پاکستان کی تاریخ میں سیلاب کی تباہ کاریاں
اسپیشل فیچر
ماضی میں پاکستان نے سیلاب سے پیدا ہونے والی تباہ کاری کا 1992ء میں پہلی مرتبہ سامنا کیا۔ پانچ دن تک مسلسل جاری رہنے والی مون سون کی بارشوں نے شمالی علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا۔7ستمبر 1992ء کو شروع ہونے والی بارش اپنے ساتھ موت کا سامان لے کر آئی۔ اس سیلاب سے پاکستان میں 2ہزار سے زائد لوگ جان کی بازی ہار گئے ۔ یہ سیلاب 12 ہزار 672 گاؤں بہا لے گیا جبکہ بہت سے لوگ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے زندہ درگور ہو گئے۔ اس سیلاب سے 33 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ حکومت پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 1 لاکھ 60 ہزار مویشی بھی سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے۔ خیبر پختونخوا کے 80 فیصد پُل اور سڑکیں تباہ ہو گئیں جبکہ تقریباً ایک ارب امریکی ڈالر کی مالیت کی پراپرٹی زمین بوس ہو ئی۔
اتنی بڑی تباہی کے بعد 1995ء میں دریائے سندھ میں پانی کی سطح غیر معمولی ہونے کے باعث سیلاب آیا۔ کچھ سال بیت گئے اور اس آزمائش کو بھی بھلا دیا گیا۔ 2003ء میں ہونے والی مون سون کی بارشوں نے ایک بار پھر صوبہ سندھ کو بری طرح سے متاثر کیااور کراچی شہر بھی بارش کے پانی میں ڈوب گیا۔ 284.5 ملی میٹر کی بارش نے کراچی شہر کی گلیوں کو نالوں میں تبدیل کر دیا۔ ان بارشوں نے ضلع ٹھٹھہ کو سب سے زیادہ متاثر کیا جہاں بارش 404 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ صوبے میں 484 لوگ جان کی بازی ہار گئے جبکہ 4476 گاؤں زیرِ آب آگئے۔
صوبہ سندھ کی کمر توڑنے کے ٹھیک 4 سال بعد 2007ء میں سندھ کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا بھی مون سون بارشوں کی زد میں آگئے۔ خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو صوبے میں بارشوں اور برفانی تودوں کے پگھلنے سے 142 لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 2000ء سے زائد لوگ بے گھر ہو گئے۔ بلوچستان اور سندھ میں 2007ء کے سیلاب نے 815 لوگوں کی جانیں لے لیں اور ایک بڑی تعداد کو بے گھر کرنے کے ساتھ ساتھ بے روزگار بھی کر دیا۔ اس تباہی سے ملک ابھی باہر نہیں آیا تھا کہ 2009ء میں تاریخ کی سب سے زیادہ ہونے والی بارشوں نے کراچی شہر کو زیر آب کر دیا۔ اُس سال کی بارشوں نے کراچی میں 26 لوگوں کی جان لی جبکہ 150 سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے۔
ایک سال بعد 2010ء میں مون سون بارشوں کے باعث تقریباً پورا ملک سیلاب کی زد میں آگیا۔ آپ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ 2010ء میں بارشوں کے باعث سیلاب نے جتنی جانیں لیں ان کی تعداد 2004 ء کے ہندوستانی سونامی، 2005ء کے کشمیر زلزلے اور 2010ء کے زلزلے کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ تھی۔اس سیلاب کے باعث جانے والی جانوں کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا، جن افراد کی موت آن ریکارڈ آئی ان کی تعداد 2ہزار سے زائد تھی۔ اس سیلاب نے 2 کروڑ افراد کو شدید متاثر کیا۔
2010ء کی اس بڑی تباہی کے اگلے ہی سال 2011ء میں صوبہ سندھ پھر سے مون سون بارشوں کی لپیٹ میں آگیا اور ستمبر 2011ء میں بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب سے 361 لوگ اپنی جان کی بازی ہار گئے جبکہ 53 لاکھ لوگ اس سیلاب سے متاثر ہوئے۔ اس سیلاب کی تباہی نے 12 لاکھ گھروں کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا جبکہ 17 لاکھ ایکڑ کا زرعی رقبہ زیر آب آگیا ۔
2013ء میں اگست کے مہینے میں پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان کو بھی بارشوں کے باعث خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس سیلاب میں پاکستان میں 180 افراد جاں بحق جبکہ 66 ہزار لوگ اس سیلاب سے متاثر ہوئے۔ ستمبر 2014ء میں مون سون کی بارشوں نے کشمیر، گلگت اور پنجاب کے بیشتر علاقوں کو متاثر کیا۔ اس سال سیلاب کے باعث ضلع جھنگ کے 350 جبکہ ضلع ملتان کے 300 گاؤں زیر آب آگئے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی این ڈی ایم اے کے مطابق 257 لوگ ہلاک ہوئے جبکہ 11 لاکھ لوگوں کو سیلاب نے متاثر کیا۔
2016ء میں مون سون سے قبل پری مون سون کی بارشوں نے تباہی کا آغاز کیا۔ این ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں کے باعث 424 لوگ جان سے گئے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان 424 لوگوں میں 153 بچے بھی شامل تھے۔2019ء میں سیلاب اور طوفان نے 140سے زائد جانیں لیں جبکہ 1500 سے زائد خاندان بے گھر ہو گئے۔ اس کے بعد 2020ء میں کراچی کی تاریخ کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور صرف 12گھنٹے میں 231 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ اس بارش کے باعث کراچی کے گجر نالے سمیت بیشتر نالے ابل پڑے اور سیلاب نے کراچی شہر کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس سیلاب نے کراچی کے 41 شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور متعدد گھروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔
اب 2022میں سیلاب سے آنے والی تباہی آپ کے سامنے ہے۔کب تک ہم ہر سال مون سون کی بارشوں کے نام پر لاشیں اکٹھی کرتے رہیں گے۔ اتنے برسوں میں سیکڑوں لوگوں کی موت کے بعد بھی پاکستان میں مون سون بارشوں کے حوالے سے کوئی انتظام کیوں نہیں کیا گیا۔ شاید پاکستان بطور ملک اس بات کو تسلیم کر چکا ہے کہ ہر سال مون سون کی بارشوں میں ہزاروں لوگوں کو موت کے منہ میں اترنا ہی ہے۔ اس ملک میں کچے مکانوں کے تحفظ کیلئے کوئی مؤثر حکمتِ عملی کیوں نہیں اپنائی گئی۔ لاہور کے کچھ علاقوں میں زیر زمین ٹینک بنانے سے بلوچستان اور ڈیرہ غازی خان کے کچے مکانوں کو کیا فائدہ حاصل ہوا ہے؟ اُن کی قسمت میں پہلے بھی ڈوبنا ہی لکھا تھا اور اب بھی ڈوبنا ہی لکھا ہے۔ پاکستان کو نہری نظام میں بھی ترمیم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اگلے سال بھی مون سون کی تباہی سے پہلے پاکستان پانی کی زیادتی کو روکے اور اس سیلاب کے متاثرہ علاقوں کیلئے بھی ایک نظام کو فعال کیا جائے جس سے آنے والی تباہی کو محدود کیا جا سکے۔