شیخوپورہ کا نام شہنشاہ جہانگیر کے نام پر رکھا گیا
اسپیشل فیچر
شیخو پورہ پا کستا ن کے صو بہ پنجا ب کا صنعتی شہر ہے ۔یہ شہر ا پنے قد یمی اور تا ر یخی مقا ما ت کی و جہ سے عا م طو ر پر قلعہ شیخو پو ر ہ کے نا م سے جا نا جاتا ہے۔اس کی بنیا د مغل با د شا ہ جہانگیر نے ر کھی ۔ مشہو ر یادگار ہر ن مینار بھی یہیں واقع ہے ۔
شیخو پو رہ شہر کی تا ر یخ 1000 سا ل قبل ا ز مسیح سے شروع ہوتی ہے۔اب جسں جگہ شیخو پو رہ آ با دہے اسی مقا م پر سکنداعظم نے325 قبل مسیح میں ایک جنگ لڑ ی تھی ۔ جہاں اس نے ہندؤ راجا کی فوج کو شکست دے کر اس علاقے پر قبضہ کیا تھا ۔تا ر یخ دا نو ں کے مطا بق شیخوپورہ کا پر ا نا نام و رک گڑھ تھا ۔ مغل حکومت کی آمد سے پہلے ہند و را جا ورک ورد ھا ن اس علا قے کا حا کم تھا ۔جسکی سلطنت کا دارا لخلا فہ موجودہ سیالکو ٹ تھا۔اسکی سلطنت مشر ق میں ا مر تسر تک جا تی تھی۔ جہا ں آ ج بھی ورک خا ندان آبا د ہے ۔ورک جاٹ کی اکثریت شیخو پورہ میں قیا م پذ یر تھی ۔ سیا لکو ٹ میں بھی ورک کے نام سے ایک گائوں مو جو د ہے ۔
مغلو ں کی آ مد کے بعد اس خطے پر بھی بہت سی تبد یلیا ں رو نما ہو ئیں ۔ ورک گڑ ھ کے بعد اسکا پہلا نا م جو کہ تز ک جہا نگیر ی میں د ر ج ہے وہ جہانگیر پورہ ہے۔جو کہ چو تھے مغل با دشا ہ جہا نگیر کے نا م سے تھا۔مغل بادشا ہ نے اسکی دوبارہ بنیا د رکھی اور 1607 ء میں اسکے حکم سے تعمیر و تو سیع کی گئی۔
مغل بادشاہ جہا نگیر کا اصل نام تو سلیم تھا مگر اسکا باپ جلال الدین اکبر جہانگیر کو پیا ر سے شیخو بابا کہا کرتا تھا۔ایک روایت کے مطابق 1610 ء میںمغل حکومت نے جہا نگیرکے اس نام کی نسبت سے اسکا نام شیخوپورہ رکھا ۔شہنشاہ جہانگیر کے دور میںاس شہر شیخوپورہ کو شاہی شکار گاہ کی حیثیت حاصل رہی ۔ ایک روایت کے مطابق سکھ حکومت میں اس شہر کا نام سنگھو پوریا رکھا گیا ۔ مگر وہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور شیخوپورہ ہی مشہور ہوا ۔شیخو پورہ کی جاگیر مغل بادشاہ نے سید عثمان بلال شاہ کے صاحبزادے کو دے رکھی تھی۔جو کہ قادریہ سلسلے کے ایک روحانی بزرگ تھے ۔جنکی سرپرستی میں یہ علاقہ مغل حکومت میں ترقی کرتا رہا ۔شہنشاہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد جب مسلمانوں کی حکومت کے قدم اکھڑنے شروع ہوئے تو ان ایام میں سکھوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی مسلح ٹولیوں کے ساتھ مختلف علاقوں پر قبضے کر کے اپنے پاؤں جمانے شروع کر دیئے اور اس خطے کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ یہ وہ وقت تھا کہ پورے ضلع پر خون ریزی کا عالم تھا۔اتنے میں شمالی جانب سے نادر شاہ فتوحات سمیٹتا اور تباہی و بربادی کرتا ہوا اس سر زمین پر آوارد ہوا ۔نادر شاہ نے اس خطے کی خوشحالی کو تباہ کیا ۔اس دوران 1777 ء میں جب سکھوں نے اپنی طاقت کا اظہار اس خطے پر ظاہر کیا تو یہاں کے بھٹی خاندانوں جوکہ یہاں صدیوں سے آباد تھے نے سکھوں کی مسلح کارروائیوں کے خلاف مزاحمت کی ۔