خلافت عباسیہ کا خاتمہ

خلافت عباسیہ کا خاتمہ

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

750عیسوی سے 1258ء تک قائم رہنے والی خلافت عباسیہ ، اسلامی تاریخ کی اہم حکومتوں میں سے ایک تھی۔ اس خلافت نے 37 خلفاء دیکھے۔بلا شبہ تاریخ کی کتابیں خلافت عباسیہ کے کارناموں سے بھری پڑی ہیں لیکن تاریخ کا ایک سبق بھی ہے کہ '' تاریخ کوصرف فتوحات سے غرض ہوتی ہے ، تاریخ جواز یا عذر قبول نہیں کیا کرتی ‘‘۔
خلافت عباسیہ کا خاتمہ مسلم امہ کیلئے ایک المیہ سے کم نہیں اور یوں 37ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کے ساتھ ہی نہ صرف عباسی خلافت کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا بلکہ مسلمانوں کواس کے ساتھ ساتھ سقوط بغداد کا زخم بھی اپنے سینے پرسہنا پڑا۔ وہی بغداد جس کی بنیاد مستعصم باللہ کے جد ابوجعفر بن المنصور نے 762 عیسوی میں بغداد نامی ایک چھوٹے سے قصبے کے قریب رکھی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھوٹا ساقصبہ چند عشروں میں دنیا کی تاریخ کا ایک عظیم شہر بن گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کے چپے چپے سے علم و فضل کے پیاسے جوق در جوق بغداد کا رخ کرنے لگے تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ نویں صدی میں بغداد وہ واحد شہر تھا جہاں کا ہر شہری پڑھ لکھ سکتا تھا۔صرف یہی نہیں بلکہ 775ء سے لیکر 932ء تک بغداد آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا شہر تصور تھا۔اس شہر کو یہ اعزازبھی حاصل تھا کہ بغداد دس لاکھ آبادی کا سنگ میل عبور کرنے والا دنیا کا پہلا شہر تھا۔
سقوط بغداد یا سقوط خلافت عباسیہ کے عوامل چاہے کچھ بھی ہوں لیکن اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کا سولہ سالہ دور خلافت زیادہ تر عیش و عشرت ، غفلت اور غیر ضروری سرگرمیوں میں گزرا۔اس کا،اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ انہیں منگول یلغار کی کانوں کان خبر تک نہ ہوئی اور تو اور ان کا ایک بااعتماد وزیر ابن العل قلمی ان کے پہلو میں بیٹھ کر منگولوں سے خط و کتابت کرتا رہا اورانہیں بغداد پر حملہ کی ترغیب دیتا رہا اور خلیفہء وقت کو خبر تک نہ ہوئی۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے 29جنوری 1257ء کو بغداد کے محاصرے کا ارادہ کیاچنانچہ حملہ کرنے سے پہلے ہلاکو خان نے خلیفہ مستعصم باللہ کو ایک خط لکھا '' لوہے کے ڈھیلے کو مکہ مارنے کی کوشش نہ کرو ، سورج کوبجھی موم بتی سمجھنا چھوڑ دو، بغداد کی دیواروں اور فصیلوں کو خود ہی گرا دو اور اس کے ارد گرد کھودی خندقوں کو صاف کر کے حکومت چھوڑ کر ہتھیار ڈال دواور یاد رکھنا اگر ہم نے بغداد پر چڑھائی کی تو نہ تمہیں زمین میں چھپنے کی جگہ ملے گی اور نہ آسمان پر ‘‘۔
اگرچہ خلیفہ مستعصم باللہ میں اپنے پیشرؤں جیسے اوصاف تو نہ تھے لیکن خلیفہ سمجھتے تھے کہ اس قدر وسیع و عریض مسلم امہ اسے تنہا کبھی نہ چھوڑے گی۔چنانچہ اسی زعم میں اس نے ہلاکو خان کو جواباً لکھا'' نوجوان جنگجو ، چار دن کی چاندنی میں تم اپنے آپ کو کائنات کا مالک سمجھ بیٹھے ہو۔ کیا تم نے یہ غور نہیں کیا کہ مشرق سے مغرب تک خدا کے ماننے والے اہل ایمان ، سبھی میری رعایا ہیں۔تمہاری فلاح اسی میں ہے کہ تم انہی قدموں واپس لوٹ جاؤ ‘‘ ۔
ہلاکو خان جو لگ بھگ چار عشروں سے اپنے آبائی وطن منگول کو خیر آباد کہہ کر چار ہزار میل کی مسافت طے کر کے نہ صرف فتوحات کے نئے ریکارڈ قائم کرتا آ رہا تھا بلکہ اسے اپنی فوج پر پورا اعتماد بھی تھا۔ سونے پہ سہاگہ اس کا بھائی منگو خان ثابت ہوا، جس نے منگول سے تازہ دم دستے بغداد بھجوادئیے بلکہ ان کے دیکھا دیکھی آرمینیا اور جارجیا سے بھی خاصی تعداد میں مسیحی فوجی ہلاکو خان سے آن ملے جو دراصل مسلمانوں سے صلیبی جنگوں کا پرانا بدلہ چکانے کیلئے بے تاب تھے۔
یہ عنصر تو ایک طرف، درحقیقت منگول فوج کو تکنیکی اعتبار سے بھی عباسی فوج پر کہیں زیادہ فوقیت حاصل تھی جو اپنے وقت کی جدید ٹیکنالوجی سے لیس تھی۔ہلاکو خان کی فوج میں انجینئرز کا باقاعدہ ایک یونٹ تھا جو بارود کے استعمال کی مہارت رکھتا تھا۔ہلاکو خان کی فوج نے جب منجنیقوں کے ذریعے آگ کے گولے دشمن کی طرف پھینکنا شروع کئے تواہل بغداد اس آگ سے پھیلنے والی تباہی سے گھبرا گئے۔ انہوں نے اس سے پہلے اس طرح آگ برستی نہ دیکھی تھی۔آگ برساتی منجنیقوں نے جہاں ایک طرف لاشوں کے ڈھیر لگانا شروع کر دئیے وہیں خلیفہ بھی اس صورتحال سے گھبرا گئے۔ انہوں نے ہلاکو خان کو بھاری تاوان اور اپنی سلطنت میں جمعہ کے خطبہ میں اس کا نام پڑھنے کی شرط کی پیشکش کر ڈالی لیکن ہلاکوخان نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔
آخر10فروری 1258ء کو 13دن کے محاصرے کے بعد عباسی خلیفہ کو ہلاکو خان کی فوجوں کے سامنے شہر کے دروازے کھولنا پڑے۔خلیفہ مستعصم کو ہلاکو خان کی فوج نے گرفتار کر کے چند دن قید تنہائی میں بھوکا پیاسا رکھا جبکہ باقی اشرافیہ اور رعایا کے ساتھ ہلاکو خان نے وہی سلوک کیا جو ہلاکو خان کادادا چنگیز خان دشمنوں کے ساتھ کرتا رہا تھا۔
چند دن کے بعد جب بھوکے پیاسے خلیفہ مستعصم کو ہلاکو خان کے سامنے پیش کیا گیا تو تھوڑی ہی دیر بعد اس کے سامنے دستر خواں سے ڈھکا ایک ٹرے لایا گیا۔کئی دن کے بھوکے خلیفہ نے جب بے ساختہ دستر خوان اٹھایا تو دیکھا کہ کھانے کے برتن ہیرے جواہرات سے بھرے ہوئے تھے۔ ہلاکو نے خلیفہ کو مخاطب کر کے کہا کھاؤ۔ اس پر خلیفہ بولا،یہ ہیرے بھلا میں کیسے کھاؤں ؟ اس مو قع پر ہلاکو کا تاریخی بیان تھا کہ اگر تم ان ہیروں کی جگہ اپنی فوج کے لئے تیر ، تلواریں بارود بنا لیتے تو ہم شاید بغداد میں کبھی بھی داخل نہ ہو سکتے‘‘۔ خلیفہ نے رندھی ہوئی آواز سے کہا، شاید اللہ کو یہی منظور تھا۔ہلاکو نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے خلیفہ کی طرف نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا ،لیکن اب جو میں تمہارے ساتھ کروں گا وہ بھی اللہ کی مرضی ہو گی۔ کہتے ہیں اس کے بعد ہلاکو نے خلیفہ مستعصم کو نمدوں میں لپیٹ کر اس کے اوپر تیز رفتار گھوڑے دوڑا دئیے تھے۔
(نوٹ: یہاں قارئین کیلئے ایک وضاحت ضروری ہے کہ عباسی خلفاء کی فہرست میں ہارون الرشید کے فرزند معتصم بلا جو خلافت عباسیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے،اکثر کتابوں میں بھی سینتیسویں خلیفہ مستعصم باللہ کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے جبکہ معتصم بلا اور مستعصم باللہ دو الگ الگ خلفاء عباسی گزرے ہیں)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
پاکستان کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت:درخت ہی آخری امید!

