زندہ و جاوید عجائب گھر ٹیکسلا
اسپیشل فیچر
تحصیل ٹیکسلا راولپنڈی کی سات تحصیلوں میں سے قدیم ترین تاریخی تحصیل ہے۔ گندھارا تہذیب کی وادی ٹیکسلا کے 30مربع کلو میٹر علاقہ میں قریباً50معروف، تاریخی، سیاحتی اور آرکیالوجیکل مقامات ہیں۔ جن میں اکثر یونیسکوکے عالمی و ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل ہیں۔ سنسکرت میں Taksasila کا مطلب ہے City of Cut Stonesیعنی ''تراشیدہ پتھروں کا شہر‘‘ ۔ بعض لوگوں کے مطابق اس شہر کانام بھارتہ کے بیٹے ٹاکسا کے نام پر رکھا گیا اور اسی نے ٹیکسلا شہر کی بنیاد رکھی۔ بدھ مت کی قدیم کتابوں میں بھی ٹیکسلا کا ذکر آتا ہے۔ پانچویں صدی میں بدھ مت کی کتاب لکھی گئی جس میں ٹیکسلا کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ یہ شہر گندھارا تہذیب اور اس کے حکمرانوں کا دارالحکومت تھا جس کا ذکر مہا بھارت اور اہل بدھ کی مذہبی کتاب ''جاتکاہ‘‘میں موجود ہے۔ چین کے دو قدیم سیاحوں فاکسس اور ژوان زانگ نے اپنے سفر ناموں میں ٹیکسلا کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ فاکسس نے 405ء اور ژوان زانگ نے 603ء میں ٹیکسلا میں قیام کیا۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ نوادرات کی کاربن ڈیٹنگ سے اندازہ ہوا ہے کہ اس علاقے میں انسانوں کی مختلف تہذیبیں قریباً3000 سال قبل مسیح سے نشوونما پا رہی ہیں۔ اس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ ٹیکسلا اور راولپنڈی گندھارا اور بدھ مت تہذیب میں طاقت کے مرکز اور اہم شہر تھے۔ اشو کا دور میں ٹیکسلا دارالحکومت تھا۔ سرجان مارشل نے 1913ء تا 1934ء مختلف مقامات کی کھدائی کروائی۔ جس کے نتیجے میں ٹیکسلا سے آثار قدیمہ، کھنڈرات اور باقیات دریافت ہوئے اور اس کے بعد ٹیکسلا 1980ء میں عالمی و ثقافتی ورثہ کی فہرست پر آ گیا۔ مزید تحقیق سے یہ بات عیاں ہوئی کہ سون تہذیب دنیا کی پرانی تہذیبوں میں سے ایک ہے اور یہ علاقہ زندہ و جاوید عجائب گھر ہے۔ سرجان مارشل کی کوششوں سے ٹیکسلا میں تین تاریخی تباہ شدہ شہروں کا پتا چلا جو کہ بھیڑ مائونڈ، سرکپ اور سر سکھ ہیں۔ اس کے علاوہ جولیاں یونیورسٹی، حجرہ مائی مرادو، کھر ٹیلا اور دھرماراجیکاسٹوپا اور مونٹیسوری جو کہ میوزیم کے عقب میں 2.3کلو میٹر فاصلے سے برآمد ہوئے۔ یہاں پہلی صدی قبل مسیح کا بڑا ٹیمپل ہے جسے بندیال کہا جاتا ہے۔40ء میں پادری سینٹ تھامس یہاں آیا اور عیسائی مذہب کو پھیلانے کی خاطر سر توڑ کوششیں کیں۔ یہ علاقہ دو مرتبہ زلزلوں سے زمیں برد ہواجبکہ آریائوں نے اسے تباہ و برباد کیا۔
کہا جاتا ہے کہ ایران کا بادشاہ سائرس بھی یہاں قابض اور حکمران رہا۔326ء میں سکندراعظم نے ٹیکسلا پر قبضہ کیا۔ یونانی مورخ امفس امبعی نے ٹیکسلا کو ایک نفیس اور وقت کا بہترین شہر قرار دیا تھا۔ شہنشاہ چندرگپت موریہ نے بھی ٹیکسلا کو صوبہ کا دارالحکومت بنایا۔ جبکہ چندر گپت موریہ کے پوتے اشوکا نے اسے تعلیمی مرکز کی حیثیت دی۔ بھرت راتھا کے قتل کے بعد یونانی دور کا خاتمہ ہوا اور پارتھین دور کا آغاز ہوا۔76ء میں بادشاہ کشن کانے پارتھین دور کا خاتمہ کیا۔ کافی عرصہ بعد چوتھی صدی میں ساسانی بادشاہ شاہ پور دُوُم نے ٹیکسلا پر قبضہ کیا ۔1863ء میں کھدائی کے دوران الیگزینڈر کننگھم نے ٹیکسلا کے آثار قدیمہ دریافت کئے اور لمبے عرصے کے بعد دنیا کو ٹیکسلا تہذیب کی ان باقیات کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ پانچویں صدی میں سفید آہن قبیلے نے اس راج دھانی کی اینٹ سے اینٹ بجائی، یہاں تک کہ یہاں کوئی جانور بھی زندہ نہ بچا اور تمام عمارتیں جل کر خاکستر ہوئیں۔
ٹیکسلا اسلام آباد کے شمال مغرب میں راولپنڈی سے قریباً 37کلو میٹر اور شمال مغرب کی طرف آدھ گھنٹے کی مسافت پر حسن ابدال اور پشاور کی جانب واقع ہے۔ یہیں سے گندھارا تہذیب اور بدھ مت کے آثار قدیمہ اور زمین برد شہر دریافت ہوا۔ سر جان مارشل نے 1913ء تا 1934ء تک اس علاقے کی کھدائی کروائی۔1980ء میں ٹیکسلا یونیسکو کی عالمی ورثہ لسٹ پر آ گیا۔ یہ آثار قدیمہ، عالمی ورثہ اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ علاقہ قبل از مسیح سے تہذیب کا مرکز اور ترقی یافتہ ہونے کے ساتھ اس وقت اقوام عالم میں مسلمہ حیثیت کا حامل اور طاقت کا مرکز تھا۔ یہ شہر ماضی میں علم و تحقیق کا بلند پایہ مرکز رہا ہے۔ یہ ایک شہر نہیں بلکہ راجدھانی تھا ۔
ٹیکسلا لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ''پہاڑوں میں تراشا میدان‘‘ قبل از تاریخ کے اس شہر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسے وسط ایشیا سے آئے ہوئے قبیلے ''تک شک‘‘ نے آباد کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ تاشقند بھی اس قبیلے کا آباد کردہ ہے۔ اسی مناسبت سے پہلے اس کا نام ''دتک شک‘‘ اور بعد ازاں ٹیکسلا ہوا۔یہیں پر دنیا کی پہلی یونیورسٹی جولیاں بھی قائم تھی۔ یہاں باضابطہ تعلیم دی جاتی تھی، چنانچہ پڑھانے کے کمرے لائبریری طلبہ کے ہاسٹل بھی موجود تھے۔ یونیورسٹی میں تعلیم کے بعد اسناد دینے کی روایت کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق 2800سال پہلے دنیا کی پہلی یونیورسٹی جولیاں یہاں موجود تھی۔ ٹیکسلا میوزیم میں یہاں سے ملنے والی مختلف اشیاء رکھی گئی ہیں۔ آج کل ٹیکسلا میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی واقع ہے۔ یہاں کی سنگ تراشی، مجسمہ سازی اور پتھر کے برتن وغیرہ بہت مشہور ہیں۔ ادھر ماجی کاسٹوپابدھ تہذیب کا ایک لاجواب شاہکار ہے۔ یہاں کے معروف علاقے موہڑ شاہ ولی شاہ، ٹیکسلا شہر اور ٹیکسلا کینٹ ہیں۔
معروف مصنف و مورخ ڈاکٹر ونستھ سمتھ لکھتا ہے کہ اشوک کا پایہ تخت ٹیکسلا تھا اور اس وقت لوگوں کا اوسط تعلیمی معیار انگلینڈ سے کہیں زیادہ بہتر تھا۔ راجا کنشک نے پہلی صدی بعد از مسیح میں اقتدار سنبھالا۔ اس وقت سے ہی راولپنڈی، ٹیکسلا کا علاقہ طاقت کا مرکز رہا۔ وقت بدلنے کے ساتھ آج پھر وہی خطہ پاکستان کا دارالحکومت، اسلام آباد جو کہ راولپنڈی کا حصہ تھا اور آج کل جڑواں شہر ہے، پاکستان کی طاقت کا مرکز اور دنیا میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔یہاں کے معروف مقامات میں عجائب گھر، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا، انگریز دور کا معروف آنکھوں کا مشنری ہسپتال، ٹیکسلا میوزیم سے چند منٹ کے فاصلے پر مارگلہ کی پہاڑیوں کے درمیان علاقے کا بہترین مارگلہ ہسپتال،ایچ آئی ٹی ٹیکسلا، ہیوی میکینکل کمپلیکس اور واہ انڈسٹریز شامل ہیں۔