی ہے،37 فیصد پر جنگلات موجود ہیں جبکہ13فیصد پر شہر آباد کئے جاچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس 50فیصد حصے پر کاشتکاری کی جارہی ہے اس میں سے انسانوں کیلئے صرف 33فیصد جبکہ جانوروں کی خوراک اور چراہ گاہوں کے لئے67 فیصد رقبہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ایمیزون جنگلات کو کاٹ کر بھی وہاں سویابین کی کاشت کی جارہی ہے جو 90فیصد تک جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا اگر ''فوڈ سکیورٹی‘‘ یا بھوک کا شکار ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ وسائل کا بے دریغ استعمال ہے۔ نسل انسانی نے قدرتی وسائل کو اس بے دردی سے استعمال کیا ہے کہ یہ اپنے قدرتی سائیکل سے باہر نکل چکے ہیں۔پانی کو زندگی کی علامت اور سب سے قیمتی وسائل میں سے ایک سمجھا جاتا ہے لیکن پانی کے بے جا استعمال نے بھی فوڈسکیورٹی جیسے مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔کرۂ ارض پر اس وقت جتنا بھی پانی موجود ہے اس کا صرف 2.5 فیصد حصہ میٹھے پانی پر مشتمل ہے۔اگر اس 2.5فیصد میں سے گلیشیئرز کو نکال دیا جائے تو پانی کا صرف ایک فیصد حصہ ایسا ہے جسے پینے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس ایک فیصد میں سے زیر زمین پانی کو بھی نکال دیا جائے تو صرف 0.7 فیصد حصہ پینے کے قابل بچتا ہے جو پہاڑوں سے ہوتا ہوا دریاؤں اور نہروں میں گرتا ہے۔ نہروں اور دریاؤں میںموجود پانی کے 0.7 فیصد حصے میں سے70فیصد پانی زراعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔یعنی پوری دنیا میں موجود پانی کے0.7فیصد حصے کا صرف30فیصد 8ارب آبادی کے پینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ماہرین کے مطابق ایسے طریقوں کی ایجاد ناگزیر ہے جن میں وسائل اور زمین کا کم سے کم استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکے۔اس سلسلے میں ایلون مسک کے بھائی کمبل مسک(Kimbal Musk) نے ایک سٹارٹ اپ کا آغاز کیا ہے جسے ''Squareroot‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس پروجیکٹ میں 40فٹ کے کنٹینر میں مختلف اقسام کے پودے کاشت کئے جارہے ہیں اور صرف8گیلن پانی کا استعمال کرتے ہوئے ایک کنٹینر میں ایک سے دو ایکٹر تک کی پیداوار حاصل کی جارہی ہے۔کنٹینرز میں مختلف اقسام کے سینسرز بھی نصب کئے گئے ہیں جن کی مدد سے پودوں میں ہونے والی حرکات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور ایسے طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے جن سے بہترین اور ذائقہ دار اجناس حاصل کی جاسکیں۔ماہرین کے مطابق اس طرح کے جدید طریقوں اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے کم سے کم زمین کو استعمال کرتے ہوئے خوراک کی پیداوار کو بڑھایا جا سکتا ہے اور انسانیت کو اس تاریک مستقبل سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے جس کا اندازہ شاید ابھی کسی کوبھی نہیں۔ 

پہلی عالمی جنگ کی اصل وجہ معاشی بالادستی!

پہلی عالمی جنگ کی اصل وجہ معاشی بالادستی!