پاکستان کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت:درخت ہی آخری امید!

دنیا آج جس شدید ماحولیاتی بحران کا شکار ہے، اس کی ایک بڑی وجہ انسان کا قدرتی وسائل کے ساتھ بے رحمانہ سلوک ہے۔ درختوں کی بے دریغ کٹائی، صنعتی آلودگی، گاڑیوں کا دھواں اور پلاسٹک کے بڑھتے استعمال نے فضا کو اس قدر زہریلا کر دیا ہے کہ انسانی زندگی پر براہِ راست اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک، جہاں شہروں کی بے ہنگم توسیع جاری ہے، وہاں ماحولیات کا تحفظ ایک چیلنج بن چکا ہے۔ گرمی کی شدت، پانی کی قلت، خشک سالی، غیر متوقع بارشیں اور ہیٹ ویوز اس بحران کی نمایاں علامات ہیں۔ ان حالات میں درخت لگانا نہ صرف ایک اختیاری اقدام ہیں بلکہ ہماری بقا کا بنیادی تقاضا بھی بن چکا ہے۔درخت قدرت خداوندی کا ایک ایسا عطیہ ہیں جو نہ صرف زمینی درجہ حرارت کو کنٹرول کرتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہو رہے ہیں۔ خاص طور پر کراچی، لاہور، ملتان، نواب شاہ، سکھر، فیصل آباد بلوچستان کے کئی اضلاع اور دیگر بڑے شہروں میں درجہ حرارت معمول سے بڑھ چکا ہے۔ کہیں 47 ڈگری سے تجاوز کر جاتا ہے تو کہیں ہیٹ ویو کی وجہ سے نہ صرف انسان بلکہ چرند پرند تڑپ جاتے ہیں۔ سڑکوں، گلیوں اور محلّوں سے درختوں کا صفایا ہو چکا ہے اور ان کی جگہ سیمنٹ اور کنکریٹ کی عمارات بن چکی ہیں۔اسلامی تعلیمات بھی شجرکاری کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ''جو مسلمان دَرخت لگائے یا فَصل بوئے، پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صَدقہ شُمار ہو گا‘‘ (صحیح بخاری)۔ آپﷺ نے شجر کاری کو اتنی اہمیت دی کہ اس عمل کو قیامت تک جاری رکھنے کا حکم فرمایا۔ ارشادِ نبویﷺ ہے، ''اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اسے لگا سکتاہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔ (مسند احمد)۔ ایک درخت جہاں ہمیں سایہ فراہم کرتا ہے وہیں آکسیجن مہیا کر کے ہمیں زندگی بخشتا ہے۔ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے جو قیامت تک انسان کے نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ کرتا رہتا ہے۔ درخت انسانی صحت کے محافظ ہیں۔ وہ فضا سے زہریلی گیسیں جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں جو انسانی جسم کے ہر خلیے کو زندہ رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ وہ نہ صرف گرمی اور آلودگی کے خلاف قدرتی ڈھال کا کام کرتے ہیں بلکہ بیماریوں، شور اور ذہنی تناؤ کو بھی کم کرتے ہیں۔ یہی درخت ندی نالوں کے کنارے لگائے جائیں تو وہ وہاں کی گندگی جذب کرکے پانی کو صاف کرنے میں مدد دیتے ہیں، زیر زمین پانی کو محفوظ رکھتے ہیں اور مٹی کے کٹاؤ کو روکتے ہیں۔ماحولیاتی تحفظ صرف حکومتوں یا ماہرین کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر شہری کا انفرادی و اجتماعی فرض ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایسی تبدیلیاں لائیں جو ماحول کیلئے فائدہ مند ہوں۔ بجلی، گیس، پانی اور پٹرول کا بے جا استعمال ترک کریں، پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال بڑھائیں، سائیکل کا استعمال کریں، اور خاص طور پر شاپر بیگز سے نجات حاصل کریں۔ پلاسٹک ماحول کیلئے زہر ہے، جو زمین کو بانجھ، آبی حیات کو مہلک اور فضا کو آلودہ بناتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سمندر میں سالانہ چالیس لاکھ ٹن پلاسٹک شامل ہو رہا ہے جو مچھلیوں، پرندوں اور جانوروں کیلئے جان لیوا ہے۔ درخت لگانے سے پہلے ایک باشعور شہری کے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں جیسے کون سا درخت لگایا جائے؟ کہاں لگایا جائے؟ کیسے اس کی نگہداشت کی جائے؟ درخت کا انتخاب کرتے وقت مقامی آب و ہوا، زمین کی نوعیت اور علاقے کے انفراسٹرکچر کو مدِ نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ مثلاً کراچی، لاہور، سکھر اور حیدرآباد جیسے شہروں میں لگنم، چمپا، املتاس، کچنار، جکاراندا وغیرہ موزوں درخت ہیں، جو کم پانی میں بھی نشوونما پاتے ہیں اور جڑیں زیادہ نہیں پھیلاتے۔ نیم اور برگد جیسے درخت اگرچہ مفید ہیں مگر شہری علاقوں میں بجلی کی تاروں اور سڑکوں کیلئے مسئلہ بن سکتے ہیں، اس لیے انہیں پارکس یا کھلی جگہوں میں لگانا زیادہ بہتر ہے۔اگر زمین دستیاب نہ ہو تو بیل دار پودے بہترین متبادل ہو سکتے ہیں۔ اپارٹمنٹس یا گنجان آبادی والے علاقوں میں بوگن ویلا، چمیلی، ہنی سکل اور المنڈا جیسی بیلیں کم جگہ میں اُگتی ہیں، گھروں کو دھوپ کی تپش سے بچاتی ہیں، اور آلودگی کم کرنے میں مددگار ہوتی ہیں۔ ان کی جڑیں بھی کمزور ہوتی ہیں، اس لیے سیوریج یا گیس لائنوں کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ درخت لگانے کیلئے موزوں ترین وقت فروری تا مارچ اور جولائی تا اگست سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر مون سون کا موسم شجرکاری کیلئے نہایت موزوں ہوتا ہے۔ گرمیوں میں لگایا گیا پودا پانی کی کمی یا شدید درجہ حرارت کی وجہ سے اکثر زندہ نہیں رہ پاتا۔ پودا لگانے کے بعد ابتدائی پندرہ دن روزانہ پانی دینا چاہیے، پھر ہفتے میں دو بار دینا کافی ہوتا ہے۔ ایک پودے کو مکمل درخت بننے میں تین سے پانچ سال لگ سکتے ہیں، اس لیے اس کی مستقل نگہداشت ضروری ہے۔درخت قدرت کے بہترین کولر ہیں۔ ان کی چھاؤں، شاخیں اور پتے سورج کی تپش کو روکتے ہیں اور ہوا کو ٹھنڈا کر کے اردگرد کے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں۔ درختوں میں ایک خاص عمل Transpiration ہوتا ہے جس میں وہ پانی کو بخارات کی صورت میں خارج کرتے ہیں، جس سے فضا میں نمی پیدا ہوتی ہے، بارش کے امکانات بڑھتے ہیں اور زمینی درجہ حرارت میں کمی آتی ہے۔ ماحولیاتی بحران کے اس دور میں ہمیں درختوں کی اہمیت کو سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا۔ دنیا بھر میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، سطح سمندر بلند ہو رہی ہے، غیر متوقع بارشیں، سیلاب، خشک سالی، اور ہیٹ ویوز معمول بنتی جا رہی ہیں۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ساحلی شہر جیسے کراچی اور گوادر مستقبل میں زیر آب آنے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف خود درخت لگائیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ والدین اپنے بچوں کو شجرکاری کی تربیت دیں، اسکولز اور کالجز اسے نصاب میں شامل کریں، مساجد اور علما اس پیغام کو خطبات میں عام کریں، میڈیا آگاہی مہمات چلائے اور سرکاری ادارے اس ضمن میں مؤثر قانون سازی کریں۔ ہر شہری سال میں کم از کم ایک درخت لگانے کا عزم کرے اور اس کی کم از کم تین سال نگہداشت بھی کرے تو پاکستان کو سرسبز اور محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ آج اگر ہم نے درخت لگانا شروع نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ درخت صرف سایہ دینے والی شے نہیں بلکہ اُمید کی کرن ہیں، جو ہماری آنے والی نسلوں کیلئے زندگی، سانس، چھاؤں اور سکون کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔یاد رکھیں، درخت لگانا محض ایک عمل نہیں بلکہ ایک انقلابی سوچ ہے۔ یہ سوچ ہمیں قدرت کے قریب کرتی ہے، انسانیت سے جوڑتی ہے، اور ہمیں زمین کی اصل قیمت کا احساس دلاتی ہے۔ آئیں، آج سے عہد کریں کہ ہم گرمی کا رونا رونے کے بجائے اس کا حل تلاش کریں گے۔ اور شجرکاری وہ حل ہے جسے ہم سب باآسانی اپنا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جو زمینی فلاح، اخروی نجات اور اجتماعی بہتری کی ضامن ہے۔

