محمد بن موسیٰ خوارزمی الجبرا کے موجد
اسپیشل فیچر
محمد موسیٰ خوارزمی علم ریاضی کا زبردست ماہر اور الجبرے کے موجد مشہور ہیں۔ بیت الحکمۃ میں اس نے اپنا مقالہ پیش کیا تو اسے اس سائنسی ادارے کا ممبر بنا لیا گیا۔ مامون الرشید اس کو بہت مانتا تھا۔ علم ریاضی پر اس نے دو کتابیں مرتب کیں۔ ''علم الحساب‘‘ علم ریاضی پر دنیا میں پہلی تصنیف تھی۔ دوسری تصنیف ''الجبر و المقابلہ‘‘ تھی۔ یہ کتاب اس فن میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ علم ریاضی کی کتاب علم الحساب چودہویں صدی میں یورپ پہنچی تو دانشورانِ یورپ کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کتاب سے بہت فائدہ اٹھایا۔
خوارزمی ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ خوارزم (خیوا) کے باشندہ تھے لیکن اپنے علمی شوق، اعلیٰ قابلیت اور مجاہدانہ زندگی کے سبب علمی دنیا میں وہ آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔ وطن میں خوارزمی بالکل غیر معروف تھے۔ فنی کتابوں کے مطالعے میں وہ ہمہ وقت مصروف رہتے، علم ریاضی میں انہوں نے کمال پیدا کیا۔ یہ سچ ہے کہ جن عظیم شخصیات نے دنیا کے پردے پر اپنے اعلیٰ فن اور عمدہ استعداد کا مظاہرہ کر کے ایک عالم کو فائدہ پہنچایا ان میں اوّل اوّل نام خوارزمی کا ہی نظر آتا ہے۔
بیت الحکمۃ کیلئے مقالہ: عالی دماغ خوارزمی اپنے وطن سے بغداد آئے۔ مامون الرشید کا دور تھا اور ''بیت الحکمۃ‘‘ یعنی ''سائنس اکیڈمی‘‘ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ قابل ترین حکماء علمی تحقیق اور ریسرچ میں مصروف تھے۔ حوصلہ مند خوارزمی بغداد کی علمی محفلوں سے متاثر ہوئے، انہوں نے سائنس اکیڈمی کے ممبر بننے کیلئے کوششیں شروع کردیں۔ اس کے جدت پسند دماغ نے ایک نیا طریقہ نکالا۔ خوارزمی نے علم ریاضی پر ایک گہرا تحقیقی مقالہ شب و روز کی دیدہ ریزی سے تیار کیا اور اسے سائنس اکیڈمی بھیج دیا ۔ خوارزمی کا یہ طریقہ آج بھی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے مقرر ہے۔ خوارزمی کا مقالہ سائنس اکیڈمی میں پیش ہوا اور پسند کیا گیا۔ خوارزمی کو بلایا گیا اور اس علمی مجلس میں ان سے سوالات کئے گئے اور پھر اسے سائنس اکیڈمی کا ممبر چن لیا گیا۔
خوارزمی 825ء کے لگ بھگ بغداد آئے اور اپنی علمی قابلیت کے سبب شاہی دربار میں نمایاں رہے۔ مامون الرشید اہل علم کا بڑا قدر دان تھا۔ اس نے خوارزمی کی بڑی عزت اور قدرو منزلت کی ۔
علمی خدمات اور کارنامے:محمد بن موسیٰ خوارزمی فن ریاضی میں بہت ماہر تھے۔ دربار میں ان کی قابلیت کا سکہ رواں تھا۔ مامون الرشید نے خوارزمی سے فن ریاضی پر ایک کتاب لکھنے کی فرمائش کی۔ خوارزمی نے پوری تحقیق و جستجو کے بعد دو کتابیں مرتب کیں۔ ایک ''علم الحساب‘‘ یہ کتاب علم ہندسہ میں ہے۔ اس میں ریاضی کے نئے نئے نکتے بیان کئے گئے ہیں اور بہت سے نئے نئے قاعدے اور اصول بتائے ہیں۔ اس کتاب کو مامون نے بہت پسند کیا اور انعام و اکرام سے نوازا۔ دوسری کتاب ''الجبر و المقابلہ‘‘ الجبرا پر بنیادی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خوارزمی الجبرے کے موجد ہیں۔
خوارزمی نے جو اصول اور قاعدے دریافت کئے، آج بھی اسکولوں اور کالجوں میںوہی قاعدے پڑھائے جاتے ہیں۔خوارزمی کی پہلی کتاب ''حساب‘‘ یہ بھی اپنے فن کی واحد کتاب ہے۔ یورپ کے دانشوروں نے علم ہندسہ کی حقیقت اور اہمیت کو اس کتاب کے ذریعے سمجھا۔ چودہویں صدی تک یورپ میں بالکل جہالت تھی۔ خوارزمی نویں صدی کا دانشور ہے۔ اس کی کتاب چودہویں صدی میں یورپ پہنچی تو اہل یورپ کی آنکھیں کھل گئیں۔
یورپ میں اس جہالت کے دور میں رومن ہندسے رائج تھے جو بالکل نامکمل اور غلط اصول پر قائم تھے۔ یورپ کے دانشوروں نے خوارزمی کی کتابیں دیکھ کر اپنی خرابیوں کو سمجھا اور اپنے حساب کتاب کے اصول کو یکسر بدل دیا۔ اہل یورپ نے عربی ہندسوں کو فوراً قبول کر لیا۔ یہ ہندسے ''عریبک فیگر‘‘ کہے جاتے ہیں۔اب رومن ہندسے اور عریبک فیگر کا مقابلہ کر لیجئے۔ ایک سو ساٹھ لکھنا ہے اور اڑتیس لکھنا ہے:
عربی طریقہ رومن طریقہ
۱۶۰ CLX
۳۸ xxxviii
دونوں قسم کے ہندسے کے فرق کو دیکھ لیجئے۔ رومن طریقے سے جمع کرنا، تفریق اور ضرب کرنا کتنا مشکل ہوگا بلکہ ناممکن، لیکن عربی طریقہ فطری ہے اور آسان تر ہے۔ خوارزمی کی کتابیں بہت پہلے یورپ پہنچ چکی تھیں اور ان کا ترجمہ بھی لاطینی زبان میں اسی وقت ہو گیا تھا۔ یہ چودہویں صدی کے بعد کا زمانہ تھا، پھر اس کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں ترجمہ شائع ہوا۔ انگریزی کا ترجمہ روزن نے لندن سے 1831ء میں پہلی بار بڑے اہتمام سے شائع کیا ۔
ابراہیم عمادی متعدد کتابوں کے مصنف اور تاریخی موضوعات پر لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں،ان کے مضامین ملک کے مؤقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں