مقبرہ جہانگیر۔۔عہد رفتہ کی عظیم یادگار

مقبرہ جہانگیر۔۔عہد رفتہ کی عظیم یادگار

اسپیشل فیچر

تحریر : عون و محمد


مغل بادشاہ جہانگیر کا اصل نام سلیم تھا جو 1564ء میں شہنشاہ اکبر کے ہاں راجپوت رانی مریم الزمانی کے بطن سے پیدا ہوا۔ 1605ء میں تخت نشین ہوا اور قریباً ساڑھے اکیس سال نہایت شان سے حکومت کرکے 8نومبر 1627ء کو کشمیر سے لاہور واپس آتے ہوئے راجوری کے مقام پر فوت ہوا۔ اُسے دریائے راوی کے کنارے واقع ملکہ نور جہاں کے باغ دلکشا کے وسط میں دفن کیا گیا۔ اس باغ کو جہانگیر نے باغ دل آمیز کے نام سے بھی یاد کیا ہے۔ جہانگیر کا مقبرہ اُس کے بیٹے شاہجہاں نے بنوایا تھا۔مقبرۂ جہانگیر کو مغلیہ عہد میں تعمیر کئے گئے مقابر میں اہم مقام حاصل ہے۔ دریائے راوی کے دوسرے کنارے یعنی شاہدرہ کی طرف سے لاہور آئیں تو مغلیہ دور کی تعمیرات میں سے مقبرۂ جہانگیر، مقبرہ آصف جاہ اور ملکہ نور جہاں کا مقبرہ نمایاں نظر آتے ہیں ان کا شمار مغلوں کی تعمیر کردہ حسین یادگاروں میں ہوتا ہے۔
مقبرہ ٔجہانگیر باغ ''دلکشا‘‘ میں واقع ہے۔ باغ دلکشا نواب مہدی قاسم کی ملکیت تھا جو اکبر بادشاہ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھا۔ اُس نے یہ باغ 1556ء میں دریائے راوی کے پار بنوایا تھا، نواب مہدی خاں کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ جب مہر النساء بیگم ملکہ نور جہاں بنی تو اس نے اس کا نام باغ دلکشا رکھ دیا۔ اب لوگ باغ دلکشا کا نام بھول چکے ہیں اور اس ساری جگہ کو مقبرہ جہانگیر ہی کہا جاتا ہے۔ مقبرہ جہانگیر کی تعمیر کا آغاز ملکہ نور جہاں نے کیا تھا اور شاہ جہاں نے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ شہنشاہ اکبر کی وفات سن 1605ء میں ہوئی تو اس کا بیٹا جہانگیر ''نور الدین جہانگیر‘‘ کے لقب کے ساتھ تخت نشیں ہوا کیونکہ شہنشاہ اکبر کے2بیٹے مراد اور دانیال پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ جہانگیر 20 ستمبر 1569ء کو فتح پور سیکری میں پیدا ہوا، تخت نشین ہونے کے بعد اس نے کئی اصلاحات کیں۔ فریادیوں کی داد رسی کے لیے اپنے محل کی دیوار کے ساتھ ایک زنجیر لگوا دی جسے'' زنجیرِ عدل‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ زنجیر عدل بہت مشہور ہوئی جس کے ذریعے ہر کوئی اپنی شکایت بآسانی بادشاہ تک پہنچا سکتا تھا۔ یہ زنجیر 30 گز طویل تھی اور اس کے ساتھ سونے کی60 گھنٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اس کو بادشاہ کے ذاتی کمروں میں موجود طلائی گھنٹیوں کے ایک جھرمٹ سے وابستہ کیا گیا تھا۔ شہنشاہ جہانگیر نے حکم دیا کہ شاہراہوں پر سرائے، کنویں اور مساجد تعمیر کی جائیں۔
شہنشاہ جہانگیر کو بھی اپنے باپ اکبر کی طرح لاہور سے بہت زیادہ لگائو تھا اس نے 1622ء میں لاہور کو دارالسلطنت بنا لیا۔ 1624ء میں جب کشمیر کے سفر کے دوران اس کی وفات ہوئی تو اس نے وفات سے قبل لاہور میں دفن کیے جانے کی خواہش ظاہر کی تھی چنانچہ اسے چہیتی بیگم ملکہ نور جہاں کے باغ دلکشا میں دفن کیا گیا۔ شاہ جہاں نے مقبرے کی تعمیر پر10 لاکھ روپے خرچ کیے تھے اور اخراجات کیلئے جاگیر مقرر کی گئی تھی۔ قرآن پاک پڑھنے کیلئے حفاظ مقرر کئے گئے جو باری باری ہر وقت مزار پر قرآن مجید پڑھا کرتے تھے، یہ سلسلہ سکھوں کے عہد حکومت میں ختم کر دیا گیا۔
مقبرہ جہانگیر کی حدود میں ملکہ نور جہاں نے ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ یہاں نور جہاں نے کافی عرصہ رہائش بھی اختیار کی اس لیے یہاں رہائشی عمارات بھی تعمیر کی گئی تھیں۔ ملکہ نور جہاں اور شہنشاہ جہانگیر کے مقبرے ایک ہی رقبے میں تھے لیکن جب انگریزوں نے ان کے درمیان ریلوے لائن بچھائی تو مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا گیا۔
مقبرہ جہانگیر کے چاروں کونوں پر خوبصورت مینار موجود ہیں ہر مینار100 فٹ بلند ہے اور اس کی61 سیڑھیاں ہیں۔ مقبرے کی عمارت ایک مربع نما چبوترے پر ہے۔ قبر کا تعویذ سنگ مرمر کا ہے اور اس پر عقیق، لاجورد، نیلم، مرجان اور دیگر قیمتی پتھروں سے گلکاری کی گئی ہے۔ دائیں اور بائیں اللہ تعالیٰ کے99 نام کندہ ہیں، سرہانے کی طرف بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی ہوئی ہے، پائنتی کی طرف یہ تحریر درج ہے ''مرقد منور اعلیٰ حضرت غفران پناہ نور الدین جہانگیر بادشاہ 1036 ہجری‘‘۔
مزار کے چاروں جانب سنگ مرمر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں جو سخت گرم موسم میں بھی ہال کو موسم کی حدت سے محفوظ رکھتی ہیں۔ مقبرے کا اندرونی فرش سنگ مرمر، سنگ موسیٰ اور سنگ ابری جیسے مختلف قیمتی پتھروں سے مزین ہے۔
باغ دلکشا کے اندر پختہ روشیں اور راہداریاں موجود ہیں۔ مقبرہ ٔجہانگیر کا غربی دروازہ جس میں سے ہاتھی بمعہ سوار کے گزر سکتا تھا اور چار دیواری کے باہر جو 4 بہت بڑے کنویں تھے دریا برد ہو چکے ہیں صرف ایک کنواں اب بھی موجود ہے۔ باغ کے اندر آج بھی کھجور کے قدیم درخت موجود ہیں۔ باغ کی دیواروں کے ساتھ کمروں کی ایک لمبی قطار موجود ہے جہاں شاہی محافظ، سپاہی اور خدام رہا کرتے تھے۔ مقبرہ ہشت پہلو اور اندر سے گنبد نما ہے۔ مقبرہ کے میناروں سے لاہور شہر کا خوبصورت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔شہنشاہ جہانگیر مصوری اور فنون لطیفہ کا بہت شوق رکھتا تھا اس نے اپنے حالات اپنی کتاب ''تزک جہانگیری‘‘ میں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس کتاب میں شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں کے عشق و محبت کے دلچسپ قصے بھی درج ہیں۔نادر شاہ اور احمد شاہ کے حملوں اور سکھوں کے دور میں مقبرہ جہانگیر کو بہت نقصان پہنچا۔ سنگ مرمر کی جالیاں اور قیمتی پتھر اکھاڑ لیے گئے اس کے باوجود یہ عمارت آج بھی بڑی شان و شوکت کے ساتھ کھڑی ہے اور عہدِ رفتہ کی یاد دلاتی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
انسانی آنکھ کی پتلی

انسانی آنکھ کی پتلی

دور ِ جدید میں سائنس کی ترقی جہاں انسانی زندگی کیلئے دیگر بہت سی آسانیاں پیدا کر رہی ہے، وہاں صحت کے شعبے میں بھی کئی قابل قدر جدتیں ہوئی ہیں اور کئی ایسی تحقیقات جاری ہیں جن کی کامیابی انسانی اعضاء کی کارکردگی میں انقلابی تبدیلی لانے کا سبب بنے گی۔ آنکھ ہی کولے لیں، جو انسانی جسم کا ایک حساس ترین عضو ہے مگر کچھ جدید تحقیقات کی مدد سے ہماری آنکھ کی کارکردگی میں نمایاں بہتری کا امکان نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں آسڑیلیا کی یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز اور امریکہ کی شہرہ آفاق سٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیقات قابل ذکر ہیں جن سے انسانی بینائی میں انقلابی تبدیلی کا امکان ہے۔نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے سائنسدان ایک ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جس کی مدد سے انسانی آنکھ کے ریٹینا (پردۂ چشم) میں سولر پینل لگا کر بینائی کو بحال کیا جا سکے گا۔''نیورو پروستھیٹکس‘‘ (Neuro prosthetics)دنیا بھر میں ایک ابھرتا ہوا سائنسی میدان ہے، جس میں ایسے آلات کی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے جو اعصاب سے منسلک ہو کر غیر فعال انسانی اعضا ء کو دوبارہ فعال کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال ''کوکلیئر امپلانٹ‘‘(cochlear implant) ہے جسے عشروں سے سماعت کی بحالی کیلئے کان میں نصب کیا جا رہا ہے۔ اسی تصور سے متاثر ہو کر یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز کے محققین ایسے آلات کی تیاری پر کام کر رہے ہیں جن کی مدد سے نابینا یا عمر رسیدہ افراد کی بصارت کو بحال کیا جا سکے گا، تاہم آنکھ کی ساخت اور حساسیت کے باعث اس عمل میں کئی پیچیدگیاں حائل تھیں۔ یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے سائنسدان ڈاکٹر اوڈو رؤمر نے ان مسائل کا حل سولر پینل کی صورت میں نکالا ہے۔ اس تحقیق سے امید پیدا کی جارہی ہے کہ جلد ہی نابینا اور معمر افراد کی بصارت کو بحال کرنا ممکن ہو جائے گا۔ڈاکٹر اوڈو رؤمر نے اس تحقیق کے بارے جرمن نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انسانی آنکھ کے ریٹینا یا پردۂ چشم میں کچھ خاص سیل ہوتے ہیں جنہیں ''فوٹو ریسیپٹرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ '' فوٹو ریسپیٹرز‘‘ بیرونی ماحول سے آنکھ میں پڑنے والی روشنی کو سگنلز میں تبدیل کر کے دماغ تک بھیجتے ہیں۔ڈاکٹر رؤمر کے مطابق ان ہی ''ریسیپٹرز‘‘ کی مدد سے ہم دن اور رات میں مختلف رنگوں یا اندھیرے کا احساس کرتے ہیں۔ بصارت کے زیادہ تر مسائل جیسا کہ عمر کے ساتھ بینائی کم ہونا وغیرہ ان فوٹو ریسیپٹرز میں خرابیوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کان میں سماعت کیلئے لگائے جانے والے آلے کی سرجری'' کوکلیئر امپلانٹ‘‘ کئی عشروں سے کی جا رہی ہے، اسی طرز پر آنکھ میں خراب فوٹو ریسیپٹرز کو فعال کرنے کیلئے بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے پر سائنسدان ایک طویل عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے کا ایک قابل عمل طریقہ یہ ہے کہ ریٹینا میں وولٹیج پلس بنانے کیلئے الیکٹروڈز استعمال کیے جائیں، لیکن اس کیلئے آنکھ میں وائرنگ کرنا ہو گی، جو ایک انتہائی پیچیدہ سرجری ہے۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق چھوٹے سائز کے سولر پینلز وائرنگ اور الیکٹروڈز کا ایک بہتر متبادل ہو سکتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سولر پینل آنکھ کی پتلی کے ساتھ نصب کیے جائیں تو یہ سورج کی روشنی کو الیکٹرک پَلس میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ پلسز دماغ تک پہنچ کر وہاں ایسا سگنل پیدا کرتی ہیں جس سے بصارت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رؤمر کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے سولر پینلز پورٹیبل ہیں اور آنکھ میں ان کو لگانے کیلئے کیبلز یا وائرنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس تکنیک پر دنیا بھر میں کئی سائنسدان کام کر رہے ہیں مگر زیادہ تر محققین نے اپنے تجربات کیلئے سیلیکون سے بنے آلات استعمال کیے ہیں جبکہ ان کی توجہ کا مرکز دیگر سیمی کنڈکٹر مرکبات جیسے گیلیئم آرسینائڈ اور گیلیئم انڈیم فاسفائیڈ پر ہے، جن کی خصوصیات کو باآسانی اور حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے محقق ڈاکٹر رؤمر بتاتے ہیں کہ یہ مرکبات اپنی افادیت اور سستے ہونے کے باعث سولر پینل انڈسٹریز میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق دماغ میں نیورونز کو متحرک کرنے کیلئے زیادہ وولٹیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ گیلیئم آرسینائڈ کے تین سولر سیلز سے اتنا وولٹیج پیدا کیا جاسکتا ہے جو دماغ تک سگنل یا پلس پہنچا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک ان کی ٹیم نے لیبارٹری میں دو سولر سیلز کو تقریبا ایک مربع سینٹی میٹر کے رقبے پر ایک دوسرے کے اوپر لگایا ہے جس کے نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کا مزیش کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں انہیں بصارت کیلئے درکار پکسل سائز میں لانا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی ان سولر پینلز کو باحفاظت الگ کرنے کیلئے مناسب تکنیک بھی استعمال کرنی ہو گی۔ڈاکٹر رؤمر کہتے ہیں کہ جب ان کی ٹیم دو سولر سیلز کے ساتھ ان تمام مراحل کو کامیابی سے عبور کر لے گی تو اس کے بعد پھر تین سولر سیلز جوڑنے پر کام کیا جائے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جانوروں پر مرحلہ وار ٹیسٹنگ کے بعد جب یہ ڈیوائس انسانوں کیلئے دستیاب ہو گی تو اس کا ممکنہ سائز دو مربع ملی میٹر تک ہو گا۔ اس سے قبل امریکہ میں بھی سائنسدانوں نے ایک ایسی مصنوعی آنکھ تیار کی ہے جو سولر پینل کی طرح روشنی سے چارج ہوتی ہے۔ سائنسدان پہلے بھی مصنوعی یا مشینی آنکھ تیار کر چکے ہیں مگر انہیں بیٹری سے چارج کرنا پڑتا ہے۔اس مصنوعی آنکھ میں ریٹینا کو ٹرانسپلانٹ کر کے مریض کی قوتِ بصارت کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی سٹینفوڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی تیار کردہ اس ''بائیونک آئی‘‘ کے بارے میں تحقیق سائنسی جریدے ''نیچر فوٹونکس‘‘ میں رپورٹ شائع ہو چکی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ اس آنکھ میں خصوصی شیشوں کی جوڑی کی مدد سے انفراریڈ شعاعوں جیسی روشنی کو آنکھوں میں بھیجا جاتا ہے جس سے ٹرانسپلانٹ کیے گئے ریٹینا کو توانائی ملتی ہے اور وہ ایسی معلومات مہیا کرتا ہے جن سے مریض دیکھ سکتا ہے۔ اکثر لوگوں کی آنکھوں میں بڑھاپے سے ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن سے وہ خلیے مر جاتے ہیں جو کہ آنکھ کے اندر روشنی کو وصول کرتے ہیں۔ آگے چل کر یہی علامات اندھے پن میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔تاہم اس مصنوعی ریٹینا میں آنکھوں کے پیچھے کی وریدیں مرتعش رہتی ہیں جن سے کئی بار آنکھوں کے مریضوں کو دیکھنے میں مدد ملتی ہے ۔سٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے مطابق اس طریقہ میں ٹرانسپلانٹڈ ریٹینا سولر پینل کی طرح کام کرتا ہے جسے آنکھ کے پیچھے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ویڈیو کیمرے سے منسلک شیشوں کا ایک جوڑا آنکھ کے سامنے ہونے والی تمام چیزوں کو ریکارڈ کرتا ہے اور انہیں انفراریڈ کے تقریباً برابر شعاؤں میں بدل کر ریٹینا کی جانب بھیجتا ہے۔اس مصنوعی ریٹینا کا ابھی انسانوں پر تجربہ نہیں کیا گیا ہے مگر چوہوں پر اس کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ 

اکثر طالب علموں کا شکوہ اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی !

اکثر طالب علموں کا شکوہ اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی !

''جب بھی میں کتاب کھولتا ہوں فوراً سستی چھا جاتی ہے۔ ذرا سی دیر میں سارا بدن تھکا تھکا سا محسوس ہوتا ہے اور فوراً اونگھ آنے لگتی ہے۔ یوں کتاب کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے‘‘۔ اکثر طالب علم اس بات کی شکایت کرتے ہیں اور ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس اس کے مداوے کیلئے حاضر ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں!علاج اس کا بھی کچھ اے چارہ گراں ہے کہ نہیں......وجوہاتموقع بے موقع اونگھ اور نیند کا آنا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جائے جس میں نہ کوئی دلچسپی ہو اور نہ لگائو اور ذہنی و جسمانی طور پر وہ اس سے رتی بھر مطمئن نہ ہو۔اس کے علاوہ موقع بے موقع ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے پینے، ورزش کی کمی یا بعض بیماریوں مثلاً ذیابیطس وغیرہ میں بھی بندہ ہر وقت بہت سستی محسوس کرتا ہے اور سویا سویا رہتا ہے۔ نوجوانوں میں ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انہیں ان کی پسند کا کام نہ ملے۔ انہیں ایسے مضامین پڑھنے پر مجبور کر دیا جائے جن میں ان کی ذرا دلچسپی نہ ہو۔ اس کے علاوہ وہ طالب علم جو باقاعدگی سے اپنا کام نہیں کرتے اور امتحان کے دنوں میں افراتفری میں پڑھائی شروع کرتے ہیں، ان میں اس کی خاصی شکایت ہوتی ہے کیونکہ جب پلاننگ کے بغیر اور بے قاعدگی سے کوئی کام شروع کیا جائے تو ذہن جسم کا ساتھ نہیں دیتا اس لیے وہ کام شروع کرتے وقت بندہ سست اور پژمردہ ہو تا ہے اور کام یا پڑھائی شروع کرتے ہی نیند آ جاتی ہے۔علاج اور بچائوجو طالب علم زیادہ اونگھ اور پڑھائی کے دوران نیند آنے کے مسئلہ کا شکار رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ مندرجہ ذیل باتوں پہ عمل کریں۔ اس سے اس طرح کے مسائل پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔(1)۔ذہن اور جسم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جسم کو صحت مند رکھنے کیلئے تازہ ہوا، مناسب آرام، باقاعدہ ورزش وغیرہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جسم صحت مند ہوگا تو ذہن بھی اس کے ساتھ ساتھ چلے گا اور آپ جو کام کریں گے آپ کا ذہن آپ کا پورا ساتھ دے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے مندرجہ بالا امور کا خیال رکھا جائے۔ ان میں کوئی چیز کم ہے تو اس کمی کو پورا کر نے کی کوشش کریں۔(2)۔روزانہ اور وقت پر کام کرنے سے بہت سی پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ جو اپنا کام باقاعدگی سے کرتے ہیں وہ بہت کم پریشانیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ باقاعدگی کو زندگی کا شعار بنائیں۔ جو کام آج کرنا ہے اسے آج ہی کریں۔ اس سے آپ ہمیشہ کامیاب ہوں گے اور کامیابیاں آپ کا مقدر بنیں گی اور کبھی بھی پڑھائی کرتے وقت اونگھ یا نیند آپ کو تنگ نہیں کرے گی۔(3)۔بعض نوجوانوں میں خواہ مخواہ کا ''سٹڈی فوبیا‘‘ ہوتا ہے جسے پڑھائی سے ڈر کہتے ہیں۔ جب کبھی ایسا مسئلہ در پیش ہو، صدق دل سے اللہ سے مدد مانگیں اور ذہن خالی کر کے اپنی پڑھائی میں لگ جائیں۔ انشاء اللہ کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوگا۔ (4)۔ایک سنہری اصول یہ ہے کہ جب کبھی بھی آپ بہت زیادہ پریشانی اور ذہنی دبائو کا شکار ہوں تو اس دوران ذہن پر مزید بوجھ نہ ڈالیں بلکہ اپنے آپ کو بالکل فارغ چھوڑ دیں۔ کچھ دیر کیلئے آرام کریں، باہر گھومیں پھریں۔ چائے کا ایک کپ نوش کریں اور اس کے بعد جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر Relax کریں اور اب ذہن کو فریش کر کے کام کی طرف لگیں۔(5)۔بعض طالب علم زیادہ تر جاگنے کیلئے بعض دوائوں کا بھی استعمال کرتے ہیں، جن کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ اصل میں تمام دوائیں کیمیکل اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں اور جب یہ جسم میں داخل ہوتی ہیں تو جسم پر کوئی نہ کوئی مضر اثر ضرور چھوڑتی ہیں اس لیے ان سے پرہیز بہت ضروری ہے۔(6)۔اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض طالب علم امتحان کے دنوں میں کھاتے پیتے بہت ہیں اور فکر و پریشانی کی صورت میں زیادہ کھا یا پی کر سکون اور فرار ڈھونڈتے ہیں اور یوں ہر وقت سسترہتے ہیں اور اونگھتے رہتے ہیں۔(7)۔امتحان کے دنوں میں بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم اپنی خوراک کو صحیح رکھیں۔ زیادہ چٹ پٹے اور مصالحہ دار کھانوں سے پرہیز کریں۔ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ اس سے آپ تندرست اور توانا اور فریش رہیں گے اور اونگھ یا نیند کبھی تنگ نہیں کرے گی۔٭...٭...٭ 

