دریائی گھوڑا:دنیا کا تیسرا بڑا زمینی جانور
کرہ ارض پر قدرت نے انواع و اقسام کی مخلوق چارسو پھیلا رکھی ہے۔ زمین، سمندر غرضیکہ دنیا کا کون سا کونا ہے جہاں چرند، پرند، کیڑے مکوڑے نہ پائے جاتے ہوں۔ جیسے زمین کا کونا کونا جانداروں سے بھرا پڑا ہے ایسے ہی سمندر کا کونا کونا بھی عجیب و غریب جانداروں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر بات زمینی جانوروں کی ہو رہی ہوتو ہاتھی کرہ ارض کا سب سے بڑا جانور شمار کیا جاتا ہے۔ ہاتھی کا وزن 11000 کلو گرام تک ہوتا ہے جبکہ اس کی اونچائی 13فٹ تک ہوتی ہے۔ہاتھی کے بعد ہپپو Hippopotamus (دریائی گھوڑا) کرہ ارض پر تیسرا بڑا زمینی جانور ہے جس کا وزن 4000کلو گرام تک جبکہ اس کی اونچائی چھ فٹ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
ایک رپورٹ میں جینیاتی سائنس کا مطالعہ کرنے والوں کا یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ اس قیاس کے کافی امکانات ہیں کہ یہ چونکہ جسامت اور ڈیل ڈول میں وہیل کے بھی کسی حد تک قریب ہے اس لئے یہ وہیل کے خاندان سے ہو سکتا ہے۔ہپپوززیادہ تر افریقہ میں پائے جاتے ہیں جبکہ ماضی میں یہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی کثرت سے پائے جاتے تھے۔
طرز زندگی اور خوراک: ہپپوز سبزی مائل بھوری رنگت کے بھاری بھر کم ممالیہ جانور ہیں۔ یہ بہت بڑے سر، چھوٹی سی گردن اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں کے ساتھ ساتھ خطرناک حد تک تیز اور نوکیلے دانتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی جلد بہت مضبوط اور چار سنٹی میٹر تک موٹی ہوتی ہے۔ پانی کے اندر موجودگی کے دوران سانس لینے کیلئے یہ اپنا ناک لمحہ بھر کیلئے پانی سے اوپر اٹھاتا ہے۔ یہ صوتی اشاروں کے ذریعے ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں۔ اگرچہ بھاری بھر کم جسامت کی وجہ سے ان پر حملوں کا چانس کم ہوتا ہے تاہم شکار کی صورت میں یہ اپنے خطرے کی اطلاع اپنے ساتھیوں کو مخصوص انداز میں دھاڑ کر دیتے ہیں۔
یہ بیک وقت پانی اور زمین پر تیز رفتاری سے بھاگ سکتے ہیں۔ یہ زمین پر صرف رات کا مختصر سا وقت گزارتے ہیں اور وہ بھی صرف خوراک کی تلاش کے دوران۔ ان کی خوراک جڑی بوٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کا زیادہ وقت پانی کے اندر یا اس کے آس پاس گزرتا ہے۔ان کا مکمل جسم پانی میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے ماسوائے نتھنوں کے جو پانی سے باہر ہوتے ہیں۔ یہ ہوا کے بغیر باآسانی 10منٹ تک پانی کے اندر رہ سکتے ہیں۔ اگرچہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ پانی میں گزرتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہ اچھے تیراک نہیں ہوتے۔
ان جانوروں کی ایک عادت مشترک ہے کہ یہ سرشام ہی ریوڑ کی شکل میں چرنے نکل پڑتے ہیں اور کھانا کھا لینے کے بعد یہ ایک لمحہ بھی زمین پر نہیں ٹھہرتے بلکہ پانی میں آ جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ چرنے کیلئے جس جگہ کا انتخاب کرتے ہیں وہ ان کی دن بھر کی خوراک کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بھی خوراک کی طلب باقی رہ جائے تو یہ کئی کئی کلومیٹر دور تک بھی چلے جاتے ہیں۔ خوراک کے بارے ان کی ایک اور عادت ہے کہ یہ دن بھر کی خوراک کا کچھ حصہ اپنے منہ کے اندر محفوظ کر لیتے ہیں جسے رفتہ رفتہ چباتے رہتے ہیں۔
ایک دریائی گھوڑے کی دن بھر خوراک کی ضرورت اوسطاً 40 سے 45 کلو گرام کے درمیان ہوتی ہے جبکہ وافر خوراک دستیابی کی صورت میں یہ 65 سے 70 کلو گرام خوراک باآسانی کھا لیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان کا نظام انہضام اپنے ہم جسامت جانوروں سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ ان کا موازنہ عام طور پر ہاتھی اور گینڈے سے کیا جاتا ہے۔ جن کے مقابلے میں یہ ان سے بہتر خوراک ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ خوراک کی مقدار ہو جو یہ ان دونوں جانوروں کے مقابلے میں خاصی کم کھاتے ہیں۔
