مٹی فشاں گرم گارا اگلتے پہاڑ
اسپیشل فیچر
کون ہے جس نے آتش فشاں کا نام نہ سنا ہوگابلکہ لاوا اگلتے پہاڑوں کا ذکر تو اکثر سننے کو ملتا رہتا ہے ۔ایسے لوگ شاید انگلیوں پے گنے جا سکتے ہوں گے جو گرم مٹی کے گارے اگلتے پہاڑوں کے بارے میں جانتے ہوں۔ مٹی کے گرم گارے اگلتے یہ پہاڑ ''مٹی فشاں‘‘ یعنی ''مڈ والکینو‘‘ کہلاتے ہیں۔ مٹی فشاں ایسے پہاڑوں کو کہا جاتا ہے جو وقتاً فوقتاً مٹی اگلتے رہتے ہیں اور جس کے باعث ان کی چوٹی پر ایک کون بن جاتی ہے۔ یہاں ذہن میں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ آخر مٹی کے یہ لاوے سطح زمین سے باہر آتے کیسے ہوں گے ؟
مٹی فشاں کیسے وجود میں آتے ہیں؟
ارضیاتی سائنس کے ماہرین کے مطابق زمین کی پلیٹوں کے مقام اتصال میں مختلف گیسوں جن میں نائٹروجن، میتھین اور کاربن ڈائی آکسا ئیڈ شامل ہیں کے دباؤ کے باعث زیر زمیں پریشر بڑھنا شروع ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے زیر زمیں پانی کا درجہ حرارت مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔ یوں زیر زمیں یہ پانی اپنے ساتھ مختلف مرکبات کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیتا ہے، یہ پانی رفتہ رفتہ گارے کی شکل اختیار کر تا جاتا ہے۔ ایک طرف زیر زمیں درجہ حرارت بڑھتا رہتا ہے دوسری طرف مٹی کا یہ گرم گارا بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جس کے سبب اس کے دباؤ میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے جو زمین کی سطح کا رخ کرنا شروع کر دیتا ہے اور بلاخر یہ ایک لاوے کی شکل میں زمین کی کمزور سطح کو پھاڑ کر نمودار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ گرم گارا آتشیں گیسوں اور مختلف زمینی منرلز پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب یہ لاوا پھوٹ رہا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں بلبلے بھی بن رہے ہوتے ہیں جو دراصل گیسوں کے اخراج کی علامت ہوتے ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ میتھین گیس کی موجودگی کی علامات ہوتی ہیں۔ زمین کی سطح پر ابلتے مٹی کے یہ لاوے ''مٹی فشاں‘‘ یا ''مڈ والکینو‘‘ کہلاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق دنیا میں چند ایک مقامات ہیں جہاں تواتر سے مٹی اگلتے آتش پہاڑ واقع ہیں اور حسن اتفاق دیکھئے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جس کے صوبہ بلوچستان میں نہ صرف مٹی فشاں پہاڑ واقع ہیں بلکہ سب سے بڑے مٹی فشاں پہاڑ کا اعزاز بھی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے پاس ہے۔
بلوچستان کے مختلف مقامات پر یوں تو لاتعداد چھوٹے چھوٹے مٹی فشاں پہاڑ نظر آتے رہتے ہیں لیکن ماہرین کی اکثریت لگ بھگ بیس کے قریب قابل ذکر مٹی فشاؤں کے بارے متفق ہیں۔ وادی ہنگول میں واقع چندرگپت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ صدیوں سے چلے آرہے دنیا کے سب سے وسیع اور بلند ترین مٹی کے آتش فشاں پہاڑ یہیں پر واقع ہیں۔
بلوچستان کا یہ مقام چونکہ ہندوؤں کی ایک قدیم اور مقدس عبادت گاہ کی شہرت رکھتا ہے کیونکہ یہاں ہندوؤں کا ''نانی مندر‘‘ واقع ہے۔ اس جگہ کی شہرت ''چندر گپت‘‘ کے نام سے ہے۔ چندر گپت زمانہ قدیم میں ہندوستان میں موریہ سلطنت کا بانی تھا۔
ہنگول قومی پارک کے پہاڑوں میں واقع یہ مقام جو کراچی سے تقریباً 200کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ حکومتی نا توجہی کے باعث اس کا سفر بارہ گھنٹوں سے زیادہ پر محیط ہے، مکران کوسٹل ہائی وے سے اترنے کے بعد انتہائی ناہموار راستہ ہے۔اس ناہموار راستے کو عبور کرنے کے بعد بھی پیدل چلنا پڑتا ہے جس کے باعث بہت کم سیاح ادھر کا رخ کرتے ہیں۔
البتہ یہاں سیاحوں کے لئے ایک منفرد اور پرکشش تفریح، برف کے پہاڑوں پر ہائیکنگ کے بعد مٹی اگلتے پہاڑوں پر ہائیکنگ ہے۔یہ اتنا آسان اس لئے نہیں ہے کہ جگہ جگہ دلدل کے باعث خطرات کا سامنا بھی رہتا ہے۔ اس لئے شائقین کو ہدایات دی جاتی ہیں کہ وہ سنبھل کر ہائیکنگ کریں۔ اس مقام سے متصل تھوڑا آگے گمنام سمندر کا ایک ساحل آ جاتا ہے جو انتہائی دشوار گزار اور اونچے نیچے راستوں کے سبب زیادہ سیاحوں کی نظر سے ابھی تک اوجھل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس مقام بارے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک غیر ملکی سیاح نے کہا تھا کہ دنیا میں ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ پہاڑوں پر جمی برف کے ساتھ ہی گرم مٹی اگلتے آتش فشاں پہاڑ ہوں۔ اس پر کمال یہ کہ ساتھ ہی ساحل سمندر کی موجودگی بھی ہے۔ یہی غیر ملکی سیاح بار بار زور دے کر کہہ رہا تھا کہ ''نہ جانے اتنا خوبصورت، منفرد اور نایاب مقام یہاں کی حکومت کی توجہ کیوں حاصل نہ کر سکا‘‘۔
یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت کو ایسے نایاب اور دلکش تفریحی مقامات کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دے کر سیاحوں کے لئے پرکشش بنانا چاہئے۔
بلوچستان کو جہاں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں دنیا کا بلند ترین مٹی فشاں واقع ہے، وہیں ''جبل غورب‘‘ نامی پہاڑی سلسلے میں سات کے لگ بھگ مٹی فشاں ہیں جبکہ گوادر اور کھچ کے علاقوں میں بھی 13 کے قریب مٹی فشاں پہاڑ واقع ہیں۔