مالا: بے مثل گلوکارہ
اسپیشل فیچر
مقبول گیت
٭... چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں
٭... بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں
٭...دل دیتا ہے رو رو دہائی
٭... چنّی کیسری تے گوٹے دیاں دھاریاں
٭...رحم کرو یا شاہِ دو عالم
٭... غمِ دل کو اِن آنکھوں سے چھلک جانا
٭... یہ سماں پیارا پیارا یہ ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی
٭... اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر
٭...کس نے توڑا ہے دل حضور کا
٭... کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا
٭...کسے آواز دوں تیرے سوا
٭...جب رات ڈھلی تم یاد آئے
٭... ٹھہر بھی جائو صنم تم کو میری قسم
٭...شمع کا شعلہ بھڑک رہا ہے
پاکستان کی فلمی گائیکی پر جن آوازوں نے بڑے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ان میں ایک نام سُریلی آواز والی گلوکارہ مالا کا بھی ہے۔ مالا 60ء کے عشرے کی سب سے مقبول اور مصروف ترین پس پردہ گلوکارہ تھیں۔ انہیں اپنی ہم عصر گلوکارائوں میں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ سپرہٹ گیت گائے۔ ان کے بیشمار گیت ایسے ہیں جو آج بھی زبان زد عام ہیں اور سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ 6مارچ 1990ء کو انتقال کر جانے والی اس مایہ ناز گلوکارہ کو ان کے یادگار اردو اور پنجابی گیتوں کی بدولت ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔
پاکستانی فلمی صنعت میں جن گلوکارائوں نے بلند مقام حاصل کیا ہے، ان میں ملکہ ترنم نورجہاں کوثر پروین، زبیدہ خانم، نسیم بیگم اور مالا بیگم کے نام نمایاں ہیں۔ ان کے بعد رونا لیلیٰ، مہناز، ناہید اختر، حمیرا چنا، شازیہ منظور، سائرہ نسیم اور شبنم مجید وغیرہ ہیں۔ کوثر پروین اور نسیم بیگم ہماری فلمی صنعت کی وہ پس پردہ گلوکارائیں ہیں جنہوں نے اپنے عروج کے دَور میں ہی دنیا سے منہ موڑ لیا تھا۔ مالا بیگم وہ گلوکارہ ہیں جنہوںنے پہلے عروج پایا اور پھر عروج کے بعد زوال بھی دیکھا۔ طویل عرصے تک انہوں نے اپنی شیریں آواز کے جادو سے لوگوں کو مسحور کئے رکھا اور 1962ء سے 1980ء تک 300 سے زائد فلموں کے لئے تقریباً 600 گانے( سولو اور ڈوئٹ) گائے۔ اس دور میں شاید ہی کوئی فلم ایسی تھی جس میں ان کا گایا ہوا گیت شامل نہ کیا جاتا ہو۔
پاکستان کی مایہ ناز گلوکارہ مالا کا اصل نام نسیم نازلی تھا۔ ان کی پیدائش کے حوالے سے دو تاریخیں سامنے آتی ہیں۔ کچھ ذرائع کے مطابق وہ 1939ء میں فیصل آباد میں پیدا ہوئیں جبکہ کچھ کے مطابق وہ 9نومبر 1942ء کو بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئیں۔ قیام پاکستان کے وقت اپنی والدہ سونا بیگم، بڑی بہن شمیم ناز لی اور بھائی رانا مشتاق کے ساتھ لائل پور، جو اب فیصل آباد کہلاتا ہے چلی آئیں۔ مالا کا بچپن موسیقی کے ماحول میں گزرا، اس لئے انہیں کم عمری میں ہی گلوکاری سے لگائو ہو گیا۔ انہوں نے گلوکاری کی ابتدائی تربیت اپنی بڑی بہن شمیم نازلی سے حاصل کی اور اپنی بہن کے ساتھ ہی موسیقی کے جہاں میں اپنے نام کی شمع روشن کرنے لاہور آئیں۔ بڑی بہن شمیم نازلی نے ملک کی واحد خاتون موسیقار ہونے کا اعزاز حاصل کیا تو چھوٹی بہن مالا بیگم نے اپنی آواز کے سحر سے زمانے کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
مالا بیگم کے عروج کا دور 1961ء سے 1971ء تک رہا جس میں انہوں نے بڑی تعداد میں اعلیٰ پائے کے گیت گائے۔18سالہ کرئیر میں مالا بیگم کی مترنم آواز کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ گیت چاہے چنچل ہوتا یا پردرد سننے والوں سے شرف قبولیت حاصل کر کے رہتا۔ انہیں اصل شہرت 1963ء میں فلم ''عشق پر زور نہیں‘‘ کے گانے ''دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے‘‘ سے ملی۔ اس گیت کی دھنیں موسیقار ماسٹر عنایت حسین نے مرتب کیں جبکہ مالا کی خوبصورت آواز اور سائیں اختر حسین کے دلکش الاپ نے اسے ایک غیرفانی نغمے کی شکل دے دی۔ اس نغمے پر مالا نے اس سال کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ 1965ء میں انہوں نے فلم ''نائلہ‘‘ کے نغمے ''جا اور محبت کر پگلی‘‘ پر دوسرا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔
انہیں احمد رشدی کے ساتھ 100 سے زائد ڈوئٹ گیت گانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو پاکستانی فلمی تاریخ میں کسی اور جوڑی کے حصے میں نہیں آیا۔ احمد رشدی کے ساتھ ان کے بیشمار ڈوئٹ مشہور ہوئے۔فلم''دل میرا دھڑکن تیری‘‘ کا ڈوئٹ ''کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا‘‘ آج بھی ماضی کی طرح مشہور ہے۔ وحید مراد کی ذاتی فلم ''ارمان‘‘ میں مالا اور احمد رشدی کی آوازوں میں الگ الگ ریکارڈ ہونے والا تھیم سانگ ''اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم‘‘ آج بھی اسی شوق سے سنا جاتا ہے۔انہوں نے گلوکار مسعود رانا کے ساتھ 82 گیت ریکارڈ کروائے جن میں 50 اردو اور 32 پنجابی گیت شامل ہیں۔ مہدی حسن، سلیم رضا، بشیر احمد، منیر حسین اور عنایت حسین بھٹی کے ساتھ بھی انہوں نے درجنوں سپر ہٹ گیت گائے۔
مالا نے لاہور، کراچی اور ڈھاکہ کی فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ مالا کی آواز میں گانے اپنے وقت کی کئی اداکارائوں پر فلمبند ہوئے خصوصاً زیبا اور شمیم آراء پر مالا کی آواز زیادہ پسند کی جاتی تھی۔ 1975ء تک مالا عروج پر رہیں۔ نیّرہ نور، ناہید اختر اور مہناز کے آنے کے بعد مالا پس منظر میں چلی گئیں۔ وہ 6مارچ 1990ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