ناشادقابل اورذہین موسیقار
اسپیشل فیچر
نوشاد علی بھارت کے عظیم موسیقار تھے۔ 40ء اور50ء کی دہائی میں ان کے نام کا طوطی بولتا تھا۔ اسی دور میں انہیں ''موسیقارِ اعظم‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ ان کے نام سے ملتا جُلتا ایک اور باکمال موسیقار تھا جس کا نام تھا شوکت علی ناشاد۔ وہ ناشاد کے نام سے فلموں کا سنگیت دے رہے تھے اور بڑے قابل اور ذہین موسیقار تھے۔ انہوں نے پہلے بھارت اور پھر پاکستان میں اپنے فن کے چراغ جلائے۔ یہ بھی 40ء اور 50ء کی دہائی کے بڑے معروف سنگیت کار تھے۔
ناشاد کا اصل نام شوکت علی ہاشمی تھا۔ وہ 11 جولائی 1923ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دہلی کے ایک مقامی ہائی سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے سب سے پہلے بانسری بجانا سیکھی۔1940ء میں وہ ممبئی آ گئے۔ انہوں نے پہلے کئی فلموں کیلئے مختلف ناموں سے موسیقی دی اور پھر ناشاد کے نام سے گیتوں کی دُھنیں تخلیق کیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں نوشاد کا نعم البدل بنانے کی کوشش کی گئی لیکن ایسا نہ ہو سکا اور وہ 1964ء میں پاکستان آ گئے۔ بالکل اسی طرح جیسے 60ء کی دہائی میں موسیقار نثار بزمی بھارت چھوڑ کر پاکستان آ گئے تھے۔
ناشاد نے مجموعی طور پر 60فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کی جو بھارتی فلمیں مقبول ہوئیں ان میں ''دادا‘‘،'' نغمہ‘‘، '' سب سے بڑا روپیہ‘‘، ''شہزادہ‘‘، ''جواب‘‘، ''بارہ دری‘‘، ''بڑا بھائی‘‘، ''زندگی یا طوفان‘‘ اور ''روپ لیکھا ‘‘ شامل ہیں۔ ''بارہ دری‘‘ میں ان کا دیا ہوا سنگیت بہت مشہور ہوا۔ ان کے دو نغمات ''تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی‘‘ اور '' بھلا نہیں دینا‘‘ ابھی تک بڑے شوق سے سنے جاتے ہیں۔''تصویر بناتا ہوں‘‘ طلعت محمود کے بہترین گیتوں میں سے ایک ہے اور اسے خمار بارہ بنکوی نے تحریر کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلم ''زندگی یا طوفان‘‘ کی موسیقی بھی ناشاد نے دی تھی اور اس میں لتا منگیشکر کے گائے ہوئے اس مشہور گیت کے بول تھے ''زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے‘‘۔
پاکستان میں ناشاد نے سب سے پہلے ہدایت کار نخشب کی فلم '' مہ خانہ‘‘ کی موسیقی دی۔ نخشب ان کے دوست تھے اور کہا جاتا ہے کہ ''ناشاد‘‘ کا نام بھی انہوں نے ہی دیا تھا۔ ناشاد نے اپنے کریئر کے شروع میں نوشاد، نثار بزمی اور ماسٹر غلام حیدر سے تربیت حاصل کی۔
انہوں نے مذکورہ موسیقاروں کے معاون کی حیثیت سے کام کیا۔ پاکستان میں انہوں نے جن فلموں کی موسیقی دی ان میں ''مہ خانہ، پھر صبح ہوگی، ہم دونوں، تم ملے پیار ملا، سالگرہ، چاند سورج، افشاں، بہارو پھول برسائو، ایک رات، عظمت، آبرو، نیا راستہ، زینت، ملن، اور دیدار‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ان فلموں کے اکثر نغمات سپرہٹ ثابت ہوئے اور ناشاد کی فنی عظمت کو تسلیم کر لیا گیا۔1964ء اور 1969ء میں انہیں دوبار نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔1964ء میں انہیں فلم ''مہ خانہ‘‘ اور 1969ء میں فلم ''سالگرہ‘‘ کا دلکش میوزک دینے پر انہیں یہ ایوارڈ دیا گیا۔
