بیساکھی !
اسپیشل فیچر
اگرچہ موسم بہار کو خوش آمدید کہنے کے لئے دنیا کے مختلف خطوں میں اپنی اپنی ثقافت کے مطابق تہوراوں کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن ان میں پنجاب ،بالخصوص مشرقی پنجاب میں جس تہوار کا انعقاد کیا جاتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔چونکہ یہ تہوار برصغیر کے دیسی مہینے ''بیساکھ ‘‘ کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اسے ''بیساکھی ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ بیساکھی کا تہوار ہر سال انگریزی مہینے کی 13اپریل کو شروع ہوتا ہے۔
اگرچہ یہ تہوار فصلوں کی کٹائی اور موسم بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا ہے لیکن یہ تہوار سکھ برادری میں ایک خاص اہمیت کا حامل بھی جانا جاتا ہے۔ 13 اپریل1699ء کوسکھ مذہب کے دسویں گرو ،گرو گوبند سنگھ نے خالصہ پنت کی بنیاد رکھ کر سکھوں کیلئے ایک نئے دور کی بنیاد رکھی تھی۔ دراصل گوبند سنگھ کا یہ مشن اپنے پہلے گرو بابانانک کی تعلیمات کی تکمیل تھی۔جس کے بارے کہا جاتا ہے بابا گرو نانک نے ذات پات اور اونچ نیچ کے نظام کو ختم کر کے اپنے پیروکاروں کوبرابری کی راہ دکھائی تھی۔ ان کا قول تھا '' اول اللہ نور اپایا،قدرت کے سب بندے‘‘۔
بیساکھی کا چونکہ گرو گوبند سکھ کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے اس لئے اس کو منانے کے لئے بھارتی شہر ملیر کوٹلہ میں اس کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی سے 300کلومیٹر دور مسلم اکثریت والے اس شہر میں جہاں 65فیصد سے زائد مسلمان آباد ہیں آخر ایسا کیا ہے کہ اب تک یہاں بیساکھی کا تہوار بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے؟ اور مزید یہ کہ گرو گوبند سنگھ کو اپنے پیروکاروں کو کیوں یہ حکم دینا پڑا کہ ''اصل سکھ ملیر کوٹلہ کو کبھی بھی بری نظر سے نہیں دیکھیں گے اور یہ شہر ان کے لئے اتنا ہی مقدس ہے جتنا کوئی آستانہ یا گوردوارہ ‘‘ ؟
سکھ مسلم اس بھائی چارے کے لئے اس واقعہ کی تفصیل جاننا ہو گی۔ سکھوں سے روایت ہے کہ مغل دور میں جب 1704ء میں سکھوں اور شاہی افواج میں جھڑپیں جاری تھیں اس دوران گرو گوبند سنگھ کے دو لڑکے لڑتے ہوئے مارے گئے جبکہ گرو گوبند سنگھ کی والدہ ماتا گجری، گرو کے دو کمسن بیٹوں کو باحفاظت نکالنے میں کامیاب ہو گئیں اور ابھی وہ زیادہ دور نہ گئی تھیں کہ کمانڈر وزیر خان کی فوجوں نے انہیں اپنی حراست میں لے کر گرفتار کر لیا۔اور گرو گوبند سنگھ کے دو کمسن بیٹوں کو زندہ دیوار میں چننے کا حکم جاری کیا تو ملیر کوٹلہ کے گورنر نواب شیر خان نے اس کو غیر اخلاقی اور غیر شرعی قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں اس کی مخالفت کی۔ چنانچہ گورنر نواب شیر خان نے وزیر خان کو یہ بھی باور کرایا کہ دشمن کے بچوں کومار کر بدلہ لینا بھی اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔
آخر کار نواب شیر محمد خان نے وزیر خان کو یہ پیشکش کی کہ وہ ان دونوں لڑکوں کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے تاکہ ان بے گناہوں کی جان بخشی ہو سکے۔ لیکن نواب صاحب کی تجویز کو رد کر دیا گیا جس پر وہ احتجاجا ً یہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ کمانڈر وزیر خان نے اپنے انتقام کی آگ بجھاتے ہوئے دونوں کمسن بچوں کو دیوار میں چنوا دیا اور ماتا گجری کو پابند سلاسل کر دیا جو کچھ ہی عرصہ بعد صدمے سے جاں بحق ہو گئیں۔
تاریخ دان لکھتے ہیں 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت جب پنجاب اور اس کے گرد و نواح میں خونریزی اپنے عروج پر تھی۔ ملیر کوٹلہ، ریاست پٹیالہ، نابھہ اور سنگرور جیسی بڑی سکھ ریاستوں میں گھری ہوئی تھی مگر کسی بھی سکھ حکمران نے اس پر چڑھائی تو درکنار اس طرف میلی آنکھ سے دیکھا تک نہ تھا۔
کشت و خون کے اس گرم بازار میں مالیر کوٹلہ ایک پر امن جزیرے کی طرح قائم رہا۔ یہاں نہ تو کسی کا خون بہا اور نہ ہی کسی کو ہجرت کی ضرورت پیش آئی۔یہاں سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ سکھ برادری نے اپنے گرو کے فرمان کی اطاعت کی بدولت ملیر کوٹلہ کو تحفظ فراہم کیا۔
سکھ اب بھی مالیر کوٹلہ کے لوگوں کے احسان مند ہیں کہ ملیر کوٹلہ کے نواب شیر محمد خان نے ان کے گرو کے بیٹوں کی جان بخشی کی کوشش کی۔ یہ علاقہ آج بھی سکھ مسلم بھائی چارے کی شاندار مثال بنا ہوا ہے۔