نواب سراج الدولہ
مرزا محمد سراج الدولہ 1733ء میں نواب زین الدین احمد خان کے ہاں بنگال میںپیدا ہوئے ۔ مرزا محمد کی والدہ کا نام آمنہ بیگم تھا ، نواب سراج الدولہ کے والد بہار کے حکمران تھے ، جبکہ والدہ آمنہ بیگم بنگال کے نواب علی وردی خان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں ۔ نواب علی وردی خان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اِس لئے شروع ہی سے خیال کیا جاتا تھا کہ مرشد آباد یعنی بنگال کے تخت کے وارث بھی نواب سراج الدولہ ہی ہوں گے۔ اِن کے پرورش نواب علی وردی خان کے محلات میں ہوئی اور اُنہوں نے اوائل جوانی سے ہی جنگوں میں نواب علی وردی خان کے ہمراہ شرکت کی ۔ 1746ء میں انہوں نے مہاراشٹر میں ہندوئوں کو شکست فاش دی۔1752ء میں نواب علی وردی خان نے سرکاری طور پر سراج الدولہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا ۔
نواب ایک مذہبی آدمی تھے ، اِن کا دور حکمرانی بہت مختصر تھا ۔1756ء میں علی وردی خان کے انتقال پر 23سال کی عمر میں بنگال کے حکمران بنے ۔ شروع سے ہی بنگا ل میں عیار برطانوی لوگوں سے ہوشیار تھے جو بنگال میں تجارت کی آڑ میں اپنا اثر بڑھا رہے تھے، خصوصاً ایسٹ انڈیا کمپنی نے اِ ن کے خلاف سازشیں تیار کیں جو نواب کو معلوم ہوگئیں ۔ اولاً انگریزوں نے نواب کی اجازت کے بغیر کلکتہ کے فورٹ ویلیم کی دیواریں پختہ اور مزید اونچی کیں جو معاہدوں کی سرین خلاف ورزی تھی۔ دوئم انگریزوں نے بنگال کے کچھ ایسے افسران کو پناہ دی جو ریاست کے خزانے میں خرد برد کے مجرم تھے۔ سوئم انگریز خود بنگال کی کسٹم ڈیوٹی میں چوری کے مرتکب تھے۔ان وجوہات کی بنا پر نواب اور انگریزوں میں مخالفت کی شدید فضاء پیدا ہو گئی ۔ جب رنگے ہاتھوں ٹیکس اور کسٹم کی چوری پکڑی گئی اور انگریزوں نے معاہدوں کے خلاف کلکتہ میں اپنی فوجی قوت بڑھانا شروع کی تو نواب سراج الدولہ نے جون 1756ء میں کلکتہ میں انگریزوں کے خلاف کا رروائی کرتے ہوئے بہت سے انگریزوں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے پر قید کر دیا ۔
انگریزوںنواب سراج الدولہ کے مخالفین سے رابطہ کیا ،اِ ن مخالفین میں گھسیٹی بیگم ( سراج الدولہ کی خالہ) میر جعفر اور شوکت جنگ (سراج الدولہ کا رشتہ دار ) شامل تھے ۔ میر جعفر نواب سراج الدولہ کی فوج میں ایک اعلیٰ عہدیدار تھا ۔ نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے اِن کی شکست اور انگریزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا جس کے بعد بنگال پر انگریزوں کا عملاً قبضہ ہو گیا ۔ سازش سے واقف ہونے کے بعد نواب سراج الدولہ نے گھسیٹی بیگم کی جائیداد ضبط کی اور میر جعفر کو اِ س کے حکومتی عہدہ سے ہٹا دیا ۔ میر جعفر اگرچہ ریاستی معاملات سے الگ رہا مگر اِس نے انگریزوں سے ساز باز کر لی اور جنگ پلاسی میں نواب سے غداری کر تے ہوئے نواب کی شکست کا باعث بنا۔ انگریزوں نے میر جعفر کو اقتدار کا لالچ دیا تاکہ وہ نواب کو شکست دینے میں انگریزوں کا ساتھ دے۔ نواب کی شکست میں سب سے بڑا کردار اُس کی چچی اور خالہ گھسیٹی بیگم نے ادا کیا تھا۔ گھسیٹی بیگم نواب کے چچا کی بیوی تھی۔ گھسیٹی اور نوازش کی کوئی اولاد نہ تھی۔ نوازش اور علی وردی خان کے انتقال کے بعد گھسیٹی اپنے لے پالک کیلئے سراج الدولہ سے تاج و تخت چھیننا چاہتی تھی اور دوسری جانب پورنیا ضلع کے نواب شوکت جنگ سراج الدولہ کے اپنے ماموں زاد بھائی تھے ۔
شوکت جنگ کے باپ کا نام سید احمد تھا، شوکت بھی خود کو تاج و تخت کا وارث سمجھتے تھے ، قصہ مختصر یہ کہ گھسیٹی بیگم نے اپنے لے پالک کیلئے تاج و تخت حاصل کر نے کے واسطے انگریزوں کا سہارا لیا ۔میر جعفر، شوکت جنگ جگت سیٹھ وغیر ہ کو ساتھ ملا کر انگریزوں سے ساز باز کیا لیکن سراج الدولہ نے گھسیٹی بیگم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ آپسی لڑائیوں کو انگریزوں کے حق میں مفید اور کارآمد بنا لیا گیا۔ سراج الدولہ کے آگے انگریزوں کی کوئی اہمیت اور وقعت نہ تھی لیکن اپنے ملازمین اور رشتہ داروں کی غداری اور جاسوسی نے نواب سراج الدولہ کو پلاسی کے مقام پر نقصان پہنچایا۔
کلکتہ سے 70میل کے فاصلے پر،23جون 1757ء کو لاڈ کلائیو اور سراج الدولہ کے درمیان جنگ شروع ہوئی۔ جنگ کے میدان میں میر جعفر نواب کی فوج کے ایک بڑے حصے کا سالار تھا۔ اِس کے ساتھیوں نے نواب کے وفادار سالاروں کو قتل کردیا جس کی کوئی توقع بھی نہیں کر رہا تھا ۔ اِس کے ساتھ ہی میر جعفر اپنے فوج کے حصے کو لے کر الگ ہوگیا اور جنگ کا فیصلہ انگریزوں کے حق میں ہوگیا ۔ نواب کے توپ خانہ کو پہلے ہی خریدا جا چکا تھا جس کی رشوت کیلئے انگریزوں نے بہت روپیہ خرچ کیا تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق میر جعفر نے نواب سے وفاداری کا حلف اُٹھایا تھا ۔ توپ خانہ کیوں استعمال نہیں ہوا اس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ بارش کی وجہ سے ، گولہ و بارود گیلا اور ناقابل استعمال ہوچکا تھا۔ نواب جنگ میں شکست کے بعد مرشد آباد اور بعد میں پٹنہ چلے گئے ۔ وہ اپنی بیوی لطف النساء بیگم اور بیٹی کے ہمراہ بھیس بدل کر ایک خانقاہ میں روپوش رہے۔ جہاں میر جعفر کے سپاہیوں نے اِنہیں آ کر گرفتار کیا ۔ میر جعفر کے بیٹے میر میران کے حکم پر محمد علی بیگ نے نواب کو نماز فجر کے بعد شہید کر دیا۔ بعض روایات میں نواب کو نماز اور سجدہ کی حالت میں 12جولائی 1757ء کو سر قلم کر کے سزائے موت دی گئی۔ نواب کا مزار مرشد آباد کے ــخش باغ میں واقعہ ہے ـاگرچہ اس مزار کی دیوار سادہ ہے مگر عوام کے آداب کا مرکز ہے۔ اس طر ح ایک مسلمان نے مسلمان کے ساتھ غداری اور قتل کر کے انگریز کی حکومت کے قیام میں مدد کی ۔