محت مند ترین دماغ و دل والا قبیلہ
دل کی بیماریوں سے سب سے کم اموات ہانگ کانگ، جاپان اور فرانس میں اور سب سے زیادہ اموات چین میں ہوتی ہیں۔سائنسدان یہ جان کر حیران ہیں کہ دنیا میں ایک ایسا قبیلہ بھی ہے جس کے لوگ جدید دوائوں کے بغیربھی بہترین دما غ اور دل رکھتے ہیں۔یہ قبیلہ تسیمانے ہے جو کہ بولیویا میں واقع ہے۔
تسیمانے کا قبیلہ16 ہزار نفوس پر مشتمل ہے ۔ 2017ء کی ایک تحقیق کے مطابق یہ لوگ بہترین دل رکھتے ہیں ۔ لیکن2021ء کی تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا کہ تسیمانے کے لوگوں کا دماغ بھی دنیا کے صحت مند ترین دماغوں میں سرفہرست ہے۔
تسیمانے قبیلہ کے 40سال سے لیکر 96 سال کے 746 مردو وخواتین پر تحقیق کی گئی۔ان کے دماغ کا سی ٹی سکین کیا گیا۔ ان کے دماغ کا جرمنی ، امریکہ اور نیدر لینڈزکے باشندوں کے دماغ سے موازنہ کیا گیا ۔ ماہرین کی تحقیق نے 2017ء کی تحقیق کی تصدیق کردی۔یہ بات بھی سامنے آئی کہ درمیانی عمر کے اور بوڑھوں میں مغرب کی نسبت چھوٹا دماغ تھا۔اگرچہ دیگر افراد میں دماغ نارمل سائز میں تھالیکن دماغ بڑھاپے کی بھی وجہ سے بھی چھوٹا ہوسکتا ہے ۔ ایک محقق پروفیسر جیرو نٹولوجی آندرے ایری میا کے مطابق،
''تسیمانے کے لوگوں کے قدرتی تجربات نے یہ بتا دیا کہ ہماری صحت پر جدید طرز زندگی کے کیسے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ‘‘ ۔ان کا کہنا تھا کہ نئے دور میں ہم ذہنی طورپر کمزور ہو رہے ہیں۔ دماغ کا سست ہوجانا اسی طرز زندگی کا نتیجہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے دل کی بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔ تحقیق سے حاصل ہونے والی معلومات حیران کن نہیں اگر دل صحت مند ہے تو دماغ بھی صحت مند ہو گا ۔ دماغ صحت مند ہے تو دل صحت مند ہوگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تسیمانے قبیلہ کے لوگ اتنے صحت مند کیوں ہیں یا وہ کیا کھاتے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا طرز زندگی صحت مندانہ ہے۔ وہ قدرتی ماحول میں رہتے ہیں، کھیتی باڑی کرتے ہیں اور اپنی خوراک ''کھیل کھیل میں‘‘ حاصل کرتے ہیں یعنی جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔وہ مچھلیاں پکڑتے ہیں ، یہ سارے عمل نیچر کے قریب تر ہیں جس سے دماغ ہشاش بشاش رہتا ہے ۔ان کے مرد دن بھر میں 17ہزار اور خواتین 16ہزار قدم چلتی ہیں ان کی انہی عادات نے انہیں دنیا بھر میں ممتاز کر دیا ہے۔
ان کی خوراک ،کھاد اور دیگر کیمیکلز سے پاک ہے یعنی آرگینک ہے جس میں فائبر زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان کی خوراک میں گوشت کا حصہ دیگر ممالک سے کافی کم ہے۔17 فیصد کلوریز گوشت، 7 فیصد تازہ مچھلی اور باقی ماندہ کلوریز چاول مکئی، آلو اور کیلے وغیرہ سے حاصل کرتے ہیں۔ پھل، میوہ جات اور سبزیاں بھی ان کی خوراک میں شامل ہیں ، جبکہ مغرب میں زیادہ تر لوگ سیر شدہ چکنائیاں کھاتے ہیں جس سے دماغ اوردل کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ وہ کلوریز کا 72فیصد حصہ کاربوہائیڈریٹس سے حاصل کرتے ہیں جبکہ امریکہ میں کاربوہائیڈریٹس کا حصہ 52فیصد ہے۔ یہ قبائلی باشندے 14 فیصد کلوریز چربی سے حاصل کرتے ہیں جبکہ امریکہ میں چربی کا حصہ 34 فیصد ہے۔
محققین نے یہ نتیجہ بھی نکالا کہ ضروری نہیں کہ تسیمانے کے لوگوں کا قدرتی طرز زندگی ہی صرف ان کے صحت مند ہونے کی وجہ ہو،تاہم ایسا قدرتی طور پر بھی ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ تسیمانے قبیلہ کے لوگ جدید دنیا اور ادویات سے دور ہیں تاہم وہ انفیکشن، سوزش و سوجن کا شکار ہوتے ہیں۔
تسیمانے کے لوگوں میں یہ سوزش نظام تنفس کی وجہ یا معدہ کی بیماری یا کسی انفیکشن کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے ۔ جبکہ مغرب میں یہ سوزش موٹاپے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اس کی میٹابولک وجوہات بھی ہیں۔ہماری خوراک میں شوگر کا زیادہ استعمال یا چکنائیاں ہمارے دماغ کے ٹشوز کو نقصان پہنچاتے ہیں جس سے الزائمر کی بیماری بھی ہوسکتی ہے ۔
تسیمانے کے لوگوں کے دماغ پر ہونے والی تحقیق یہ ثابت نہیں کرتی کہ ان کے دماغ کا اندازہ یادداشت کی کمی اور سوچنے کی صلاحیت سے کیا جاسکتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ ان میں بہت زیادہ یاد داشت اور سوچنے کی صلاحیت ہو۔لیکن تحقیق سے یہ بنیادی بات تو واضح ہوئی کہ متوازن خوراک اور حرکت میں رہنا ایک اچھی زندگی کیلئے ضروری ہے ۔ شکاگو میں ماہرین یہ تحقیق بھی کررہے ہیں کہ کیا اچھی خوراک اور ورزش بوڑھے لوگوں میں دماغ کے انحطاط کو کم کرسکتے ہیں۔
پروفیسر شینن ہالوے کا کہنا ہے کہ '' مغرب کے لوگوں کو اپنا طرز زندگی بدلنے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنی عادات میں تبدیلی لے کر آئیں ۔ اپنے ہمسایوں سے خوشگوار تعلقات استوار کریں، جاگنگ یا تیز قدموں سے واک کریں۔ایسی کوئی سرگرمی ضرور کریں جس میں آپ کا دل لگتا ہو‘‘۔