یوم تکبیر یہ ڈھال بھی ہے شمشیر بھی ہے

یوم تکبیر یہ ڈھال بھی ہے شمشیر بھی ہے

اسپیشل فیچر

تحریر : ابن طارق اسلام


پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شمال مغرب میں واقع صحرائے خاران کے اونچے اور سنگلاخ پہاڑ 28مئی 1998ء کی سہ پہر کو تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھے۔ یہ وہ تاریخی لمحہ تھا جب پاکستان نے طاقت ا ور غرور کے نشے میں مبتلا بھارت کے تکبر کو خاک میں ملا دیا اور دنیا بھر کی طاقتوں کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان اپنی سالمیت کی حفاظت کرنا بخوبی جانتا ہے۔ پوری دنیا ورطہ حیرت میں مبتلا تھی کہ یہ پاکستان نے کیا کر دکھایا؟پاکستان کی اس کامیابی کی بھارت کو امید بھی نہ تھی اور وہ اسی خوش فہمی میں غرق تھا کہ پاکستان اب ایک آسان ہدف بن چکا ہے۔ ہندوستان کا ہمیشہ سے جارحانہ رویہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب بھارت میں واجپائی حکومت نے11 مئی 1998ء کو پوکھران کے مقام پر زیر زمین تین ایٹم بم کے تجربے کئے۔ ایٹمی حملوں کے بعد اس نے پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں اور صرف دو دن کے وقفے کے بعد مزید دو دھماکے کر دیئے۔ بھارت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ پاکستان کی جانب سے پانچ کے مقابلے میں چھ ایٹمی دھماکوں کی صورت میں جواب دیا جائے گا۔
یوں تو بھارت انگریز سے آزادی کے بعد سے ہی جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کے خواب دیکھتا چلا آ رہا ہے۔ تعداد کے اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا ملک 1974ء میں ہی ایٹمی تجربہ کرکے خطے میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کر چکا تھا۔وہ خطے میں طاقت کے توازن کو خراب کرنا چاہتا تھا۔ایسی صورتحال میںپاکستان کوبھی اپنے دفاع کیلئے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔
پاکستان کی جانب سے ایٹمی قوت کا حصول اس لئے بھی ضروری تھا کہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے باعث بھارت کے ساتھ عددی اعتبار سے روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔مزید یہ بھی کہ بھارت ایٹمی قوت بننے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کرکے اس کو دولخت کر چکا تھا۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطے میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ گیا۔ یہ وطن عزیز پاکستان کی عزت، غیرت اور سالمیت کا سوال تھا۔ واجپائی نے اپنی انتخابی مہم میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد اکھنڈ بھارت کیلئے ہر حربہ اختیار کریں گے، چاہے اس کیلئے ایٹم بم ہی کیوں نہ چلانا پڑے۔حکومت میں آنے کے بعد واجپائی نے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ بھارت اپنے عزائم کو کسی بھی وقت عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔ واجپائی کی یہ جارحیت پاکستان کی سالمیت کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ پوری قوم کی خواہش تھی کہ بھارتی جارحیت کا بھرپور طریقے سے جواب دیا جائے۔ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو ایسے مواقع نظر سے گزرتے ہیں کہ اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو انڈیا پاکستان کو کھا چکا ہوتا۔ آج اس خطے کے ہر چھوٹے اور کمزور ملک کو بھارت نے ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے اپنی طفیلی ریاست بنا رکھا ہے۔
اپنی آزادی اور اپنے نظریات کی حفاظت صرف وہی قوم کر سکتی ہے جو دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتی ہے۔ ملکوں اور قوموں کی زندگی میں ایسا وقت ضرور آتا ہے جب ان کی تقدیر بدل جاتی ہے، پاکستان کی تاریخ میں بھی 28مئی 1998ء کو وہ وقت آیا جب ایک ایسا معجزہ ہوا جس سے دنیا حیران رہ گئی۔ دنیا کو یہ بتاناضروری ہو گیا تھا کہ اگر اس وقت یہ فیصلہ نہ کیا جاتا تو ہماری آنے والی نسلیں غیر محفوظ ہوتیں اور ہم احساس کمتری کا شکار ہو جاتے۔
اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ پاکستان کے ایٹمی تجربات کے بعد تمام امت مسلمہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور یہ'' اسلامی ایٹم بم‘‘ کہلایا۔ انڈونیشیا سے لے کر شمالی افریقہ کے مسلم ممالک تک چراغاں کیا گیا۔ فلسطینیوں کو بھی محسوس ہوا کہ اب وہ یہودیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں۔ یوں اس دن کو ''یوم تکبیر‘‘ سے موسوم کیا گیا۔ تیسری دنیا کا ملک پاکستان جہاں نہ تعلیم کا بہتر نظام موجود تھا اور نہ ہی جدید ٹیکنالوجی میسر تھی، دنیا کو یقین نہیںآرہا تھا کہ ایسا ملک ایٹمی طاقت بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی توازن قائم ہوا ہے۔ پاکستان کے میزائلوں کے سو فیصد ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت نے بھارت کے مقابلے میں وطن عزیز کو محفوظ بنا دیا ہے اوراب بھارت پاکستان پر حملے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، جو کسی کیخلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔ پھر بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے کیلئے اسے بار بار ہندوستان سے جنگیں لڑنا پڑیں۔ اس کی سلامتی کیلئے خطرات آج بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے وہ آج بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کی جدوجہد کر رہا ہے۔
اگر 28 مئی کے واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ محنت، لگن اور ایمانداری سے کام لیا جائے تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور مسلمانوں کی حفاظت کا ضامن بھی ہے۔ جس طرح پاکستان نے جرأت کا مظاہرہ کیا تھا آج بھی اسی امر کی ضرورت ہے۔ ایٹمی صلاحیت کا حامل پاکستان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور دنیا بھر کے مسلمان پاکستان کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔28 مئی 1998ء کو ہونے والے ایٹمی دھماکے دراصل اس دباؤ سے آزادی کا دن تھا جو بھارت مسلسل پاکستان پر ڈال رہا تھا۔یوم تکبیر آج بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ پاکستان پراللہ تعا لیٰ کا خاص کرم ہے اور جب بھی اس ملک کی سالمیت کو خطرات لاحق ہوں گے اس وطن کا ہر شخص اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اسے ناقابل تسخیر بنائے گا۔پاکستان زندہ باد!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

انسانی یکجہتی کا عالمی دن! بکھرتی دنیا کو جوڑنے کی ضرورت

دنیا جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، اسی رفتار سے انسان ایک دوسرے سے دور بھی ہوتا جا رہا ہے۔ مفادات، تعصبات اور خود غرضی نے انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں نفرت، بے حسی اور ناانصافی فروغ پا رہی ہے۔ ایسے پُرآشوب دور میں انسانی یکجہتی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ انسانی یکجہتی وہ احساس ہے جو انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا حوصلہ دیتا ہے اور معاشرے میں امن، برداشت اور باہمی احترام کی فضا قائم کرتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو بکھرتی ہوئی انسانیت کو ایک مضبوط رشتے میں پرو سکتی ہے اور دنیا کو ایک بہتر اور محفوظ مقام بنا سکتی ہے۔انسانی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرے، مشکلات میں ساتھ دے اور اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی بھلائی کیلئے کام کرے۔ یہ تصور ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیا میں امن، ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے جب مضبوط افراد کمزوروںکا سہارا بنیں اور خوشحال اقوام پسماندہ معاشروں کیلئے تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن ہر سال 20 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے انسانوں میں باہمی ہمدردی، تعاون، مساوات اور مشترکہ ذمہ داری کے شعور کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن دسمبر 2002ء سے منایا جا رہا ہے، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی فنڈ قائم کیا۔ یہ فنڈ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کو فنڈ دینے کیلئے فروری 2003ء میں قائم کیا گیا تھا ، جس نے غربت کے خاتمے کیلئے کام کیا۔ 22 دسمبر 2005ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی یکجہتی کے طور پر یکجہتی کی نشاندہی کی۔اقوام متحدہ کے اعلامیے کے مطابق یکجہتی ان بنیادی اقدار میں سے ایک ہے جو صحت مند بین الاقوامی تعلقات کیلئے ضروری ہے۔ اس طرح، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس کی یقین دہانی کرائی کہ غربت کا مقابلہ کرنے کیلئے یکجہتی کی ثقافت اور مشترکہ جذبے کو فروغ دینا ضروری ہے ۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عالمی یوم یکجہتی ایک ایسا دن ہے جو حکومتوں کو بین الاقوامی معاہدوں کو یاد دلا نے اور ان کا احترام کرنے کی حوصلہ افزائی کراتا ہے۔ انسانی یکجہتی کا عالمی دن ایک ایسا دن ہے جو غربت کے خاتمے اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والی عوام کے درپیش مسائل کا مل کر مقابلہ کے اور ان مسائل کیخلاف اقدامات اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔آج کی دنیا جنگوں، غربت، بھوک، ماحولیاتی تبدیلی، مہاجرین کے بحران اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے حالات میں انسانی یکجہتی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ عالمی وبائیں ہوں یا قدرتی آفات، یہ حقیقت بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ اگر قومیں مل کر کام کریں تو بڑے سے بڑا بحران بھی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا تاکہ دنیا بھر میں تعاون اور اشتراکِ عمل کو فروغ دیا جا سکے۔دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یکجہتی کا درس دین اسلام نے دیا ہے ۔اسلام انسانی یکجہتی کا سب سے مضبوط درس دیتا ہے۔ قرآن و سنت میں بارہا انسانوں کے درمیان بھائی چارے، عدل، ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد پر زور دیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تمام انسان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے‘‘۔ یہ تعلیمات ہمیں عملی طور پر انسانی یکجہتی اپنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔پاکستانی معاشرہ فطری طور پر ہمدردی اور ایثار کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ قدرتی آفات، سیلاب، زلزلے یا کسی قومی سانحے کے موقع پر عوام کا ایک دوسرے کیلئے کھڑا ہونا انسانی یکجہتی کی بہترین مثال ہے۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ جذبہ صرف ہنگامی حالات تک محدود نہ رہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی انصاف، برداشت اور تعاون کی صورت میں نظر آئے۔انسانی یکجہتی کا عالمی دن محض ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک فکری پیغام ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر دنیا کو پرامن، محفوظ اور خوشحال بنانا ہے تو ہمیں ایک دوسرے کیلئے جینا سیکھنا ہوگا۔ جب تک انسان انسان کا درد نہیں سمجھے گا، ترقی کے تمام دعوے کھوکھلے رہیں گے۔ حقیقی کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اختلافات کے باوجود متحد رہیں اور ایک بہتر عالمی معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو شر و فساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری دنیاجنت کا منظر پیش کرنے لگے۔ محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ''ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جائواور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ''جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا‘‘انسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے عملی تقاضےانسانی یکجہتی کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ:٭...غربت اور ناانصافی کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔٭...تعلیم اور صحت کو ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔٭...نفرت، تعصب اور انتہا پسندی کے خلاف اجتماعی شعور اجاگر کیا جائے۔٭...انسان دوستی اور خدمت خلق کو قومی و سماجی اقدار کا حصہ بنایا جائے۔  