چائے نوشی:جنگ عظیم دوم میں برطانیہ کی 37 فیصد شکست کی وجہ

چائے نوشی:جنگ عظیم دوم میں برطانیہ کی 37 فیصد شکست کی وجہ

پرتگالیوں نے ایشیا ء میں داخل ہونے کے بعد برطانویوں کوچائے کا عادی بنایا۔''چائے کے چلن‘‘انہوں نے پرتگالیوں سے ہی سیکھے۔ کہتے ہیں کہ چائے پینے سے نیند بھاگ جاتی ہے مگر کبھی کبھی چائے کا وقفہ اور بوریت برطانوی فوجیوں کیلئے مصیبت کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ ''چائے کے وقفہ ‘‘کے دوران برطانوی عملہ ٹینک سے باہر نکل کر چائے بنانے لگتا ہے ، سب مزہ لیتے ہیں مگر ٹینک سے باہر نکلتے ہی کبھی کبھی دشمن انہیں نشانہ بنا لیتا ہے۔افریقہ اور یورپ میں لڑی جانے والی جنگوں میں کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ فوجی جوان سستانے، چائے پینے یاٹینک کی بدبو سے بچنے کیلئے باہر نکلے اور دشمن نے عین اسی وقت حملہ کر کے برطانوی فوجیوں کو نقصان پہنچایا۔دوسری جنگ عظیم میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جنگ عظیم کے چھڑتے ہی پہلے روس نے 15منٹ میں برطانوی فوج کے 14 ٹینک، 2 اینٹی ٹینک توپیں اور 4 اسلحہ کیریئر تباہ کردیئے تھے۔وجہ صرف یہ تھی کہ فوجی کچھ دیر کیلئے چائے پینے ٹینک سے باہر نکلے ،قریب ہی ہٹلر کے سپاہی اپنے ٹینکوں پر موجود تھے جنہوں نے حملہ کے انہیں نقصان پہنچایا۔ہوا یوں کہ دوسری جنگ عظیم میں چائے کا ایک کپ برٹش آرمی کے توپ خانے کی قیاد ت کرنے والے جنرل کی شکست کا باعث بنا۔ 12 جون 1944ء کو جنگ عظیم چھڑے 6دن گزرے تھے، اتحادی فوجوں نے نارمنڈی (Normandy)کے مقام پر ایک بہت بڑا حملہ کیا۔ برطانوی جنرل برنارڈ منٹگمری نے 22ویں آرمڈ بریگیڈکو جرمن فوجوں کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کی ہدایت دی اور انہیں سٹی آف Caenمیں رکنے کا حکم دیا۔ چنانچہ فوجیوں نے اپنے ٹینک سٹی آف Caenسے 18 میل کے فاصلے پر روک لیے ۔لندن میں فورتھ کونٹی آف لندن کا سکوارڈن پوائنٹ ''ٹو13‘‘نامی جگہ پر کھڑا تھا۔ اسی مقام پر انہیں جنگ کے بارے میں ہلکی پھلکی بریفنگ دی گئی۔یہاں ونگ کے کمانڈرمائیکل وٹ مین تھے ۔ جنگ کرسک (Krusk)میں ان کی 12ویں ٹینک کمپنی میں چار ہی ٹینک سلامت بچے تھے۔روسی ٹینکوں کے بھاری گولوں نے برطانوی توپ خانے کو کافی نقصان پہنچایا ۔مگر سپاہی عادت سے مجبورتھے۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے پہلا کام چائے پینا تھا۔ انہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ صرف 200میٹر کے فاصلے پرروسی ''ٹائیگر ٹینکوں‘‘سے حملہ کرنے کیلئے تیار کھڑے ہیں، وہ وہاں کب پہنچے ؟چائے نوشوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اب ان کے پاس دشمن سے بچنے کا ایک ہی راستہ تھا، خود آگے بڑھ جائیں اور باقی سب کو اسی علاقے میں ڈٹے رہنے کا حکم دیں ۔ یہ حکم دے کر وہ 9بجے کر 5منٹ پر آگے بڑھ گئے۔ یہاں انہوں نے ایک شرمن ٹینک تباہ کر ڈالا۔ برطانوی ٹینک کا 17پاؤنڈ وزنی گولہ کسی بھی ٹینک کیلئے بھی انتہائی تباہ کن تھا ۔روسی بھی کم نہ تھے۔ پوائنٹ 13نامی مقام پر ہلکی پھلکی جنگ ہوئی ۔صبح سویرے برطانوی ٹینکوں نے اپنی ساری قو ت جمع کرکے اپنے توپ خانے سے گولہ باری کی۔ حتیٰ کہ توپ خانہ کو بھی کافی نقصان پہنچا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تمام برطانوی ٹینکوں میں توپوں اورگولوں کی طرح چائے کی برقی کیتلی اورکھانے پینے کے سامان کو بھی ناگزیر ضرورت سمجھاجانے لگا ہے۔اسی لئے توپ خانے اور ٹینکوں سے منسلک برطانوی سپاہی سے جرنیل تک،سب ہی چائے بنانے کا بہت اچھا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان فوجی افسروں کی بیویاں کبھی ان سے ناراض نہیں ہوئیں،وہ خود بھی اپنے لیے چائے بناتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کیلئے بھی۔وہ حالت جنگ میں بھی ٹینکو ں میں بھی چائے کی چسکیاں بھرتے ہیں۔ کئی پونڈ وزنی گولہ دشمن پر داغتے وقت جدید ترین برقی کیتلی میں چائے ابل رہی ہوتی ہے۔ برطانیہ نے اس جنگ کے نقصانات پر سنجیدگی سے غورکیا ۔1946ء میں برٹش میڈیکل ریسرچ کونسل نے مارچ1945ء کے بعد سے افریقہ اور یورپ میں توپ خانے اور بکتر بند گاڑیوں کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لیا۔ تب انہیں پتہ چلا کہ جنگوں کے دوران جب برطانوی یا افریقی عملہ ٹینکوں سے باہر نکل کر چائے پینے لگتاہے تو عین اسی لمحہ دشمن کے گولے ان کے ٹینکوں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔تحقیق سے پتہ چلا کہ برطانوی فوج چائے نہ ملنے سے بوریت محسوس کرنے لگتی ہے اورمیدان جنگ میں بھی ہار جاتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ 37 فیصد نقصانات اس وقت ہوئے جب عملہ ٹینکوں یا بکتر بند گاڑیوں سے باہر تھا۔ اکثر کو چائے اور کھانے کی طلب تھی۔ کچھ سپاہیوں نے بدبو اور کچھ نے گولوں کے دھویں کی شکایت کی۔ چنانچہ تمام توپ خانوں میں فوری طورپر راشن، ہیٹر اور واٹر ہیٹر کے انتظاما ت کئے گئے۔ ایک بڑی کمپنی نے خصوصی طور پر چائے اور کھانا گرم کرنے کیلئے برقی آلات تیار کئے۔اس وقت سے آج تک کوئی برطانوی ٹینک یا بکتر بند گاڑی چائے کے ساز وسامان کے بغیر اپنے اڈے سے نہیں نکلی۔ ورنہ شکست کا امکان 37فیصد تک ہو سکتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

