بھر دو جھولی میری یا محمدؐ ... کہانی درویش صفت شاعر ’’پرنم الٰہ آبادی ‘‘کی
اسپیشل فیچر
دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا
یہ ایسا سبق ہے جو پڑھایا نہیں جاتا
جنہوں نے ہجرت دیکھی ۔۔۔کسمپرسی دیکھی زندگی پُرنم گزری۔۔۔وہ تھے پُرنم الہٰ آبادی ۔ اس عظیم شاعر نے اپنے نام کی طرح پُرنم زندگی گزاری ۔ آخری وقتوں میں ان کے کمرے کی منظر کشی کچھ یوں تھی کہ ''کمرہ کیا تھا،ایک چارپائی اُس پر بوسیدہ سا بستر،قریب ایک میز، جس پر ایک جگ گلاس،ایش ٹرے اور چند کتابیں،ساتھ 2 کرسیاں پڑی تھیں۔ ایک دیوار پر نامور قوّال عزیز میا ں کاپوسٹر لگا تھا ۔ ساتھ ہی کپڑے لٹکانے کیلئے کھو نٹی تھی جس پر چند کپڑے لٹکے ہوئے تھے۔کمر ے کے فرش پر پْرانی دری بچھی تھی جس میں سے،کہیں کہیں فرش کی اینٹیں جھانک رہی تھیں۔‘‘
آئیے آج آپ کو سناتے ہیں اس عہد ساز درویش صفت شاعر کی ''کہانی ‘‘۔۔۔۔۔
1940ء میں الٰہ آباد( اترپردیش ) ہندوستان میں پیدا ہوئے نام محمّد موسیٰ ہاشمی، والد کا نام حاجی محمّد اسحاق اور تخلص پُرنم تھا۔ ''لیں کے رہیں گے پاکستان ، بن کے رہے گا پاکستان ‘‘ جب یہ نعرہ حقیقت بنا تو پُرنم جن کی عمر صرف 7برس تھی اپنے آبائو اجداد کے ہمراہ الہٰ آباد کو چھوڑ کر پاکستان آ بسے کراچی ان کی پہلی منزل بنا، شاعری کا شوق بچپن سے تھا جوانی میں قدم رکھتے ہی شاعری کے میدان میں اترے۔یہ جوش ملیح آبادی ، سیماب اکبر آبادی ، حسرت آرزو لکھنوی ، حیدر دہلوی ، قمر جلالوی جیسے ان گنت مقبول و معروف شعراء کا زمانہ تھا ، ایسے باکمال شعراء کی موجودگی میں اپنا آپ منوانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن پُرنم صاحب کو جیسے قدرت نے مشکلات کا سامنا کرنے کا خاص جذبہ عطا کر رکھا تھا ۔ اس دور میں زیادہ تر طرحی مشاعرے ہوا کرتے تھے ، شاعری میں جدت ہر دور میں ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔پُرنم الہٰ آبادی نے روائتی شاعری کی خوبیاں اپناتے ہوئے اپنے کلام کی انفرادیت کو نمایاں کیا ۔ پُرنم شاعری کے میدان میں اپنا آپ منوانے کیلئے اترے تھے انہوں نے اپنی ثابت قدمی اور منفرد اسلوب سے وہ مقام حاصل کر لیا جس کے وہ حقدار تھے ۔ درویش صفت صوفی شاعر تھے عشق میں ڈوب کر لکھتے تھے تو مقبولیت نے قدم بوسی تو کرنا ہی تھی۔پُرنم کوقمر جلالوی کا انداز شاعری بہت پسند تھا اور قمر جلالوی بھی پُرنم سے بہت متاثر تھے ، 1958ء میں قمر جلالوی نے ایک شفیق استاد کی حیثیت سے پُرنم کے عشق میں ڈوبے کلام کی اصلاح کی ، اب پُر نم کی منزل آسان ہو گئی، قمر جلالوی کی اصلاح ، جداگانہ انداز اور عشق میں گندھے الفاظ یہ سب ایک ہوئے تو لازوال کلام تخلیق ہوا۔پُرنم اپنے استادکی تعریف ایک شعر میں یوں بیان کرتے تھے کہ
پُرنم یہ سب کرم ہے قمر کا جو آجکل