اس موقع پر جلال پور ، اور پنڈی بھٹیاں میں شدید لڑ ائی ہوئی جسمیں بھٹی خاندان ابھرتی ہوئی سکھ فوج کا مقابلہ نہ کر سکے اور شکست کھا گئے ۔زیادہ تر بھٹی برادریوں کو قتل کر دیا گیا ۔اور جو باقی بچ گئے وہ جا ن بچانے کی غرض سے جھنگ کے سیال خاندان کے پاس پہنچ کر پناہ گزیں ہوئے ۔آخر کار 1780 ء میں بھنگی سر دا ر مہا سنگھ کے بیٹے سر دار ر نجیت سنگھ نے ا حمد شا ہ ابدالی کے پوتے کو شکست دے کر اس ضلعے پر قبضہ کر لیا اور اس خطے کو بھی اپنی حکو مت میں شا مل کر لیا جو کہ اس و قت پنجا ب پر حکومت کا منصو بہ بنا رہا تھا جس کا دارا لخلا فہ لا ہو ر تھا۔سکھ سر داروں کی آپس میں لڑا ئیا ں اور بے ربط د شمنیوں نے انکی طا قت کو کمز ور کر دیا۔1850 ء میں ا نگر یزوں نے سکھو ں کو شکست دے کر اس قلعے پر قبضہ کر لیا ۔1850 ء میں ا نگر یز وں نے اس خطے کو اپنی حکو مت میںشامل کر کے اسکی تبا ہی و بر با دی کو دور کر تے ہو ئے اسکی تعمیر و تر قی شروع کی۔چنا نچہ 1885 ء میں کمشنر لاہور نے محکمہ مالیات حکومت پنجاب کو خط لکھا کہ شیخوپورہ کو لاہور سے ملحق کردیا جائے ۔بعد ازاں شیخوپورہ کے ضلع بننے کے بعد سر گنگا رام جنکی لاہور کی تعمیر و ترقی میں بہت خدمات تھیں کی سر پرستی میں یہاں ضلعی ادارے او ر ضلعی عدالتیں اور دوسری سرکاری عمارات تعمیر کروائی گئیں۔انگریزوں نے اس تاریخی اور قدیم اہمیت کے حامل شہر کو اہمیت دیتے ہوئے یہاں بیشمار ترقیاتی کام کروائے۔برطانوی حکومت نے یہاں اپنی فوج کے سپاہیوں کے لیے ایک باغ بھی تعمیر کیا جسکو کمپنی باغ کے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔جہاں فوج پریڈ کیا کرتی تھی ۔بعد ازاں اس باغ کو سیروتفریح کے لئے وقف کر دیا گیا ۔اور فوج کا قیام شیخوپورہ میں شہنشاہ جہانگیر کے بنائے شاہی قلعہ میں منتقل کر دیا گیا ۔ شیخو پورہ کے اس قلعے کو شاہی خواتین، بچوں کی رہائش اور اجناس کے ذخیرہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا ۔بعد ازاں سکھ حکومت میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی مہارانی جنداں کے لئے محلات بھی تعمیر کئے ۔آج کل اس قلعے کی تمام عمارات منہدم ہو چکی ہیں اور اس قلعے کو خطرناک قرار دے کر بندکر دیا گیا ہے ۔
لاہور میں صنعتی کارروائیوں میں اضافے کے باعث تمام کارخانوں اور فیکٹریوں کو شہر سے باہر منتقل کر دیا گیا ۔اس وقت لاہور سے لیکر شیخوپورہ شہر تک تمام بڑے کارخانے اور فیکٹریاں مین روڈ پر موجود ہیں۔اس کے علا وہ اس شہر کو با قاعدہ ضلع کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔اس کے قریب ہی ننکانہ صاحب واقع ہے جہاں سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو جی کی پیدائش گاہ ہے ۔یہاں بہت بڑا گرودوارہ جنم استھان موجود ہے۔جہاں ہر سال مختلف پروگرامز میں ہزاروں سکھ یا تری بھارت سے یہاں آتے ہیں۔ شیخو پورہ کے تاریخی مقامات میں شاہی قلعہ ، ہرن مینار ، کمپنی باغ، سچا سودا ، مریم مقدس ،اور مزار وارث شاہ شامل ہیں ۔