سلطان شمس الدین التتمش
اسپیشل فیچر
شمس الدین التتمش سلطنت دہلی کا تیسرا حکمران اور خاندان غلامہ کا تیسرا بادشاہ، قطب الدین ایبک کا غلام تھا ۔ ہونہار ہونے کی وجہ سے قطب الدین ایبک نے اسے اپنا دامادبنا لیا۔1211ء میں قطب الدین ایبک کے نااہل بیٹے کو تخت سے اُتار کر سلطان شمس الدین خود حکمران بن گیا ۔ اس وقت وہ بہار کا صوبیدار تھا۔ تخت نشین ہوتے ہی اُسے اُن صوبیداروں کی سر کو بی کرنی پڑی جو خودمختار بن بیٹھے تھے ۔
پنجاب اور غزنی میں تاج الدین ، سندھ میں ناصرالدین قباچہ اور بنگال میں خلجیوں نے سر اُٹھایا۔ اس نے سب کو اپنا تابہ کر لیا، 1226ء سے 1234ء تک کی درمیانی مدت میں راجپوتوں سے جنگ کرکے رتھمبور ، منڈو ، گوالیار اور اُجین فتح کئے۔
1221ء میں منگول سردار چنگیز خان شاہی سلطنت کے بادشاہ جلال الدین خوارزم کا تعاقب کرتے ہوئے دریائے سند ھ تک آ پہنچا لیکن دریا سے پہلے تمام علاقہ کو تباہ وبرباد کرکے واپس چلا گیا اور ہندوستان اس خوفناک آفت سے بچ گیا ۔
التتمش نے قطب میناراورقوت اسلام مسجد کو جنہیں قطب الدین ایبک ناتمام چھوڑ کر مر گیا تھا مکمل کروایا۔ التتمش نے اپنی بیٹی رضیہ سلطانہ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔
التتمش نہایت صحیح الا عتقاد، راسخ العقیدہ اور صالح انسان تھے ۔وہ راتوں کو جاگتے اور عبادت کرتے ، تمام عمر اُنہیں کسی نے سوتے نہیں دیکھا ۔وہ اگر تھوڑی دیر کیلئے سو بھی جاتے تو جلدہی بستر سے اُٹھ جاتے اور عالم تخیر میں کھڑے رہتے ۔
اپنے ملازموں میں سے رات کے وقت کسی کو نہ جگاتے ، کہتے کہ آرام کے ساتھ سونے والوں کو اپنے آرام کیلئے کیوں زحمت دی جائے ۔ وہ خود ہی تمام کام سر انجام دے لیتے۔ رات کو گدڑی پہن لیتے تاکہ انہیں کوئی پہنچان نہ سکے۔ ہاتھ میں سونے کے سقوں کا ایک تھیلا اور توشہ دان ہوتا، وہ لوگوں کے گھروں پر جا تے ،اُن کے حالات معلوم کرتے اور ان کی مدد کرتے۔ واپسی میں ویرانوں اور خانقاہوں سے ہوتے ہوئے بازاروں میں گشت کرتے اور وہاں کے رہنے والوں کو آسائش پہنچاتے ۔ پھر اُن سے طرح طرح کی معذرت کرکے چپ چاپ چلے جاتے اور اُن سے کہہ جاتے کہ اس مدد کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔
التتمش کے دربار میں عام اجازت تھی کہ جو رات کو فاقہ کرتے ہیں وہ اس کے پاس آئیں اور امداد پائیں۔ پھر جب غریب و حاجت مند لوگ ان کے پاس آتے توان کی ہر طرح سے سلطان دلجوئی کرتے اور ایک ایک کو قسمیں دے کر کہتے کہ دیکھنا فاقہ نہ کرنا، تمھیں جب کسی چیز کی ضرورت پڑے مجھ سے آکر بیان کرنا۔
سلطان نے اپنے دور میں اپنے محل کے باہر ''زنجیر ِ عدل‘‘ لگا رکھی تھی۔ کہتے ہیں سب سے پہلے ''زنجیر ِ عدل‘‘ کا رواج سلطان التتمش نے ہی شروع کر وایا تھا ۔ سلطان نے غریبوں اور حاجت مندوں میں یہ اعلان کروا رکھا تھا کہ اگر کوئی شخص تم سے نا انصافی کرے اور تم پر ظلم و ستم ڈھائے تو تم یہاں آکر ''زنجیر ِ عدل‘‘ ہلائو تمہاری فریاد سنی جائے گی اور تمہارے ساتھ انصاف کیا جائے گا ۔ پھر لوگوں سے رہ رہ کر کہتے کہ اگر تم مجھ سے آکر اپنی تکلیف بیان نہیں کرو گے تو کل قیامت کے دن تمہاری فریاد کا بوجھ مجھ سے نہ اُٹھایا جاسکے گا۔
سلطان شمس الدین التتمش نے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی چشتی کا نمازِ جنازہ پڑھایا۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا نماز جنازہ تیار ہوا تو اُسے بہت بڑے میدان میں لایا گیا کیونکہ مخلوق خدا کا بے پناہ رش تھا ۔ بے پناہ لوگ نماز جنازہ پڑھنے کیلئے آئے ہوئے تھے ۔
جب نماز ِ جنازہ پڑھانے کا وقت آیا تو ایک آدمی آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا وکیل ہوں، حضرت نے ایک وصیت کی تھی ، میں اس مجمع تک یہ وصیت پہنچنا چاہتا ہوں۔ تمام لوگوں پر سناٹا چھا گیا۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے وکیل نے پکار کر کہا کہ بزرگ ولی کی وصیت یہ تھی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں ہوں۔ زندگی میں اس کی تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہو ئی ہو۔ اس کی تہجد کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی ہو ۔اس نے غیر محرم پر کبھی بُری نظر نہ ڈالی ہو ۔اتنا عبادت گزار ہو کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔ جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں وہ میرا جنازہ پڑھائے۔
جب یہ بات سنائی گئی تو مجمع پر ایسا سناٹا چھا گیا کہ جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔ کافی دیر گزر گئی کوئی نہ آگے بڑھا ، آخر کا ر ایک شخص روتے ہوئے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے قریب آیا ۔ جنازے سے چادر اُٹھائی اور کہا حضرت آپ خود تو فوت ہوگئے مگر میرا راز فاش کر دیا۔ اس کے بعد بھرے مجمع کے سامنے قسم اُٹھائی کہ میرے اندر یہ چار خوبیاں موجود ہیں۔ یہ شخص وقت کا بادشاہ شمس الدین التتمش سلطنت دہلی اور خاندان غلامہ کا تیسرا بادشاہ تھا۔ شمس الدین التتمش نے 28اپریل 1236ء کو وفات پائی اور ان کا مزار قطب مینار دہلی میں ہے۔