نشاۃِ ثانیہ کے عظیم فنکار لیونارڈوڈا ونچی اور مائیکل اینجیلو
اسپیشل فیچر
علم و فن کی مہارت صدیوں یورپی تاریک ادوارکے ملبے تلے دبی رہی ۔ پندرہویں صدی میںاینجیلو اور ڈاونچی نے فنی مہارتوں کو از سرِ نو تشکیل کیا اور قدیم فنی مہارت کے سائے میں اس دور کے فن کی بہترین پرورش کی۔ اس دور میںکہیں سیاروں ستاروں کی درست گردش دریافت کی گئی تو کہیںدریافت کنندگان نے سمندری جہازوںسے نئی راہیں تلاش کرکے زمین کے مختلف کونوں کو چھان مارا۔ اس دوران نہ صرف فن کو ترقی حاصل ہوئی بلکہ اکاؤنٹنگ، اناٹمی، سائنس کا علم بھی پہلے سے زیادہ جدت اختیار کرگیا۔ اس دور کو '' نشاۃِ ثانیہ‘‘ یا '' علم و فن کی بحالی کا دور‘‘ کہا جاتا ہے۔ نشاۃِثانیہ میں اٹلی اور انگلستان کے سائنسدانوں،فلسفیوں اور فنکاروںنے قدیم یونان و روم کے علمی و فنی ذخائرکو بنیاد بناکر لاثانی بام و عروج حاصل کیا۔ علم و فن کی اس بحالی نے نہ صرف سائنس اور فن کو جلا بخشی بلکہ زمانے کیلئے کئی اور خدمات سرانجام دیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
جہاں سائنس میں گیلیلیو گلیلی(Galileo Galilei)، جوہانس کیپلر(Johannes Kepler) اورآئزک نیوٹن (Isaac Newton)نے اپنا اہم کردار ادا کیا وہیں فنی مہارت اورطب میں سرفرازی لیونارڈوڈا ونچی اورمائیکل اینجیلو کی بدولت تھی۔ یورپ میںمتعدد عظیم دماغوں کے مرہونِ منت انقلاب برپا ہوا مگرفن کی دنیا میں یہی دو بڑے نام تھے۔ اینجیلو ایک ذہین فطین سائنسدان، مصور اور مجسمہ ساز تھاجبکہ ڈا ونچی بھی ایک آرٹسٹ، فلسفی، سائنسدان اور مصور تھا۔ یہ دونوں شخصیات مکمل طور پر نشاۃِ ثانیہ کے دور کی ترجمانی کرتی ہیں۔انہوںنے قدیم علوم و فنون کی راہ ضرور اپنائی مگر ان کی دستکاری یونان یا روم کے ماہرین سے یکسر جدا ثابت ہوئی۔
انہوں نے کائنات کے بنائوٹی سانچوں کا ادراک کیا اور زمانے کو حیران کن خیالات اور تخلیقات سے نوازا۔ مائیکل اینجیلو کی مصوری میں نہ صرف قدیم عیسائیت اور روم کے فن پاروں کی عکاسی ملتی ہے بلکہ نشاطِ ثانیہ کے دور کی آزاد خیالی اور فنی مہارت کا اظہار بھی ملتا ہے۔ عیسائیت کے دور میں جہاں مذہبی تقدس کا خیال رکھا جاتا تھا انہوں نے برہنہ مجسمے تعمیر کئے جو بعد میں بہت مقبول ہوئے۔ اینجیلو کا ماننا تھا کہ روایاتی اصولوں کو توڑ کر بنائی جانے والی تصویرزیادہ معنی خیز ہوگی کیونکہ ہم اس میں جذباتی چپقلش کا پہلے سے بہتر مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ تاہم اینجیلو پر یہ الزام لگانا کہ انہوں نے محض قدیم فن پاروں کی نقل کی ایک علمی ناانصافی ہوگی کیونکہ قدیمی رواج کے برعکس انہوںنے اپنے فن پاروں میں جذبات و احساسات کا اس طرح اظہار کیا جو اس سے پہلے کہیں نہیں ملتا۔ اپنی ایک آرٹ ''دونی توندو‘‘ کونیا انداز دیتے ہوئے دائرے کا فریم دیا جبکہ اس دور میں پینٹنگز کو مستطیل یا مربع نما فریم دینے کا رواج تھا۔بنیادی طور پر اس کی پینٹنگ سے قدیم عیسائیت اوراس سے پہلے کی رومانوی تہذیب کے نشانات ملتے ہیں۔''انسانی سر‘‘سوچ وبچار اور پریشانی کا اظہار کرتا ہے جبکہ ''ہاتھوں‘‘ کو اس زاویے سے بنایا جاتاکہ ان سے عمل ہوتا دکھائی دیتا ۔نشاۃِ ثانیہ کے عظیم مصورلیونارڈو ڈاونچی کی مانند انہوں نے بھی اپنی آرٹ میں توازن، اعتدال اور خوبصورتی کی بہترین شکل پیش کی۔
لیونارڈو ڈا ونچی کی تخلیقات میں نشاۃِ ثانیہ کے مقاصد نمایاں تھے۔ انہوںنے اپنی پینٹنگز میں عیسائیت کے قدیم حوالہ جات دئیے جو ''دی لاسٹ سپر‘‘ اور ''مونا لیزا‘‘ کی پینٹنگز میں دیکھے جاسکتے ہیں۔''دی لاسٹ سپر‘‘ میںڈا ونچی نے حضرت عیسیٰ ؑکو بارہ حواریوں کے ساتھ کھانے کی میزپر دکھایا گیا ہے۔ ان کی زندگی میں رات کے کھانے کا یہ آخری میز تھا جب انہوںنے اپنے حواریوں کو بتایا کہ وہ دھوکہ دینے والے حواری کے متعلق بخوبی جانتے ہیں۔واقع کے مطابق یہ بات سننے کے بعد تمام حواریوں کے چہروں پر مختلف قسم کے تاثرات ظاہر ہوئے۔تاہم ان کی پینٹنگ کی یہ خوبی ہے کہ اس میں حواریوں کے چہروں پرآنے والے مختلف تاثرات کا مشاہدہ باآسانی کیا جا سکتا ہے۔چہروں پر اظہارِ جذبات کی مکمل تصویر کشی کے علاوہ ڈاونچی اپنی تخلیقات میں علامتی اشاروں کا استعمال بھی کیاکرتے تھے۔اس پینٹنگ میں حضرت عیسیٰؑ کوحالتِ مثلث میں کھڑا دکھایا گیا ہے جو عیسائیت کے ''نظریہِ تثلیث‘‘ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس میں کل 13لوگوں کی تصویربنائی گئی ہے۔ نمبر 13کو قدیم عیسائی روایات میں دغابازی کی علامت تصور کیا جاتا ہے تاہم اس عمل سے قدیم توہم پرستی کی علامتی منظر بیانی کی گئی ہے۔
ڈاونچی ایسے مصور تھے جن کی پینٹنگز میں کوئی چیز بے ترتیب نہ ہوتی کیونکہ وہ ہر چیز انتہائی سوچ بچار کے بعد شامل کرتے تھے۔اسی طرح ''مونا لیزا‘‘ ان کا ایسا شاہکار ہے جس میں انہوں نے اپنے تمام سائنسی اورفنی علوم کا مہارت کے ساتھ اظہار کیا۔
کسی علاقے قوم یا ملک کی قسمت اس کے دانشوروں، سائنسدانوں اور مصوروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جس طرح سائنس زندگی کا اندازبدلتی ہے اسی طرح مصوری سے بھی معاشرہ جدت کی راہوں پر گامزن ہوتا ہے۔ اینجیلو اور ڈا ونچی نے یورپی نشاۃِ ثانیہ کو اپنی فنی و علمی مہارت سے تشکیل دیا۔اگر یورپ ان دو شخصیات سے محروم ہوتاتونشاۃِ ثانیہ کبھی اپنا عروج نہ دیکھتا۔