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

آج تم یاد بے حساب آئے ! فخری احمد:ایک ورسٹائل اداکار (1948-1995ء)

٭... یکم جنوری 1948ء کو وادی ہنزہ میں پیدا ہوئے، گوجرانوالہ میں پلے بڑھے،اصل نام فخر الدین حیدر راٹھورتھا۔٭...گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ایف اے کرنے کے بعد ٹی اینڈ ٹی میں ملازم ہوئے۔ اداکاری کے میدان میں داخل ہونے سے قبل پہلوانی بھی کی۔٭... فنی کریئر کا آغاز تھیڑ سے کیا اور بعدازاں انہوں نے ریڈیو، ٹی وی اور فلم میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ہر قسم کے کردار کو بخوبی نبھایا تاہم ہیجڑے، بوڑھے اور مجذوب شخص کے کرداروں پر انہیں دسترس تھی۔ ٭... کریئرکے پہلے ٹی وی ڈرامہ ''آپ بیتی‘‘ میں عبدالشکور کریک کا کردار نبھایا اور ''پاکستانی کوجک‘‘ کے طور پر مشہور ہوئے۔دوسرا کھیل ''لازوال‘‘ بھی بہت مقبول ہوا، جس میں ان کا ڈائیلاگ''میں کھویا کھائوںگا‘‘ زبان زدعام ہوا۔٭...ان کے شہرہ آفاق ڈرامہ ''بشیرا ان ٹربل‘‘کوپاکستان کے پہلے سپرہٹ کمرشل ڈرامہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دیگر مشہور ٹی وی ڈراموں میں ''شب دیگ‘‘، ''سونا چاندی‘‘، ''ریزہ‘‘ اور'' ایندھن‘‘ شامل تھے۔٭...فخری احمد نے فلموں میں بھی لازوال اداکاری کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد فلموں میں بطور کریکٹر ایکٹر اور ولن جلوہ ہوئے۔ یاد گار فلموں میں '' مس قلو پطرہ‘‘،'' مہربانی‘‘ اور ''شکرا‘‘شامل ہیں۔ ٭...اپنے کریئر میں سب سے زیادہ تھیڑ میں خدمات پیش کیں، ان کے کریڈٹ میں پانچ سو کے قریب ڈرامے ہیں۔ جن میں ''کتکتاڑیاں، سلوک سوکناں دا، تماشا ہائوس، گھر گھر بشیرا، بول نی گڈو، نہ چھیڑ ملنگا نوں، گنجے فرشتے، سسرال چلو، چاندنی راتیں، منڈا آیا سسرال، منڈا پٹواری دا، منڈا آیا ولائتوں، ٹبر ویلیاں دا، ساڈی وی سنو، کمبل نہیں چھڈدا‘‘ شامل ہیں۔٭...انہیں ان کے جونیئر اور سینئر ''تایا‘‘ کہا کرتے تھے اور یوں وہ لاہور کے ثقافتی حلقوں میں تایا فخری احمد کے نام سے مشہور ہوئے۔٭... 20دسمبر 1995ء کو تماثیل تھیڑ میں ڈرامہ ''جنم جنم کی میلی چادر‘‘ میں پرفارم کرتے ہوئے انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ عالم جاودانی کو سدھار گئے۔  

2025ء : حیران کن ریکارڈز کا سال

2025ء : حیران کن ریکارڈز کا سال

2025ء میں انسانی دلچسپی، حیرت اور تفریح سے بھرپور ایسے منفرد لمحات سامنے آئے جنہوں نے دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ کہیں طاقت کے ناقابلِ یقین مظاہرے دیکھنے کو ملے تو کہیں دیوقامت کھانوں نے ریکارڈز کی فہرست میں جگہ بنائی۔ 2025ء کے یہ منفرد ریکارڈز اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا میں حیران کرنے والی کہانیاں آج بھی جنم لے رہی ہیں۔چار ٹانگوں والے لیجنڈزاپریل میں دنیا کے سب سے لمبے کتے ''ریجی‘‘ اور سب سے چھوٹے کتے ''چیہوا ہوا پرل‘‘ کی پہلی ملاقات ہوئی۔ اگرچہ ریجی کی اونچائی کندھوں تک 3 فٹ 3 انچ ہے اور پرل کی اونچائی محض 3.59 انچ (9.14 سینٹی میٹر) ہے، مگر اپنی ملاقات کے دوران یہ دونوں جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔اکتوبر میں ہماری ملاقات دو ریکارڈ ساز گدھوں سے ہوئی۔ ڈائنامک ڈیرک دنیا کا سب سے لمبا زندہ گدھا ہے، جس کی اونچائی 5 فٹ 5 انچ ہے، جبکہ بامبو کے پاس دنیا کے سب سے لمبے کانوں کا ریکارڈ ہے، جن کی لمبائی 1 فٹ 1 انچ (35 سینٹی میٹر) ہے۔فروری میں دنیا کا سب سے لمبابھینسا منظر عام پر آیا۔اس کی اونچائی 6 فٹ 0.8 انچ (185 سینٹی میٹر) ہے۔مشہور شخصیاتاگست میں کنٹری میوزک کی لیجنڈ ڈولی پارٹن کو گنیز ورلڈ ریکارڈز آئیکون قرار دیا گیا۔ انہوں نے موسیقی کی تاریخ کے چند سب سے یادگار گیت تخلیق کیے ہیں۔جون میں کھیلوں کے سپرسٹار اوسین بولٹ کو گنیز ورلڈ ریکارڈز آئیکون کا اعزاز دیا گیا۔ اسپرنٹر نے اپنی 100 میٹر ریکارڈز کی معلومات کا امتحان دیا، جو کتاب کے ایڈیٹر ان چیف کریگ گلینڈے کی طرف سے تیار کیے گئے ایک کوئز میں لیا گیا۔کول کڈزمئی میں چار بہت ہی خاص بچوں نے اپنی پہلی سالگرہ منائی۔لینی، کالی، لینن اور کوئن برائنٹ دنیا کے قبل از وقت پیدا ہونے والے چار جڑواں بچے ہیں جو 23 ہفتے اور 4 دن کی حمل کی مدت میں پیدا ہوئے اور ان کا وزن 577 گرام (1 پاؤنڈ 4.4 اونس) سے 647 گرام (1 پاؤنڈ 6.8 اونس) کے درمیان تھا۔فروری میں، آٹھ سالہ جمناسٹ کِنلی ہیمن، جنہیں ''Kynlee the Great‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے گنیز بک میں جگہ بنائی۔ انہوں نے 30 سیکنڈ میں سب سے زیادہ جمناسٹک بار ٹوٹوہینڈ موومنٹس (18) انجام دیے۔لیگو بلاکس پر دوڑنے کا مظاہرہستمبر میںنیوزی لینڈکی گیبریل وال نے لیگو بلاکس پر ننگے پاؤں 100 میٹر کی سب سے تیز دوڑ لگائی۔انہوں نے یہ کارنامہ محض 24.76 سیکنڈز میں مکمل کیا۔مئی میں چار ٹانگوں والے روبوٹ ڈاگ ''Whiterhino‘‘ نے 100 میٹر کی سب سے تیز دوڑ محض 16.33 سیکنڈز میں مکمل کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ایک دھماکہ خیز لمحہبرطانیہ میں اگست میں ایک انتہائی متاثر کن ریکارڈ توڑنے والی تقریب کا انعقاد کیا گیاجس میں آٹھ کولنگ ٹاورز کو ایک ساتھ دھماکہ خیز مواد کے ذریعے منہدم کیاگیا۔