سکہ : کب وجود میں آیا
اسپیشل فیچر
دنیا کے مختلف ممالک میں سکوں کا رواج مختلف زمانوں میں ہوا ۔ اس سے قبل چیزوں کی خرید و فروخت تبادلے پر منحصر تھی ایک چیز دے دیجئے اور اس کے بدلے دوسرے لے لیجئے۔ ایک کاشتکاراوزاروں کی مزدوری لوہار اور بڑھئی کو غلے کی شکل میں ادا کیا کرتا تھا۔ یہی حال جولاہا اور موچی کاتھا یہ لوگ کپڑا اور جوتا تیار کرتے تھے اور اناج کے بدلے میں بیچ دیتے تھے ۔ ہمارے چند دیہاتوں میں ابھی تک کسی حد تک یہ رواج آج بھی چل رہا ہے۔ دنیا کے اور بھی متعدد ممالک میں لین دین کے اس طریقے پر عمل کیا جاتا ہے چونکہ اس طریقے میں بہت سی خامیاں تھیں،ہر شخص کو یہ گراں گزرتا تھا کہ اگر ایک چیز مہنگی یا نا پسند ہے تو دوسری جگہ تشریف لے جائیں۔ ان ہی اسباب کی بدولت اشیاء کے باہمی تبادلے کا رواج ختم ہوا اور سکہ سازی کو ترویج حاصل ہوئی۔
شروع میں اس قسم کے سکے وجود میں نہیں آئے جیسا کہ آج کل نظر آتے ہیں بلکہ کسی ایک شے کو سکہ تسلیم کر لیا جاتا تھا جو مقدار میں اتنی کم ہوتی کہ آسانی سے ادھر ادھر لے جائی جا سکے۔ آج بھی ہمارے کاروبار میں سونے کی وہی حیثیت ہے ۔دراصل کسی بھی ملک کی مالی حیثیت سونے اس اقدار پر منحصر ہے جو وہاں موجود ہے ایک ملک دوسرے ملک کو اپنے کاغذ کے نوٹوں کی مدد سے ادائیگی زر نہیں کر سکتا صرف سونا ہی ایسی چیز شمار کیا جاتا ہے جو قرض چکا سکتا ہے۔ آج سے تین ہزار سال قبل ایشیا ئے کوچک میں سونا چاندی سکے کی جگہ استعمال ہوتے تھے۔ ازمنہ قدیم میں ان علا قوں میں جو اب پاکستان میں شامل ہیں چھوٹے چھوٹے مربع یا مستطیل شکل کے سکے رائج تھے۔ یہ سکے چاندی یا تانبے کی چادروں کو کاٹ کر بنائے جاتے تھے اور ان پر ہاتھ سے مہریں لگائی جاتی تھیں ان پر علامتی نشان بنے ہوتے۔محققین کا خیال ہے کہ یہ سکے پانچویں صدی قبل از مسیح میں رائج ہوئے اور دوسری صدی قبل مسیح تک ٹیکسلا میں ان کا دور رہا۔ سکندر اعظم کی فتوحات سے قدیم پاکستان اور دنیائے مغرب میں تجارت کا راستہ کھلا، باہمی لین دین کا اثر یہاں کے سکوںپر بھی پڑا چنانچہ پہلی اور دوسری صدی قبل از مسیح میں قدیم پاکستان مروجہ سکوں پر یونانی سکوں کی چھاپ پڑی اس دور کے جو سکے دستیاب ہوئے ہیں وہ اس حقیقت پر صادر کرتے ہیں۔ پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک کشن سلطنت اور رومن سلطنت کے درمیان تجارت نے بڑا فروغ حاصل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں کے تاجروں کو ایسے طلائی سکوں کی ضرورت کا احساس ہو ا جو بین الااقوامی لین دین میں کام آئے۔ اس دور کے طلائی سکوں سے اس دور کی معاشرت او ر بودوباش پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ کنشک اور اس کے بعد آنے والے حکمرانوں کے ادوار میں لوگ بدھ مت کے ساتھ ساتھ ایران اور یونان کی مذہبی روایات سے متاثر ہونے لگے تھے اور اس کا اظہار زندگی کے مختلف شعبوں میں کرنے لگے تھے۔ گپت دور کے سکے کشن عہد کے سکوں سے بڑی حد تک مماثلت رکھتے تھے البتہ وہ ساخت کے اعتبار سے قدرے بہتر ہیں اور اس پر جو نقش و نگار بنے ہوئے ہیں وہ بھی خاصے مختلف ہیں ۔ جو سکے مینا متی بنگلہ دیش میں کھدائی کے دوران دستیاب ہوئے وہ قدیم ترین سکے تسلیم کئے گئے ہیں۔ یہ سکے ساتویں اور آٹھویں صدی میں دیو مہاراجوں نے جاری کئے اور ایک طویل عرصے تک ان کا سلسلہ چلتا رہا۔ ان سکوں پر بیل کی شبیہ بنی ہوئی ہے۔712ء میں سندھ میں عربوں کی آمد سے یہاں کی معاشرت اور معیشت میں دور رس تبدیلیاں واقع ہوئیں اور سماجی اور اقتصادی مساوات کا تصور عام ہوا۔ اس دور میں سونے چاندی کے سکے رائج ہو ئے ان پر بالعموم کلمہ طیبہ لکھا ہوتا تھاالبتہ ابتدائی دور کے سکوں کی ساخت پر ساسانی اور بازنظینی اثر نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔
سلطان شمس الدین التمش کے دور 1225-1212ء میں پہلی مرتبہ چاندی کا '' ٹکا‘‘ رائج ہوا۔ سلطان غیاث الدین تغلق (1325-1230ء) نے توسکوں کے رائج کرنے میں بڑا نام پیدا کیا۔ سلطان محمد تغلق (1351-1335ء)نے بھی اس میدان میں کئی ایک تجربات کئے، چاندی اور سونے کی بجائے تانبے اور پیتل کے سکے رائج کرنے کا اہتمام کیا۔مغل شہنشاہ بابر (1537-1526ء) اور ہمایوں نے چاندی کے درہم جاری کئے یہ درہم اپنی ساخت لے لحاظ سے ان تیموری سکوں سے مشابہ تھے ۔ یہ مغربی ایشیاء میں مروج رہے۔شیر شاہ سوری (1538-1535ء) جس نے ہمایوں کی جلا وطنی کے زمانے میں برصغیر پر حکومت کی روپیہ کا سکہ جاری کیا۔ شہنشاہ اکبر اعظم (1605-1556)نے اپنے دور حکومت میں نمایاں سیاسی اورفوجی فتوحات کے باعث کچھ زیادہ توجہ نہ دی لیکن ان سکوں کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ جہانگیر (1664-1605ء) کے عہد کے سکے اپنی خوبصورتی اور ان پر کندہ متوازن عبارتوں کے باعث بڑی شہرے کے حامل ہیں ان دور کی دو مہریں خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن پر جہانگیر کی شبیہ بنی ہوئی ہے۔شاہجہان 1707-1664 فرخ میر 1719-1713 نے باقاعدہ ٹکسالیں اور چاندی کا روپیہ جاری کیا جس پر فارسی تحریک کندہ تھی بعد کے سکوں میں فارسی کہ جگہ کورکھی رسم الخط نے لے لی1835ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جو سکے جاری کئے ان پر شہنشاہ اور کمپنی کا نام کندہ تھا۔1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد کمپنی کی جگہ تاج برطانیہ نے لے لی اس دور میں ایک آنے اور دو آنے کے سکے جاری ہوئے جس پر حکومت کے الفاظ اور اس کی قیمت درج ہوئی۔
شیخ نوید اسلم متعدد کتابوں کے مصنف
ہیں اورتاریخی موضوعات پر لکھنے میں
مہارت رکھتے ہیں۔