رضیہ سلطانہ برصغیر کی پہلی مسلمان ملکہ، ان پر فلم بھی بنائی گئی
اسپیشل فیچر
ہندوستان میں سلاطین دہلی کی حکومت کی بنیاد شمس الدین التمش نے رکھی۔ التمش ایک غلام تھا جسے لڑکپن میں ہی بیچ دیا گیا تھا۔ اس نے اپنی ابتدائی زندگی بخارا اور غزنی میں گزاری جہاں وہ مختلف آقائوں کی غلامی کرتا رہا۔ 1190ء کے آخر میں قطب الدین ایبک نے اسے دہلی میں خریدا۔ التمش نے ایبک دور میں بڑی ترقی کی۔ اس کی ایبک کی بیٹی سے شادی ہوئی۔ التمش بہترین منظم اور اعلیٰ درجے کا جنگی حکمت کار تھا۔ اس نے کئی بغاوتوں کا قلع قمع کیا اور کئی علاقے فتح کئے۔ سلاطین دہلی کا آخری سلطان ابراہیم لودھی تھا۔ جسے ظہیر الدین بابر نے پانی پت کے میدان میں شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 30 اپریل 1236ء کو التمش کا انتقال ہوا۔
التمش کے انتقال کے بعد دہلی کئی سال تک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔ چار افراد کو تخت پر بٹھایا گیا اور پھر انہیں قتل کر دیا گیا۔1220ء کی دہائی میں التمش نے ناصر الدین محمود کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ 1229ء میں ناصر الدین محمود کا اچانک انتقال ہو گیا۔ التمش اس وقت گوالیار میں تھا جب اسے یہ روح فرسا خبر ملی۔ گوالیار روانہ ہونے سے پہلے التمش نے دہلی کی انتظامیہ کے معاملات اپنی بیٹی رضیہ سلطانہ کے حوالے کر دیئے۔ موت سے کچھ عرصہ پہلے التمش نے بڑے بیٹے رکن الدین فیروز کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ التمش کی وفات کے بعد رکن الدین فیروز کو بادشاہ تسلیم کر لیاگیا۔
رکن الدین کے دور میں اس کی ماں شاہ ترکن نے ریاست کے معاملات خود سنبھال لئے اور اپنے حریفوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی امرا نے بغاوت کر دی۔ ان میں التمش کا دوسرا بیٹا غیاث الدین محمد شاہ بھی شامل تھا۔ان حالات میں رضیہ سلطانہ نے 1236ء میں تخت پر قبضہ کر لیا اور رکن الدین کو ہلاک کر دیا گیا۔
رضیہ سلطانہ ہندوستان کی پہلی مسلمان ملکہ تھی۔ رضیہ سلطانہ کی تخت نشینی کو کچھ امراء نے چیلنج کردیاجبکہ کچھ امراء نے رضیہ سلطانہ کا ساتھ دیا۔ 1231ء میں جب التمش گوالیار کی لڑائی میں مصروف تھا تو دہلی کے انتظامی معاملات رضیہ سلطانہ نے سنبھال لئے تھے۔ التمش کو اپنی بیٹی کی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کا علم تھا۔
التمش نے اپنے افسر مشرف مملکت تاج الملک دبیر کو یہ وصیت لکھنے کا حکم دیا تھا کہ اس کی وفات کے بعد اس کی بیٹی رضیہ سلطانہ جانشین ہو گی۔ جب اُمراء نے التمش کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے بیٹی کو جانشین بنانا مناسب نہیں تو التمش نے موقف اختیار کیا کہ رضیہ اس کے بیٹوں سے زیادہ باصلاحیت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ رکن الدین ایک نالائق حکمران تھا۔ اس کے خلاف بہت بغاوتیں ہوئیں۔ ادھر شاہ ترکن نے دہلی میں رضیہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ رضیہ سلطانہ نے ایک بڑے اجتماع کو شاہ ترکن کے منصوبوں سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد ایک بپھرے ہوئے ہجوم نے شاہی محل پر حملہ کیا اور شاہ ترکن کو نظر بند کر دیا۔ کئی اُمراء اور فوجی افسروں نے رضیہ سلطانہ سے وفاداری کا اعلان کیا اور اسے تخت پر بٹھا دیا۔ اس طرح رضیہ سلطانہ جنوبی ایشیا کی پہلی مسلمان ملکہ بن گئیں۔19نومبر 1236ء کو رکن الدین کو پھانسی دے دی گئی۔
اقتدار کی یہ جنگ رضیہ سلطانہ جیت گئی۔ اس کا ملکہ بننا اس لحاظ سے ایک غیر معمولی واقعہ تھا کہ وہ ایک عورت تھی جو ہندوستان کی ملکہ بن گئی۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ اسے عوام کی زبردست حمایت حاصل تھی۔ اپنے اقتدار کے آغاز سے ہی رضیہ سلطانہ کو ان امرا ء کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جو ترک تھے۔ جب رضیہ سلطانہ نے ترک امراء کی طاقت کو غیر ترک امراء کی مدد سے کم کرنا چاہا تو ترک امراء کی مخالفت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ جلد ہی رضیہ سلطانہ کے خلاف بغاوتیں شروع ہو گئیں۔
رضیہ سلطانہ نے خود باغیوں سے لڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنی فوج کی قیادت کی۔ کئی باغی رہنما مارے گئے۔ 1240ء میں رضیہ کو خبر ملی کہ اس کے غلام اختیار الدین التونیہ نے بغاوت کر دی ہے۔ ترک افسر رضیہ سلطانہ کے خلاف اکٹھے ہو چکے تھے۔ رضیہ اس بات سے لاعلم تھی کہ دہلی کے امراء بھی التونیہ کا ساتھ دے رہے تھے۔
باغی فوجیوں نے رضیہ کے وفادار حبشی غلام یاقوت کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ رضیہ کو باغیوں نے گرفتار کر لیا۔ جب رضیہ کی گرفتاری کی خبر دہلی پہنچی تو باغی امراء نے معزز دین بہرام کو تخت پر بٹھا دیا۔ بہرام رضیہ کا بھائی تھا۔ رضیہ کو معزول کرنے کے بعد دہلی کے امراء نے اہم عہدے آپس میں بانٹ لئے۔ انہوں نے التونیہ کی ہدایات کو بھی نظرانداز کردیا۔ التونیہ نے رضیہ کا اتحادی بننے کا فیصلہ کر لیا۔ رضیہ سلطانہ نے ستمبر 1240ء میں التونیہ سے شادی کر لی۔ التونیہ نے فوج اکٹھی کی جس میں کھوکھر، جٹ اور راجپوت شامل تھے۔ اکتوبر1240ء میں سلطان بہرام کی فوج کا التونیہ اور رضیہ کی فوجوں سے ٹکرائو ہوا۔14 اکتوبر1240ء کو التونیا اور رضیہ کی فوجیوں کو شکست ہوئی۔ رضیہ کی موت 15اکتوبر 1240ء کو ہوئی۔ رضیہ سلطانہ کا دور سازشوں اور بغاوت سے بھرپور ہے اقتدار کی ہوس انسانوں کو واقعی اندھا کر دیتی ہے۔ 1983ء میں بھارت میں ''رضیہ سلطان‘‘ کے نام سے فلم بھی بنائی گئی۔