اس کارروائی نے سب سے زیادہ کولنگ ٹاورز کو کنٹرول شدہ دھماکوں سے بیک وقت منہدم کرنے کا ریکارڈ توڑ دیا۔طاقت کا مظاہرہوسپی جمی خراڈی(Vispy Jimmy Kharadi) نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہیویسٹ ویٹ ہولڈنگ ہرکولیس پلرز کا ریکارڈ توڑا۔ انہوں نے اگست میں اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے 261 کلوگرام وزن اٹھایا۔مارچ میں، اولیویا ونسن (آسٹریلیا) نے فٹنس کی دنیا کو حیران کر دیا جب انہوں نے 24 گھنٹوں میں سب سے زیادہ پل اپس (خواتین) لگانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ان کی کل تعداد 7,079 تھی، جو پچھلے ریکارڈ کے تقریباً دوگنا تھی۔جنوری میں، سارہ بلیک مین (امریکہ) نے ابڈومینل پلینک (خواتین) کرنے کی سب سے بڑی عمر کی خاتون بن کر تاریخ رقم کی، جب ان کی عمر 82 سال اور 229 دن تھی۔اسی طرح، مردوں کا ریکارڈ بھی دو بار ٹوٹا، مائنارڈ ولیمز (نیوزی لینڈ) نے 78 سال 135 دن کی عمر میںاور رابرٹ شوارٹز (امریکہ) نے 81 سال 16 دن کی عمر میں یہ ریکارڈ قائم کیا۔ ستمبر میں بھارت میں ایک گروپ نے تاریخ کی سب سے لمبی انسانی ہرم قائم کی، جسے پہلی بار 10ویں منزل تک پہنچایا گیا۔دلچسپ مجموعےفروری میں، یوٹیوبر کرچی (امریکہ) نے ہمیں اپنے سب سے بڑے ''Polly Pocket ‘‘ کے مجموعے کے بارے میں بتایا۔ ان کے پاس اپنے بچپن کے محبوب کھلونے کی 534 منفرد اقسام موجود ہیں۔جولائی میں ''The Legend of Zelda ‘‘ کے سپر فین کونستانٹائن ایڈمز (امریکہ) نے ہمیں اپنا ریکارڈ توڑنے والا یادگار مجموعہ دکھایا۔ان کے پاس 3,918 اشیاء موجود ہیں۔شاندار کھانے جون میں فینکس راس اور اولی پیٹر سن (برطانیہ) نے مل کر سب سے بڑا اسکاچ انڈہ بنایا۔ یہ دیوقامت ناشتہ 7.81 کلوگرام (17 پاؤنڈ 3.48 آونس) وزنی تھا اور بنیادی طور پر یہ دونوں دوست کئی ہفتوں تک کھاتے رہے۔ستمبر میں، نائجیریا کی ہلڈا باچی جو اپنی ککنگ میراتھن کی شہرت رکھتی ہیں، نے جینو کے ساتھ مل کر سب سے بڑی نائجیریائی طرز کی جولوف رائس ڈش تیار کی۔ یہ دیوقامت ڈش 8,780 کلوگرام وزنی تھی ۔حیرت انگیز انسانمارچ میں ''St David's Day 2025‘‘ کی تقریبات کے دوران برطانوی سپر ماڈل مارملیڈنے لباس پر سب سے زیادہ پھول لگانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ انہوں نے 1,862 پھول اپنے گاؤن پر چسپاں کیے۔جون میں، ویٹومیر ماریچک (کروشیا) نے ایک ایسا ریکارڈ توڑا جسے بہت سے لوگ ناقابلِ شکست سمجھتے تھے۔انہوں نے 29 منٹ 3 سیکنڈ تک سانس روک کر سب سے طویل وقت تک زیر آب سانس روکنے (مرد) کا اعزاز حاصل کیا۔