پٹیالہ گھرانے کا ہونہار سپوت گلوکار اسد امانت علی خان
گائیکی کی ہر صنف مہارت سے گانے والے کلاسیکل گائیک کے یوم پیدائش پر خصوصی تحریر
پٹیالہ گھرانے کے چشم و چراغ اسد امانت علی خاں کسی تعارف کے محتاج نہیں، ان کے گائے ہوئے گیت ان کی پہچان ہیں۔ کافی ''عمراں لنگھیاں پبّاں بھار‘‘ ہو، غزل ''انشا جی اٹھو‘‘ ہو یا فلمی گیت ''کیا گلبدنی‘‘ گائیکی کی تمام اصناف میں ان کی مہارت نظر آتی ہے۔ کلاسیکی موسیقی کے اس عظیم گائیک کا آج چھیاسٹھواں یوم پیدائش ہے۔ 25 ستمبر 1955ء کو مایہ نازگائیک استاد امانت علی خاں کے گھر آنکھ کھولی، وہ استاد فتح علی اور استاد حامد علی خان کے بھتیجے اور شفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔اسد امانت علی خان کی شکل اپنے پڑدادا علی بخش جرنیل سے بہت مشابہہ تھی۔ ریڈیو پاکستان ریسرچ سیل میں علی بخش جرنیل کی ایک تصویر آویزاں ہے۔ اْس تصویر کی جھلک اسد میں موجود تھی۔ اسد امانت علی خان نے موسیقی اپنے دادا اختر حسین اور چچا استاد فتح علی خان سے سیکھی۔ انہوں نے اپنی گائیگی کا آغاز 10 سال کی عمر سے کیا۔ ان کا پہلا گاناان کے دادا اختر حسین کے البم میں شامل کیا گیا تھا تاہم انہوں نے اپنے میوزیکل کریئر کا باضابطہ آغاز ''ٹھمری‘‘ گا کر اس وقت کیا جب ان کی عمر تقریباً 18 برس تھی۔ ان کی آواز نہایت قد آور، رینج دار اور اپنے والد استاد امانت علی خان کی طرح سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی تھی۔ انہیں گائیکی کی تمام اصناف گانے پر عبور حاصل تھا۔ وہ غزل، گیت، ٹھمری، لوک گیت اور دیگر اصناف کی گائیکی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ شروع میں اپنے والد استاد امانت علی خان مرحوم کی آواز میں گائے ہوئے آئٹم گا کر خوب داد سمیٹی۔ خصوصاً اْن کی گائی ہوئی غزل ''انشا جی اْٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کا لگانا کیا‘‘ گا کر سامعین کا دل موہ لیا کرتے تھے۔اسد امانت علی خان کی کافی ''عمراں لنگھیاں پبّاں بھار‘‘بھی بہت مشہور ہے جسے وہ نہایت ڈوب کر گایا کرتے تھے اور اسے گاتے ہوئے وہ اکثر آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ جس محفل میں وہ گاتے سامعین اْن سے یہ کافی ضرور سنتے۔انہوں نے 1974ء میں اپنے والد کی موت کے بعد باقاعدگی سے پی ٹی وی پر پرفارم کرنا شروع کردیا تھا مگر اپنے والد کے برعکس اسد نے اردو فلموں کے لیے بھی بطور پلے بیک سنگر گانا شروع کیا۔ کئی فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے اور ان کے جونغمے مقبول ہوئے ان میں فلم ''ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ کا گیت ''کیا گلبدنی، کیا گلبدنی، کیا گلبدنی ہے‘‘ اور فلم ''آواز‘‘ کا گیت ''تو مرے پیار کا گیت ہے‘‘ نمایاں ہیں۔ان کے دیگر معروف گیتوں اور غزلوں میں غم تیرا ہم نے، ذرا ذرا دل میں درد ہوا اور کل چودھویں کی رات تھی، شامل ہیں۔شوبز حلقوں کے مطابق اسد امانت علی خان بحیثیت انسان نہایت باادب، یاروں کے یار اور دید لحاظ والے انسان تھے۔ جگت بازی کے عادی تھے، جہاں بیٹھ جاتے محفل کشتِ زعفران بن جایا کرتی تھی۔مایہ نازگائیک استاد امانت علی خاں کے صاحبزادے اور استاد علی بخش کے پوتے اسد امانت علی خان کو موسیقی کی دنیا میں ان کی خوبصورت آواز پر تمغہ حُسن کارکردگی سے نوازا گیا۔وہ حضرت امام حسینؓ کے عاشق تھے، سوز و سلام پڑھتے ہوئے ان پر رقت طاری ہو جایا کرتی تھی اور روتے روتے سلام پیش کرتے تھے۔وہ غزل کنسرٹس کے لیے مقبول تھے اور اپنی مشہور غزلیں، فلمی گانے اور وہ جو ان کے والد کی تھیں، گاتے تھے۔ 2006ء میں پی ٹی وی میں ایک کنسرٹ کے دوران انہوں نے اختتامیے کے طور پر انشاء جی اٹھو گائی۔ اتفاقاً یہ ان کا آخری کنسرٹ ثابت ہوا اور انشاء جی اٹھو وہ آخری گانا تھا جو انہوں نے عوام کے سامنے پرفارمنس کے دوران گایا۔چند ماہ بعد ہی اسد کا انتقال ہوگیا۔ اسد کی عمر بھی موت کے وقت اپنے والد کی طرح 52 سال تھی۔ بیٹی کے ساتھ کرکٹ کھیلنے میں مشغول تھے، گیند زمین سے اٹھانے کے لیے جْھکے تو پھر اْٹھ نہ سکے۔