جرگہ
اسپیشل فیچر
پاکستان اور قرب و جوار کے قبائلی علاقوں میں ایک ضرب المثل مشہور ہے ''جنگ جیتنا آسان ہے لیکن جرگہ جیتنا مشکل ہے‘‘ اور شاید یہی وجہ ہے قبائلی علاقوں بارے کہا جاتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں جنگل کا قانون نہیں چل سکتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ جرگہ ہے کیا؟ جرگہ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی '' اسمبلی ‘‘ یا پنچایت کے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں تمدنی اداروں کا وجود نہیں ہوتا اس لئے وہاں بہت سارے معاملات جرگہ کے ذریعے حل کئے جاتے ہیں۔عام طور پر قبیلوں کے عمائدین یا سردار جنہیں '' مشران‘‘ کہا جاتا ہے ایک کمیٹی کی شکل میں باہمی صلاح اور مشاورت کے بعدمجرموں کی سزاکا تعین کرتے ہیں۔ عام طور پر کسی بڑے قصبے یا کچھ چھوٹے قصبوں پر مشتمل علاقے میں ایک جرگہ قائم کیا جاتا ہے لیکن کچھ علاقوں میں دو جرگوں کا رواج بھی ہے۔ جن میں ایک جرگے کو لویہ جرگہ یعنی بڑا جرگہ اور دوسرے کو وڑہ یعنی چھوٹا جرگہ کہتے ہیں۔
جرگوں کی تاریخ :پشتو اور فارسی کے نامور ادیب اور تاریخ دان عبدالحی حبیبی مرحوم اپنی کتاب ''افغانستان کی قدیم تاریخ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ'' پشتونوں کی تاریخ لگ بھگ 5ہزارسال قدیم ہے اور دیگر قدیم اقوام کی طرح پشتون تہذیب بھی قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے‘‘۔ جہاں تک پشتونوں کے جرگے کی تاریخ کا تعلق ہے، روایات کے مطابق یہ بہت پرانی ہے، سب سے پہلا جرگہ ایک ہزار سال پہلے موجودہ افغانستان کے صوبہ غور میں قائم ہوا تھا۔ اس کے بعد شیرشاہ سوری کے دور میں پشتون افغانوں نے ایک جرگہ قائم کیا، جہاں انہوں نے سوری حکومت کے خلاف غداروں کو ختم کیا۔
اس کے بعد 1709ء میں موجود ہ افغانستان کا بانی میراویس خان نیکہ نے ایرانی امپیریلسٹ عباس شاہ پہلوی کے ظلم کے خلاف قندھار کے علاقے وکران میں جرگہ کیا، جس کے نتیجے میں پہلوی دربار کے منتخب گورنر جاجین کوتمام تر فوجیوں کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔اسی طرح 1747ء میں فوجی کمانڈر اور قبائلی سردار احمد شاہ ابدالی کو بھی قندھار میں ایک جرگے نے متفقہ طور پر افغانستان کا شاہ منتخب کیا تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں امیر حبیب اللہ خان نے ایک بڑے جرگے کا انعقاد کیا جس میں انگریزوں کے ساتھ سٹریٹیجک معاہدے کے لئے اجتماعی میکنزم پیش کیا۔جہاں تک پاکستان اور افغانستان کے قبائلی علاقوں کا تعلق ہے وہاں پر جرگہ سسٹم ابھی بھی زندہ ہے جس سے وہ سستا اور فوری انصاف حاصل کر پاتے ہیں۔
عام لوگوں کاخیال ہے کہ جرگہ صرف پشتون علاقوں میں ہی رائج ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ جرگہ سسٹم انگریز دور سے بھی پہلے بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب اور قبائلی علاقوں فاٹا وغیرہ میں رائج تھا۔ بلوچستان کے پہلے ایجنٹ گورنر جنرل سر رابرٹ سنڈیمن نے نہ صرف جرگہ کے وسیع استعمال پر زور دیا بلکہ صوبوں، اضلاع اور قبیلوں میں قائم جرگوں کو مزید منظم کیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایاجا سکتا ہے کہ اس دور میں ضلعی سطح پر قبائل کے باہمی جھگڑوں کو نمٹانے کیلئے '' شاہی‘‘ جرگوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔جنہیں سردیوں میں سبی اور گرمیوں میں فورٹ منرو میں منتقل کر دیا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر سال ایک ''سالانہ جرگہ‘‘ پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی علاقے فورٹ منرو میں منعقد کیا جاتا ، جو پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی مقدمات سنتا تھا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی حکومتی قانون کے ساتھ ساتھ جرگوں کی اپنی اہمیت رہی ہے۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ جرگوں کا کوئی باقاعدہ تحریری دستور یا قانون نہیں تھا بلکہ ہر قسم کے تنازعوں کیلئے صدیوں سے رائج روائتی سزائیں نافذ تھیں۔جو جرگہ کے عمائدین اور مشران حالات اور جرم کے مطابق طے کرتے تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں آزادی سے پہلے قلات کے شاہی جرگے کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح یہ منگولوں اور وسط ایشیاء کے علاقوں میں بھی رائج العمل تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال چنگیز خان کی قیادت کی تھی جس کی توثیق اس نے منگولوں کی ایک نمائندہ مجلس جو جرگہ ہی کی ایک شکل تھی سے لی تھی۔ یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ اگرچہ چنگیزخان اور امیر تیمور طاقتور ترین شخصیت کے مالک تھے لیکن انہوں نے باقاعدہ طور پر ایک مجلس یا جرگہ کے ذریعے ہی اپنے انتخاب کا طریقہ اپنایا۔ جس کے بعد اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ جرگہ ان قدیم روایات میں سے ایک ہے جس کی منظوری کے بغیر اس طرح کا تقرر قانونی نہیں ہوتا تھا ۔
دائرہء کار:جرگوں میں عام طور پر ہر جرم کے مقدمہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ افغانستان شاید واحد ملک ہے جہاں ملکی نظام چلانے کیلئے بھی جرگوں کا سہارا لیا جاتارہا ہے۔ حامد کرزئی دور میں جب صدارتی یا پارلیمانی نظام کی بات چلی تو انہیں اپنے حریفوں اور حلیفوں دونوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح افغانستان میں جب بھی حکومت کی تبدیلی کا مرحلہ آیا تو ہر حکمران نے اپنے اقتدار کی گرفت کی مضبوطی کیلئے جرگہ کے ذریعے ہی آئین میں تبدیلی کی کوشش کی۔