ستمبر میں جان فرگوسن (کینیڈا) نے آسمان کی بلندیوں میں جا کر سب سے چھوٹے قد والے شخص کے طور پر ونگ واک کرنے (مرد) کا ریکارڈ قائم کیا، جس کا قد 4 فٹ 1.12 انچ (1.24 میٹر) تھا۔یہ سب محض ایک چھوٹی سی جھلک ہے اُن بے شمار حیرت انگیز ریکارڈز کی جو اس سال ٹوٹے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ایڈولف ہٹلر کو سزا1923ء میں ایڈولف ہٹلر اور اس کے ساتھیوں نے جرمن حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی، جسے تاریخ میں ''میونخ بغاوت‘‘ کہا جاتا ہے۔20 دسمبر 1924ء کو اس مقدمے میں اسے قید کی سزا سنائی گئی، تاہم وہ صرف تقریباً نو ماہ ہی جیل میں رہا۔ بوئنگ707کی پہلی پرواز20دسمبر1957ء کو ''بوئنگ 707‘‘ نے پہلی اڑان بھری۔''بوئنگ 707‘‘ ایک امریکی، طویل فاصلے تک سفر کرنے والا جہازہے جسے بوئنگ 387-80کے پروٹوٹائپ سے تیار کیا گیاجو پہلی مرتبہ1954ء میں اڑایا گیا تھا۔ پین امریکن ورلڈ ائیر ویز نے26اکتوبر1958ء کو باقاعدہ 707 سروس شروع کی ۔ناردرن بینک چوری20دسمبر2004ء کو شمالی آئرلینڈ کے ناردرن بینک کے ہیڈ کوارٹر سے 2 کروڑ 65 لاکھ پاؤنڈ کی چوری ہوئی۔چوروں نے بینک کے دو اہلکاروں کے اہل خانہ کو یرغمال بناکر انہیں چوری میں مدد کرنے پر مجبور کیا۔چوری کی گئی رقم کو دو گاڑیوں میں بینک سے نکالاگیا۔اسے برطانیہ کی تاریخ کی سب سے بڑی بینک ڈکیتیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ایم وی ڈونا پاز حادثہایم وی ڈونا پاز ایک جاپانی ساختہ مسافر فیری تھی جو 20 دسمبر 1987ء کو آئل ٹینکر سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گئی۔اس جہاز کو 608 مسافروں کی گنجائش کے ساتھ 25 اپریل 1963ء کو '' ہیمیموری مارو‘‘ کے نام سے لانچ کیا گیا تھا۔ جون 1979 ء میں جہاز میں آگ لگنے کے بعد، اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور اس کا نام ڈونا پاز رکھا گیا۔امریکن ائیر لائنز حادثہامریکن ایئر لائنز کی پرواز 965 میامی، فلوریڈا کے میامی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے کالی، کولمبیا کے الفانسو بونیلا آراگون انٹرنیشنل ایئرپورٹ کیلئے شیڈول پرواز تھی۔ 20 دسمبر 1995ء کو، بوئنگ 757 بوگا، کولمبیا میں ایک پہاڑ سے ٹکرا گیا، جس میں سوار 155 مسافروں سمیت عملے کے آٹھ ارکان ہلاک ہو گئے۔یہ حادثہ امریکہ اور کولمبیا میں پیش آنے والا سب سے مہلک ایوی ایشن حادثہ تھا۔ یہ اس وقت بوئنگ 757 کے ساتھ ہونے والا سب سے مہلک حادثہ بھی تھا۔کولمبیا کے سول ایروناٹکس کے خصوصی انتظامی یونٹ نے حادثے کی تحقیقات کیں اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پرواز کے عملے کی غلطیوں کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔  

 سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

سوشل میڈیا پر بچوں کی رسائی:آسٹریلیا ماڈل کیا ہے اور کیوں زیر بحث ہے

رواں ماہ کی ایک صبح جب آسٹریلوی نوجوانوں نے اپنے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور فیس بک کے نوٹیفیکیشن کھولے تو انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا کہ شاید آن لائن زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ حقیقت یہی ہے ۔آسٹریلیا نے 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس رکھنے اور نئے اکاؤنٹس بنانے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ قانون جسےThe Online Safety Amendment (Social Media Minimum Age) Act 2024 کہا جاتا ہے، نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ سے منظور ہوا اور اس سال 10 دسمبرسے نافذ العمل ہو گیا۔ اس کے تحت میٹا، ٹک ٹاک، یوٹیوب، سنیپ چیٹ، ریڈیٹ، ٹویچ اور دیگر بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ 16 سال سے کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کریں یا انہیں حذف کردیں ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے الگورتھم بچوں کی کمزور نفسیات، خود اعتمادی اور ذہنی صحت کو نشانہ بناتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجائے والدین کے کمپنیوں کو اس نقصان دہ ماحول سے بچوں کو بچانے کا حکم دیا جائے۔ سوشل میڈیا سکرین ایڈکشن، تنقیدی سوچ میں کمی اور آن لائن ہراسانی جیسی مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔چھوٹے بچے غلط معلومات، غیر اخلاقی مواد اور پرائیویسی خطرات کے سامنے بے بس ہوتے ہیں جبکہ والدین تکنیکی اور ثقافتی دباؤ کے سامنے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔لگتا ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کی دنیا کے پیٹرن تبدیل کردے گا۔ آسٹریلیا کا یہ اقدام دنیا بھر میں سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک نے اس کے متوازی یا مختلف ماڈل پر غور شروع کر دیا ہے جیسا کہ یورپی پارلیمنٹ نے 16 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پابندی کی حمایت کی ہے، کیو نکہ کمپنیاں الگورتھمز کے ذریعے بچوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ نیوزی لینڈ نے ایک پارلیمانی کمیٹی رپورٹ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو جلد اسی موضوع پر قانون سازی کے لیے سفارشات دے گی۔ ملائیشیا 2026ء میں اسی طرح کی پابندی نافذ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ سپین نے سوشل میڈیا کے لیے عمر کی حد 14 سے بڑھا کر 16 کرنے یا والدین کی رضا مندی کے ساتھ رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانس اور ناروے بھی مختلف مدتوں اور حدود کے ساتھ اسی معاملے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک عالمی تحریک اب بچوں کی ڈیجیٹل حفاظت کے لیے شروع ہو چکی ہے۔ جیسے جیسے حکومتیں اس موضوع پر غور کریں گی ہر ملک کے اپنے ثقافتی اور سیاسی پیمانے سامنے آئیں گے۔تاہم سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ ملک نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ جنوبی کوریا، جہاں سوشل میڈیا بلیک آؤٹ کی بجائے کلاس رومز میں موبائل فونز کی پابندی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تعلیم میں خلل نہ آئے اور جاپان کے ایک شہر نے سب کے لیے دن میں دو گھنٹے انٹر نٹ استعمال کی حد متعارف کرائی ہے، جسے ڈیجیٹل وقت کا متوازن استعمالکہا جارہاہے۔ ڈنمارک نے سب سے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے ، وہاں 15 سال سے کم عمر صارفین کو سوشل میڈیا تک محدود رسائی دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، مگر والدین کو 13،14 سال کے بچوں کو اجازت دینے کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اور سماج کے لیے ایک ہی حل نہیں ہے۔ بعض جگہوں پر سختی ہے، بعض جگہوں پر لچک اور بعض میں تعلیمی انداز اپنایا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کی پابندی نے شدید ردعمل بھی پیدا کیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، حقوقِ اظہار کے حامیوں اور نوجوانوں نے حکومت کی اس حد تک مداخلت پر سوالات اٹھائے ہیں مثال کے طور پر،یہ آزادی اظہار کا حق چھیننے جیسا تو نہیں؟ بچے دیگر انٹرنیٹ پلیٹ فارمز یا وی پی این کے ذریعے پابندی کو توڑ سکتے ہیں؟ کیا اس سے نوجوانوں کی سماجی تعاملات اور تعلیمی صلاحیتوں کو نقصان نہیں ہوگا؟انہی نکات کو لے کر آسٹریلیا کی اعلیٰ عدالت میں اس قانون کو چیلنج بھی کیا گیا ہے جس میں 15 سال کے دو بچوں نے کہا ہے کہ ان کا آزادانہ اظہار اور سیاسی معلومات تک رسائی کا حق محدود ہوا ہے۔ آج کا ڈیجیٹل منظرنامہ وہ نہیں رہا جو پانچ سال پہلے تھا۔ سوشل میڈیا صرف تفریح نہیں بلکہ تعلیم، معلومات اور معاشرتی رابطے کا ذریعہ بھی ہے، اسی لیے کوئی بھی پابندی اپنے آپ میں اچھی بری نہیں ہے ۔آسٹریلیا نے اپنی پالیسی کے ذریعے دنیا کو ایک چیلنج دیا ہے کہ بچوں کے تحفظ اور آزادی کے درمیان توازن کہاں ہے؟یہ سوال نہ صرف قانون سازوں کو درپیش ہے بلکہ والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ کیا دنیا آسٹریلیا کے نقش قدم پر چلتی ہے؟ کیا ہم ایک نئے ڈیجیٹل سماجی معاہدے کی طرف بڑھیں گے؟وقت ہی بتائے گا کہ یہ قدم محفوظ مستقبل کی بنیاد بنتا ہے یا نئی حدود کی کنجی۔

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ہالیجی جھیل :مہمان پرندوں کا مسکن

ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ، ہالیجی جھیل کراچی سے 82 کلومیٹر اور ٹھٹھہ سے شمال مغرب میں 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہالیجی جھیل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی ماحولیاتی اہمیت کی حامل ہے اور اپنی قدرتی خوبصورتی، میٹھے پانی کے ذخیرے اور بالخصوص آبی پرندوں کے مسکن کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔یہاں تقریباً 200 سے زائد اقسام کے پرندے آتے ہیں ۔کسی زمانے میں مہمان پرندوں کی 500 سے زائد اقسام ہوتی تھی تاہم وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پرندوں کی تعداد اور اقسام کم ہوتی چلی گئیں۔اس کی ایک بڑی وجہ جھیل کے پانی کی آلودگی بھی ہے۔ اس جھیل سے کراچی شہر کو پانی فراہم کیا جاتا تھا لیکن جب پانی کی یہ سپلائی یہاں سے بند کر کے کینجھرجھیل سے شروع ہوئی تو ہالیجی جھیل کا پانی آلودہ ہونے لگا اور آبی حیات کے لیے یہ مسکن ناقابلِ رہائش ہو گیا اور افزائش نسل کے لیے بھی مناسب نہ رہا۔ہالیجی جھیل کے قیام کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی افواج کی کثیر تعداد کراچی میں قیام پذیر ہوئی اور پانی کی ضرورت کے پیشِ نظر ہالیجی جھیل بنانے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ایک مصنوعی جھیل وجود میں آئی جو کہ 1943ء میں مکمل ہوئی۔ جھیل کے انسپکٹر کی رہائش گاہ پر آج بھی 1943ء کی تختی لگی ہوئی ہے۔جھیل تقریباً 18 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جس کی گہرائی مختلف مقامات پر 17 سے 30 فٹ تک ہے۔ اس جھیل کے دلدلی حصے میں مگر مچھوں کی ایک کثیر تعداد ہوا کرتی تھی جوبتدریج کم ہوتے جارہے ہیں ۔ہالیجی جھیل کو رامسر کنونشن کے تحت عالمی اہمیت کی حامل آب گاہ (Wetlands of International Importance) قرار دیا گیا، جو اس کی ماحولیاتی قدر و قیمت کا واضح ثبوت ہے۔رامسر کنونشن عالمی معاہدہ ہے جو دو فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں آب گاہوں کے تحفظ کے اجلاس دوران طے پایااور 76-1975ء میں مکمل طور پر نافذ کیاگیا ۔ اُس وقت پاکستان میں آٹھ رامسر آب گاہیں تھیں اور اس وقت ان کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔ہالیجی بنیادی طور پر بارشوں اور قریبی ندی نالوں کے پانی سے وجود میں آئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جھیل ایک متوازن ماحولیاتی نظام میں تبدیل ہو گئی جہاں پانی، نباتات، مچھلیاں اور پرندے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جھیل کے اردگرد پائے جانے والے آبی پودے، سرکنڈے اور گھاس پرندوں کے لیے قدرتی پناہ گاہ اور افزائشِ نسل کا ذریعہ فراہم کرتے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہالیجی جھیل کو آبی اورمہاجر پرندوں کے لیے ایک محفوظ مسکن سمجھا جاتا ہے۔ہالیجی جھیل انڈس فلائی وے زون کے راستے میں ہونے کے باعث ہر سال سردیوں کے موسم میں سائبیریا، وسطی ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا مسکن بنتی ہے ۔ ان میں فلیمنگو، پیلیکن، بطخوں کی مختلف اقسام، ہیرون، ایگریٹ اور کوٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ پرندے یہاں نہ صرف قیام کرتے ہیں بلکہ خوراک حاصل کرتے اور بعض اقسام افزائشِ نسل بھی کرتی ہیں۔ ہالیجی جھیل کا پرامن ماحول اور وافر خوراک ان پرندوں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔رامسر کنونشن کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آب گاہوں کا تحفظ، ان کا دانشمندانہ استعمال اور حیاتیاتی تنوع کی بقا کو یقینی بنانا ہے۔ ہالیجی جھیل اس کنونشن کے اصولوں کی عملی مثال ہے کیونکہ یہ جھیل پرندوں کے مسکن کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں، نباتات اور آبی حیات کے لیے بھی ناگزیر اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم ہالیجی جھیل کو درپیش خطرات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی، صنعتی آلودگی، غیر قانونی شکار، پانی کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے عوامل اس جھیل کے قدرتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پرندوں کے غیر قانونی شکار نے ماضی میں اس مسکن کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ جنگلی حیات نے تحفظ کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن مؤثر عمل درآمد اور عوامی آگاہی کی اب بھی شدید ضرورت ہے۔ہالیجی جھیل کی حفاظت دراصل پرندوں ہی نہیں بلکہ پورے ماحولیاتی نظام کی حفاظت ہے۔ یہ جھیل ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آب گاہیں قدرت کا وہ نازک تحفہ ہیں جو انسانی غفلت کی صورت میں تیزی سے تباہ ہو سکتی ہیں۔ رامسر کنونشن کے تحت ہالیجی جھیل کی حیثیت ہمیں یہ ذمہ داری سونپتی ہے کہ ہم اس قدرتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں۔ ہالیجی جھیل پاکستان کے ماحولیاتی خزانے کا ایک قیمتی حصہ ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ، پانی کی سطح پر تیرتے رنگ برنگے پرندے اور قدرتی خاموشی اس جھیل کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ اگر ہالیجی جھیل کا تحفظ سنجیدگی سے کیا جائے تو یہ نہ صرف پرندوں کا محفوظ مسکن بنی رہے گی بلکہ رامسر کنونشن کے مقاصد کی تکمیل میں بھی پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرے گی۔