ناشاد نے بعض گیتوں کی اتنی شاندار دھنیں بنائیں کہ دیگر موسیقاروں نے بھی ان کی بے حد تحسین کی۔ ان موسیقاروں میں نثار بزمی، اے حمید، ماسٹر عنایت حسین، ماسٹر عبداللہ اور خواجہ خورشید انور بھی شامل ہیں۔''سالگرہ‘‘ کا یہ گیت '' لے آئی پھر کہاں پر‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ شیون رضوی کے لکھے ہوئے اس گیت نے پورے ملک میں دھوم مچا دی تھی۔ پھر ''افشاں‘‘ کا یہ گیت '' خدا کرے کہ محبت میں وہ مقام آئے‘‘ بھی بہت مشہور ہوا۔ ''بہارو پھول برسائو‘‘ کے سارے گیت زبردست تھے۔ یہ فلم بھارتی ہدایتکار ایم صادق بنا رہے تھے۔ ان کے اچانک انتقال کے بعد حسن طارق نے باقی فلم مکمل کی۔ ''ایک رات‘‘ کا یہ نغمہ ''اک بار چلے آئو‘‘ نے بے مثال شہرت حاصل کی۔ قتیل شفائی نے فلم ''عظمت‘‘ کے نغمات لکھے۔ فلم تو فلاپ ہو گئی لیکن مہدی حسن کا گایا ہوا یہ گیت امر ہو گیا۔ اس گیت کے بول تھے ''زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں‘‘۔ مہدی حسن نے جتنی بھی فلم گائیکی کی یہ گیت عظیم ترین ہے۔ اسی طرح اے ایس آفاقی کی فلم ''آبرو‘‘کی موسیقی بھی نہایت قابل تعریف تھی۔1974ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے دو گیتوں کو کبھی نہیں بھلایا جا سکتا ان دونوں گیتوں کو تسلیم فاضلی نے لکھا اور میڈم نور جہاں نے گایا۔ ان گیتوں کو ملاحظہ کریں۔
-1نہ مہرباں نہ اجنبی، نہ دوستی نہ دشمنی
-2بن ترے رات تو کیا ہم سے کٹے دن بھی نہیں
''آبرو‘‘ کی کامیابی میں ناشاد کی لاجواب موسیقی کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ اسی طرح ''نیا راستہ‘‘ کے ہٹ ہونے میں بھی ناشاد صاحب کی موسیقی کا بڑا ہاتھ تھا۔ انہوں نے ایک بھارتی خاتون سے شادی کی تھی اور ان کے 15بچے ہیں۔ان کے بڑے بیٹے واجد علی ناشاد بھی موسیقار تھے۔ ان کا انتقال 2008ء میں ہو گیا تھا۔ ان کے بیٹے شاہد علی ناشاد اور اکبر ناشاد بھی موسیقار ہیں ان کے ایک اور بیٹے امیر علی پلے بیک سنگر ہیں جنہیں فلم ''چوڑیاں‘‘ سے شہرت ملی تھی۔ امیر علی نے اپنا آڈیو سٹوڈیو قائم کر رکھا ہے۔
اس میں کیا شک ہے کہ ناشاد صاحب کے بے شمار گیتوں نے زبردست شہرت حاصل کی۔ انہوں نے بہت معیاری موسیقی دی۔ ایک بار ان سے پوچھا گیا تھا کہ ان کا اپنا پسندیدہ گیت کونسا ہے تو انہوں نے فلم ''بارہ دری‘‘ کے اس گیت کا ذکر کیا '' تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی‘‘۔اس بے مثل موسیقار کا 3جنوری 1981ء کو انتقال ہو گیا۔ اس وقت ان کی عمر 57برس تھی۔ موسیقی کے حوالے سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
ناشاد کے مقبول گیت
-1زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے( زندگی یا طوفان)
-2تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی(بارہ دری)
-3بھلا نہیں دینا(بارہ دری)
-4حال دل ان کو سنایا(مہ خانہ )
-5دیا رے دیا رے کانٹا چبھا( پھر صبح ہو گی)
-6لے آئی پھر کہاں پر (سالگرہ)
-7گوری کے سر پہ سج کے(تم ملے پیار ملا)
-8ان کی نظروں سے محبت کا(ہم دونوں)
-9 مجھے کر دے نہ دیوانہ(نیا راستہ)
-10 ایسا پیار کرنے والا (ملن)
-11میرے دل کی ہے آواز (بہارو پھول برسائو)
-12یہ گھر میرا گلشن ہے(بہارو پھول برسائو)
-13زندگی میں تو سبھی (عظمت )
-14خدا کرے کہ محبت میں (افشاں )
-15اک بار چلے آئو (ایک رات )
-16رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا(زینت)
-17بن ترے رات تو کیا (آبرو)
-18نہ مہرباں نہ اجنبی (آبرو)