کاغذ کب ، کیسے اور کہاں ایجاد ہوا؟
اسپیشل فیچر
کاغذ کو ابتدائی شکل دینے میں مصریوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مصری اگرچہ باقاعدہ طور پر کاغذ تو ایجاد نہ کر سکے لیکن نیل کے ساحلوں پر صدیوں سے اگتا چلا آیا ''پاپائرس‘‘ نامی ایک درخت کی چھال اور گودے سے 3000 سال قبل مسیح میں تیار کردہ کاغذ نما ایک شے جسے انہوں نے پیپرس کا نام دیا۔پیپرس نہ صرف مصریوں نے اپنے زیر استعمال رکھا بلکہ روم ، انگلستان اور کئی دیگر ممالک میں بھی مصر سے بھیجا جاتا رہا ،جس کی طلب رفتہ رفتہ دیگر ممالک میں بھی بڑھتی چلی گئی۔''پیپرس‘‘ چونکہ مضبوطی کے اعتبار سے دیر پا نہ تھا دوسرا اس میں لچک کا فقدان تھا، جس کے سبب رفتہ رفتہ اس کی اہمیت کم ہوتی گئی اور اس کی جگہ چمڑے، جانوروں کی کھال نے لے لی جو مضبوط اور دیرپا ہوتے تھے۔
جانوروں کی کھال سے تیار کردہ کاغذ نے ایک عرصہ تک کاغذ کی ضرورت کے خلا کو پر کئے رکھا۔جہاںاس کا استعمال مہنگا تھا وہیں اس کا بنانابھی کٹھن تھا۔ اس کے ساتھ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ مصر، یونان سمیت چین میں بھی کتابیں بانس کی لکڑی پر لکھی جاتی تھیں۔ یہ ایک طرف تو وزنی اور بے ربط ہوتی تھیں دوسرا ان کا سنبھالنا بھی قدرے محال ہوتا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں بعض جگہ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ ریشم کے کپڑوں کو کاغذ کے طور استعمال کیا جاتارہا ہے۔
یہ سب کاغذ کی مرحلہ وار ابتدائی اشکال تھیں جبکہ کاغذ کی اصل شکل کی ایجاد کا سہرا 100سال قبل مسیح کے آس پاس چین کے بادشاہ وو ہو کے ایک درباری تسائی لون کے سر جاتا ہے۔اس نے کاغذ ایجاد کر کے جب بادشاہ ووہو کے دربارمیں پیش کیا تو وہ بہت خوش ہوا۔
ساتویں صدی عیسوی تک چین کاغذ تیار کرنے کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتا رہا۔ چین نے کاغذ تیاری کے فارمولے کو مخفی رکھا جس کے سبب ساتویں صدی عیسوی تک چین دنیا کے بیشتر ممالک کو کاغذ مہیاکرتا رہا۔
751 عیسوی میں جب سمر قند (جو اب ازبکستان کہلاتاہے)میں مسلمانوں کی عباسی سلطنت تھی جو چینیوں کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ چینیوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں چینیوں کو شکست ہوئی اور وہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ایک بہت بڑی تعداد میں چینی مسلمانوں کی گرفت میں آ گئے اور وہ جنگی قیدی بنا لئے گئے۔ جن میں چند قیدی ایسے تھے جو نہ صرف چین کی کاغذسازی کی صنعت سے وابستہ تھے بلکہ کاغذ سازی کا ماسٹر مائنڈ ٹیو ہانان بھی ان میں شامل تھا۔ مسلمانوں نے انہیں اپنے ساتھ ملا کر کاغذ سازی کو فروغ دیا۔ بہت مختصر عرصے میں مسلمان کاغذ سازی میں اتنے ماہر ہو گئے کہ جہاں چین کو پہنچنے کیلئے ایک صدی کا عرصہ لگا وہاں مسلمان انتہائی کم عرصے میں پہنچ گئے۔ مسلمانوں نے کاغذ سازی کے وہ تمام نقائص دور کئے جو چین کے کاغذ سازوں کو درپیش تھے۔ مثلاً چینی کاغذ کھردرا اور بے ربط تھا جبکہ مسلمانوں نے بہت مہارت سے اس کو نفیس اور ملائم بنا دیا۔
بارہویں صدی میں ہسپانوی مسلمانوں نے صنعت کاغذ سازی کا آغاز کیا، اس کے بعد یہ صنعت فرانس اور ہالینڈ منتقل ہوئی۔ ہالینڈ کے بعد اٹلی کاغذ سازی میں اپنا ایک مقام بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ شروع میں اٹلی، جنوبی جرمن کی کاغذ کی ضروریات پوری کرتا رہا لیکن رفتہ رفتہ جرمن خود کاغذسازی میں نہ صرف خود کفیل ہو گیابلکہ کئی ممالک کی ضروریات بھی پوری کرتا رہا۔
انگلستان ان سب ممالک کے مقابلے میں کاغذ سازی کی صنعت میں سب سے آخر میں داخل ہوا۔ انگلستان پندرھویں صدی میں اس صنعت میں داخل ہوا۔ اٹھارویں صدی تک کاغذ ہاتھ سے چلائی جانے والی مشینوں سے بنایا جاتا رہا لیکن رفتہ رفتہ کاغذ کا استعمال پوری دنیا میں پھیلتا چلا گیا اور اس کی ضرورت بھی بڑھتی گئی۔ تب انسان نے محسوس کیا کہ اس کے زیادہ استعمال کی وجہ سے یہ کام ہاتھ سے ہونا مشکل ہے ۔ چنانچہ اٹھارہویں صدی ہی میں فرانسیسی انجینئر لوئی رابرٹ نے ایک ایسی مشین ایجاد کی جو پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ کاغذبنا تی تھی۔
اس کے بعد اسے بہتر انداز میں ایجاد کرنے کا سہرا انگلینڈ کے ہنری فورڈ ریزر کے سر جاتا ہے جس نے پہلے والی مشین کے نقائص دور کر دئیے۔ اس کے بعد اس مشین میں ڈی کن سن، کاؤسن اور کرومپٹن نامی انجینئروں نے مزید تبدیلیاں کر کے اس کی استطاعت میں اس قدر اضافہ کر دیا کہ یہ چند منٹوں میں منوں کے حساب سے کاغذ تیار کر لیتی تھی۔ اس مشین کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ پہلے والے کاغذکے مقابلے میں اس نے کئی گنا زیادہ نفیس کاغذ تیار کرنا شروع کر دیا جو لاگت میں بھی انتہائی کم قیمت تھا۔اس سے بھی حیران کن بات یہ تھی کہ دستی مشین جتنا کاغذ ایک سال میں تیار کرتی تھی یہ مشین اتنا کاغذ ایک دن میں تیار کر لیتی تھی۔
یوں تو ہندوستان میں مسلمان کی آمد کے ساتھ ہی کسی نہ کسی طور کاغذ تیار ہوتا آیا ہے لیکن مشینی کاغذ کی شروعات بر صغیر میں 1876ء میں بالی کے مقام پر رائل پیپرز مل نامی ایک کارخانے سے شروع ہوئی۔ جس میں ڈاکٹر کیپری کی تیار کردہ مشین کو استعمال کیا جاتا رہا۔ لیکن جلد ہی ہندوستان کاغذ سازی کی صنعت میں ترقی کرنے لگا اور مختلف کمپنیاں چھوٹے چھوٹے کارخانے لگا کر کاغذ کی مقامی ضرورت کو پورا کرتی رہیں۔ 1918 میں '' انڈین پیپرز ‘‘ نامی کمپنی نے بانس کے گودے سے کاغذ تیار کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ کاغذ نفاست اور معیار کے لحاظ سے کہیں بہتر تھا۔ بانس کے گودے کے علاوہ بر صغیر میں گھاس، دھان کے پیال اور گنے کے پھوک سے بھی کاغذ تیار کیا جاتا رہا ہے۔
خاور نیازی لاہور میںمقیم ایک سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں ، تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں