800جاسوسی ناولوں کے مصنف اشتیاق احمد ، بچوں ، بڑوں میں یکساں مقبولیت پائی
اسپیشل فیچر
''انسپکٹر جمشید‘‘ ، ''انسپکٹر کامران سیریز‘‘ اور ''شوکی برادرز سیریز سے بھلا کون شناسا نہیں، تقریباً ہر شخص کا بچپن ان سے جڑا ہوا ہے۔ جب ان سیریز کا ذکر آتا ہے تو ان کے تخلیق کار اشتیاق احمد کا نام سامنے آتا ہے جن کی آج چھٹی برسی منائی جا رہی ہے۔
اشتیاق احمد 1944ء ہندوستان کے شہر پانی پت میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان کے شہر جھنگ میں قیام کیا۔ان کی پہلی کہانی ہفت روزہ قندیل میں ''بڑا قد‘‘ 1960ء میں شائع ہوئی، 1972ء میں پہلا ناول ''پیکٹ کا راز‘‘ منظر عام پر آیا اور ''عمران کی واپسی‘‘ ان کا آخری ناول ثابت ہوا۔اپنی آپ بیتی ''میری کہانی‘‘میں وہ کہتے ہیں کہ گھر میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے میں سڑک کنارے لگی لائٹس سے استفادہ کرتا تھا۔
اشتیاق احمد نے کم تعلیم کو پیروں کی زنجیر نہیں بننے دیا۔ انہوں نے صرف ابن صفی اور نسیم حجازی کو نہیں پڑھا بلکہ وہ کئی مغربی مصنفین کو پڑھ چکے تھے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ''اگاتھا کرسٹی‘‘ کو بھی پڑھ چکے ہیں۔
اْن کے ناولوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پوری دنیا میں شاید ہی کسی مصنف نے 800 ناول لکھے ہوں۔ وہ لکھنے کی مشین تھے، انہوں نے لکھا اور بہت ہی اچھا لکھا۔ بچے، بڑے سب ہی ان کے ناولوں کے شیدائی تھے۔ اشتیاق احمدنے ایک دفعہ بتایا تھا کہ ایک دن انہوں نے اخبار میں پڑھا کہ دنیا کا سب سے تیز مصنف ایک منٹ میں اتنے الفاظ لکھ لیتا ہے۔میں نے بھی وقت نوٹ کر کے جب لکھا تو وہ الفاظ اس سے کہیں زیادہ تھے جو دنیا کا تیز ترین مصنف لکھتا تھا۔
جب ان سے دریافت کیا گیا کہ وہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام کیوں درج نہیں کرواتے تو کہنے لگے ''ذاتی طور پر مجھے اس کا شوق نہیں مگر میرے بعض دوستوں کا خیال تھا کہ اس طرح پاکستان کا نام روشن ہوگا، اسی وجہ سے کافی کوششیں کیں۔ گنیز بک والوں کا کہنا تھا کہ ان سب ناولوں کے ٹائٹل کی ویڈیو بنا کر ہمیں بھیجی جائے لیکن سب ناولوں کا ریکارڈموجود نہیں تھا۔ دوسری وجہ اشتیاق احمد نے یہ بتائی کہ اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ فلم کا خرچ اٹھا سکوں اس لیے یہ معاملہ رہ ہی گیا۔
ناولز تو اشتیاق احمد نے لکھے ہی لکھے۔ اس کے علاوہ بے شمار کہانیاں وہ لکھ چکے تھے۔ یہ کہانیاں مختلف رسائل میں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ انہیں کئی ادبی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں۔ اشتیاق احمد کی کہانیاں بچوں میں بے حد مقبول تھیں۔
ایک شخص کے دماغ میں بیک وقت اتنے سارے آئیڈیاز کیسے کلبلاسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اشتیاق احمدکہتے تھے کہ ایک ڈائری ان کی جیب میں ہر وقت موجود رہتی ہے، جیسے ہی کوئی خیال ان کے ذہن میں آتا ہے۔ وہ اسے لکھ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ لکھنے کے اوقات بھی ان کے مخصوص تھے۔ وہ ایک خاص وقت میں بیٹھ جاتے اور لکھتے رہتے۔
اشتیاق احمد کی تحریروں میں جو اسلوب پایا جاتا ہے، وہ ماہرین لسانیات اور ادیبوں کے مطابق عصر حاضر میں رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے رہا ہے۔اشتیاق احمد پاکستان کے وہ واحد قلمکار تھے جنہوں نے بچوں کے لیے لکھا اور اسی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ پاکستان میں بچوں کے ادیبوں کے ساتھ ہماری حکومت اور اداروں کا جو رویہ ہے وہ افسوسناک ہے۔ بچوں کے تقریباً تمام ادیب اس عدم توجہی پر شاکی ہیں۔ بہت اچھا اور عمدہ لکھنے والے قلمکار بچوں کے ادب کو اپنا ذریعہ معاش نہیں بنا پائے۔ یہ تو اشتیاق احمد کے قلم کا جادو تھا۔ وہ غیر معمولی شخصیت تھے۔ جس نے اپنے ناولوں کے ذریعے خود کو زندہ رکھا۔اشتیاق احمد مذہبی آدمی تھے۔ دین کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی ہر ممکن کوشش کی۔17 نومبر2015ء کو بچوں کے ادب کی تاریخ کا یہ درخشندہ ستارہ ڈوب گیا۔