یہ صورت حال اس وقت بڑی دلچسپ ہوتی ہے جب پانی میں بیٹھے ہپپو جس کا صرف سر باہر ہوتا ہے اور اس کے سر کے عین اوپر پرندوں نے بسیرا کر رکھا ہوتا ہے بالکل ایسے جیسے سمندر کے آس پاس ساحل پر پرندوں نے پڑاؤ کر رکھا ہوتا ہے۔ دراصل سمندر میں اڑتے پرندے اس کے بھاری بھر کم سر کو ماہی گیری کیلئے استعمال کرتے ہیں لیکن اسی پر ہی بس نہیں،اس کے خاموشی سے ان پرندوں کو برداشت کرنے کے پس پردہ بھی اس کا اپنا مفاد کارفرما ہوتا ہے۔ دراصل ہپپو کی جلد بالخصوص اس کی آنکھوں کے آس پاس مختلف اقسام کے کیڑے چمٹے ہوتے ہیں جو اس کی پلکوں کے نیچے گھس جاتے ہیں جس سے اسے کوفت ہوتی رہتی ہے اور یہ بیچارہ انہیں ہٹانے یا بھگانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس صورت حال میں یہ پرندے یوں اس کیلئے باعث رحمت ہوتے ہیں کہ وہ ان کیڑے مکوڑوں کو بطور خوراک استعمال کرتے رہتے ہیں جس سے اسے ان کیڑوں سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔
اگرچہ دریائی گھوڑے کے اس رویے سے یہ تاثر ذہن میں آتا ہے کہ یہ بہت ہی معصوم اور بے ضرر جانور ہے لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ اگر اس کا مخالف اس کو تنگ کرے تو یہ اچانک حملہ آور بھی ہو سکتا ہے، اسے گھسیٹ کر پانی کی گہرائی میں بھی لے جا سکتا ہے اور اسے چیر پھاڑ کر کھا بھی سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ اس وقت اپنے مخالف کو پل بھر میں اپنے حصار میں لے لیتا ہے جب بالغ نر یا مادہ ہپپو کی موجودگی میں کوئی ان کے بچوں سے چھیڑ خانی کر بیٹھے۔وہ ننھے ہپپوز کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
لاحق خطرات:ایک تحقیق کے مطابق 30 سے 40 فیصد ہپپوز پیدائش کے پہلے سال کے دوران ہی مختلف بیماریوں کے باعث مر جاتے ہیں جبکہ زندہ رہ جانے والے باقی ہپپوز کی زندگی کو عام طور پر دو طرح کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ ایک انہیں جنگل کے اندر سے جو صرف شیر کے حملے کی وجہ سے ہو سکتے ہیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے جبکہ اس نسل کو اصل خطرہ شکاریوں سے ہوتا ہے۔ ایک قسم کے شکاری وہ ہوتے ہیں جن کی فصلوں کو ان سے نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ دوسری قسم کے شکاری پیشہ ور شکاری ہوتے ہیں۔ ایک ہپپوز سیکڑوں کلو گوشت کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس کا گوشت غذائیت اور لذت میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی جو اسے دوسری اقسام کے گوشت سے ممتاز کرتی ہے وہ چکنائی کا کم ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا گوشت عام جانوروں کے گوشت سے کئی گنا زیادہ مہنگا ہونے کے سبب عموماً نایاب ہوتا ہے۔
اگرچہ افریقہ اور دیگر ممالک میں جہاں یہ کثرت سے پائے جاتے ہیں ان کے شکار پر پابندی عائد ہے لیکن اس کے قیمتی گوشت اور اس کی نایاب ہڈیوں کی بدولت شکاری موقع پا کر اس کے شکار سے باز نہیں آتے۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس کی ہڈیاں ہاتھی کی ہڈیوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہیں ۔ کیونکہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ پیلی نہیں ہوتیں۔ ان کی ہڈیاں فرنیچر سے لیکر آرائشی سامان بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں جس کے سبب بین الاقوامی مارکیٹ میں ان کی زبردست مانگ رہتی ہے۔
خاورنیازی سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں، تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں