کلر بلائنڈ نیس کونز میں خرابی رنگوں کے اندھے پن کا سبب بنتی ہے
اسپیشل فیچر
کلر بلائنڈنیس یا رنگوں کا اندھا پن ایسی بیماری ہے جس میں انسان رنگوں کی پہچان معمول کے مطابق نہیں کر سکتایعنی اس کو رنگ اس طرح سے نظر نہیں آتے جس طرح ایک نارمل انسان کو نظر آتے ہیں۔اگر آپ کسی کلر بلائنڈ شخص کے سامنے سبز او ر سرخ رنگ کی دو چیزیں رکھ دیں تو وہ ان کے درمیان فرق نہیں کر پائے گا ، نیلے اور زرد رنگ کے ساتھ بھی اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس بیماری میں ہر متاثرہ شخص کے ساتھ مختلف معاملات ہوتے ہیں سب کو ایک جیسے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
ایسا اس لئے ہوتاہے کیونکہ ہماری آنکھ میں موجود ریٹنا میں دو اقسام کے سیلز ،روڈز اور کونز پائے جاتے ہیں جو روشنی کی پہچان کرتے ہیں ۔ روڈ سیلز روشنی اور اندھیرے کی پہچان کرتے ہیں جبکہ کونز رنگوں کے دیکھنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔
انسانی آنکھ میں تین طرح کے کونز موجود ہوتے ہیں جنہیں RGBبھی کہا جاتا ہے یعنی ریڈ، گرین اور بلو۔
ہمارا دماغ انہیں سیلز کی مدد سے سگنلز موصول کرتا ہے اور رنگوں کو پہچانتا ہے۔رنگوں کے اندھے پن میں انہی کونز میں مسئلہ پایا جاتا ہے ۔ اس کی دوصورتیں ہو سکتی ہیں ،یا تو ایک سے زیادہ کونز موجود ہی نہیں ہیں یا موجود ہیں لیکن کام نہیںکر رہیں۔کلر بلائنڈنیس کی شدت بھی مختلف ہوتی ہے، کچھ افراد میں معتدل اندھاپن ہوتا ہے جس میں کونز موجود ہوتے ہیں لیکن ٹھیک سے کام نہیں کرتے ،ان کو رنگوں کی پہچان کرنے میں اس وقت مشکل ہوتی ہے جب مکمل روشنی موجود نہ ہو۔ اگر وہ کسی ایسی جگہ پر ہیں جہاں اچھی روشنی موجود ہے تو ان کو رنگوں کی پہچان کرنے میں مشکل نہیں ہوتی ۔اس صورتحال کوMild Blindnessبھی کہتے ہیں۔دوسری قسم کی بیماری میں متاثرہ شخص رنگوں میں پہچان سے بالکل قاصر ہوتا ہے پھر چاہے روشنی زیادہ ہو یا کم اس کے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سرج رنگ کی پہچان کرنے والی کونز کو Protan،سبز رنگ کی پہچان کرنے والی کونز کوDeutan اور نیلے رنگ کی پہچان کرنے والی کونز کوTritanکہا جاتا ہے۔ کلر بلائنڈنیس میں مریض رنگوں کے مختلف شیڈز کی پہچان نہیں کر پاتا۔مختلف اشخاص میں مختلف نوعیت کی بیماری پائی جاتی ہے کچھ ڈیوٹرنوپیا کا شکار ہوتے ہیں جس میں انہیں سبز رنگ دیکھنے میں مشکل ہوتی ہے یا بالکل دکھائی نہیں دیتا ، ٹرائی ٹینوپیا میں نیلا رنگ اور پروٹینوپیا میںمبتلا افراد سرخ رنگ دیکھنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ان تینوں اقسام میں مختلف رنگوں کے شیڈز بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اس سے زیادہ شدت کی صورت میں متاثرہ شخص کو کوئی بھی رنگ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے افراد کو سب کچھ سرمئی رنگ یعنی بلیک اینڈ وائٹ میں دکھائی دیتا ہے۔
ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ رنگوں کے اندھے پن میں متاثرہ شخص کی نظر کمزور نہیں ہوتی اور اکثر کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ کلر بلائنڈنیس ہونے کے باوجود نظر ٹھیک رہتی ہے۔ماہرین کے مطابق اس بیماری کا علاج نہیں کیا جا سکتا نہ ہی کسی سرجری سے اسے ٹھیک کیا جا سکتاہے لیکن کلر فلٹر لینز کی مدد سے کلر بلائنڈ افراد کی مدد کی جا سکتی ہے کہ وہ کچھ بہتر انداز میںد یکھ سکیں۔ کچھ محققین کا ماننا ہے کہ اگر کوئی شخص جینیاتی طور پر اس بیماری میں مبتلا ہوا ہے تو جین ریپلیسمنٹ تھراپی کی مدد سے کسی حد تک اس کا علاج کیا جا سکتاہے۔جینیاتی طورپر خرابی کی صورت میں چھوٹی عمر میں ہی اس کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ والدین یا اساتذہ جب چھوٹے بچوں کو پڑھاتے ہیں اوررنگوں کی پہچان کرنا سکھاتے ہیں تواس وقت اس بیماری کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
رنگوں کا اندھاپن کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے،اگر یہ بیماری جینیاتی طور پر آپ کے اندد موجود نہیں تو یہ کسی کیمیکل،دواء کے ری ایکشن یا ذیابیطس کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔تحقیق کے مطابق خواتین کی نسبت مرد اس بیماری کا زیادہ تعداد میں شکار ہوتے ہیں۔ہر12میں سے ایک مرد اس بیماری کا شکار ہوتا ہے جبکہ ہر200میں سے ایک خاتون کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اس بیماری کے شکار کل افراد میں 95فیصد مرد حضرات شامل ہیں جبکہ98فیصد افراد Red-Greenبلائنڈنیس کا شکار ہوتے ہیں۔کلر بلائنڈ نیس کی وجہ سے بہت سے ایسے کام ہیں جو متاثرہ شخص نہیں کر سکتا ، مثلاً اس بیماری میں مبتلا افراد پائلٹ نہیں بن سکتے ، افواج میں بھرتی نہیں ہو سکتے لیکن کئی طرح کی پابندیوں کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اندھا پن کس قسم اورنوعیت کا ہے۔ مثلاً پہلے کلر بلائنڈ افراد کو گاڑی چلانے کے لئے لائسنس جاری نہیں کیا جاتا تھا لیکن اب کچھ ممالک میں اس بیماری کی نوعیت کے حساب سے لائسنس جاری کئے جاتے ہیں ، اگر اندھا پن معمولی نوعیت کا ہو تو بغیر کسی مشکل کے ڈرائیونگ لائسنس جاری کر دیا جاتا ہے۔
پیدائشی طور پر اس بیماری سے بچنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں لیکن اگر یہ بیماری پیدائشی طور پر لاحق نہ ہو تو پھر اس سے بچا جاسکتا ہے، اس کے لئے آنکھوں کا معائنہ کرواتے رہنا چاہیے تاکہ اگر کوئی خرابی پیدا ہو رہی ہے توبر وقت اس کا علاج کیا جا سکے۔
ڈاکٹر مدثر اقبال شعبہ بائیو کیمسٹری میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات سر انجام دے رہے ہیں،ان کے تحقیقی مضامین قومی اور بین الاقوامی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں