ملتان کے تاریخی دروازے،اولیا کی سرزمین تقافتی ورثہ سے مالامال ہے
اسپیشل فیچر
ملتان کی سرزمین تاریخی روایات اور قدامت کے حوالے سے خاصی پہچان رکھتی ہے۔ ثقافتی ورثہ سے مالا مال ملتان صرف ایک شہر کا نام نہیں یہ سیاسی،تاریخی، مذہنی اور علم و ادب کا مرکز رہا ہے ۔ یہاں سے روحانیت کے چشمے پھوٹتے رہے ہیں۔جنگ و جدل کی داستانیں جنم لیتی رہی ہیں۔ ان داستانوں کی چند نشانیاں اندرون ملتان اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں موجود ہیں۔ ماضی کا یہ ثقافتی ورثہ مٹتا چلا جا رہا ہے۔ قدیم تہذیب کے امین یہ علاقے اور بیش قیمت تاریخی عمارات عہد رفتہ کی عظیم یادگاریں ہیں۔کیا ان یادگاروں کو محفوظ نہیں کیاجا سکتا۔
ملتان کبھی اندرون شہر تک ہی محدود تھا۔اس شہر کے چھ دروازے تھے جنہیں بوہڑ گیٹ،دہلی گیٹ، حرم گیٹ،لوہاری گیٹ،پاک گیٹ اور دولت گیٹ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔شہر کے چاروں جانب یہ دروازے فصیل کا کام دیتے تھے۔ ان دروازوں کے نام و نشان تو کب کے مٹ چکے ہیں۔ باقی ماندہ دروازوںکے آثار مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے تیزی سے معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
سات دریاؤں کی سرزمین کے مصنف ابن حنیف اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں '' فصیل کے اندر ملتان کی گلیوں اور سڑکوں پر سے گزرتے ہوئے مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ ان گلیوں کے نیچے ان سڑکوں کے اندر گہرائیوں میں ہزاروں برس پہلے کا وہ ملتان سویا ہو ا ہے جو صدیوں تک بار بار اجڑتا اورآباد ہوتا رہا‘‘۔حملہ آوروں نے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔
فصیل کے ساتھ ایک خندق بنائی گئی تھی۔ جس سے دفاع کا کام لیا جاتا تھا اب یہ خندق سر کلر روڈ کہلاتی ہے۔ ملتان کی آبادی ان دروازوں سے نکل کر دور دراز تک پھیل چکی ہے۔ اس فصیل کے اندر ماضی کی چمک دمک ہی نہیں آج بھی زندگی کی ہنگامہ خیز یاں اور رنقیں نظر آتی ہیں۔تنگ و تاریک گلیاں اونچے اونچے مکان اب مارکیٹوں اور بازاروں کا روپ اختیار کرچکی ہیں۔ سرکلر روڈ محراب کی شکل میں ہے۔حرم گیٹ ، دہلی گیٹ اور بوہر گیٹ اصل حالت میں موجود ہیں مگر ان کے کواڑ اور نشانات غائب ہو چکے ہیں جبکہ باقی تین دروازے حالات زمانہ کی نذر ہو گئے۔ اس کے ساتھ قلعہ کے وہ چار دروازے جو دیہہ دروازہ، خضری دروازہ، سکھی دروازہ اور ریڑھی دروازہ کے نام سے موسوم تھے صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔یہ دروازے بھی تاریخی اہمیت کے حامل تھے۔خضری دروازہ عید گاہ کی جانب تھااسے حضرت خضر ؑ سے منسوب کیا گیا تھا۔سکھی دروازہ دولت گیٹ کی جانب کھلتا تھا اس کے قریب ایک سکھا گاؤں تھا۔اس گاؤ ں کے نام پر ہی اس دروازے کا نام سکھی رکھا گیا۔دیہہ دروازہ مغرب کی جانب کھلتا تھا یہ دروازہ آنے جانے والوں کے لئے راستے کا کام دیتا تھا۔ اس کے اندر ایک مندر بھی تھا۔ریڑھی دروازے کا رخ حسین آگاہی کی جانب تھا۔قلعے کے دروازوں کے اگرچہ اب نشانات ختم ہو چکے ہیں تاہم فصیل کے کچھ دروازے ابھی قائم دائم ہیں جن کی حالت خستہ ہو چکی ہے۔ان دروازوں سے جو راستہ بازار کی طرف جاتا ہے ان راستوں کی تعمیر میں جنگ کی حکمت عملی شامل تھی۔
ملتان کے یہ دروازے تاریخی اور مذہبی حوالوں سے کسی نہ کسی سے منسوب کئے گئے ۔ دہلی دروازہ جو عہد رفتہ کی عظیم یادگاررہابھی خستہ حالی کا شکار ہے۔ محلہ کمگنراں تاریخی اعتبار سے اپنی اہمیت رکھتا ہے اس محلہ کو ایران سے آنے والے کاشی گروہوں نے آباد کیا۔ اب صرف چند خاندانوں نے اس گلی میں نقاشی اور کاشی گری کا فن زندہ رکھا ہوا ہے۔ کپڑوں ،برتنوں اورسلائی کڑھائی کی دکانیں زیادہ ہیں۔پاک گیٹ دروازہ جو موسیٰ پاک شہید سے منسوب ہے کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔بوہڑ دروازہ اپنی قدامت کے لحاظ سے بھی خاصا مشہور ہے اس کی وجہ شہرت یہاں بوہڑ کے درخت تھے۔ ایک درخت آج بھی ان پرانی یادوں کو تازہ کر رہا ہے۔لوہاری دروازہ کے باہر اس وقت گنے کے جوس اور لنڈے کے کپڑے بیچنے والوں کا ہجوم نظر آتا ہے۔یہ دروازہ بھی زمانے کی ناقدری کی نذر ہو چکا ہے ۔ دولت دروازہ پیر دولت شاہ سے منسوب کیا گیا۔ ان کا مزارمبارک چوک کے وسط میں موجود ہے لیکن دروازے کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔
ان دروازوں کی خوبی یہ ہے کہ اگر آپ ایک دروازے سے اندر داخل ہو ں تو باہر نکلے بغیر ہی آپ اندرون شہر کی سیر کرتے ہوئے آخری دروازے تک پہنچ سکتے ہیں۔ملتان کے بزرگ بتاتے ہیں کہ نصف صدی قبل شہر کے مغربی دروازوں بوہڑ گیٹ ، حرم گیٹ ، پاک گیٹ سے متصل بیرونی جانب وسیع و عریض میدان ہوتے تھے جہاں شیشم کے درخت جھولتے ہوئے دکھائی دیتے تھے اور ہر طرف خوشبو کا سفر جاری رہتا تھا۔
شیخ نوید اسلم متعدد کتابوں کے مصنف
ہیں اورتاریخی موضوعات پر لکھنے
میں مہارت رکھتے ہیں۔