سانحہ بھوجا ایئر لائن''سانحہ بھوجا ایئر لائن 2012ء‘‘ ایک افسوسناک فضائی حادثہ تھا جو 20 اپریل 2012ء کو پیش آیا۔ اس حادثے میں بھوجا ایئر کی پرواز بی4-213 اسلام آباد کے قریب گر کر تباہ ہو گئی۔ اسے ملکی تاریخ کا دوسرا بڑا فضائی حادثہ قرار دیا گیا، جس میں 129افراد ہلاک ہوئے۔طیارہ خراب موسم، آندھی اور گرج چمک کے دوران لینڈنگ کی کوشش کر رہا تھا جب یہ اسلام آباد کے قریب، حسین آباد گاؤں کے علاقے میں زمین سے ٹکرا گیا اور آگ بھڑک اٹھی۔''لڈ لو‘‘ قتل عاملڈلو قتل عام کولوراڈو کول فیلڈ جنگ کے دوران اینٹی اسٹرائیکر ملیشیا کے ذریعہ کیا گیا۔ یہ اجتماعی قتل عام تھا۔ کولوراڈو نیشنل گارڈ کے سپاہیوں اور کولوراڈو فیول اینڈ آئرن کمپنی کے گارڈز نے 20 اپریل 1914ء کو کولوراڈو میں تقریباً 1200 سے زائد ہڑتال پر بیٹھے کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں اور ان کے خاندانوں کی ایک خیمہ کالونی پر حملہ کر دیا۔ تقریباً 21 افراد، بشمول کان کن، عورتیں اور بچے مارے گئے۔ کولوراڈو فیول اینڈ آئرن کمپنی کے ایک حصہ کے مالک جان ڈی راکفیلر جونیئر جو کہ حملوں کے متعلق ریاستہائے متحدہ کی کانگریس کی سماعت میں بھی پیش ہوئے تھے،ان پر بڑے پیمانے پر اس قتل عام کو منظم کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔سیپٹنسولر جمہوریہ1800ء میں آج کے دن سیپٹنسولر جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ اس وقت ہوا جب روس اور عثمانی سلطنت کے بحری بیڑے نے ان جزائر پر قبضہ کر لیا اور فرانسیسی جمہوریہ کی دو سالہ حکمرانی ختم کر دی گئی۔ اگرچہ جزیرے کے باشندوں نے امید کی تھی کہ انہیں مکمل آزادی حاصل ہو جائے گی لیکن نئی ریاست کو صرف خود مختاری دی گئی اور ساتھ ہی اسے عثمانی سر پرستی میں بھی دے دیا گیا۔ 15ویں صدی کے وسط میں عثمانیوں کی جانب سے بازنطینی سلطنت کی آخری باقیات کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب یونانیوں کو خود مختار حکومت دی گئی تھی۔ 1807ء میں اسے فرانسیسی سلطنت کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ جانسن اسپیس سینٹر پر فائرنگجانسن اسپیس سینٹر میں فائرنگ کا واقعہ20 اپریل 2007ء میں پیش آیا۔ یہ واقعہ ہوسٹن ٹیکساس میں موجود امریکہ کے خلائی تحقیقاتی ادارے کے جانسن اسپیس سینٹر کی کمیونیکیشن اینڈ ٹریکنگ ڈویلپمنٹ لیبارٹری کی عمارت 44 میں پیش آیا۔ایک ملازم ولیم فلپس نے اپنے ساتھی کو گولی مار کردوسرے کو تیں گھنٹے سے زائد یرغمال بنائے رکھا۔اس کے بعدولیم نے خودکشی کر لی۔ پولیس کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں سامنے آیا کہ ولیم کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ادارہ اس سے خوش نہیں تھا اور اسے نوکری سے نکالے جانے کا ڈر تھا۔

یادرفتگاں:امتیاز علی تاج جنہوں نے اردو ڈرامہ نگاری کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا

یادرفتگاں:امتیاز علی تاج جنہوں نے اردو ڈرامہ نگاری کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا

