افسانچہ،ساون کے دن
اسپیشل فیچر
ساون کے دن تھے، کبھی دھوپ تو کبھی بارش اور کبھی حبس۔۔پچھم سے اس قدر گہرے بادل آئے کہ'' شاداں کی آواز گونجی''بچو جلدی سے چارپائیاں اندر کرو، سیاہ بادل گھر کر آئے ہیں ضرور برسیں گے‘‘۔ فرصت کے زمانے تھے، گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اور سب پڑھنے والے اور گھر کے دیگر افراد گرمیوں میں درختوں کے نیچے بیٹھ جایا کرتے تھے۔ گھر کھلا تھا ، آنگن میں ایک لسوڑے کا درخت سب کیلئے آرام گاہ تھا، اس کے بڑے بڑے پتے سورج کی روشنی کو نیچے آنے سے روک دیتے تھے، ایسی گھنی چھائوں ہوتی کہ گھنٹوں بیٹھنے کو دل کرتا۔ بجلی چلی جاتی تو تپتی گرمیوں میں یہی لسوڑے کا درخت گھر بھر کیلئے سکون کا باعث ہوتا تھا۔
آنگن میں بکھری چارپائیاں پرچھتی پر اور کچھ برآمدے میں رکھی جاچکی تھیں، گھنگور گھٹا ایسی آئی کے روشن دن میں یک لخت شام کا گماں ہونے لگا، ساتھ ٹھنڈی ہوا نے کئی دنوں کے پسینے سے شرابور جسموں کو ایسے سرد کیا جیسے کسی نے برف کی سل ہی ڈال دی ہو۔ باد ل گرجے، بجلی چمکی اور اس زور کی بارش ہوئی کہ جل تھل ہوگیا۔لسوڑے کے درخت کے پتوں سے بارش کا پانی ٹپک رہا تھا، لسوڑے جو کہ کافی دن پہلے اتارے جاچکے تھے اب چیدہ چیدہ پکے ہوئے لسوڑے جو رہ گئے تھے گر رہے تھے ۔ اور چھوٹے بچے اٹھا اٹھا کر کھارہے تھے۔ شاداں جو چند لمحے پہلے پورے گھر میں سامان کو سنگوانے کے لئے بھاگی پھر رہی تھیں اب آرام سے چارپائی پر بیٹھی تیز بارش کو اور لسوڑے کے درخت کو دیکھ رہی تھی۔ گلیوں میں پانی بھرگیاتھا، محلے کے لڑکے بالے بارش کے پانی میں نہاتے پھر رہے تھے ۔
تقسیم کے بعد جب شاداں اور اس کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان آیا تھا تب سے وہ اس گھر کو سنوارنے میں لگی ہوئی تھی، لسوڑے کا درخت بھی اس نے منگواکرلگایا تھاکیونکہ اپنے وطن گڑگائوں کے لسوڑے اسے بہت پسند تھے۔اسی لئے یہاں بھی لسوڑے کا درخت لگوایا گیا۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر کے سب بچے جھولے ڈال لیتے اور خوب مزے کرتے۔کھانا بھی جھولے میں بیٹھے بیٹھے کھایا جاتا۔ شاداں اس درخت کا بہت خیال رکھتی جیسے کسی اپنے بچے کا خیال رکھتی ہو۔
درخت کے قریب ہی پانی کا نلکا تھاجہاں سے پانی اس درخت کو دیا جاتا اور جب پھل لگنے کے قریب ہوتا تو خاص کھاد منگواکر ڈالی جاتی تاکہ پھل زیادہ لگے، پھر گرمیوں میں لسوڑے اور آم کا اچار ڈلتا جو پورا سال چلتا تھا۔ مرتبان بھرجاتے، کبھی کبھی ہمسایوں کو بھی بجھوادیا جاتا۔ بیسن کی روٹی ، لسوڑے کا اچار اور لسی عجب ہی لطف دیتی تھی۔ اسی درخت کے نیچے گھر بھر کے کپڑے دھلتے اور فارغ ہوکر اسی کے نیچے چارپائیاں ڈال لی جاتیں، کبھی کبھی محلے کی لڑکیاں بھی ٹھنڈی چھائوں لینے اور اماں سے ملنے کیلئے آتی تو اسی کے نیچے بیٹھتیں۔ بچے اپنے اپنے کھیل بھی کھیلتے تو کبھی درخت پر چڑھ جاتے اور کبھی اس کے نیچے پہاڑیاں بناتے۔اسے گھر میں مرکزی حیثیت حاصل تھی، گھر کی رونق اسی کے دم سے تھی ۔ شاداں خوشی سے نہال ہوجاتی جب محلے کی لڑکیاں اس کے گھر آتیں اور خوب ہلا گلا ہوتا۔ کہیں کھسیانی ہنسی ہنسی جارہی ہے تو کہیں بالوں کی چٹیا بن رہی ہے اور کہیں مہندی لگ رہی ہے ۔ شاداں تھوڑ ا بہت بڑھی ہوئی بھی تھی اس لئے وہ محلے کے بچوں کو پڑھا دیا کرتی تھی۔ اس کا شوہر جب کام سے واپس آتا تو محلے کی لڑکیاں تتر بتر ہوجاتیں اور لسوڑے کا درخت پھر سنسان ہوجاتا۔ پھر بیٹھنا برآمدے میں ہوتا اور بچے بھی سہم کر بیٹھ جاتے۔ کام کاج کی بات ہوتی ، ملکی سیاست پر اس کا شوہر دو چار باتیں کرتا اور کڑھتا۔
ایک دن جب اس نے کہا کہ لسوڑے کے درخت کی وجہ سے گھر میں بہت تنگی اور گند ہے کیوں ناں اسے کاٹ دیا جائے تو شاداں نے پہلی مرتبہ غصے سے بات کی تھی اور کہا تھا کہ میرے ہوتے ہوئے یہ کٹ نہیں سکتا۔ لسوڑے کی درخت کی ٹھنڈک لینے کے لئے سب بچے بھی دل ہی دل میں شاداں کی حمایت کرنے لگے۔ اس دن کے بعد اس کے شوہر نے کوئی بات نہ کی ۔ لیکن پھر محلے میں گھر بننے لگے اور درخت کٹنے لگے۔ آباد ی بڑھی تو مکان بننے سے سبزہ ختم ہونے لگا۔ بچے بڑے ہوگئے تو شاداں کے شوہر نے بھی کہا کہ اب گھر میں کمروں کی ضرورت ہے ، لسوڑے کا درخت کاٹنا پڑے گا۔ یہ سن کر شاداں غم سے سوکھ گئی لیکن مجبور تھی کہ کمروں کی ضرورت تھی، بچوں کی شادیاں کرنی تھیں۔ پھر ایک دن شاداں کے شوہر نے چند مزدور بلائے جو آری لئے ہوئے تھے اور بد ھ کے روز لسوڑے کا درخت کٹ گیا، اسی شام شاداں کو بخار ہوا اور وہ بستر سے لگ گئی۔ لسوڑے کا درخت کیا کٹا گھر کی رونق ختم ہوگئی۔ بڑا بیٹا اپنے لئے کمرہ بنانا چاہتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے سسرال والے بڑے لوگ ہیں ، اسے گھر میں ایک اچھے کمرے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عزت سے انہیں بٹھا سکے۔ لسوڑے کا درخت کٹا تو ساتھ ہی پانی کا نلکا بھی اکھاڑ دیا گیا کیونکہ یہ بھی کمرے کی جگہ پر آرہا تھا۔بالاخر صحن کھلا ہوگیا اور لسوڑے کا برسوں کا درخت کٹنے کے بعد ایسی دھوپ صحن پر پڑی کی سب کے پسینے چھوٹ گئے۔
اگلے دن صبح بڑا بیٹا اٹھا تو اس نے دیکھا کہ شاداں درخت کی جڑ کے پاس گری پڑی ہے۔ اس نے ذرا ہلایا تو اس میں جان ہی نہیں تھی۔ گھر کے دو درخت کٹ چکے تھے۔