جہانگیر:مغلیہ خاندان کے ممتازترین حکمران
اسپیشل فیچر
برصغیر پاک و ہند میں مغلیہ سلطنت کا طویل دور حکومت بہت سی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے اور اس طویل دور حکومت میں نسل در نسل مغلیہ خاندان برسر اقتدار رہا۔ یہاں ہم ذکر کریں گے نور الدین محمد سلیم کا جو مغل بادشاہ اکبر اعظم کے بیٹے تھے اور مغل خاندان کے چوتھے شہنشاہ تھے، نور الدین محمد سلیم کی والدہ کا نام مریم الزمانی تھا۔ وہ مغل بادشاہ اکبر اعظم کے ہاں 9 ستمبر 1569 ء کو ہندوستان کے علاقے فتح پور سیکری میں پیدا ہوئے۔ مغل بادشاہ جہانگیر مغلیہ خاندان کے سب سے ممتاز حکمران تھے اور 1605ء سے لے کر1627ء تک مغل سلطنت کے تخت پر براجمان رہے۔ہندوستان کی حکمرانی ملنے سے پہلے جہانگیرکے اپنے والد مغل بادشاہ اکبر اعظم کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ رہے کیونکہ جہانگیر جلد از جلد تخت نشین ہونا چاہتا تھا اور اس سلسلے میں 1599ء میں اپنے والد کے خلاف بغاوت بھی کی۔ بعدازاں دونوں باپ بیٹے کے تعلقات بہتر ہوگئے اور اکبر اعظم نے بستر مرگ پر سلیم کو اپنا جانشین نامزد کردیا۔ہندوستان کی سلطنت کے تخت پر براجمان ہونے کے بعد شہنشاہ سلیم نے اپنے لئے فارسی نام جہانگیر کا انتخاب کیا جس کا مطلب ہے ''دنیا پر قبضہ کرنے والا‘‘۔
جہانگیر کے دور میں فنی مصوری
ہندوستان کا تخت سنبھالنے کے بعدجہانگیر نے فوجی مہمات پر توجہ دینے کے علاوہ فن کو بھی بہت اہمیت دی۔ 22 سالہ دورحکمرانی میں جہانگیر نے مغل سلطنت کی سرحدوں کو مزید وسیع کیا۔ جہانگیر حکمت عملی بنانے اور سلطنت کو مضبوط کرنے میں بہت اچھا تھا لیکن جہانگیر کو فنون لطیفہ میں بہت دلچسپی تھی۔ شہنشاہ نے بہت سی پینٹنگز تیار کیں جن میں خود کے پورٹریٹ بھی شامل تھے۔ پینٹنگز میں ان کی دلچسپی کی وجہ سے مغل پینٹنگز کو فروغ ملا اوراس نے بہت سے فنکاروں کو شہنشاہ اور مہارانی کے سامنے اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع فراہم کیا۔ برٹش میوزیم نے 74 پینٹنگز اکٹھی کی ہیں جو جہانگیر نے بنائی تھیں۔ ''تزک جہانگیری‘‘فارسی زبان میں لکھی گئی نورالدین جہانگیر کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے اپنے حالات و واقعات کو قلمبند کیا ہے۔ جہانگیر نے فن کی حوصلہ افزائی کی اور دنیا بھر کے فنکاروں کو مغل دربار میں اپنا ہنر پیش کرنے کا خیرمقدم کیا۔
جہانگیر کی نور نظر بیگم نورجہاں
مغل بادشاہ جہانگیر نے اپنی پوری زندگی میں 20 شادیاں کیں ۔ تمام بیویوں میں سب سے زیادہ منظور نظر نورجہاں تھیں۔ جہانگیر کی بہت سی شادیاں سیاسی وجوہات کی بناء پر ہوئیں جبکہ کچھ ذاتی بھی تھیں۔ جب جہانگیر کی عمر صرف 16 سال تھی، اس کی منگنی 13 فروری 1585ء کو امیر کی راجپوت شہزادی مائی بائی سے ہوئی تھی۔ جہانگیر بادشاہ کی آخری شادی مہر النساء سے ہوئی جسے نور جہاں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو ان کی بیسویں اور پسندیدہ بیوی تھیں۔نورجہاں جہانگیر کے بہت قریب تھیں اور وہ اس پر بہت بھروسہ کرتے تھے ۔ نورجہاں کا مغل سلطنت کے نظم و نسق پر بہت زیادہ اثر و رسوخ تھا اور دربار میں اسے بہت طاقتور سمجھا جاتا تھا۔ اس کا جہانگیر پر بڑا اثر تھا اور اس طرح سلطنت کے معاملات پر بھی اس کا براہ راست اثر تھا۔ وہ سلطنت کے سیاسی اور عسکری امور میں بھی بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ نور جہاں انتظامی صلاحیتوں سے بھی مالا مال تھیں اور وہ جہانگیر کی غیر موجودگی میں سلطنت کے تمام امور بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دیتیں۔ جب بھی ضرورت پڑی نورجہاں نے مسلح افواج کی قیادت بھی کی ، وہ اپنی دلیری کی وجہ سے بھی بہت مشہور تھیں۔
جنگی مہمات
اگرچہ اکبر نے زیادہ تر شمالی علاقہ پر قبضہ کر لیا تھالیکن وہ جنوبی ہند کے علاقوں اور راجستھان میں میواڑ جیسے چند علاقوں پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا تھا۔ 36 سال کی عمر میں مغل خاندان کا شہنشاہ بننے کے بعد جہانگیر ان تمام علاقوں پر قبضہ کرنے کے مشن پر تھا جو اس کے والد اپنے دور حکومت میں حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ جہانگیر کا پہلا مشن راجستھان میں میواڑ پر قبضہ کرنا تھا جس کی وجہ سے اس نے اپنی فوج کے ساتھ میور کے رانا امر سنگھ کی طرف پیش قدمی کی لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر یہ مشن منسوخ کر دیا گیا کیونکہ جہانگیر کے اپنے بیٹے خسرو مرزا نے اس کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنے دادا کے تخت کا اصل وارث ہے۔ جب اکبر کا انتقال ہوا اور جہانگیر کو نئے شہنشاہ کے طور پر تاج پہنایا گیا تو خسرو مرزا باغی ہو گیا تھا۔ بھیرووال کی لڑائی میں خسرو مرزا کو اس کے والد نے شکست دی۔ جہانگیر کی افواج ، مرزا اور اس کے فوجیوں کو دہلی لے کر آئیں۔ خسرو مرزا کو شہنشاہ کا بیٹا ہونے کے باوجود 26 جنوری 1622ء کو اس کے بھائی شہزادہ خرم (شاہ جہاں) نے موت کی سزا سنائی۔
جہانگیر کا مذہبی نقطہ نظر
جہانگیر بہت زیادہ مذہبی شخص نہیں تھا لیکن وہ اسلام پر عمل کرتا اور خدا پر یقین رکھتا تھا۔ وہ کبھی لوگوں کے ساتھ ان کے مذہب کی وجہ سے متعصب نہیں ہوا۔ جب اپنی رعایا کو سنبھالنے کی بات آئی تو انہوں نے اپنے منتظمین کو اس لئے خصوصی اختیارات نہیں دیئے کہ وہ مسلمان تھے اور نہ ہی اس نے ہندوئوں پرٹیکسوں کا بوجھ ڈالا۔
انتقال
جہانگیر مختصر علالت کے بعد 1627ء کو سرائے سعد آباد بھمبر میں انتقال کرگئے۔ انہیں شاہدرہ باغ میں سپرد خاک کیا گیا۔مغل بادشاہ جہانگیر کا مقبرہ شاہدرہ میں واقع ہے جو کہ شہر لاہور کے ساتھ بہنے والے دریائے راوی کے کنارے پر واقع ہے ۔ یہ ایک سیاحتی مقام بھی ہے کیونکہ اس مقبرہ کی عمارت کو مغلیہ دور کے فن تعمیر کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمارت مغلیہ سلطنت کے چوتھے بادشاہ جہانگیر کی حکومت کے جاہ و جلال کی مثال بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس عمارات کو جہانگیر کے بیٹے شاہ جہاں نے تعمیر کروایا۔