آج کا دن

آج کا دن

اپالو10کی لانچنگ16 اپریل 1972ء کو امریکی خلائی مشن ''اپالو10‘‘ اپنے مشن پر روانہ ہوا۔ یہ چاند پر اترنے والا پانچواں مشن تھا۔ ''اپالو‘‘ ناسا کا ایک خلائی پروگرام تھا جس میں متعدد خلائی جہاز چاند پر بھیجے گئے۔ اس مشن کا مقصد چاند کی سطح پر لمبے عرصے کیلئے قیام کرنا،سائنسی معلومات اکٹھی کرنا،لونر کا استعمال کرنا اور تصاویر لینا شامل تھا۔اپالو کے ذریعے ماہرین نے چاند پر ایک ایسی جگہ کوتلاش کیاجس کے متعلق کہا گیا کہ یہاں آتش فشاں پھٹا ہے ۔لبنان پراسرائیلی حملہ1996ء میں آج کے روز اسرائیل نے ہیلی کاپٹروں سے لبنان پر میزائل فائر کئے، جس کے نتیجے میں متعدد لبنانی شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر نے اسرائیل کی حدود سے 8کلومیٹر دور اس وقت ایک ایمبولینس پر میزائل داغا جب وہ اقوام متحدہ کی ایک چوکی سے گزر رہی تھی۔ اس گاڑی میں 13 افراد سوار تھے۔ یہ حملہ اسرائیل کی طرف سے ''آپریشن گریپس آف ریتھ‘‘ کے نفاذ کے اعلان کے فوراً بعد کیا گیا ۔باگا کا قتل عامباگا کا قتل عام 16 اپریل 2013ء کو بورنو ریاست کے گاؤں باگا، نائیجیریا سے شروع ہوا۔ اس قتل عام میں 200 سے زیادہ شہری ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ کروڑوں مالیت کی املاک نذر آتش کر دی گئیں۔ تقریباً 2 ہزار سے زائد گھر اور کاروباری مراکز تباہ کر دیئے گئے۔ مہاجرین، شہری حکام اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے نائیجیریا کی فوج پر قتل عام کا الزام لگایا۔ فوجی حکام نے باغی گروپ بوکو حرام کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا۔ایکواڈور میں زلزلہ2016ء میں آج کے دن ایکواڈور میں شدید زلزلہ آیا۔اس زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی، یہ ایکواڈور میں آنے والے بدترین زلزلوں میں سے ایک تھا۔جن علاقوں میں زلزلے کا مرکز تھا وہاں ہلاکتوں کی تعداد 75فیصد سے زیادہ تھی۔مانتا کا مرکزی تجارتی شاپنگ ڈسٹرکٹ'' تارکی‘‘ سمیت متعدد عمارتیں گر تباہ ہو گئیں۔  