ہوتا ہے اہلِ فن میں تمہارا شمار بھی
وقت گزرتا گیا ، کراچی سے پرنم الہٰ آبادی کا دل اچاٹ ہوگیا یا لاہور کی محبت انہیں ستا رہی تھی بہر حال 90ء کی دہائی میں پُرنم کراچی سے لاہور آ گئے اورپھر مرتے دم تک لاہور میں ہی رہے ۔ صوفیا ء اور اولیائے کرام کی نگری لاہور جیسے پُرنم کی منتظر تھی، اس شہر نے پُرنم کو اپنی آغوش میں لے لیا پُرنم انارکلی میں قیام پذیر ہو گئے ان کا کلام زبان زد عام ہونے لگا۔
پُرنم صاحب کی شاعری میں ہر انداز اپنی کمال خوبیوں کیساتھ نظر آتا ہے ، صوفیانہ کلام ہو یا غزلیہ انداز سخن ، غمِ جاناں کی چاشنی ہو یا حسن کی رعنائیاں، عشق مجازی سے لیکر عشق حقیقی تک ہر انداز میں گہرائی ، دلکشی اور بھرپور توازن ملتا ہے ۔ پھر وہ دن بھی آیا جب ان کا یہ کلام قوالی کی صورت میں مقبولیت کی تمام منازل طے کر گیا ، ہر روح کو سرشار کر گیا، گلی گلی یہ کلام پڑھا اور سنا گیا
بھر دو جھولی میری یا محمدؐ
لوٹ کرمیں نہ جاؤں گا خالی
کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو
در پہ آیا ہوں بن کر سوالی
حق سے پائی وہ شانِ کریمی
مرحبادونوں عالم کے والی
اُس کی قسمت کا چمکا ستارہ
جس پہ نظر کرم تُو نے ڈالی
زندگی بخش دی بندگی کو
آبرودینِ حق کی بچا لی
وہ محمدؐ کا پیارا نواسا
جس نے سجدے میں گردن کٹا لی
حشر میں ان کو دیکھیں گے جس دم
اُمتی یہ کہیں گے خوشی سے
آ رہے ہیں وہ دیکھو محمدؐ
جن کے کندھے پہ ہے کملی کالی
عاشقِ مصطفی ؐکی اذاں میں
اللہ اللہ کتنا اثر تھا
عرش والے بھی سنتے تھے جس کو
کیا اذاں تھی اذانِ بلالی
کاش پُرنم دیار نبیؐ میں
جیتے جی ہو بلاوا کسی دن
حالِ غم مصطفیؐ کو سناؤں
تھام کراُن کے روضے کی جالی
اس قوالی کے بعدانکی شہرت کو چار چاند لگ گئے ۔پُرنم الٰہ آبادی ایک عہد ساز شاعر اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔صدرایوب خان کے دورِ حکومت میں انہوں نے جیکب آباد میں ایک مشاعرے میں شرکت کی اس مشاعرے کی صدارت انکے استاد قمر جلالوی نے کی یہ قمر جلالوی صاحب کا آخری مشاعرہ تھا۔یہاں پُرنم الٰہ آبادی نے اپنا کلام سناکر حاضرین کے دل موہ لیے۔ قمر جلالوی 95سال کی عمر میں شدید بیمار ہوئے اور ایسے بیمار ہوئے کہ خالق حقیقی سے جاملے۔ پُرنم الہ آبادی اکثر کہا کرتے تھے کہ استاد قمر کی باتیں اور یادیں تا حیات میں دل سے نہیں بھلا سکتا۔ قمر جلالوی کے جانشین فضا جلالوی مرحوم نے اپنی کتاب ''رشک قمر‘‘ کے دیباچے میں قمر جلالوی کے مشہور اور شاگردانِ خاص میں پُرنم الہ آبادی کا نام بھی تحریر کیاہے۔ پُرنم اسے اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے ۔