''انار کلی‘‘ اور ''چچا چھکن ‘‘دو ایسے کردار ہیں جن سے صرف اردو دنیا نہیں بلکہ دیگر زبانوں اور معاشروں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی واقف ہیں۔ یہ دونوں ایسے ناقابل فراموش کردار ہیں جو ہمارے اجتماعی شعور کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان دو اہم کردار کے خالق سید امتیاز علی تاج ہیں۔سید امتیاز علی تاج اردو ادب کے ممتاز ڈرامہ نگار اور نثر نگار تھے، جنہوں نے اردو ڈرامے کو نئی جہتیں عطا کیں۔سید امتیاز علی 13اکتوبر 1900ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اْن کے والد سید ممتاز علی، دیوبند ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے ،جو خود بھی ایک بلند پایہ مصنف اور اردو اشاعت کے بانیوں میں سے تھے۔ ان کی والدہ محمدی بیگم بھی مضمون نگار تھیں۔ان کی اہلیہ، حجاب امتیاز علی خود ایک معروف اردو ناول نگار اور شاعرہ تھیں، اور 1936ء میں ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون پائلٹ بنیں۔ ان کی بیٹی یاسمین طاہر اور داماد نعیم طاہر بھی فنونِ لطیفہ سے وابستہ ہیںجبکہ پوتے فرحان طاہر اور علی طاہر نے بھی فنون لطیفہ میں نام کمایا۔امتیاز علی تاج نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ سنٹرل ماڈل سکول سے میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کی سند حاصل کی۔ اْنھیں بچپن ہی سے علم و ادب اور ڈرامہ سے دلچسپی تھی ،دراصل یہ ان کا خاندانی ورثہ تھا۔تاج کالج کے ذہین ترین طالب علم تھے۔ اپنے کالج کی ثقافتی و  ادبی سرگرمیوں میں متحرک اور فعال رہتے تھے۔ ڈرامہ اور مشاعرہ سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔ تاج ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے 17سال کی عمر میں 'شمع اور پروانہ‘ کے عنوان سے پہلا افسانہ لکھا۔تاج ابھی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک ادبی رسالہ ''کہکشاں‘‘ نکالنا شروع کردیا۔ اُن کوڈرامہ نگاری کا شوق کالج میں پیدا ہوا۔وہ گورنمنٹ کالج کی ڈرامیٹک کلب کے سرگرم رکن تھے۔امتیاز علی تاج کی شخصیت بڑی متنوع تھی۔ انہوں نے مختلف میدانوں میں اپنی ذہانت کے ثبوت دیئے، ریڈیو فیچر لکھے، فلمیں لکھیں، ڈرامے لکھے مگر سب سے زیادہ شہرت انہیں ڈرامہ ''انارکلی‘‘ سے ملی۔یہ ان کا شاہکار ڈرامہ تھا، جو نصابوں میں شامل کیا گیا۔ جس پر بے شمار فلمیں بنیں آج بھی جب انارکلی کا ذکر آتا ہے تو امتیاز علی تاج کی تصویر ذہن میں ابھرتی ہے۔ اس ڈرامہ میں جس طرح منظر نگاری،کردار نگاری اور مکالمے ہیں اس کی داد سبھی نے دی ہے۔ یہ ڈرامہ آج مختلف جامعات میں تحقیق کا موضوع بنا ہوا ہے۔اُن کا تحریر کردہ ڈرامہ ''انارکلی‘‘ جدید اُردو ڈرامہ نگاری کی تاریخ میں نقش ِاوّل اور سنگ ِمیل تصور کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امتیاز علی تاج نے ڈرامہ ''انار کلی‘‘ صرف بائیس برس کی عمر میں لکھا،جو اردو ڈراموں میں اپنی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔انھوں نے اُردو ڈرامہ نگاری کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ان کے لکھے ہوئے مشہور ڈراموں میں ''ستارہ، ورجینیا، دلھن، قسمت، روشن آرا،شاہ جہاں، چچا چھکن اور قرطبہ کا قاضی کے نام سرفہرست ہیں۔ تاج نے بہت سے انگریزی اور فرانسیسی زبان کے ڈراموں کا ترجمہ کیا اور یہاں کے ماحول کے مطابق انہیں ڈھالا۔ ''قرطبہ کا قاضی‘‘ انگریز ڈراما نویس لارنس ہاؤس مین کے ڈرامے کا ترجمہ ہے اور ''خوشی‘‘ پیٹرویبر فرانسیسی ڈراما نگار سے لیاگیا ہے۔''چچا چھکن‘‘امتیاز علی تاج کی مزاح نگاری کی عمدہ کتاب ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ناول''محاصرہ غرناطہ‘‘ اور'' ہیبت ناک افسانے ‘‘بھی مشہور ہیں۔ تاج آخری عمر میں مجلس ترقی ادب، لاہور سے وابستہ رہے۔ اُن کی زیر نگرانی مجلس نے بیسیوں کتابیں نہایت خوب صورت انداز میں شائع کیں۔امتیاز علی تاج کے ڈراموں کے علاوہ فلموں بھی دلچسپی لی۔ کہانیاں، منظرنے اورمکالمے لکھے۔فلمیں بھی بنائیں۔ ان کی فلم کمپنی کا نام 'تاج پروڈکشن لمیٹڈ ‘تھا۔اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ِپاکستان نے انھیں ''ستارہ امتیاز‘‘ اور ''تمغہ برائے حسن ِکارکردگی‘‘ سے نوازا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں 2001ء میں پاکستان پوسٹ نے ان کے اعزاز میں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ 19 اپریل 1970 کو امتیاز علی تاج کو دو نقاب پوشوں نے ان کے گھر میں گھس کر قتل کر دیا۔ ان کی اہلیہ حجاب امتیاز علی اس حملے میں شدید زخمی ہوئیں۔ 

