محبت بھرے احساس کا نام باپ
اسپیشل فیچر
باپ پسینے میں شرابور تھا۔ وہ کیا کرتا تھا، اولاد کو علم نہیں تھا۔ اولاد زندگی شہزادوں کی طرح گزار رہی تھی۔جیب خالی تھی یا بھری اولاد کی ضرورتوں کے ساتھ خواہشیں بھی پوری ہو رہیں تھی۔ ایک دن باپ پسینے میں شرابور کھڑا تھا اور بیٹے کو ایک بھیانک خواہش نے ڈس لیا تھا۔ وہ الجھی نگاہوں سے باپ کو دیکھ رہا تھا۔باپ کی آنکھوں میں شفقت اور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔باپ کا کہنا تھا ''بیٹا ابھی میری جیب اس قابل نہیں کہ میں تیری یہ خواہش پوری کر سکوں۔ کچھ وقت صبر کرو میں جلد تیری خواہش پوری کر دوں گا۔ ابھی مجھ سے ناراض نہ ہونا۔‘‘ باپ کی اس بات کے باوجود بیٹے کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔
''نہیں آپ کو میری کوئی فکر نہیں، مجھ سے پیار نہیں کرتے ، میرے جذبوں کو نہیں سمجھتے۔ عمر نکل گئی تو میری خواہش کا کیا ہو گا۔ میں کبھی آپ سے بات نہیں کروں گا۔‘‘ باپ نے اپنی اولاد کے چہرے کو دیکھا تو مسکرا کر چلا گیا اور جب واپس آیا تو اس کی خواہش کو پورا کر دیا۔ بیٹے نے دیکھا تو جھوم اُٹھا اور بولا ''مجھے پتہ تھا آپ مجھ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ آپ میری خواہش پوری کر سکتے ہیں۔‘‘ بیٹا اپنی خواہش کو پورا ہوتا دیکھ کر خوشی میں جھوم رہا تھا اور باپ اپنے بیٹے کو خوش دیکھ کر خود کو مکمل محسوس کر رہا تھا۔ اتنے میں دوسرے بیٹے کو کسی خواہش نے ڈس لیا۔ دوسرا بولا ''ابو آپ کو مجھ سے پیار نہیں کیا؟ آپ مجھے پسند نہیں کرتے۔ کیا میں آپ کی اولاد نہیں؟ میری خواہش کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں؟‘‘ باپ نے دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگا، ''بیٹا تو بھی اتنا ہی عزیز ہے جتنا دوسری اولاد مگر کچھ وقت دو۔ ‘‘ دوسرا بیٹا بولا '' آپ مجھ سے نہیں پہلے بیٹے سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘ باپ نے سنا تو مسکراتا ہوا وہاں سے چلا گیا جب واپس آیا تو اس کی خواہش بھی پوری کر آیا ۔ جس پر بیٹا بولا ''مجھے پتہ تھا آپ میری خواہش پوری کر کے آئیں گے۔ دیکھا آپ ایسے ہی مجھے صبر کا کہہ رہے تھے‘‘ ۔یہ خواہشیں باپ نے کیسے پوری کیں اولاد کو علم نہیں۔ باپ نے کس سے ادھار رقم لی ، کس کے آگے منت کی اس سب کاعلم اولاد کو نہیں ہونے دیتا باپ اکیلا غم جھیلتا ہے اولاد کیلئے۔
باپ اپنی اولاد کی محبت میں محنت کرتا ہے اور اولاد محنت نہ کرنے کی وجہ سے والدین سے محبت نہیں کر پاتی۔ صاحب خوش نصیب وہ نہیں جس کی خواہشیں پوری ہوں بلکہ خوش نصیب وہ ہے جس کی ضرورتیں پوری ہوں۔ احساس پیدا نہ ہو تو جذبے اپنی قبر خود کھود لیتے ہیں۔ ادھر روز غریب اولادیں اپنے امیر والدین کو دفناتی ہیں اور دوبارہ مڑ کر نہیں دیکھتیں۔ وہ دولت سے غریب نہیں ہوتے محبت کی کمی کی وجہ سے غریب ہوتے ہیں۔ کام چور اولاد کا باپ جس دن مرتا ہے اس دن باپ نہیں مرتا، اولاد مر جاتی ہے۔
اولاد کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر امڈ آیا۔ ان کا باپ نہیں وہ مر گئے تھے۔ ان کے پاس نہ محنت کی دولت تھی اور نہ محبت کی اور اب باپ کی دولت سے بھی محروم تھے۔ جس مستقبل کی فکر میں وہ خواہشیں پوری کر رہے تھے، وہ اسی مستقبل میں کھڑے ہو کر ماضی کے گناہ یاد کر رہے تھے۔ اپنی بھری جیبوں سے بھی باپ خرید نہیں سکتے تھے۔کیونکہ اب ان کی خواہش اپنے مرے باپ کو زندہ دیکھنا تھا۔ انہوں نے ایک کتبہ اپنے باپ کی قبر پر لگایا، جس پر لکھا تھا ''باپ ایک محبت بھرے احساس کا نام ہے، جو خواہشات سے بھری اولاد کے دل میں نہیں آتا۔‘‘