شاہ جہانی تخت وتاج کے وارث عالمگیر کا جلوس

شاہ جہانی تخت وتاج کے وارث عالمگیر کا جلوس

عالمگیر نے شجاع اور داراشکوہ کو آخری بار شکست دی تو اس نے اپنے کو شاہ جہانی تخت و تاج کا وارث سمجھا، اس لئے وہ اپنی جنگی مہم سے دہلی واپس آیا تو باضابطہ تخت نشینی کی رسم ادا کی، اس موقع پر وہ دہلی میں داخل ہونے سے پہلے دہلی کے نواح خضر آباد میں ٹھہرا، نجومیوں نے دہلی کے اندر داخل ہونے کیلئے جو نیک ساعت مقرر کی تھی، اسی وقت پہلے نفیری، طنبورے، نقارے، برنجی، ڈھول اور شہنائی بجانے والے داخل ہوئے۔ اس کے بعد ہاتھیوں کی قطاری بڑھیں، ان پر طلائی اور نقرئی جھولیں پڑی تھیں۔ یہ جھولیں مخمل اور زربفت کی تھیں جن میں قیمتی آب دار موتی ٹکے ہوئے تھے، ہاتھی کے دونوں طرف زریں گھنٹے لٹک رہے تھے، جن کی آواز فضا میں گونج رہی تھی، ان کے پائوں میں نقرئی زنجیریں تھیں، جن کی جھنکار دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ ہر ایک ہاتھی پر شاہی پرچم لہرا رہا تھا، پھر سواروں کا دستہ بڑھا، ان کے گھوڑوں کی پیٹھ پر نقرئی و طلائی زین، ارتک اور گجم وغیرہ تھے، ان کی لگاموں میں جواہرات لگے ہوئے تھے۔ ان سواروں کے پیچھے ہتھنیوں اور سانڈنیوں کی صفیں تھیں۔ ان کے بعد پیدل فوجیوں کی ایک کثیر تعداد تھی جن کے ہاتھوں میں ننگی شمشیریں چمک رہی تھیں، ان کے پیچھے امرا تھے اور ان کے بعد ایک بلند ترین قامت ہاتھی تھا، اس پر سخت رکھا تھا اور اسی پر ابو المظفر محی الدین محمد اورنگزیب عالمگیر بادشاہ غازی جلوہ افزوز تھا، اس کے دائیں بائیں اور پیچھے مسلح فوجیں صف بستہ اور آراستہ ہو کر آہستہ آہستہ قدم بڑھا رہی تھیں۔ ہاتھیوں کی پیٹھ پر سے چاندی اور سونے مجمع پر پھینکے جا رہے تھے، یہ شاہی جلوس بازار سے ہو کر لال قلعہ کے لاہوری دروازہ تک پہنچا جہاں سب لوگ پاپیادہ ہو گئے اورنگزیب دیوان عام میں جا کر بیٹھا پھر دیوان خاص آیا، دونوں دیوان آراستہ ہو کر فردوس نظر اور جنت گاہ بنے ہوئے تھے، اس وقت تک تیموری سلطنت ایشیا کی متمول ترین سلطنت بن چکی تھی، اس لئے زینت و آرائش کا جتنا سامان ممکن ہو سکتا تھا دونوں دیوان میں نظر آ رہے تھے۔ دیوان عام کے ستونوں اور چھتوں کو ایران اور گجرات کے مغرق کم خواب، مخمل زربفت اور مشجر سے آراستہ کیا گیا تھا۔ محرابوں میں طلائی زنجیروں کے ساتھ قندیلیں لٹکی ہوئی تھیں۔ دروں میں ریشمی اور مخملی پردے پڑے تھے اور اسی دیوان میں تخت طائوس رکھا ہوا تھا، اس کے چھ بڑے بڑے بھاری بھاری طلائی پایوں میں زمرد اور ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ اس تخت میں موردم کو چنور کئے ہوئے تھے۔ اسی لئے ان میں نیلم، یاقوت، ہیرے، لعل، زمرد، پکھراج اور دوسرے رنگ برنگ کے جواہرات موروں کی دم کو اصلیت کا رنگ دینے کیلئے جڑے ہوئے تھے۔ تخت کے اوپر ایک زری کا شامیانہ تھا جس کے بارہ ستون تھے۔ یہ بیش قیمت جواہرات سے جگمگا رہے تھے۔ شامیانہ کی جھالر موتیوں کی تھی،دونوں مور کے بیچ میں ایک طوطا بھی اصلی قدو قامت کا ایک ہی زمرد میں تراشا ہوا تھا۔ تخت کے دونوں جانب دو شاہی چتر تھے جن میں قرمزی مخمل کے نہایت عمدہ کار چوبی کام کے موتیوں کی جھالریں تھیں۔ ان کی ڈنڈیاں آٹھ فٹ لمبی ٹھوس سونے کی تھیں۔ ان پر بھی جواہرات جڑے ہوئے تھے، بارہ مرصع ستونوں پر مغرق محرابیں اور جڑاو مینا کاری کی چھت پڑی تھی، چھت سے پائے تک کا حصہ خالص کندن اور آب دار جواہرات سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا، اس کی روکار کی محراب پر ایک بھاری طلائی درخت بنا ہوا تھا، جس کو سبزہ و الماس سے سر سبز اور لعل و یا قوت سے گل رنگ کیا گیا تھا، اس کے اِدھر اُدھر دونوں اطراف میں تسبیحیں لئے اس طرح کھڑے تھے گویا اب ناچنے کو ہیں، چاروں طرف زرنگار چتر تھے، جن میں موتیوں کی جھالر جھلملاتی تھی، اس کے گرد چوکیاں اپنے اپنے رتبے سے سجی ہوئی تھیں، تخت کے گرد پاس ادب کیلئے کئی کئی گز تک حاشیہ چھوڑ کر سونے کا خوش نما کٹہرا لگا ہوا تھا جس کی مینا کار جالیاں مرغ نظر کو شکار کرتی تھیں، طلائی سخت پر شاہی اسلحہ ڈال دیئے گئے تھے۔ ان میں مرصع شمشیریں پھول کٹارا وغیرہ تھے، طلائی کٹہرے کے بعد ایک نقرئی کٹہرا تھا، جس پر کمخواب کا شامیانہ چوڑے چوڑے زریں جھالروں کا بنا ہوا تھا، دیوان کے تمام ستونوں پر کم خواب اور زری بوٹی کے ساٹن لپٹے ہوئے تھے۔ اس کے سامنے شامیانے تھے جو ریشمی ڈورویں سے تنے ہوئے تھے۔ ان شامیانوں میں ریشم اور کلابتوں کے پھندنے تھے، فرش پر بیش قیمت قالین بچھے تھے، صحن میں جا بجا اسپک نصب تھے، اس کے گرد قناتیں لگی تھیں، جن پر چاندی کے پتروں کے خول چڑھے ہوئے تھے۔دیوان خاص کے رنگ برنگ کے سبز، زرد، نیلے، سرخ، گلابی، کشمشی اور زعفرانی پتھروں اور ان پر غیر معمولی پچے کاری اور نقش و نگار سے قدرتی تزئین و آرائش پیدا ہو رہی تھی، اس روز اس کو اور بھی زیادہ سجایا گیا تھا۔ در و دیوار، ستون و مرغول، محراب و فرش سب ہی آراستہ و پیراستہ تھے۔ نجومیوں نے تخت نشینی کی نیک ساعت کا اعلان کیا تو آفتاب طلوع ہونے سے تین گھنٹے پندرہ منٹ کے بعد اورنگزیب دیوان عام میں ایک پردے کے پیچھے سے نمودار ہوا اور تخت پر جلوہ افروز ہو گیا۔ یکا یک نقارہ کی صدا بلند ہوئی، شادیانے بجنے لگے، طنبورہ، قانون، ارغنوں، چنگ، زمزمے اور ترانے کی آواز بھی فضا میں گونجنے لگی۔ اہل نشاط نے رقص بھی کیا، امراء نے بڑھ کر سیم و زرنچھاور کرنے شروع کر دیئے تخت کے پاس چاندی، سونے اور جواہرت کا انبار لگ گیا ،جس نے جو چاہا اٹھا لیا، خطیب نے خطبہ پڑھا، خطبہ میں اورنگزیب کے خاندانی فرمانروائوں کے نام بھی لئے گئے اور ہر نام پر خطیب کو ایک خلعت عطا کیا گیا اور جب خود عالمگیر کا نام آیا تو خطیب کو سب سے زیادہ بیش قیمت خلعت دیا گیا اور روپے انعام میں دیئے گئے۔ پھر امراء نے بڑھ کر اظہار تعظیم کیا اور ان میں سے ہر ایک کو رنگا رنگ خلعت دیئے گئے۔ دربار کی فضا بخور، ارگجہ اور عود کے دھوئیں سے معطر کی جا رہی تھی، مشک برابر چھڑ کے جا رہے تھے، پان تقسیم ہو رہے تھے، اسی روز عالمگیر کے نام سے سکہ جاری ہوا اور اس پر یہ شعر کندہ کیا گیا۔سکہ زد در جہاں چو بدر منیرشاہ اورنگ زیب عالم گیرسکہ کے دوسری طرف دارالضرب، سنہ جلوس اور اورنگزیب کا پورا نام اور لقب درج ہوا دبیروں نے اس تخت نشینی کے فرامین تمام صوبوں میں فوراً جاری کئے۔شعراء اور فضلا نے تخت نشینی کی طرح طرح کی تاریخیں پیش کیں اسی روز عالمگیر نے حکم دیا کہ نو روز شہوار کی بدعت ختم کردی جائے کیونکہ یہ اسلامی تہوار نہ تھا، مسکرات اور نشہ آور چیزوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی اور اس کیلئے محتسب مقرر ہوئے اور بہت سے غیر شرعی ٹیکس بھی اٹھائے گئے، یہ جشن کئی ہفتہ تک جاری رہا۔عالمگیر سے پہلے یا اس کے بعد تخت نشینی کی تقریب اتنے پرشکوہ طریقہ پر کبھی نہیں ہوئی، عالمگیر کے بعدجتنے بادشاہ تخت پر بیٹھے، انہوں نے اس شاہی روایت کی پابندی کی لیکن جوں جوں ان کے زوال کے آثار بڑھتے گئے، ان کی تقریبوں میں شان و شوکت کی بھی کمی ہوتی گئی یہاں تک کہ سلطنت کا چراغ ٹمٹمانے لگا اور وہ جب سنبھالا لے رہی تھی تو بہادر شاہ ظفر تخت نشیں ہوا۔ 