پُرنم صرف اچھے شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھے انسان بھی تھے۔ ایک شاعر کی حیثیت سے انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے ادبی اور شعری سفر جاری رکھا۔ان کے کلام سے انکی فکر میں گہرائی اور لہجے میں دلکش توازن و متانت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی پسندیدہ صنف سخن غزل تھی لیکن اکثر شعری خیالات تصوف میں رنگے ہیں۔
پُرنم صاحب کے بارے میں انکے دوستوں کا کہنا تھا کہ وہ ابتدا ء ہی سے کم گوتھے ، کبھی کسی کو اپنا دکھ نہیں بتاتے تھے اور نہ ہی کسی سے کبھی کچھ طلب کیا۔ بس شاعری کا جنون تھا اور آخر کار پُرنم نے کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ کر سب کو حیران کردیا۔
زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے صوفیانہ طرز زندگی اپنالیا انکی لکھی نعتیں، قوالیاں اور گیت آج بھی مقبول ہیں اور سامعین کو کیف و سرور بخشتی ہیں۔بھارتی فلموں میں انکے لکھے کئی گیت شامل کئے گئے۔منّی بیگم، غلام فرید صابری قوال، نصرت فتح علی خان اور عزیز میاں قوال کی آوازنے ان کے کلام کو مزید حسن بخشا۔ ان کا یہ کلام بھی زبان زد عام ہوا
تمہیں دل لگی بھول جانی پڑے گی
محبت کی راہوں میں آ کر تو دیکھو
تڑپنے پہ میرے نہ پھرتم ہنسو گے
کبھی دل کسی سے لگا کر تو دیکھو
لاہور میں پُرنم صاحب اپنے کمرے میں ایک خاص محفل برپا کرتے تھے جس میں چند شاعر دوست اپنا کلام بھی سناتے تھے ۔کبھی کبھی دہلی مسلم ہوٹل میں مقیم کتھک مہاراج کے کمرے میں بھی محفل سجا کرتی تھی ،پھر پرنم صاحب کراچی چلے گئے۔کچھ عرصہ بعدکراچی سے واپسی پر ان کی طبیعت ناسازرہنے لگی۔کسی نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے شہرت کی بلندی پر ،فن کا بھرا میلہ کیوں چھوڑا؟ تو انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور آہستہ سے کہا؛'' بس بھیّا !کیا کہیں اچانک اِس چکا چوند سے جی بھر گیا تھا ، شاید قدرت کو یہی منظور تھا۔یوں سمجھ لیں کہ ایک امتحان تھا ، الحمدللہ ! سرکار کے کرم سے ہم سر خرو ہوئے،ابھی تو ایک اور امتحان سر پر ہے۔‘‘
آخر 29جون 2009 ء کوادبی افق پر جگمگانے والے پُرنم ہر آنکھ کو پُرنم کر گئے،مگروہ اپنے کلام کی صورت میں آج بھی لاکھوں دلوں میں زندہ ہیں۔ پُرنم صاحب کی کتاب ''عشق محمدؐ‘‘ اقبال پیام شجاع آبادی نے شائع کی۔ شاعری کی دنیا میں یہ نام غالب ، مومن، داغ، جگر ،فراق اور اقبال کی طرح زندہ و پائندہ رہے گا۔آخر میں پُرنم الہٰ آبادی کے چند اشعارملاحظہ کیجئے
وہ آنکھ میرے لیے نم ہے کیا کیا جائے
اسے بھی آج مرا غم ہے کیا کیا جائے
---
یہ کہہ کے آگ وہ دل میں لگائے جاتے ہیں
چراغ خود نہیں جلتے جلائے جاتے ہیں
---
افسردگی بھی رُخ پہ ہے ان کے نکھار بھی
ہے آج گلستاں میں خزاں بھی بہار بھی
---
رو دئیے وہ بھی مری موت کے بعد اے پُرنم
یاد جب میری وفاؤں کے فسانے آئے