سقراط نے زہر کا پیالہ کیوں پیا؟
اسپیشل فیچر
تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے عقل و فہم سے آنے والی نسلوں کو دنگ کر کے رکھ دیا۔ علم و فہم سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں میں سے کچھ کو بھاری بھرکم انعامات سے نوازا گیا تو کچھ کو زہر کے پیالے پینے پڑے۔ وہ کہتے ہیں نا سولی پر چڑھائے بھی تو علم، ہواؤں میں اڑائے بھی تو علم، موت کے دہانے سے بچائے بھی تو علم اور زہر پلائے بھی تو علم۔
علم فلسفہ سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی ہی شخصیت کا نام سقراط تھا، جس کو فلسفے کا بانی مانا جاتا ہے۔ سقراط 470 قبل از مسیح یونانی شہر ایتھنز میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک امیر کبیر خاندان سے نہ تھا سو اس نے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے والد جو سنگ تراش تھا کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ لوگوں سے اپنے غیرمعمولی سوالات کی وجہ سے جلد ہی سقراط کو بصیرت، سالمیت اور منظم بحث کا استاد مانا جانے لگا۔ اس وقت کی یونانی روایات میں خداؤں کا اکثر ذکر پایا جاتاہے اور بتایا جاتا ہے کہ کیسے دیوتا طاقت کے نشے میں ایک دوسرے سے لڑائیاں کرتے آئے ہیں۔اس کے باوجود مشہور خداؤں یا دیوتاؤں کی عزت اور محبت کرنا ترقی کیلئے ضروری سمجھا جاتا تھا اور اسی وجہ سے لوگ دیوتاؤں پر بھرپور ایمان رکھتے۔ بالکل اسی طرح سقراط کی ماں بچپن میں اسے دیوتاؤں کی کہانیاں سنایا کرتی تھی اور سقراط اس سے اکثر سوال کرتا کہ اگر دیوتا مہربان ہیں تو وہ آپس میں لڑائیاں کیوں کرتے ہیں؟ لیکن سقراط کے ان سوالوں کا جواب اسے کبھی نہ ملا۔ بہت جلد سقراط نے اسی قسم کے سوالات عام لوگوں سے بھی کرنا شروع کر دیئے۔ سقراط کو خداؤں کا منکر مانا جانے لگا۔ ایتھنز کے لوگ جو کہ خداؤں پر یا دیوتاؤں پر خود سے زیادہ یقین رکھتے تھے ان میں سے بعض سقراط کے خلاف ہو گئے۔
اگرچہ سقراط نے اپنی زندگی میں ایک کتاب بھی نہیں لکھی لیکن اس کے باوجود اس نے جوانوں کی ایک بڑی تعداد کو مسحور کر لیا تھا۔ وہ باقاعدہ طور پر استاد نہیں تھا لیکن اس کے باوجود لوگ مختلف محفلوں میں اس کا فلسفہ سننے کیلئے جاتے تھے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دن وہ والد کے ہمراہ کسی کام میں مصروف تھا کہ شہر کا سیاست دان پارٹکلیز ایک شخص کے ساتھ تشریف لے آیا۔ اس شخص کا نام اینکڑا غورث تھا جو کہ کافی سالوں سے آسمان میں موجود ستاروں کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ اینکڑا غورث کے مطابق آسمان میں موجود چاند اور ستارے صرف اور صرف پتھر تھے جبکہ لوگ غلط طریقے سے انہیں خدا یا دیوتا مانتے تھے۔ اس کے مطابق چاند کی روشنی بھی اپنی نہیں ہے بلکہ وہ اس کیلئے سورج کا محتاج ہے۔ اینکڑا غورث کے ان خیالات کی وجہ سے ایتھنز کے لوگ اس کے خلاف ہو گئے۔ سقراط کو ایک عقل مند آدمی سمجھتے ہوئے مندر کے پروہت نے اس سے اینکڑا غورث کے تخیلات پر اپنی رائے دینے کا کہا۔ پروہت سمجھتا تھا کہ سقراط اینکڑا غورث کے تخیلات کی مخالفت کرے گا لیکن سقراط نے اس کی سوچ کے برعکس کہا کہ چونکہ میرے پاس اسے غلط یا صحیح کہنے کیلئے کوئی دلیل نہیں ہے تو میں ابھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا۔ سقراط کا یہ جواب سننے کے بعد مندرک پروہت غصہ میں آ گیا اور کہا کیا ہمارے بزرگ جھوٹے تھے؟ کیا ہمارے دیوتا جھوٹے ہیں؟
سقراط کے بیان کے بعد لوگوں میں اس کی مخالفت اور بڑھ چکی تھی اور دوسری جانب اینکڑا غورث پر کفر کا مقدمہ چلا دیا گیا اور اسے جیوری کا سامنا تھا۔ اس کیلئے موت یا ملک بدری کی سزا کا تعین ہونا تھا۔ جیوری میں کچھ لوگ اس کے چاہنے والے موجود تھے اسی لیے اسے موت سے بچا کر شہر بدر کر دیا گیا۔ اینکڑا غورث کا انجام دیکھ کر سقراط پریشان ہوگیا۔ سقراط کا ایک شاگرد کمانڈر ایلس بائیڈیز جزیرے سسلی میں ایک لڑائی میں ہار گیا اور وہ ایتھنز کی دشمن ریاست سپارٹا کے ساتھ مل گیا۔ اس واقعے کے بعد سقراط کی شہرت اور خراب ہو گئی۔ ایلس باییڈیز کو غدار کہا جانے لگا۔ سقراط کے دشمنوں نے یہ ساری صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سقراط پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔ ایتھنز شہر کے وسط میں عدالت لگائی گئی۔ جیوری پانچ سو افراد پر مشتمل تھی اور پہلے تین گھنٹے سقراط پر مقدمہ پیش کیا گیا کہ اس نے ریاست کے منظور شدہ خداؤں کو ماننے سے انکار کر دیا اور کفر کیا ہے۔ جس کی وجہ سے دیوتا ایتھنز کی ریاست پر مہربان نہیں رہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں جنگ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگیں جیتنے اور ترقی کرنے کیلئے ہمیں دیوتاؤں کی خوشنودی چاہیے جو کہ سقراط کی تعلیمات کی وجہ سے ہمیں میسر نہیں لہٰذا اسے موت کی سزا دی جائے۔
اس کے بعد سقراط کو اپنے دفاع کیلئے تین گھنٹے دیے گئے لیکن سقراط نے اپنی صفائی دینے کے بجائے وہی کام کیا جس کا اس پر الزام تھا۔ وہ کافی دیر تک ایتھنز کے سماج اور معاشرتی برائیوں کا تذکرہ کرتا رہا لیکن اس نے اپنا دفاع نہیں کیا۔ سقراط کی تقریر کے بعد جیوری نے 220 کے مقابلے میں 280 ووٹوں سے سقراط کو مجرم قرار دیا اور اس کیلئے سزائے موت کا اعلان کر دیا۔
ایتھنز کے قانون کی رو سے سقراط کو اپنی موت کے طریقہ کار کا بھی خود ہی تعین کرنا تھا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تم کس طرح مرنا پسند کرو گے تو اس نے کہا ''میں حکومت کے خرچ پر ڈنر کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ مطلب اس نے ہیملوک نامی زہر پینے کا فیصلہ کیا۔ موت کے دن سقراط پر کسی قسم کا کوئی خوف طاری نہ تھا بلکہ اس نے تو زہر کا پیالہ بھی بڑے اطمینان سے پکڑا۔ سقراط کے چاہنے والے پریشان تھے اور بعض نے تو رونا بھی شروع کر دیا لیکن اس وقت سقراط نے تاریخی الفاظ ادا کیے ''میں نے سنا ہے آدمی کو خاموشی سے مرنا چاہیے لہٰذا جب میں زہر پی لو تو تم اپنے اوپر قابو رکھنا اور صبر سے کام لینا‘‘۔ اس کے بعد اس نے زہر کا جام منہ سے لگایا اور کچھ ہی دیر بعد اس کی موت ہو گئی۔ اس طرح ایک عظیم فلاسفر کو اس کے علم اور سوچ کی بنیاد پر موت کے سپرد کر دیا گیا۔