یادرفتگاں:امجد بوبی پُر اثر دھنوں کے بے تاج بادشاہ

یادرفتگاں:امجد بوبی پُر اثر دھنوں کے بے تاج بادشاہ

دنیائے موسیقی میں نئے رجحانات کو متعارف کروانے والے امجد بوبی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 19برس بیت گئے مگر وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اپنی دھنوں کی بدولت آج بھی زندہ ہیں۔ امجد بوبی کی بطور موسیقار پہلی فلم ''اک نگینہ‘‘ تھی جو 1969ء میں سینما گھروں کی زینت بنی۔ اس فلم میں شامل احمدرشدی کے گائے ہوئے دو گیت''مل گئی، مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل‘‘ اور ''دل نہیں تو کوئی شیشہ، کوئی پتھر ہی ملے‘‘ اور گلوکارہ آئرن پروین کا گایا ہوا گیت ''ساری سکھیوں کے بلم گورے، میرا بلم کالا‘‘ شامل تھے۔ اسی سال ان کی فلم ''میری بھابھی‘‘ کے گیت بھی بہت پسند کئے گئے ۔ انہیں بریک تھرو کیلئے دس سال تک انتظار کرنا پڑا۔ 1979ء میں فلم ''نقش قدم‘‘ ریلیز ہوئی تو اس میں شامل گلوکار اے نیئر کا گایا ہوا گیت ''کرتا رہوں گا یاد تجھے میں، یونہی صبح و شام، مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام‘‘ ان کا پہلا سپرہٹ گیت تھا۔ امجد بوبی کو 80ء کی دھائی میں بڑا عروج ملا۔ اس دور کے وہ اردو فلموں کے مصروف ترین موسیقار تھے۔ 1984ء میں فلم ''بوبی‘‘ کیلئے بنایا ہوا ان کا گیت ''اک بار ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے‘‘ بہت مقبول ہوا۔ یہ گیت غلام عباس کے علاوہ اداکارہ سلمیٰ آغا کی آواز میں بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔فلم مشکل (1995ء) میں مہناز اور تسکین جاوید کا الگ الگ گایا ہوا گیت ''دل ہوگیا ہے تیرا دیوانہ ، اب کوئی جچتا نہیں‘‘ایک سپرہٹ گیت تھا۔ فلم ''چیف صاحب‘‘ (1996ء) میں سجاد علی کا گیت ''بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب‘‘ ایک سٹریٹ سانگ تھا۔ اس فلم کیلئے امجد بوبی نے گلوکار وارث بیگ سے نو گیت گوائے تھے۔ فلم ''گھونگھٹ‘‘ (1997ء) میں ارشد محمود کیلئے انہوں نے یہ سپرہٹ دھن بنائی تھی ''دیکھا جو چہرہ تیرا ، موسم بھی پیارا لگا‘‘۔ فلم ''سنگم‘‘ (1998ء) میں سائرہ نسیم اور وارث بیگ سے الگ الگ گوائے گئے گیت ''آ پیار دل میں جگا‘‘بھی سدا بہارتھے۔ امجد بوبی کی ایک وجہ شہرت پاکستانی فلموں کے گیتوں کی بمبئی میں ریکارڈنگ کروانا ہے جس نے انھیں پاکستانی موسیقاروں میں ممتاز کیا۔ انہووں نے جاوید شیخ کی فلم ' 'یہ دل آپ کا ہوا‘‘ کیلئے بھارتی گلوکار سونو نگم اور کویتا کرشنا مورتی سے گانے گوائے اور پاکستان فلم انڈسٹری میں ایک نئے رجحان کو فروغ دیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت کو امجد بوبی نے کئی مدھر دھنیں دینے کے ساتھ ساتھ اس فن میں نت نئے تجربات کرکے بلاشبہ خود کو جدّت پسند موسیقار ثابت کیا۔زارا شیخ اور شان کی فلم ''تیرے پیار میں‘‘ کا گانا ''ہاتھ سے ہاتھ کیا گیا‘ ‘ ان کی موسیقی سٹائل کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے۔امجد بوبی نے 36 سال فن موسیقی کی خدمت کی، فلمی صنعت کی ڈگمگاتی کشتی کو اپنے فن سے سنبھالا دیا،2 نگار ایورڈ بھی اپنے نام کیے۔ انہیں 1983ء اور 1997ء میں نگار ایوارڈ اور 1999ء میں بولان ایوارڈ دیا گیا۔امجد بوبی نے ہمیشہ نئے ٹیلنٹ کو متعارف کروایا، موجودہ دور کے کئی مقبول گلوکار ان کی دریافت تھے۔ امجد بوبی نے مہدی حسن، مہناز، ناہید اختر، سلمی آغا، غلام عباس، اے نیئر، تحسین جاوید، حمیرا چنا، سائرہ نسیم، وارث بیگ، راشد محمود، شبنم مجید، فریحہ پرویز سمیت دیگر سنگرز سے ان کی زندگی کے بہترین گیت ریکارڈ کروائے۔ ان کی آخری ریلیز ہونے والی فلم ہدایتکار و اداکار جاوید شیخ کی ''کھلے آسمان کے نیچے‘‘ تھی۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کا زیادہ وقت ممبئی میں گزرا۔ دل کا دورہ پڑنے سے 15 اپریل 2005ء کو لاہور میں وفات پائی۔ 