سورج گرہن  جس نے دو عشروں سے جاری جنگ کو ختم کرا دیا

سورج گرہن جس نے دو عشروں سے جاری جنگ کو ختم کرا دیا

یہ اس دور کا قصہ ہے جب لوگ دیگر بہت سارے مظاہر قدرت کے ساتھ سورج، چاند اور ستاروں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ سورج ان کا پسندیدہ اور ہر د لعزیز دیوتایوں تھا کہ اس کا ساتھ پجاریوں کے ساتھ دن کے زیادہ وقت رہتا تھا۔ سورج کی بحیثیت دیوتا ایک عرصہ تک پوجا دنیا کے بیشتر حصوں میں کی جاتی رہی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب نجوم بطور علم لوگوں کی زندگیوں میں داخل ہو چکا تھا۔ بعد میں نجوم ترقی کرتے کرتے ''علم ہئیت‘‘ میں بدل گیا۔ اس زمانے میں بابل اور مصر کے لوگ علم ہئیت کے ماہر تصور ہوتے تھے۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ علم ہئیت کا آغاز غالباً تاریک راتوں کے سفر کے دوران اس وقت شروع ہوا جب انسان کو سمتوں کے تعین کی ضرورت پیش آئی ہو گی۔غالباً سب سے پہلے انسان کے مشاہدے میں یہ آیا کہ آسمان پر کچھ ستارے ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ ایک ہی سمت کا تعین کرتے ہیں جبکہ ان کی مدد سے دوسری سمتوں کا تعین با آسانی کیا جا سکتا ہے۔ اس علم ہئیت کو ترقی معبدوں کے پروہتوں سے ملی۔ چونکہ پروہت ، دیوتائوں کے نائب اور ترجمان ہوا کرتے تھے اس لئے اس دور میں پروہتوں کی بات دیوتا کی بات تصور ہوتی تھی۔ پروہتوں نے بلند و بالا معبدوں کے چبوتروں پر بیٹھ کر سینکڑوں سالوں تک ستاروں کا مشاہدہ کیا اور انکا ریکارڈ رکھنا شروع کیا تو یہیں سے زائچوں کی شروعات ہوئی۔ رفتہ رفتہ انہوں نے ستاروں کی گردش پر اپنی توجہ مبذول کئے رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ستاروں کی گردش بلا سبب نہیں ہو سکتی۔ یہ تاریک راتوں میں قدرت کی طرف سے مسافروں کے رہنما ہیں۔ اس کے بعد ان پروہتوں نے باقاعدہ طور پر سورج اور چاند گرہن بارے پیش گوئیاں کرنا شروع کیں۔یہ سورج، چاند، ستاروں کی کسی بھی خلاف معمول حرکت کو اپنی پیش گوئیوں سے جوڑ کر اپنی دھاک بٹھا دیا کرتے تھے۔ تاریخ میں ایک شخص ایسا بھی تھا جس نے باقاعدہ طور پر سورج گرہن کے راز تک علم ہئیت کے ذریعے رسائی حاصل کی اور سب سے پہلے سورج گرہن کی باقاعدہ پیش گوئی کرنے والا یہ دنیا کا پہلا شخص تھا ، جسے تاریخ ''تھیلیز‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ تھیلیز کو دنیا کا پہلا فلسفی بھی کہا جاتا ہے۔ تھیلیز 625 قبل مسیح یونانی نوآبادیاتی خطے آئیونیا کے شہر مائیلیٹس میں پیدا ہوا اور 546 قبل مسیح یہیں پر اس کا انتقال ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا کی قدیم ترین اور عظیم مصر تہذیب اندرونی اور بیرونی خلفشاریوں کی وجہ سے اپنی بقا کی آخری سانسیں لے رہی تھی۔مورخین کہتے ہیں '' یہی وہ دور تھا جب علم کی شمعیں ایشیا ء سے مغرب کی جانب منتقل ہو رہی تھیں‘‘۔ ریاست آئیونیا کے چونکہ مصر اور بابل سے خوشگوار تعلقات تھے جس کی وجہ سے جوانی ہی میں تھیلیز کو متعدد بار بابل کی طرف سفر کے مواقع ملے۔ علم کی پیاس چونکہ اس کی نس نس میں رچی بسی تھی اس لئے اس نے دنیا کے قدیم ترین علمی مرکز مصر سے علم نجوم ، علم جیومیٹری ، ریاضی اور علم ہئیت بارے انتہائی لگن سے بہت کچھ سیکھا۔ مصر کی تہذیب چونکہ اپنے دور کی عظیم اور شاندار تہذیب تھی بالخصوص اہرام مصر نے ایک عرصے تک دنیا بھر کو حیرت زدہ کئے رکھا۔ تاریخ کی کتابوں میں آیا ہے کہ جب تھیلیز نے پہلی مرتبہ اہرام مصر دیکھے اس وقت ان کو تعمیر ہوئے لگ بھگ دو ہزار سال بیت چکے تھے لیکن اہرام مصر بارے جہاں اور بہت سارے راز ابھی پوشیدہ تھے وہیں ان کی صحیح اونچائی بھی اس وقت تک ایک راز تھا۔ تاریخی کتابوں سے تھیلیز کا یہ واقع منقول ہے کہ مصر میں قیام کے دوران اس کے علم کا بڑا شہرہ تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ اہل مصر نے تھیلیز سے دریافت کیا کہ بتاو اہرام مصر کی اونچائی کتنی ہے؟۔ تھیلیز نے ایک لمحہ کیلئے سوچا اور کہا یہ بھی کوئی مشکل کام ہے۔اس نے ایک چھڑی منگوائی اور اسے اہرام کے قریب ہی ایک کھلے میدان میں زمین پر گاڑھ دیا۔ چنانچہ جب اس چھڑی کا سایہ اس کی اصل لمبائی کے برابر ہواتو اس نے کہا اس سائے کو ناپو یہی اس کی اصل لمبائی اور اونچائی ہو گی ۔ یوں تو تھیلیز کی زندگی علم ہئیت، ریاضی اور جیومیٹری کے مشاہدات اور تجربات سے بھری پڑی ہے لیکن اس کا سب سے منفرد اور شاندار واقعہ 28 مئی 585 قبل مسیح کا وہ محیرالعقول واقعہ ہے جس کے بارے تھیلیز نے بہت دن پہلے اپنے حساب کتاب کے ذریعے یہ بتا دیا تھا کہ اس دن سورج گرہن ہو گا۔یہ وہ زمانہ تھا جب عام لوگوں میں سورج گرہن کا تصور نہیں تھا۔یہ اس دن کا قصہ ہے جب اپنے زمانے کی دو جنگجو ریاستی قوتیں ''لیڈیا‘‘ اور ''میڈیا‘‘ (جن کا موجودہ محل وقوع آج کے دور میں ایران اور ترکی کے علاقوں میں تھا) گزشتہ دو دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف خون کی ہولی کھیلتی آرہی تھیں۔ ویسے تو گزشتہ کئی سالوں سے جاری یہ جنگ دونوں اطراف کے ہزاروں جوانوں کو موت کی ابدی نیند سلا چکی تھی۔ لیکن اب پچھلے ایک ماہ سے اس کی شدت میں یہ اضافہ کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے اس قدر شدت اختیار کر گیا تھا کہ خون آشام تلواریں واپس نیام میں جانے کیلئے تیار نہ تھیں۔پھر یکایک غصے اور انتقام سے بپھرے سپاہیوں نے آسمان کو ایک دم رنگ بدلتے دیکھا۔متحارب گروہوں نے اس سے پہلے اپنی زندگی میں یہ منظر کبھی نہ دیکھا تھا جب آسمان پر نمودار ہونے والی ''عفریت‘‘نے رفتہ رفتہ سورج ''دیوتا‘‘کو نگلنا شروع کیا اور آن کی آن میں یہ عفریت سورج دیوتا کو نگل چکی تھی۔ برسر پیکار گروہوں کو دن میں ستارے نظر آنے لگے۔ متحارب گروہوں نے اپنے سورج دیوتا کا یہ حال دیکھا تو تلواریں تیر کمان، نیزے پھینک کر مناجات پڑھنے لگے۔ کچھ سجدے میں گر گئے۔ رفتہ رفتہ سورج کو اس عفریت سے رہائی ملی اور ایک دفعہ پھر سورج کی کرنوں نے زمین کو روشن کرنا شروع کیا تو سجدے میں گرے لوگوں نے سمجھا کہ شاید ان کی عبادت قبول ہو گئی ہے۔اب دونوں گرہوں کے دل بدل چکے تھے اور اپنے کئے کی معافی مانگ رہے تھے۔ بار بار گڑ گڑا رہے تھے کہ ان کی خونریزی کی وجہ سے ان کے دیوتا سورج کو یہ سزا ملی ہے۔کہتے ہیں اس کے بعد یہ دونوں گروہ ہنسی خوشی رہنے لگے۔ اور یوں ایک سورج گرہن نے دو عشروں سے جاری ایک جنگ کو چند لمحوں کے اندر بغیر کسی پیشگی شرائط کے بند کرا دیا۔یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کے متعلق اپنے دور کے عظیم یونانی مورخ ہیرو ڈوٹس نے 430قبل مسیح میں اپنی یاداشتوں میں لکھا کہ '''' لیڈیا اور میڈیا کی سلطنتوں کے درمیان ایک جنگ ہوئی تھی جو کئی سالوں تک جاری رہی۔ایک دن جاری جنگ کے دوران اچانک دن، رات میں بدل گیا۔ دونوں متحارب گروہ خوف میں مبتلا ہوئے اور چند لمحے پہلے کے دشمنوں نے جنگ روک کر ایک دوسرے کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھادیا‘‘۔ امریکہ کی ٹینیسی یونیورسٹی کے پروفیسر مارک لٹ کہتے ہیں کہ دو ہزار سال سے زیادہ پہلے ایک جنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک سورج گرہن کی وجہ سے اس جنگ کا نتیجہ بدل گیا تھا۔ ہزاروں سال بعد ناسا کے سائنس دانوں نے نہ صرف اس سورج گرہن کے واقعہ کی تاریخ پر مہر تصدیق ثبت کر دی بلکہ اس حقیقت کا بھی اقرار کیا کہ ایشیاء کوچک کے ان علاقوں پر جہاں یہ لڑائی لڑی جارہی تھی یہ ایک مکمل سورج گرہن تھا۔اور ہزارہا سال پہلے صحیح پیش گوئی کرنے والا فلاسفر تھیلیز تھا۔یاد رہے کہ تھیلیز نے اس واقعہ سے بہت پہلے یہ پیش گوئی کی تھی کہ (ہمارے مروجہ کیلنڈر کے مطابق) 28 مئی 585 قبل مسیح کوچک کے علاقوں میں ایک مکمل سورج گرہن نظر آئے گا۔         

