جب پاکستان میں بھی آرٹ فلمیں بنائی گئیں، کئی پاکستانی ہدایتکار اس میدان کے شہسوار ٹھہرے

اسپیشل فیچر
ندیم اور قوی خان کی آرٹ فلم ''مٹی کے پتلے‘‘ کو روس میں ایوارڈ ملا
ریاض شاہد کی ''سسرال‘‘ کوپاکستان کی عظیم فلموں میں شمار کیاجاتا ہے
ایک زمانے میں انڈیا کی آرٹ فلموں کا بڑا چرچا تھا۔80ء اور 90ء کی دہائی میں بالی وڈ میں بے شمار آرٹ فلمیں بنائی گئیں۔ آرٹ فلم کیا ہے؟ اس پر مختلف آراء ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ آرٹ فلم بہرحال وہ فلم ہے جو حقیقت کے قریب ہوتی ہے اور اس میں کمرشل ازم مفقود ہوتا ہے۔ یعنی یہ وہ فلم ہے جو تجارتی بنیادوں پر نہیں بنائی جاتی۔ انڈیا میں بہت سی آرٹ فلمیں ایسی بھی بنائی گئیں جن کی عالمی سطح پر پذیرائی کی گئی اور ان فلموں کے اداکاروں نے بھی بالی وڈ کے اعلیٰ ترین ایوارڈ حاصل کئے۔ اس دور میں جو آرٹ فلمیں مشہور ہوئیں۔ ان میں ''نشانت، چکرا، پرش، منڈی، پار، سلام بمبے، مرچ مصالحہ، منتھن، گدھ، گمن، کملا، یہ نزدیکیاں،آکردش، ایک پل، اردھ ستیہ، اندھا یدھ، ہولی اور کئی دوسری فلمیں شامل ہیں۔ ویسے تو دلیپ کمار کی فلم ''شکست‘‘ اور ''سگنیہ‘‘ کو بھی آرٹ فلم کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح امتیابھ بچن کی فلم ''سوداگر‘‘ اور'' میں آزاد ہوں‘‘ بھی شاید آرٹ فلموں کی تعریف پر پورا اترتی ہیں۔ بالی وڈ کے لیجنڈ اداکار دلیپ کمار نے تو آرٹ فلم کی اصطلاح تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ ان کے خیال میں فلم اچھی ہوتی ہے یا بری۔
آرٹ فلموں کے حوالے سے بالی وڈ کے جن فنکاروں نے شہرت حاصل کی ان میں نصیر الدین شاہ، اوم پوری، شبانہ اعظمی، سمیتا پاٹیل، گلبھشن، گھربیندرا، فاروق شیخ، دپتی نول، گرش کرنارڈ، مارک زبیر اور دیگر کئی فنکار شامل ہیں۔ ڈمپل کپاڈیا نے بھی ''ردالی‘‘ میں زبردست اداکاری کی تھی اور یہ ثابت کیا تھا کہ وہ صرف کمرشل فلموں کی ہی اداکارہ نہیں، بلکہ آرٹ فلموں میں بھی اپنے فن کا لوہا منوانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بالی وڈ میں بننے والی آرٹ فلموں کے معروف ہدایتکاروں میں ستیہ جیت رے، سعید مرزا، گوند نہلانی اور شیام بینگل کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ لوگ بہت ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔
کیا پاکستانی فلمی صنعت نے بھی آرٹ فلمیں بنائیں؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ یہ فلمیں اس زمانے میں بنائی گئیں جب کمرشل اور آرٹ فلموں کی اصطلاحیں اتنی عام نہیں تھیں آرٹ فلم کی تعریف جو بعد میں کی گئی۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ واقعی یہاں بھی آرٹ فلمیں بنائی گئیں۔ ان فلموں میں جاگو ہوا سویر، مٹی کے پتلے، بدنام، نیلا پربت، دھوپ اور سائے اور سسرال شامل ہیں۔ خلیل قیصر کی فلم 'دی کلرک‘‘ کو بھی اس صف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ''سسرال‘‘ کے علاوہ باقی کوئی فلم بھی باکس آفس پر اتنی کامیاب نہ ہو سکی لیکن فلم کے بڑے بڑے ناقدین نے ان فلموں کے موضوعات کے حوالے سے انہیں بہت سراہا۔''مٹی کے پتلے‘‘ میں ندیم اور قوی خان جیسے فنکار شامل تھے اور اس فلم کو روس میں ایوارڈ ملا۔ یہ فلم مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے بنائی گئی تھی۔ ''نیلا پربت‘‘ معروف صحافی اور دانشور احمد بشیر کی تخلیق تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اس وقت کے فلم بینوں کو سمجھ نہیں آئی تھی۔ یعنی وہ اس فلم کے اچھوتے موضوع کا صحیح معنوں میں ادراک ہی نہ کر سکے۔ اس فلم میں نیلو، محمد علی اور آغا طالش نے اہم کردار ادا کئے تھے۔ ''سسرال‘‘ کو بلاشبہ پاکستان کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ یہ ریاض شاہد کی ذہانت کا کمال تھا کہ ایسے انوکھے موضوع پر فلم بنائی کہ لوگ عش عش کر اٹھے۔ اس فلم کے گیت منیر نیازی نے لکھے اور موسیقی حسن لطیف نے دی۔ بھارت کے مشہور اداکار بلراج ساہنی نے ''سسرال‘‘ کو پاکستان کی پہلی آرٹ فلم قرار دیا تھا۔ اگرچہ پاکستان میں آرٹ فلمیں بہت کم بنائی گئیں لیکن اپنے دور کے حوالے سے ان کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔
آج کی نوجوان نسل کو یہ علم ہونا چاہیے کہ پاکستانی فلمی صنعت میں بھی بڑے بڑے ہدایتکار، سکرپٹ، رائٹر، اداکار اور ہدایتکار موجود تھے۔ جنہوں نے اپنی لیاقت اور صلاحیتوں کا ایسا مظاہرہ کیا کہ آج بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ ہدایتکار اقبال شہزاد کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے جنہوں نے سعادت حسن منٹو کے افسانے''جھمکے‘‘ کو سلولائیڈ کے فتے پر منتقل کیا اور ''بدنام‘‘ جیسی یادگار فلم تخلیق کی۔ جن لوگوں کو یہ فلم ابھی تک یاد ہے انہیں علائو الدین کا یہ مشہور مکالمہ بھی یقیناً یاد ہوگا''کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے، کون لایا ہے یہ جھمکے‘‘؟ اب تو خیر سب کچھ قصہ پارینہ بن چکا ہے لیکن اس بات سے کون اختلاف کر سکتا ہے کہ بہترین کام ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور اسے سرانجام دینے والوں کا نام بھی تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جا سکتا۔
(عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اورروزنامہ ''دنیا‘‘ سے طویل عرصہ سے وابستہ ہیں)
فرشتوں کے لکھے پہ پکڑے جانے والے