نیم:نہایت کارآمد درخت

نیم:نہایت کارآمد درخت

نیم ایک گھنا سایہ دار اور نہایت کار آمد درخت ہے۔ اردو لغت میں نیم بمعنی آدھا، نصف بھی آیا ہے اور اس لفظ سے اہل ادب و زبان نے بہت سے مرکب الفاظ، تراکیب، اصلاحات اور محاورے وضع کیے ہیں۔ مثلاً نیم آستیں، نیم اشارہ، نیم وا، نیم بسمل، نیم جاں، نیم رضا، نیم کش، نیم ملا خطرہ ایمان، نیم حکیم خطرہ جان وغیرہ۔ نیم ایک سایہ دار اور مفید درخت ہے۔ یہ خوبصورت، مشہور اور سدا بہار درخت ہر جگہ گلی کوچوں، پارکوں، شاہراہوں اور گھروں کے آنگنوں میں اپنی بہار دکھاتا نظر آتا ہے۔ اس درخت کی عمر محتاط اندازے کے مطابق دو سو سے پانچ سو سال تک ہوتی ہے۔ یہ درخت ہوا کو جراثیم سے صاف کرتا ہے۔ فضائی آلودگی دور کرنے میں کوئی درخت اس کا ثانی نہیں ہے۔ اس حوالے سے یہ درخت انسانوں کیلئے قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ یہ دافع تعفن ہے۔ ہوا کو صاف رکھتا ہے۔ ماحول سے بدبو اور تعفن کو دور کرتا ہے۔ جس آنگن میںیہ درخت ہو اس کے باسی وبائی امراض سے عموماً محفوظ رہتے ہیں۔ نیم کے درخت کا ہر جزو دوا کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے پتے، پھل، پھول اور چھال تمام اجزاء مختلف امراض میں مختلف طریقوں سے مستعمل ہیں۔ اس کے تمام اجزاء تلخ ہوتے ہیں۔ البتہ پھل پک کر قدرے شیریں ہو جاتا ہے۔ مگر وہ شیرینی بھی اپنے اندر خوشگوار سی تلخی ضرور رکھتی ہے۔ یہ جراثیم کا قاتل ہے اور قاتل کرمِ شکم بھی ہے، یعنی پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہے۔ زخموں کو صاف کرنے والا ہے۔ محلل اور منضبح یعنی تحلیل کرنے اور پکانے والا ہونے کے باعث اس کے پتوں کا بھرتہ بنا کر پھوڑے، پھنسیوں اور دوسرے ورم پر باندھتے ہیں جس سے وہ ورم یا پھوڑے پختہ ہو کر پھٹ جاتے ہیں یا تحلیل ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔ ا س کے پتوں کو جوش دے کر نیم گرم کان میں ڈالنے سے کان کا درد جو کان میں پھنسی کی وجہ سے ہو، دور ہو جاتا ہے۔ خراب اور گندے زخموں پر اس کے پتوں کو پکا کر اس کے پانی سے زخموں کو دھونے سے زخم صاف اور جلد بھر آتے ہیں۔نیم کے پتوں کے جوشاندہ سے غسل کرنے سے بدن کی خارش اور دوسرے جلدی امراض سے شفا ہو جاتی ہے۔ مصفی خون ہونے کی وجہ سے تقریباً تمام جلد ی امراض اور فساد خون کے امراض میں مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ نیم کے پتوں سے نچوڑ کر نکالا ہوا پانی زخموں میں ڈالنے سے زخم کے کیڑے مر جاتے ہیں۔ چھال کے اندر بھی تمام وہی فوائد بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں جو نیم کے پتوں میں موجود ہیں۔ چھال کا جوشاندہ خصوصی طور پر بخاروں میں زیادہ مفید ہے۔ نیز یہ پیٹ کے کیڑوں کو مارنے کیلئے پلایا جاتا ہے۔ پھولوں کو بھی مصفی خون ادویات میں شامل کیا جاتا ہے۔ نیم کے پھولوں کو خشک کر کے باریک پیس کر بطور سرمہ آنکھوں میں لگانے سے آنکھ کی خارش دور ہو جاتی ہے۔ پھل یعنی نبولی، نہایت ہی مصفی خون ہے، اگر پختہ نبولی کھائی جائے تو قبض کشائی اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔ نبولی کو پیس کر تیل میں ملا کر سر میں لگانے سے سر کی جوئیں مر جاتی ہیں۔ نیم کا پھل بواسیر کا شافی اور مکمل علاج ہے۔ نبولی کا تیل بھی نیم کے دوسرے اجزا کی طرح جلدی امراض کے علاوہ جذام تک کیلئے مفید ہے۔ پرانے اور ہٹیلے زخموں اور زخموں کیلئے اکسیر ہے۔ نیم کی مسواک کرنے سے منہ کی بدبو دور ہوتی ہے اور دانت کیڑا لگنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ نیم کے نر درخت کے تنے سے ایک قسم کا گاڑھا مادہ خارج ہوتا ہے اس کو نیم کی مدھ کہتے ہیں۔ یہ بھی مصفی خون ہے اور جذام کیلئے اکسیر ہے۔ نیم خشک مزاجوں کو نقصان دے سکتا ہے۔ اس کے نقصان سے بچنے کیلئے اس کے ساتھ شہد اور کالی مرچ یا گھی استعمال کرنا چاہیے۔