1776ء میں چھپنے والی ایڈم سمتھ کی کتاب ''ویلتھ آف نیشنز‘‘ (The Wealth of Nations)نے اقوام یورپ میں ایک نئی سوچ کو جنم دیا تھا جس کے بعد قوموں کی معاشی ترقی کیلئے باقاعدہ تحقیق کی جانے لگی اور اقوام یورپ معاشی وسائل اور ذرائع کے حصول کیلئے ایک نئے طریقہ سے مصروف عمل ہو گئیں۔ ''بارٹر سسٹم‘‘ کی جگہ بین الاقوامی تجارت و معیشت نے لے لی تھی۔قومیں اپنی تمام ضرورتیں اپنے ہی وسائل سے پوری کرنے کی بجائے ایک یا چند ایک پیداواری صلاحیتوں میں تخصیص کی خواہاں نظر آتی تھیں اور دیگر ضروریات کیلئے عالمی منڈی کی طرف رجوع کرنے لگی تھیں۔ برطانوی استعمار کے پھیلائو کی وجہ بھی یہی نقطہ نظر تھا۔ پہلے پہل تو وہ تجارت کے عمومی مقاصد کیلئے یورپ سے باہر نکلے اور ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا وغیرہ تک جا پہنچے اور وہاں کے سادہ لوح عوام کو اپنا محکوم بنا لیا۔یورپ کی تمام اقوام تجارت و معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئے یورپ کی تنگ سرزمین سے نکل کھڑی ہوئی تھیں اور اس طرح عالمی کھوج اور عالمی پیداواری ذرائع کی تحقیق اور ان سے استفادہ کی سرتوڑ کوششیں جاری تھیں۔ ہر ملک اپنی بیرون یورپ تجارت کیلئے بحریہ کی تشکیل کیلئے کوشاں تھا۔جس ملک کیلئے یہ آسانی سے ممکن نہ تھا تو وہ دیگر ممالک کے بحری جہازوں کے ذریعے اپنے تجارتی کاروان اور قافلے روانہ کر رہا تھا۔ بین الاقوامی تجارت کا رجحان نیا نیا قائم ہوا تھا، جس کے تحت ممالک دنیا بھر کے دور دراز علاقوں کی پیداوار سے اپنے ملک کی ضرورت کے مطابق اجناس خورو نوش اور دیگر اشیاء ضرورت خرید کرتے اور بدلے میں اپنے ممالک کی تیار کردہ اجناس و اشیاء انہیں فروخت کرتے یا ان سے خریدے ہوئے مال کی قیمت ادا کرتے۔یورپ کی باہمی جنگوں سے یورپی ماہرین و دانشوروں کو اس بات کا مکمل طور پر احساس ہو چکا تھا کہ جنگ لڑنے کیلئے کسی ملک کی مضبوط معیشت اور مستحکم سفارتی تعلقات انتہائی ضروری ہیں۔ اپنے ارد گرد منڈلانے والے خطرات کے پیش نظر ہر ملک معاشی و اقتصادی طور پر دیگر ہمسایہ ممالک سے سبقت لے جانے کا خواہاں نظر آتا تھا۔ یہ حقیقت واضح ہو چکی تھی کہ معاشی طور پر مستحکم ملک اپنے مد مقابل معاشی طور پر غیر مستحکم یا کم مستحکم ملک پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس طرح معاشی سبقت و استحکام دوسروں کے کمزور اور اپنے ملک کے مضبوط ہونے کی علامت تھی۔بیسویں صدی کے آغاز پر اقوام یورپ معاشی کامیابی کی خواہش میں ایک دوسرے سے مخاصمت کے جذبے سے سرشار تھیں۔ نہر سویز اس لئے انتہائی اہم مسئلہ بن چکی تھی کہ ایشیائی بالادستی قائم کرکے دیگر ممالک کے گزرنے والے بحری جہازوں سے محصول حاصل کیا جاسکتا تھا۔برطانوی شاہی بحریہ اپنی بلند شان و شوکت اور وسعت کے باعث عالمی تجارت کے تمام بہترین راستوں پر قابض و حاکم تھی۔ دیگر ممالک اس بالادستی سے سخت نالاں تھے، کیونکہ اس طرح اپنی تجارت سے ہونے والی آمدن کا کچھ حصہ برطانیہ کو پیش کرنے کے پابند تھے۔ جو برطانوی معیشت کیلئے بہتر اور ان ممالک کی معیشت کیلئے سخت نقصان دہ تھا۔ فولاد سازی، صنعت سازی، کیمیائی مصنوعات کی تیاری، برقی و معدنی ذرائع سے توانائی کا حصول اور زرعی ترقی کیلئے ہر ملک اپنی اپنی سطح پر کوششوں میں مصروف تھا۔ ان مفادات کے حصول کیلئے یورپی ممالک اپنی تجارت کا دائرہ کار بڑھانے اور ایسے ممالک جہاں سے ان کی ضروریات پوری ہو سکیں، پر انحصار کرنے پر مجبور تھے۔ اس طرح ملکی مفادات کے حصول کیلئے ایک دوسرے پر بھی انحصار کیا جاتا تھا۔ زیادہ طاقتور ممالک اس انحصار سے ناجائز فوائد بھی حاصل کرتے اور مفادات کے حصول میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں باہمی رنجش و تعصب کے جذبات کی آبیاری کا ذریعہ بن کر یورپی ممالک کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کرنے کی وجہ بنیں۔جرمنی عالمی تجارت میں سبقت لے جانے کی خواہش میں جدید ترین بحری بیڑے کے قیام میں مصروف عمل تھا۔ دوسری طرف جرمنی کے بحری بیڑے کے طاقتور ہونے سے برطانوی سمندری اجارہ داری کو شدید خطرہ تھا۔ اور اسی تشویش اور تعصب نے برطانیہ کو جرمنی کے خلاف میدان کار زار سجانے اور فرانس اور روس کے ساتھ مفادات کے ٹکرائو کے باوجود ہم صف ہونے پر آمادہ کیا۔ یہاں یہ مطلب ہرگز نہیں کہ برطانیہ ، فرانس اور روس ایک دوسرے کے خیر خواہ تھے بلکہ اپنے ارد گرد ایک ابھرتی ہوئی معاشی و اقتصادی قوت کو دیکھ کر یہ ممالک سخت پریشان ہو گئے تھے اور کچھ دیر کیلئے اپنی باہمی مخالفتوں کو بھول کر متحد ہو چکے تھے۔فرانس بیرونی سرمائے کی فراوانی کے باعث دیگر ممالک کو سودی قرضوں کی فراہمی پر اپنی معیشت کو استوار کر رہا تھا۔ روس صنعتی ترقی اور فولاد سازی کیلئے کوشاں نظر آتا تھا۔ جرمنی فولاد سازی، کیمیائی مصنوعات کی تیاری، بھاری مشینری کی تیاری اور برقی پیداوار میں اضافے کے اسباب پر غور کر رہا تھا۔ برطانیہ عالمی سوداگر کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ یہ سب اقدامات معاشی و اقتصادی استحکام و ترقی کیلئے روبہ عمل لائے جا رہے تھے اور ان اقدامات کے ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے پر کڑی نظر بھی رکھی جا رہی تھی تاکہ کسی مقابل کے زیادہ طاقتور ہو جانے کی صورت میں حصول طاقت کے جملہ ذرائع سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جا سکے۔یورپی ممالک کے مابین ہونے والی جنگیں گزشتہ صدی کے پہلے نصف کی جنگوں کی طرح صرف عددی و علاقائی برتری کیلئے نہیں لڑی جاتی تھیں بلکہ یہ جنگیں عالمی منڈیوں، پیداواری علاقوں اور توسیعی مقاصد کے حصول کیلئے لڑی جا رہی تھیں اور ان سب مقاصد کے حصول سے ایک ہی بنیادی مقصد حاصل ہو سکتا تھا اور وہ تھا معاشی بالادستی!۔  

آج کا دن

آج کا دن

سمند رسے اڑنے والا پہلا جہاز1910ء میں ہنری فوربی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے پانی سے پرواز کرنے والا جہاز اڑایا۔فرانس کے قریب اس جگہ کو مختص کیا گیا جہاں سے اس جہاز نے پرواز کرنا تھا۔ اس جگہ کو پانی کا رن وے بھی کہا جاتا ہے۔ جس وقت جہاز نے پانی سے پرواز کی یہ وہ وقت تھا جب ہوا بازی میں مسلسل نئے تجربات کئے جا رہے تھے۔ اس جہاز کو زیادہ شہرت اس لئے بھی حاصل ہوئی کیونکہ یہ اس کی خاصیت تھی کہ یہ پانی سے پرواز بھی کر سکتا تھا اور لینڈنگ بھی۔ اس جہاز کو اڑنے یا اترنے کیلئے کسی بھی زمینی رن وے کی ضرورت نہیں تھی۔ مارٹن لوتھرکنگ کا مارچ 1965ء میں غیر مساوی سلوک سے تنگ آکر 25ہزار سے زائد افراد نے مارٹن لوتھر کنگ کی قیادت میں امریکی ریاست البامہ میں پیدل مارچ کی۔ اس مارچ کا مقصد غیر مساوی سلوک کے خلاف آواز اٹھانا اور سماجی اور مساوی حقوق کیلئے جدوجہد کرنا تھا۔مارٹن لوتھر کنگ کو امریکی تاریخ ایک عظیم رہنما کے طور پر یاد کرتی ہے جس نے کمزرو طبقے میں پسنے والے ہزاروں لوگوں کو ان کے حقوق دلوائے۔ پہلی ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ28مارچ1891ء کو دنیا کی پہلی ویٹ لفٹنگ چیمپئن شب کا انعقاد کیا گیا۔دنیا کے 6ممالک کی نمائندگی کرتے ہوئے 7کھلاڑیوں نے اس مقابلے میں حصہ لیا۔ دنیا کی پہلی ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد برطانیہ کے شہر لندن میں کیا گیا۔اس چیمپئن شپ میں سخت مقابلے کے بعد برطانیہ نے میدان مارا اور دنیا کا پہلا ویٹ لفٹنگ چیمپئن ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ ائیر ایمبولینس کا آغاز 1866ء کو آج کے دن پہلی مرتبہ ائیر ایمبولینس کا لفظ استعما ل کیا گیا۔ ایک سمندری جہاز کے حادثے کے نتیجے میں سمند ر میں پھنسے عملے کو ائیر بلون کے ذریعے ریسکیو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ائیر بلون کو ائیر ایمبولینس کا نام دیا گیا تھا۔ ائیر ایمبولینس کی جدید قسم آج کل ہوائی جہاز کی صور ت میں نظر آتی ہے۔کئی ممالک میں ڈرون کو بھی ایمرجنسی سروسز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