اماں کی مار ۔۔۔۔
اسپیشل فیچر
بچپن میں اماں کی مارتو آپ نے کھائی ہو گی۔کچھ لوگوں نے تو بہت زیادہ کھائی ہوتی ہے۔ لیکن کبھی یہ سوچا کہ اماں ہمیں کیوں اور کب مارا کرتی تھی۔ یاد کریں اماں نے کہا مٹی میں نہیں کھیلنا ہم کھیلے تو اماں نے مارا۔ یاد کریں اماں نے کہا ہاتھ دھو کر کھانا کھانا ہے ہم نے ہاتھ کمر پر رگڑ کر یا قمیص پر رگڑ کر ہاتھ دکھائے کہ اماں ہاتھ صاف ہیں لیکن اماں ہمارا یہ جھوٹ پکڑ لیتی تو مارتی۔ یاد کریں اماں نے کہا بیٹا گالی نہیں دینی ہم نے گالی دی تو اماں نے مارا۔ بہرحال ایسے بہت سے کام آپ کے ذہن میں ابھی آ رہے ہونگے آپ ایک منٹ کیلئے ان کی فہرست اپنے دماغ میں بنا لیں۔ اب ذرا غور کریں۔ اماں نے ایسے کاموں پر نہیں مارا جو کرنے تھے یاہم نے نہیں کیے بلکہوہکہتی تھیں اچھا کوئی بات نہیں بعد میں کر لینا ، چلو ابھی وقت ہے یا چلو کوئی بات نہیں ابھی کر لو۔ لیکن جن کاموں سے منع کرتیں وہ کرنے پر فوراًمار پڑ جاتی۔ اماں اس معاملے میں مار کا ادھار نہ کرتیں، بظاہر تو یہ سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت زندگی میں کامیابی کیلئے جو کام کرنے ہیں ان سے زیادہ اہم وہ کام ہیں جو نہیں کرنے ہوتے۔ اماں کے ٹریننگ سیشن کی سائنس بھی یہی تھی جو ہمیں سمجھ نہیں آئی۔
یاد رکھیں کامیابی کیلئے کیا کرنے سے زیادہ اہم ہے کیا نہیں کرنا۔ وہ تو اماں تھیں مارا سینے سے لگا لیا، من پسند چیز بھی کھانے کو دی مگر دنیا معاف نہیں کرتی۔ جس اماں کو ہم ہٹلر یا ظالم سمجھتے ہیں یا سمجھتے رہے دراصل وہ ایک ایسی انسٹریکٹر تھیں اور ہیں جنہوں نے ہمیں حدود و تمیز کے دائرے میں رہنا سکھایا۔ کیا کبھی آپ نے ان اصولوں کا مطالعہ کیا ہے جو انسان کو درجہ انسانیت پر فائز کیے رکھتے ہیں وہ وہی کام ہیں جن کے کرنے سے ہمارے دین نے منع کیا ہے۔جھوٹ مت بولیں، دھوکہ مت دیں، مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ پائوں اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔ خیانت کرنیوالا مومن نہیں، رشوت لینا دینا حرام ہے۔ جی ہاں یہ ہی ہے اصل راستہ۔ اس کی مثال ٹرین کی سی ہے ٹرین پٹری پر رہے تو سفر جاری رکھ سکتی ہے۔ ہمیں بھی کامیابی کیلئے شاہراۂ حیات پر سفر جاری رکھنا ہے لیکن معلوم ہونا چاہیے ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ۔ آج ہی اپنی حدود کی ایک لسٹ بنائیں کھانے پینے سے لے کر تعلقات تک ۔ معاملات سے اخلاقیات تک۔قول سے فعل تک۔ سوچ سے فکر تک کہ آپ کو کیا نہیں کرنا۔ مجھے کیا نہیں کرنا محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک ایسی پریکٹس ہے اگر آپ اسے اپنانے میں کامیاب ہو جائیں تو قلبی روحانی جسمانی ذہنی سکون بھی میسر آئے گا کیونکہ ہر جگہ اماں ساتھ نہیں ہوتی جو مار کر سمجھا کر سینے سے لگا لے یا ماتھا چومے۔ اماں کی مار کا فلسفہ یہی تھا کہ ہم بندے بن جائیں اور بندہ نام ہے عاجزی و انکساری کا۔ حدود میں رہنے کا۔ نہ کرنیوالے کاموں کا علم ہونے کا اور ان سے رُکے رہنے کا۔ بس ایک آخری جملہ ماں باپ کبھی ان پڑھ نہیں ہوتے غلطی ہماری ہے ہم ماں باپ بننے سے پہلے ان کو سمجھنا نہیں چاہتے یا سمجھ نہیں پاتے۔ زندگی گزارنے اور جینے کا فرق اماں کی چوکھٹ سے ہی ملتا ہے۔