آج کا دن

آج کا دن

امریکہ کی جنگِ آزادی کا آغاز19اپریل 1775ء کو امریکہ کی جنگ آزادی کا آغاز ہوا۔ یہ ایک تاریخی سنگ میل تھا جس نے دنیا کی پہلی بڑی نوآبادیاتی بغاوت کو جنم دیا۔ 18ویں صدی میں امریکہ کی 13 برطانوی نوآبادیاں (colonies) برطانیہ کی حکومت سے نالاں تھیں، خاص طور پر ٹیکسوں اور نمائندگی کے فقدان پر۔ یہ جنگ 8 سال جاری رہی (1775-1783)۔امریکہ نے فرانس، اسپین، اور نیدرلینڈز کی حمایت حاصل کی۔ جنگ کا اختتام 1783ء کے معاہدہ پیرس سے ہوا، جس کے تحت برطانیہ نے امریکہ کی آزادی تسلیم کر لیدنیا کا پہلا خلائی سٹیشنسیلوٹSalyutدنیا کا پہلا خلائی سٹیشن تھا جسے 19اپریل 1971ء کو سوویت یونین نے زمین کے نچلے مدار میں لانچ کیا ۔سیلوٹ پروگرام نے اس کے بعد سات مزید سٹیشنوں کا پانچ کامیاب لانچز کے ساتھ آغاز کیا۔ پروگرام کا آخری ماڈیول Zvezda بین الاقوامی سٹیشن کے روسی حصے کا مرکز بن گیا ۔سیلوٹ کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا جن میں ٹرانسفر کمپارٹمنٹ، مین کیبن، دومعاون کمپارٹمنٹ اور ،اورین 1سپیس آبزرویٹری شامل تھے۔مریخ پر چلنے والا ہیلی کاپٹرIngenuityجسےGinnyبھی کہا جاتا ہے ۔ مریخ پر چلنے والا ایک چھوٹا روبوٹک ہیلی کاپٹر ہے۔ یہ پرسیورینس روور کے ساتھ ناسا کے مارس 2020ء مش کا حصہ ہے۔ جو 18فروری 2021ء کو اپنے ساتھ منسک Ingenuityکے ساتھ اترا تھا۔ ہیلی کاپٹر کو 3اپریل 2021ء کو سطح پر تعینات کیا گیا تھا۔ 19اپریل کو اس نے کامیابی کے ساتھ اپنی پہلی پرواز مکمل کی۔ہیلی کاپٹر کا مقصد مریخ کے ان حصوں کا معائنہ کرنا تھا جہاں روور ٹھیک سے نہیں پہنچ سکتا تھا، ان حصوں میں مریخ کے پہاڑی علاقے شامل تھے۔کینیڈا میں 16مقامات پر فائرنگ19اپریل2020ء کو گیبریل ورٹ مین نے کینیڈا کے صوبے نووا سکوشیا میں 16مقامات پر متعدد مرتبہ فائرنگ کی اور اس کے بعد آگ لگادی۔ اس واقع کے نتیجے میں 22افراد ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔ ورٹ مین نے یہ کارروائی تقریباً13گھنٹے تک جاری رکھی جس میں اس نے پولیس کی وردی اور گاڑی کا استعمال بھی کیا۔اس کارروائی کے دوران عوام کو ریڈ الرٹ کے ذریعے خبر دار نہ کرنے پر پولیس پر بہت زیادہ تنقید بھی کی گئی۔ایک طویل مقابلے کے بعد کینیڈا کی پولیس نے ورٹ مین کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